ابوبکر صدیق

خلیفہ اول، خلیفہ راشد، سسرِ محمد، صحابی محمد
(ابو بکر صدیق سے رجوع مکرر)


ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔

ابوبکر صديق عبد اللہ
بن عثمان ابوقحافہ
خطاطی نام ابوبکر اور لقب صدیق اور آخر میں 'رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ'
ولادت بعد عام الفيل دو برس و چھ ماہ (50 ق ھ / 574ء)
مكہ، تہامہ، عرب
وفات جمادی الاول 13ھ / 23 اگست 634ء
مدینہ منورہ، حجاز، عرب
محترم در اسلام: اہل سنت و جماعت، اباضیہ، دروز، زیدیہ شیعہ
مزار مسجد نبوی، ہمراہ النبی محمد و عمر بن الخطاب، مدينہ منورہ
نسب والد: ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو التیمی القرشی
والدہ: ام الخیر سلمى بنت صخر بن عامر التیمیہ القرشیہ
ازواج: قتيلہ بنت عبد العزى، ام رومان بنت عامر، اسماء بنت عمیس، حبیبہ بنت خارجہ۔
بیٹے: عبد الرحمن، وعبد اللہ بن ابی بکر، محمد۔
بیٹیاں: اسماء، عائشہ، ام كلثوم۔

ابوبکر صدیق عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلام محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انھوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں گرفتار ہوئے تو ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر اسلام نے وفات پائی اور اسی دن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ابوبکر صدیق نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد امام ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں خلیفہ اول ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے اور حضرت عمر بن خطاب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان کے جانشین ہوئے۔اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلیٰ و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی، محمد بن سائب کلبی، سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسماء الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے اور حضرت ابوبکر صدیق کا خلیفہ بلافصل ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔

تعارف

آپ کا اسلامی اسم گرامی عبد اللہ کنیت ابو بکر اور لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ کا نام سلمیٰ اور اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبد الکعبہ تھا جو حضور نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا۔[1] "آپ کے نام عبد الکعبہ" کی وجہ تسمیہ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے والدین کے لڑکے زندہ نہیں رہتے تھے، اس لیے انھوں نے نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام "عبد الکعبہ" رکھیں گے اور اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ چنانچہ جب آپ پیدا ہوئے تو انھوں نے نذر کے مطابق آپ کا نام "عبد الکعبہ" رکھا اور جوان ہونے پر آپ عتیق ( آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے کیونکہ آپ نے موت سے رہائی پائی تھی۔[2]

پیدائش

ابو بکر کی پیدائش عام الفیل سے دو سال چھ ماہ بعد اور ہجرت نبوی سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573عیسوی مکہ میں ہوئی۔آپ پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے۔[3] عائشہ بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ محمد بن عبد اللہ اور ابو بکر میرے پاس بیٹھے اپنی ولادت کا تذکرہ فرما رہے تھے آپ دونوں کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ، ابو بکر صدیق سے عمر میں بڑے ہیں۔[4]

سلسلہ نسب

والد کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے۔ ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب [5] والدہ کی جانب سے سلسہ نسب یہ ہے۔ ام لخیر سلمی بنت صخر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب[6] بعض لوگوں نے آپ کی والدہ کا سلسلہ نسب یہ بیان کیا ہے سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ مگر یہ غلط ہے اس لیے کہ اس صورت میں وہ ابو قحافہ کی بھتیجی ہو جائیں گی اور اہل عرب بھتیجی سے دور جاہلیت میں بھی نکاح نہیں کرتے تھے۔

آپ کے والد اور والدہ دونوں کی جانب سے حضور سے سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مل جاتا ہے۔ کیونکہ آپ کے والدین آپس میں عم زاد تھے۔ابن سعد کا قول ہے کہ ابو بکر کی والدہ کا نام لیلی بن صخر تھا۔[7]

کنیت ابو بکر کی وجہ تسمیہ

آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں منقول ہے کہ چونکہ آپ اعلیٰ خصلتوں کے مالک تھے اس لیے آپ ابو بکر کے نام سے مشہور ہوئے جو بعد ازاں آپ کی کنیت ٹھہری۔ آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں یہ سند پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی کہ آپ کو سب سے پہلے ابو بکر کے نام سے کس نے پکارا۔[8] مورخین نے آپ کی کنیت کی مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی لکھی کہ عربی میں بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں اور آپ کو چونکہ اونٹوں کی غور و پرداخت میں بہت دلچسپی تھی اور ان کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رکھتے تھے اس لیے لوگوں نے آپ کو ابو بکر کہنا شروع کر دیا جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ۔[9] ابو کے معنی والا اور بکر کے معنی اولیت ہے اسی سے بکرہ یا باکرہ ہے۔ ابو بکر کے معنی ہوئے اولیت والے۔ چونکہ آپ ایمان، ہجرت، حضور کی وفات کے بعد وفات میں اور قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ سب کاموں میں آپ ہی اول ہیں اس لیے آپ کو ابو بکر کہا گیا۔[10]

صدیق کی وجہ تسمیہ

آپ کے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ واقعہ معراج کے بعد قریش مکہ کو اپنی معراج سے آگاہ فرمایا تو انھوں نے آپ کی تکذیب کی۔ جب ابو بکر کو واقعہ معراج کے بارے میں پتا چلا تو آپ نے فرمایا میں معراج پر جانے کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ محمد بن عبد اللہ نے آپ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ نودی نے علی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابو بکر کا لقب صدیق اس وجہ سے ہے کہ آپ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے، آپ نے محمد بن عبد اللہ کی نبوت کی تصدیق میں جلدی کی اور آپ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ابن سعد کی روایت ہے کہ جب معراج میں آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے جبرائیل سے کہا کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبرائیل نے عرض کیا آپ کی تصدیق ابو بکر کریں گے کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔ انس بن مالک سے مروی ہے کہ آپ جبل احد پر گئے اور آپ کے ہمراہ ابو بکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ آپ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی اور فرمایا اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔ علی نے ابو بکر کے وصال پر فرمایا کہ اللہ نے ابو بکر کا نام صدیق رکھا اور پھر آپ نے سورۂ الزمر کی آیت ذیل تلاوت فرمائی:

وہ جو سچائی لے کر آیا اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔[11]

عتیق کی وجہ تسمیہ

ابو بکر کے اسم گرامی کے بارے میں اکثر محدثین کا خیال ہے کہ آپ کا نام عتیق تھا۔ عتیق کا مطلب آزاد۔ جبکہ بیشتر محدثین کرام کا خیال ہے کہ عتیق آپ کا لقب تھا اور اس ضمن میں عائشہ کی روایت بیان فرماتے ہیں۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک روز میں اپنے حجرہ میں موجود تھی اور باہر صحن میں کچھ صحابہ، آپ کے ہمراہ تھے۔ اس دوران میں ابو بکر آئے تو آپ نے فرمایا: جو لوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں وہ ابو بکر کو دیکھ لیں۔عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ محمد بن عبد اللہ نے ابو بکر کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے ابو بکر کو آگ سے آزاد کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ کے اس فرمان کے بعد آپ عتیق کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔ لیث بن سعد سے منقول ہے کہ ابو بکر کو عتیق حسن و صورت وجہ سے کہا جاتا ہے۔[12] بعض علما کا قول ہے کہ چوں کہ آپ کے نسب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو عیب سمجھی جا سکے پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کے سبب آپ کا نام عتیق مشہور ہوا۔ [5]

حضرت ابوبکر ؓ کے والد

ابو قحافہ عثمان بن عامر شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے، ابتداً جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے، وہ اسلام کی تحریک کو بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ؛چنانچہ حضرت عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تلاش میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھر آیا، وہاں ابو قحافہ موجود تھے، انھوں نے حضرت علی ؓ کو اس طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا۔[13]

ابو قحافہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے اٰبائی مذہب پر قائم رہے، فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے وہ اپنے فرزند سعید حضرت ابوبکر ؓ صدیق کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انھیں کیوں تکلیف دی، میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کرکے مشرف باسلام فرمایا، حضرت ابو قحافہ ؓ نے بڑی عمر پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند حضرت ابو بکر ؓ کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے، آخر عمر میں بہت ضعیف ہو گئے تھے، آنکھوں کی بصارت جاتی رہی تھی، 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔[14]

حضرت ابوبکر ؓ کی والدہ

حضرت ام الخیر سلمیٰ بنت صخر کو ابتداہی میں حلقہ بگوشان اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا، ان سے پہلے صرف انتالیس اصحاب مسلمان ہوئے تھے، یہ قلیل جماعت باعلان اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتی تھی اور نہ مشرکین وکفار کو ببانگ دہل دین مبین کی دعوت دے سکتی تھی؛ لیکن حضرت ابوبکر ؓ کامذہبی جوش اس بے بسی پر نہایت مضطرب تھا، آپؓ نے ایک روز نہایت اصرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مجمع عام میں شریعت حقہ کے فضائل ومحامد پر تقریر کی اور کفار ومشرکین کو شرک و بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی، کفار ومشرکین جن کے کان کبھی ان الفاظ سے مانوس نہ تھے نہایت برہم ہوئے اورحضرت ابوبکرصدیق ؓ کونہایت بے رحمی اورخداناترسی کے ساتھ اس قدر مارا کہ بالآخربنی تیم کو باوجودمشرک ہونے کے اپنے قبیلہ کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھ کر ترس آگیا اورانہوں نے عام مشرکین کے پنجۂ ظلم سے چھڑاکر ان کو مکان تک پہنچادیا، شب کے وقت بھی حضرت ابوبکرؓ باوجود درداور تکلیف کے اپنے والد اور خاندانی اعزہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ دریافت کرکے اپنی والدہ کے ساتھ ارقم بن ارقم ؓ کے مکان میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مشرف باسلام ہوگئیں۔[15] حضرت ام الخیر ؓ نے بھی طویل عمر پائی چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت تک زندہ رہیں ؛لیکن اپنے شوہر سے پہلے وفات پائی۔[16]

قبل اسلام

آپ بچپن سے اعتدال، پاکباز اور بلند اخلاق کے مرقع تھے۔

بچپن

آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ کفر و شرک اور فسق و فجور کا دور تھا، خانہ کعبہ کا متولی اور محافظ قبیلہ قریش بھی عرب کے دوسرے قبیلوں کی طرح کفر و شرک میں گلے تک دھنسا ہوا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ابو بکر کی عمر چار سال تھی تو آپ کے والد ابو قحافہ آپ کو اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے آپ سے فرمایا:

یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا اس کو سجدہ کرو۔

ننھے ابو بکر نے بت کو مخاطب بنا کر کہا:

میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔

بھلا وہ پتھر کیا جوب دیتا ابو بکر نے اس کو ایک پتھر اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ ابو قحافہ یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے۔ انھوں نے ننھے ابو بکر کو رخسار پر تھپڑ مارا اور وہاں سے گھیسٹے ہوئے ام الخیر کے پاس لائے۔ انھوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ سے کہا:

اسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔

اس وقعے کے بعد کسی نے آپ کو بت پرستی وغیرہ پر مجبور نہیں کیا اور آپ کا دامن شرک سے پاک رہا۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا اور بحثیت مجموعی عرب ایک ان پڑھ قوم تھے، البتہ خال خال لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور سیدنا ابو بکر ان میں سے ایک تھے۔ قیاس یہ ہے کہ ابو قحافہ نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح آپ صرف نہ پڑھنا لکھنا جان گئے بلکہ شرفاء کے دوسرے اچھے مشاغل میں بھی آپ کو دسترس حاصل ہو گئی مثلاً لڑنے کا ڈھنگ، ہیتھاروں کا استعمال، شعر گوئی اور شعر فہمی، تجارت وغیرہ۔گھر میں دولت کی ریل پیل تھی لیکن آپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے ذمائم سے ہمیشہ نفور رہے۔[17]

جوانی کے حالات

قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اس شغل میں مصروف تھا۔ چنانچہ آپ نے بھی جوان ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں آپ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور آپ کا شمار بہت جلد مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت میں آپ کی کامیابی میں آپ کی جاذب شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو خاصا دخل تھا۔[18] جب ابو بکر صدیق کی عمر اٹھارہ سال تھی تو آپ حضور نبی کریم کے ہمراہ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے اور ایک مقام پر بیری کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ قریب ہی ایک اہل کتاب راہب رہتا تھا سیدنا ابو بکر اس کے پاس گئے تو اس نے پوچھا کہ بیری کے درخت کے نیچے کون ہے؟آپ نے جواب دیا:

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب

اس راہب نے کہا واللہ یہ نبی ہیں۔ اس درخت کے سائے میں مسیح کے بعد سوائے محمد نبی اللہ کے اور کوئی نہیں بیٹھا۔ یہ بات آپ کے دل میں جم گئی اور اسی دن سے انھوں نے حضور نبی کریم کی صحبت و محبت اختیار کر لی۔[19]ایک مرتبہ ابو بکر صحن کعبہ میں کھڑے تھے۔ اتنے میں امیہ بن ابی صلت ثقفی شاعر جو جاہلی دور میں موحدانہ نظمیں کہا کرتا تھا وہاں آیا اور آپ سے خطاب کر کے کہنے لگا جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ ہم (اہل طائف) میں مبعوث ہوگا یا تم (قریش مکہ) میں؟ آپ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔اس گفتگو کے بعد آپ تصدیق حال کے لیے ورقہ بن نوفل کے پاس گئے۔ یہ اکثر آسمان کی طرف دیکھتے رہتے تھے اور منہ میں کچھ گنگنایا کرتے تھے۔ ابو بکر نے امیہ بن ابی اصلت کا مقولہ پیش کر کے ان کا خیال معلوم کرنا چاہا۔ورقہ بن نوفل نے کہا:

ہاں بھائی مجھے علوم سموی پر عبور حاصل ہے جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ وسطِ عرب کے ایک خاندان سے ظاہر ہو گا اور چونکہ میں علم نسب کا بھی ماہر ہوں اس بنا پر کہتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر ہوگا۔

ورقہ کا بیان سن کر آپ کا اشتیاق و انتظار اور بڑھ گیا۔

ابو بکر صدیق نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مکہ پر نازل ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک گھر میں داخل ہوا پھر یہ ٹکڑے باہم مل گئے اور مکمل چاند آپ کی گود میں آگیا۔ آپ بیدار ہوئے تو رؤیا کی تعبیر میں مہارت رکھنے والے ایک شخص کے پاس گئے اور اس سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ اس نے بتایا کہ اس نبی آخر الزمان کی پیروی کرو گے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اور تم اس نبی کے پیروؤں میں سب سے افضل ہو گے۔

ابن عساکر نے کعب سے روایت کی ہے کہ ابو بکر ایک مرتبہ بغرض تجارت ملک شام گئے، وہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ اس کی تعبیر دریافت کرنے کے لیے وہاں کے ایک مشہور راہب بحیرا راہب کے پاس گئے۔ بحیرا نے خواب سن کر کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ آپ نے جواب دیا مکہ۔ بحیرا نے پوچھا کس خاندان سے ہو؟ آپ نے فرمایا قریش سے۔ بحیرا نے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا تاجر ہوں۔ بحیرا نے کہا: "تو پھر سنو تمھارا خواب سچا ہے۔ تمھاری قوم میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث ہوں گے تم ان کی زندگی میں ان کے وزیر اور وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہو گے۔"[20] عہد جاہلیت میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم کے معتلق دیت اور تاوان کا فیصلہ تھا۔ بنو تمیم میں ابو بکر صدیق خون بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے جس کو آپ مان لیتے تمام قریش اس کو تسلیم کرتے اگر کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ آپ اس شرف و فضیلت کے کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار اور منجملہ دس سرداران قریش کے ایک سردار تھے۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی بڑے متمول اور صاحب اثر تھے۔ آپ قریش میں بڑے بامروت اور لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔ مصائب کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتے اور مہمانوں کی خوب مدارات و توضع بجا لاتے۔ لوگ اپنے معاملات میں آپ سے آکر مشورہ لیا کرتے اور اپ کو اعلیٰ درجے کا صائب الرائے سمجھتے تھے۔ آپ انساب اور اخبار عرب کے بڑے ماہر تھے۔ [21]

شراب کی حرمت

آپ طبعاً برائیوں اور کمینہ خصلتوں سے محترز رہتے تھے۔ آپ نے جاہلیت میں اپنے اوپر شراب حرام کر لی تھی۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی شراب پی؟آپ نے فرمایا نعوذباللہ کبھی نہیں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن میں سے بو آئے اور مروت زائل ہو جائے۔ یہ گفتگو نبی کریم کی مجلس میں روایت ہوئی تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا کہ ابو بکر سچ کہتے ہیں۔ [21]ام امومنین عائشہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے دور جاہلیت سے ہی اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دیا تھا اور آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔

ابو بکر صدیق فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں میرا گذر ایک مدہوش آدمی کے پاس سے ہوا جو غلاظت میں اپنا ہاتھ ڈالتا اور پھر اسے منہ کے پاس لے جاتا۔ جب اس کو اس غلاظت کی بدبو محسوس ہوتی تو وہ ہاتھ منہ میں ڈالنے سے رک جاتا۔ میں نے جب دیکھا تو اس وقت سے شراب کو خود پر حرام کر لی۔[22]

قبول اسلام

ابو بکر صدیق کے ایمان لانے اور اس کے اسباب میں بہت سے اقوال ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعث سے بیس سال پہلے آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند آسمان سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کعبہ میں گرا۔ مکہ کے ہر گھر ایک ایک ٹکڑا گرا پھرتمام ٹکڑے اکھٹے ہو کر پہلی شکل پر آگئے اور آسمان کی طرف چلے گئے مگر وہ ٹکڑا جو آپ کے گھر آیا تھا وہیں رہ گیا اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ تمام ٹکڑے مل کر آپ کے گھر آگئے اور آپ نے آپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ ان انوار کے حالات دریافت کرنے کے کیے علی الصبح ایک یہودی ایک عالم کے پاس گئے اور اس سے تعبیر پوچھی۔ یہودی عالم نے کہا یہ اضغاث و احلام میں سے ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں۔ کچھ عرصہ اسی طرح گذرا، اپنی تجارت کے سلسلے میں بحیرا راہب کی خانقاہ میں پہنچے اور راہب سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ راہب نے کہا آپ کون ہیں؟ آپ نے کہا میں قریشی ہوں۔ راہب نے کہا مکہ میں تمھارے درمیان میں ایک پیغمبر ظاہر ہوگا اس کا نور ہدایت مکہ کے ہر گھر میں پہنچے گا، آپ ان کی زندگی میں ان کے وزیر ہوں گے اور پیغبر کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوں گے۔ابوبکر صدیق نے کہا میں خواب کو پوشیدہ رکھتا تھا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے واقعی پیغبر کو خلق کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب مجھے آپ کے ظہور کی خبر ملی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آن نے مجھے اسلام کی دعوت دی، میں نے عرض کہ ہر پیغبر کی نبوت پر دلیل ہوتی تھی آپ کی کیا ہے؟نبی کریم نے فرمایا کہ میری نبوت کی دلیل وہ خواب ہے جو تم نے دیکھا تھا اور یہودی عالم نے کہا تھا اس کا کوئی اعتبار نہیں بحیرا راہب نے اس کی اس طرح تعبیر کی تھی۔ میں نے ہوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی ہے؟آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل نے اطلاع دی ہے۔ میں نے کہا اس سے زیادہ میں آپ سے کوئی دلیل و برہان نہیں پوچھتا اور آپ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔

درخت کی گواہی

صدیق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں ایک روز ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اس درخت کی ایک شاخ میری طرف اس قدر جھکی کہ میرے سر کے ساتھ آ لگی میں اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا چاہتی ہے اس درخت سے میرے کان میں آواز سنائی دی کہ ایک پیغمبر فلاں وقت میں ظاہر ہو گا لوگ اس پر ایمان لائے گے تجھے چاہیے کہ ان میں سب سے نیک بخت بنے۔میں نے اس سے کہا کہ وضاحت سے بیان کر کہ وہ پیغمبر کون ہے، اس کا نام کیا ہے؟اس نے کہا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔میں نے کہا وہ میرا دوست، حبیب اور ساتھی ہے۔ میں نے اس درخت سے وعدہ لیا کہ جب وہ مبعوث ہوں مجھے خوشخبری دے۔ جب نبی کریم مبعوث ہوئے اس درخت سے آواز آئی اے ابو قحافہ کے بیٹے! مستعد ہو جا اور کوشش کر، کیونکہ اس کی طرف وحی آ گئی ہے۔ مجھے رب موسیٰ کی قسم ہے کہ کوئی تجھ سے سبقت نہیں لے جائے گا۔ جب صبح ہوئی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا: اے ابو بکر! میں تجھے خدا اور رسول کی طرف بلاتا ہوں میں نے کہاانّك رسول اللہ بالحق بعثك سراجاً منیرا، ً پس آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کے قول کی تصدیق کی۔

تدبیر الہی

ایک دوسری روایت یہ ہے کہ جب خواجۂ لولاک کے جسد ہمت پر انٌا ارسلناك کی خلعت آراستہ ہوئی تو آپ نے سوچا کوئی ایسا راز داں چاہیے جو اس بات کے سننے کی طاقت رکھتا ہو اور مصلحت کی جانب کو ترک نہ کرے پس ابو بکر کی دوستی نے جو نبی کریم کے دل مبارک میں درجۂ اعتبار کو پہنچی ہوئی تھی اشارہ کیا کہ ابو بکر کمال عقل سے موصوف اور حسن اعتقاد اور دوستی کے خلوص کے ساتھ معروف ہے اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اس امر میں راز داں بنایا جائے۔ آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ صبح اس کے پاس جائیں گے اور اس راز سے اس کو آگاہ کریں گے۔ابو بکر ساری رات اس سوچ میں مستغرق رہے کہ یہ دین جو ہمارے آبا و اجداد کا پسندیدہ ہے فطرت سلیم اور عقل کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور ایسی چیز کی عبادت کا کیا فائدہ جو نہ نقصان کو دور کر سکتی ہو نہ نفع بخش ہو خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور بسائط ابرار کی روشن رائے کا موجد ہے عبادت کا حقدار کیوں نہیں ہے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ صبح سید ابرار کی روشن رائے سے جو خدائی فیض اور توفیق الہی کی جائے نزول ہے، ہدایت اور مشورہ حاصل کرے اور اس راز کو ان کی مجلس میں کھولے۔دونوں ایک دوسرے کی ملاقات کے ارادے سے چل پڑے، راستہ میں دونوں کی ملاقات ہو گئی انھوں نے کہا "اجتمعنا غیر میعاد"۔ پیغمبر نے فرمایا: میں ایک بھلائی کے مشورہ کے لیے آ رہا تھا۔ ابو بکر نے عرض کی میں بھی ایک دینی مہم میں آپ کی خدمت میں آ رہا تھا، نبی کریم نے فرمایا راز سے پردہ اٹھائیے، ابو بکر نے عرض کی ہر کام میں آپ پیش رو ہیں پہلے آپ اظہار فرمائیں۔ پیغمبر نے فرمایا کل فرشتہ مجھ پر ظاہر ہوا اور خدا کا پیغام لایا کہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ، میں حیران ہو، تمھارے پاس آیا ہوں کہ تم کو راہنمائی کرو۔ دعوت کے سلسلے میں جو تمھاری رائے ہو اس کے مطابق عمل کریں گے۔ابو بکر نے عرض کی: پہلے مجھے دین کے شرف سے سرفراز کریں کہ کل سے میں سوتے جاگتے اسی فکر میں ہوں اور آج آپ سے یہ بات سن رہا ہوں۔پیغمبر اسلام اس بات سے خوش ہوئے فی الفور اسلام پیش کیا اور ابو بکر نے اسلام کی دعوت کو قبول کر لیا۔ مومنین کے پیشرو اور سب سے پہلے اسلام لانے والے بنے۔

یمن کا بوڑھا

حصص الاتقیاء میں عبد اللہ بن مسعود سے ابو بکر کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ بعثت سے پہلے میں تجارت کی غرض سے ملک یمن کی طرف گیا، قبیلہ ازد کے ایک تین سو نوے سالہ بوڑھے کے پاس اترا جس نے آسمانی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں۔ جب اس جہاں دیدہ بوڑھے نے مجھے دیکھا اس نے کہا میرا خیال ہے کہ تم حرم کعبہ سے تعلق رکھتے ہو۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا بنو تمیم سے۔ اس نے کہا: ایک نشانی باقی رہ گئی۔ میں نے پوچھا وہ کونسی ہے؟ اس نے کہا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیے۔ میں نے کہا جب تک اپنا مقصد بیان نہیں کرتے میں نہیں اٹھاؤ گا۔ اس نے کہا میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ حرم میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا اس کے دو معاون ہوں گے ایک جوان، دوسرا ادھیڑ عمر سفید چہرے لاغر جسم کا ہو گا۔ اس کے پیٹ پر داغ بائیں ران کی طرف نشانی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ شخص تم ہو، میں چاہتا ہوں کہ اس داغ کو تمھارے پیٹ پر دیکھوں۔ ابو بکر نے فرمایا میں نے کپڑا پیٹ سے اٹھایا میں نے دیکھا کہ میری ناف کے اوپر ایک سیاہ خال ہے۔ اس نے کہا رب کعبہ کی قسم وہ ادھیڑ عمر آپ ہی ہیں، اس نے مجھے شفقت سے وصیت کی تھی کہ یمن میں اپنا کاروبار کی تکمیل کے بعد اسے الوداع کہنے کے لیے آؤ۔ جب میں اس کے پاس آیا۔ اس نے کہا میرے پاس اس پیغمبر کی تعریف میں چند اشعار ہے ہیں آپ ان کو آن کی خدمت میں پہنچا دیں گے؟ میں نے کہا ہاں پہنچا دو گا۔ اس نے بارہ اشعار مجھے پڑھ کر سنائے۔ ابو بکر صدیق نے کہا میں نے اشعار اس پیر مرد سے یاد کر لیے اور اس کی وصیتوں کو قبول کیا اور مکہ میں واپس آگیا۔ جب میں اپنے گھر میں آیا تو عتبہ بن ابی مغیظ و شیبہ اور ابو النجتری اور چند اور قریشی آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی نئی چیز آپ کے ہاں پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا اس سے زیادہ کیا عجیب بات کیا ہو گی کہ ابو طالب کے یتیم نے اٹھ کر پیغمبری کا دعوی کر دیا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ تم باطل ہو اور تمھارے آبا و اجداد بھی باطل پر تھے اگر آپ کی امداد و اعانت اسے نہ ہوتی تو تو ہم اسے امن نہ دیتے۔ اب جبکہ آپ خود تشریف لے آئے ہیں خود ہی اس کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچائے کیونکہ وہ آپ کا دوست ہے۔ جب میں نے ان سے یہ بات سنی تو ان کو معذرت کر کے واپس کر دیا۔ میں نے پوچھا محمد کہا ہیں؟ انھوں نے بتایا خدیجہ بنت خویلد کے گھر میں ہیں۔ میں جا کر دروازہ پر بیٹھا رہا جب مصطفٰی باہر نکلے تو میں نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کیا ہے جو آپ کی طرف سے باتیں بیان کی جاتی ہیں؟ پیغمبر نے فرمایا اے ابو بکر! میں خدا تعالی کا رسول ہوں آپ مجھ پر دوسرے لوگوں کے ساتھ ایمان لے آئیے تا کہ خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور دوزخ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائیں۔ میں نے کہا آپ کے پاس برہان و دلیل کیا ہے؟آپ نے فرمایا میری دلیل وہ بوڑھا ہے جسے آپ یمن میں ملے تھے۔ انہون نے کہا میں بہت سے بوڑھوں سے ملا ہوں اور ان سے خرید و فروخت کی کی ہے۔ آن نے فرمایا وہ بوڑھا جس نے بارہ اشعار بطور امانت تمھیں دیے اور میرے پاس بھیجے اور وہ بارہ اشعار آپ نے ابو بکر کو سنائے۔ ابو بکر نے عرض کی : کس نے آپ کو اس حال کی خبر دی؟ آن نے فرمایا مجھے اس بزرگ فرشتے نے بتایا جو مجھ سے پہلے تمام پیغمبروں پر اترا تھا۔ میں نے کہا ہاتھ بڑھائیے، میں نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر کہا

اشہدان لا الہ الا اللہ واشہد انک رسول اللہ

میں خوشی خوشی گھر لوٹا۔[23]

قبول اسلام میں شرف

سیدنا ابو بکر صدیق اسلام قبول کرنے والے دوسرے شخص تھے۔ آپ سے پہلے حضور نبی کریم کی زوجہ ام امومنین خدیجہ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا تھا۔علی المرتضی سے کسی نے پوچھا کہ مہاجرین و انصار نے سیدنا ابو بکر کی بیعت میں سبقت کیوں کی جبکہ آپ کو ان پر فوقیت حاصل تھی۔ علی المرتضیٰ نے جواب دیا کہ سیدنا ابو بکر کو چار باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ میں ان کا ہمسر نہیں تھا، اسلام کا اعلان کرنے میں، ہجرت میں پہل کرنے میں، غار میں حضور نبی کریم کے ساتھ ہونے اور علانیہ نماز پڑھنے میں وہ مجھ سے آگے تھے۔ انھوں نے اس وقت اسلام کا اظہار کیا جب میں اسے چھپا رہا تھا۔ قریش مجھ کو حقیر سمجھتے تھے جبکہ وہ ابو بکر کو پورا پورا وزن دیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر سیدنا ابو بکر کی یہ خصوصیات نہیں ہوتی تو اسلام اس طرح نہ پھیلتا اور طالوت کے ساتھیوں نے نہر سے پانی پی کر جس کردار کا اظہار کیا تھا اسی طرح کے کردار کا اظہار لوگ یہاں بھی کرتے۔ دیکھتے نہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو ڈانتا وہاں سیدنا ابو بکر کی تعریف بھی کی۔

امام جلال الدین سیوطی بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی رائے ہے اور اس کی تائید ترمذی شریف کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام ابو بکر صدیق نے قبول کیا، عورتوں میں سب سے پہلے اسلام ام المومنین خدیجہ نے قبول کیا جبکہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام سیدنا علی امرتضیٰ نے قبول کیا۔[24]سب سے پہلے جن ہستیوں نے قبول اسلام کی دعوت پر لبیک کہا وہ تھیں ---- ابو بکر صدیق، خدیجۃ الکبرٰی، علی المرتضٰی اور زید بن حارثہ۔خدیجہ نبی کریم کی اہلیہ تھیں، علی نبی کریم کے نابالغ چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے زیر کفالت تھے۔ زید بن حارثہ پہلے حضور نبی کریم کے غلام تھے پھر آپ نے ان کو آزاد کر دیا لیکن انھوں نے آپ کا خادم بن آپ کے پاس ہی رہنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضور نبی کریم نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اس لحاظ سے تینوں حضور نبی کریم کے گھر کے افراد تھے۔ ابو بکر صدیق گھر سے باہر کے آدمی تھے تاہم انھوں نے عامۃ الناس میں سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف کیا، اس لیے اول المسلمین کہلائے۔[25]

صدیق کی کوششوں سے اسلام لانے والے

بزرگان فن سیر نے لکھا ہے کہ ابو بکر صدیق مسلمان ہونے کے بعد اپنے پرانے رفیقوں اور دوستوں میں سے جس سے بھی ملتے اسے ہدایت کا راستہ اختار کرنے کی ترغیب دیتے۔ واضح نشانات اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیغمبر کی نبوت کی صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتے، اکابر قریش اور عرب کے سرداروں کی ایک جماعت آپ کی مبارک ہمت کی برکت سے گمراہی کی وادی سے چشمہ ہدایت پر پہنچی۔صدیق اکبر کی بیٹی اسماء بنت ابی بکر ذات النطاقین فرماتی ہیں کہ ہمارے ابا جان جس روز ایمان لائے گھر آئے اور ہم سب کو اسلام کی دعوت دی جب تک ہم سب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو گئے اور رسول اللہ کی تصدیق اور دین توحید کو قبول نہیں کر لیا مجلس سے نہیں اٹھے۔

عشرہ مبشرہ میں سے پانچ آدمی عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمین آپ کی راہنمائی اور ترغیب سے دولت اسلام سے سرفراز ہوئے۔

  • عثمان بن عفان کا ایمان لانا:

عثمان بن عفان نے کہا: سعدی بنت کزیز بن ربیعہ میری خالہ تھی جو کہانت میں مہارت رکھتی تھی میں ایک روز اس کے گھر گیا، تو اس نے مجھے کاہنوں کے انداز میں کہا تمھاری دو عورتیں ہوں گی، دونوں خوبصورت اور حسین، دونوں ایک دوسرے کے لائق، نہ تو نے ان سے پہلے عورت دیکھی ہوگی اور نہ انھوں نے خاوند یہ عورتیں ایک بڑے پیغمبر کی بیٹیاں ہوں گی، مجھے اس بات سے حیرانی ہوئی اور اسے نا ممکن سمجھا۔ دوسری مرتبہ بھی کہانت کے طور پر اس نے مجھے کہا:

محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مبعوث ہو گئے ہیں لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلاتے ہیں، زیادہ مدت نہیں گزرے گی کہ تمام دنیا میں اس کی ملت کا نور پھیل جائے گا۔ جو شخص اس کی نافرمانی کرے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔

میں نے جب اس سے یہ باتیں سنی آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوئی، میں متفکر ہو گیا۔ میرے اور ابو بکر کے درمیان میں دوستی تھی۔ دو روز کے بعد ان کے پاس گیا اور اپنی خالہ کی بات ان سے بیان کی۔ ابو بکر نے کہا:

اے عثمان! آپ عقل مند اور ہوشیار آدمی ہیں، ہر کام کے انجام میں صاحب اعتبار ہیں، آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہو گی کہ چند پتھر جو نہ بولتے ہیں نہ سنتے ہیں، نہ کسی کو نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ خدا کیسے بن سکتے ہیں۔

میں نے کہا آپ نے درست فرمایا۔ آپ نے کہا آپ کی خالہ نے سچ فرمایا خدا تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخلوق کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے، غنیمت جان اور دولت ایمان حاصل کرنے میں تاخیر نہ کر۔ ہم اسی گفتگو میں تھے پیغمبر ادھر سے گذرے، ساتھ میں علی بن ابی طالب بھی تھے۔ ابو بکر اٹھے اور رسول اللہ سے تنہائی میں بات کی، آپ تشریف لائے اور ہمارے نزدیک بیٹھ گئے، میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

خدا تعالی تجھے جنت کی مہمانی کے لیے بلاتا ہے تو بھی اسے قبول کر۔

آپ کی بات نے فوراً میرے دل میں اثر کیا۔ میں نے کلمہ پڑھ لیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم کی صاحبزادی رقیہ بنت محمد سے شرف عقد حاصل ہوا۔ کئی مرتبہ مجھے اپنی خالہ کی بات یاد آئی۔

ان کے علاوہ ابو بکر صدیق کی کوششوں سے اور راہنمائی سے ابوعبیدہ ابن جراح، عثمان بن مظعون، ارقم بن ابو الارقم اور ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔[26]

غرباء، مساکین اور مظلوموں کی امداد

اعلان نبوت کے چوتھے سال جب علانیہ دعوت اسلام کا حکم نازل ہو تو رسول اللہ نے لوگوں کو علانیہ حق کی جانب بلانا شروع کر دیا۔ اس پر مشرکین قریش بھڑک اٹھے اور انھوں نے مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے۔ بالخصوص اسلام قبول کرنے والے غلاموں اور لونڈیوں پر انھوں نے ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ ظلم و ستم کے اس دور میں ابو بکر صدیق نے بے دریغ مال خرچ کر کے متعدد مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کو ان کے سنگدل آقاؤں سے خرید خرید کر آزاد کروایا۔ ارباب سیر نے ایسے درج ذیل افراد کے نام خصوصیات سے لیے ہیں جنھیں ابو بکر صدیق کے دست کرم نے فی سبیل اللہ نعمت آزادی سے بہرہ ور کیا۔ ان کے نام یہ ہیں۔

بلال بنو جمح کے ایک مشرک امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ انھوں نے اسلام قبول کیا تو اس ظالم نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ وہ آپ کو دوپہر کے وقت مکہ(حرہ) کی تپتی ہوئی ریت پر لیٹاتا اور ایک بھاری پتھر آپ کے سینے پر رکھ دیتا اور کہتا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی سے باز آ جا اور لات اور عزی کو معبود برحق ہونے کا اقرار کر لے، ورنہ اسی طرح پڑا رہے گا۔ اس کے جواب میں آپ احد احد ہی کیے چلے جاتے۔ شقی القلب امیہ بیکس بلال کے لیے ہر روز نیا عذاب تجویز کرتا۔ کبھی آپ کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں ڈال دیتا، کبھی آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تاریک کوٹھری میں ڈال دیتا اور تازیانے رسید کرتا رہتا، کبھی آپ کے گلے میں رسی ڈال کر محلہ کی لونڈیوں کے سپرد کر دیتا کہ وہ آپ کو مکہ کی گلیوں اور پہاڑوں میں گھسیٹتی پھرتی پھر انھیں لوہے کی طرح گرم ریت پر اوندھے منہ لٹا دیتے اور پھر آپ پر پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے۔ ایسے ہی سخت عذاب دے دے کر آپ کو اسلام سے روگردانی کا کہا جاتا لیکن آپ احد احد ہی کہتے رہتے۔ ابو بکر صدیق کا گھر بنو جمح کے محلے میں ہی تھا۔ وہ ہر روز شیدائے حق بلال کو طرح طرح کی عقوبتوں میں مبتلا دیکھتے تو ان کو سخت دکھ ہوتا۔ آخر ایک دن آپ نے بلال کو ایک معقول رقم کے عوض امیہ سے خرید لیا اور آزاد کر دیا۔ ایک اور روایت ہے کہ ابو بکر صدیق نے اپنے ایک تنو مند غلام اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے بلال کو خریدا اور آزاد کیا۔

  • حمامہ:

حصرت بلال کی والدہ تھیں اور آپ پر بھی قبول حق کے جرم میں ظلم ڈھائے جاتے تھے۔

آپ بنو زہرہ کی لونڈی تھیں اور آپ پر قبول حق کے جرم میں اسود بن عبد یغوث طرح طرح کے ظلم ڈھاتا تھا۔

آپ عائشہ کے ماں جائے بھائی طفیل کے غلام تھے۔ اسلام قبول کرنے پر طفیل آپ پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتا اور مارتا پیٹتا رہتا تھا۔

  • نہدیہ اور آپ کی بیٹی

ماں اور بیٹی دونوں بنی عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ یہ عورت آپ دونوں پر بہت سختیاں کرتی تھی اور اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔

امیہ بن خلف اور اس کا بیٹا صفوان بن امیہ آپ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر اوندھے منہ لٹا دیتے اور ان کی پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے۔ کبھی آپ کا گلہ اس زور سے گھونٹتے کہ آپ بے ہوش ہو جاتے۔

آپ بنی مومل (بنو عدی کی ایک شاخ) کی ایک لونڈی تھی۔ عمر بن خطاب اپنے زمانہ کفر میں آپ کو قبول حق کے جرم میں بہت مارا کرتے تھے۔

آپ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابو جہل آپ کو سخت عذاب دیا کرتا تھا یہاں تک کہ آپ کی بینائی جاتی رہی اس پر ابو جہل نے آپ کو طعنہ دیا کہ لات و عزی نے تجھے اندھا کر دیا۔ آپ نے مومنانہ شان کے ساتھ جوب دیا، ہرگز نہیں، لات اور عزی کو تو اپنی خبر بھی نہیں وہ کیا جانیں انھیں کون پوجتا ہے اور کون نہیں پوجتا، ہاں میرا اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ میری بینائی واپس دے دے چنانچہ وہ دوسرے روز اٹھی تو اللہ نے آنکھیں روشن کر دی تھیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ کی بینائی اس وقت گئی جب ابو بکر نے آپ کو خرید کر آزاد کیا۔ کفار نے طعن و شنیع کی لیکن آپ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کے صدق نیت کی بدولت اللہ تعالی نے بہت جلد بینائی بہال کر دی۔[27]

  • ابو نافع:

آپ جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ ابو بکر نے آپ کو خرید کر آزاد فرمایا۔

  • مرہ بن ابو عثمان:

آپ کو ابو بکر نے خرید کر آزاد فرمایا۔ آپ کو عراق کی فتح کے بعد بصرہ کے قریب ایک جریب کی جاگیر عطا کی گئی جہاں آپ کی نسل آج بھی موجود ہے۔

  • سلیمان بن بلال:

آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ ابو بکر نے آپ کو خرید کر آزاد فرمایا۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہے۔ آپ کا وصال مدینہ منورہ میں ہوا۔

  • سعد:

آپ ابو بکر صدیق کے غلام تھے اور ابو بکر صدیق نے آپ کو رسول اللہ کے حکم پر آزاد کیا۔ امام حسن بصری، امام ترمذی وغیرہ نے آپ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔

  • شدید:

آپ کو ابو بکر صدیق نے خرید کر آزاد فرمایا تھا۔امام احمد نے قیس بن ابی حازم کے حوالے سے روایت کی ہے کہ میں نے دیکھا عمر فاروق کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی جس کے ذریعے وہ لوگوں کو بیٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ نبی کریم کے خلیفہ کی وصیت سنو۔ تب ابو بکر صدیق کے آزاد کردہ غلام شدید آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ تھا جو انھوں نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ اس صحیفے میں ابو بکر صدیق کا ایک قول تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اللہ گواہ ہے میں نے تمھارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اور میں تمھیں اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں۔

  • کثیر بن عبید التیمی:

آپ کا شمار بھی ابو بکر صدیق کے آزاد کردہ غلاموں میں ہوتا ہے۔ ابن حبان نے آپ کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ہے اور ان سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے جو انھوں نے انس سے سنی تھی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا اور مجھے پکارتا رہے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا۔[28]

علامہ ابن جریر طبری اور ابن عساکر نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ابو قحافہ نے اپنے فرزند کو غریب لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی پر بے تحاشا دولت خرچ کرتے دیکھا تو انھوں نے اپنے بیٹے ابو بکر کو کہا:

بیٹا ایسے کمزور لوگوں کو آزاد کرانے کا کیا فائدہ؟ اگر تم چست اور تنومند غلاموں کو آزاد کراتے تو وہ تمہارے احسان مند رہتے اور مشکل وقت میں تمہارے کام آتے۔

ابو بکر صدیق نے جواب دیا:

ابا جان! میں کسی دنیاوی فائدے کے لیے ان کو آزاد نہیں کراتا میں تو اس کا وہ اجر چاہتا ہوں جو اللہ کے پاس ہے۔

جب مشرکین نے دیکھا کہ ابو بکر نے اپنے آپ کو ہمہ تن اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا ہے اور اپنی دولت کو مسلمان ہونے والے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے میں بے دریغ خرچ کر رہا ہے تو انھوں نے آپ سے "اشناق" کا منصب چھین لیا لیکن آپ نے اس کی پروا نہیں کی اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے۔[29]

کفار کے ظلم کی انتہا

آغاز اسلام میں اکثر ابو بکر صدیق رسول اللہ سے عرض کرتے: کیوں نا ہم لوگوں کے سامنے اپنے ایمان و عقیدہ کا برملا اظہار کریں۔ آخر کب تک ہم چھپتے چھپاتے رہیں گے۔رسول اللہ ابو بکر کی بات سن کر صرف اتنا فرماتے:

ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی سی ہے۔

سیدنا ابو بکر بار بار رسول اللہ سے برملا اظہار کرنے کے بارے میں اصرار کرتے رہتے۔ بالآخر رسول اکرم نے انھیں اجازت دے دی۔ چنانچہ سارے مسلمان خانہ کعبہ کے ارد گرد پھیل گئے اور اپنے اپنے خاندان والوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ ابو بکر صدیق اٹھے اور فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ یہ پہلا خطبہ تھا جو دین اسلام میں پڑھا گیا، اس خطبہ میں اسلام کی دعوت تھی، مشرکین کو بہت ناگوار گذرا۔ وہاں موجود سارے مشرکین سیدنا ابو بکر اور مسجد حرام میں موجود دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور بری طرح سے مارنے لگے۔ ابو بکر مار کھاتے کھاتے زمین پر گر گئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ کا راویہ سیدنا ابو بکر کے ساتھ گھناؤنا تھا۔ اس فاسق نے اپنے پیوند لگے دونوں جوتوں سے ابو بکر صدیق کو منہ اور پیٹ پر اتنا مارا کہ کثرت خون سے ابو بکر کی ناک آپ کے چہرے سے پہچانی نہیں جاتی تھی۔ جب آپ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ آپ کی مدد کو پہنچ گئے۔ انھوں نے مشرکین کو آپ سے اٹھایا اور ایک کپڑے میں ڈال کر آپ کو لے گئے۔ آپ کو اتنی شدید مار پڑھی تھی کہ بنو تمیم کو یقین تھا اب آپ کی موت یقینی ہے۔ بنو تمیم آپ کو گھر پہنچا کر مسجد حرام میں واپس آئے اور کہنے لگے:

اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مر گے تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کر ڈالیں گے۔

بنو تمیم مسجد حرام میں برسرعام یہ دھمکی دے کر سیدھے ابو بکر کے گھر گئے۔ ابو قحافہ اور بنو تمیم کے لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ابو بکر کی زبان کھل جائے اور وہ کچھ بات کریں۔ سارے اسی انتظار میں اس کے ارد گرد بیٹھے تھے جب دن کے آخری پہر آپ کو کچھ افاقہ ہوا اور زبان کھولی، پہلا جملہ جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا:

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہوا؟ وہ کیسے ہیں۔

جب آپ نے یہ کہا تو قوم کے لوگوں کو قدرے غصہ بھی آیا اور آپ کو ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔جب بنو تمیم آپ کے پاس سے نکل گئے تو صرف آپ کی ماں آپ کے پاس رہ گئی۔ وہ بیٹے سے اصرار کرتی رہی کہ کھانا کھا لو لیکن آپ اپنی ماں سے صرف یہی پوچھتے رہے۔

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہوا؟ وہ کیسے ہیں؟

ماں نے جوب دیا: بیٹے اللہ کی قسم! مجھے تیرے ساتھی کے بارے میں کوئی علم نہیں وہ کس حال میں ہیں اور ابھی کہاں ہیں؟سیدنا ابو بکر نے اپنی ماں سے کہا: ام جمیل فاطمہ بنت خطاب کے پاس جاؤ اور اس سے رسول اللہ کے بارے میں دریافت کرو کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ بیٹے کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ماں کھڑی ہوئی اور ام جمیل کے پاس پہنچ کر کہا: میرا بیٹا ابو بکر تم سے محمد بن عبد اللہ کے بارے میں پوچھ رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ام جمیل نے جواب دیا: نہ تو مجھے ابو بکر کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ محمد بن عبد اللہ کے بارے میں۔ ہاں، اگر تم چاہوں تو میں تمھارے بیٹے کو دیکھنے چلوں؟ ام الخیر نے کہا ہاں چلو۔ام جمیل جب آپ کے پاس پہنچی تو آپ کی حالت شدت مرض سے ناگفتہ بہ تھی۔ وہ ابو بکر کے قریب ہوئی اور زور سے کہنے لگی: فسق و کفر میں ڈوبی ہوئی آپ کی قوم نے آپ کو تکلیف دی ہے۔ مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ ضرور ان ظالموں سے انتقام لے گا۔ سیدنا ابو بکر کی زبان کھلی اور کہا:

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہو؟ وہ کیسے ہیں؟

ام جمیل نے کہا: یہ آپ کی ماں موجود ہیں میں اگر کچھ بتاؤں گی تو وہ بھی سن لے گی۔ آپ نے کہا کوئی بات نہیں تمھیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ام جمیل نے بتایا:

رسول اکرم ﷺ بالکل صحیح سالم ہیں۔

ابو بکر نے پوچھا وہ اب کہاں ہیں؟ام جمیل نے کہا دار ارقم میں ہیں۔ ابو بکر کہنے لگے:

میں نے اللہ سے عہد کر لیا ہے کہ جب تک محمد کی خدمت میں حاضر نہ ہو جاؤں، نہ کچھ کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا۔

ام جمیل اور آپ کی والدہ نے آپ کا اصرار دیکھا تو وہ تھوڑی دیر رکی رہیں۔ پھر جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اور راستہ خالی پڑا ہوا ہے تو وہ سیدنا ابو بکر کو سہارا دیتے ہوئے رسول اکرم کی خدمت میں لائیں۔ رسول اکرم کی جب نگاہ مبارک ابو بکر پر پڑی تو آپ ان کی طرف جھک پڑے اور بوسہ دیا۔ دوسرے مسلمان بھی ابو بکر کی طرف جھک پڑے۔ اس منظر کو دیکھ کر رسول اکرم کو بڑی کوفت ہوئی اور آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ مگر اس حالت میں بھی سیدنا ابو بکر نے رسول اکرم سے اپنی بے لاگ محبت کا ثبوت دیا اور عرض کرنے لگے:

اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! (آپ ﷺ صحیح سالم ہیں تو پھر) مجھے کوئی پروا نہیں، صرف اتنی تکلیف ہے کہ فاسق نے میرے چہرے پر جوتا مارا اور یہ میری ماں ہے جو بلاشبہ اپنے بیٹے کے حق میں مہربان اور وفادار ہے، آپ کی ہستی مبارک ہے، آپ میری ماں کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور اس کے حق میں دعائے خیر فرما دیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی میری ماں کو آپ کی دعوت کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچا دے۔

چنانچہ سیدنا ابو بکر کی خواہش پر رسول اکرم نے آپ کی ماں کے لیے دعا فرمائی۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور سیدنا ابو بکر کی ماں مسلمان ہو گئیں۔[30]ایک اور روایت میں ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب اسی روز ایمان لائے جس روز تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ابو بکر کو کفار نے یہ اذیت اور تکلیف پہنچائی۔[31]

اس واقعہ کے بعد رسول اکرم کی نظر میں ابو بکر کی وقعت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی اور ابو بکر آپ کے خاص راز دار اور محبوب بن گئے۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ حضور روزانہ دومرتبہ ابو بکر کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔ ہجرت مدینہ تک آپ کا یہی معمول رہا۔ عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عائشہ نے فرمایا ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین اسلام پر پایا اور (مکہ معظمہ) ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گذرا جس میں رسول اللہ روزانہ دو مرتبہ صبح و شام ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔[32]

ہجرت حبشہ کا قصد

ابو بکر صدیق کو نماز اور ذکر الہی سے بے حد شغف تھا وہ اس سوز و گراز سے نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے کہ قریش کے بیوی بچے متاثر ہو کر ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس سے قریش کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ان کے متعلقین اپنے آبائی دین سے منحرف ہو کر اسلام کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ ابو بکر صدیق کو نماز پڑھنے سے روکتے اور اذیت پہنچاتے۔[33]

ہجرت کی اجازت

امام واقدی کا بیان ہے کہ قریش ظلم و تعدی کے عادی ہو چکے تھے۔ ان لوگوں کی ایذا رسانی جب رسول اللہ کے صحابہ پر عام ہو گئی اور ان کا ظلم و ستم انتہا درجہ کو پہنچ گیا، صحابہ کرام نے نبی کریم کی خدمت میں شکایت کی۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہاں تک کہ ایک دن ابو بکر صدیق نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

یا رسول اللہ! اگر آپ حاطب بن عمیر بن عبد شمس پر ظلم و ستم کو دیکھتے تو ضرور مہربانی فرماتے۔

نبی کریم نے ہجرت کی اجازت فرما دی، صدیق نے عرض کی:

یا رسول اللہ! آپ کس طرف ہجرت کا حکم فرماتے ہیں؟

نبی کریم نے حبشہ کی جانب راہنمائی فرمائی کیونکہ صحابہ کرام مسافت کم ہونے اور وہاں کی آب و ہوا ام القری مکہ کے مناسب ہونے کی وجہ سے اس طرف ہجرت کرنا مناسب سمجھتے تھے۔[34]

مالک بن دغنہ کی پناہ میں

جب مسلمانوں پر اہل مکہ کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو بعث نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال بہت سے مسلمانوں نے حبش کی طرف ہجرت کی تا کہ وہاں آرام و سکون سے اپنے مذہب پر عمل کیا جا سکے۔ ابو بکر نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ مقام "برک الغماد" میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار مالک بن دغنہ راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں؟ اے ابو بکر! کہاں چلے؟آپ نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا میں اب اپنے وطن مکہ کی زمین کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔ابن دغنہ نے کہا کہ اے ابو بکر! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں، مہماناں حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں، خود کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں، حق کے کاموں میں سب کی مدد و اعانت کرتے ہیں۔آپ میرے ساتھ مکہ واپس چ لیے میں آپ کی پناہ لیتا ہوں۔ ابن دغنہ آپ کو زبردستی مکہ واپس لائے اور تمام کفار سے کہہ دیا کہ میں نے ابو بکر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ لہذا خبردار! کوئی ان کو نہ ستائے۔ کفار نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابو بکر اپنے گھر میں چھپ کر قرآن پڑھیں تا کہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ابن دغنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ابو بکر صدیق نے چند دنوں تک اپنے گھر کے اندر قرآن پڑھتے رہے مگر آپ کے جذبہ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبودان باطل لات و عزی کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تعالی کی عبادت چھپ کر گھر کے اندر کی جائے۔ چنانچہ آپ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن پاک سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن دغنہ کو مکہ بلایا اور شکایت کی کہ ابو بکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں۔ جس کو سننے کے لیے ان کے گھر کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لہذا تم ان سے کہے دو کہ یا تو وہ گھر میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے ابو بکر سے کہا کہ اے ابو بکر! آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤ گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر ابو بکر نے فرمایا کہ اے ابن دغنہ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہو جاؤ مجھے اللہ تعالی کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں۔[35]

ابی بن خلف کے ساتھ شرط باندھنا

نبوت کے آٹھویں سال مکہ میں یہ خبر عام ہوئی کہ اہل فارس نے اہل روم پر فتح حاصل کر لی۔ مشرکین اس خبر سے بہت خوش ہوئے، کہنے لگے رومی اہل کتاب ہیں اور فارسی آتش پرست، جس طرح کسری نے قیصر پر لشکر کشی کی ہم بھی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فوج پر جو اہل کتاب ہے، غالب آئیں گے۔ مسلمانوں کے دل ان کی باتیں سننے سے غمگین ہوتے تھے، پس جبرائیل امین خدا تعالی کے حکم سے یہ پیغام لائے:

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم○ المٓ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ○ فِیْ بَضْعِ سِنِیْنَ

مسلمان اس آیت کے اترنے سے خوشی کا اظہار کرتے تھے، نا سمجھ کفار اس صورت حال کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کلمات محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھڑے ہوئے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ابو بکر صدیق نے ابی بن خلف کافر کے ساتھ شرط باندھی کہ اگر تین سال تک اور ایک روایت کے مطابق چھ سال تک رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا تو ابو بکر دس جوان اونٹ اس لعین سے لے گا اور اگر غلبہ حاصل نہ ہوا تو دس اونٹ اس کو دے گا۔ جب رسول اللہ کے صحابہ کو اس شرط کا علم ہوا تو انھوں نے کہا کہ کلمہ بضع میں ابہام ہے کیونکہ عرف عرب میں یہ تین یا نو عدد میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس کلمہ کا تعین اور کم از کم مدت مناسب نہیں تھی، کیونکہ ممکن ہے کہ رومیوں کو نو سال کا عرصہ گزرنے سے پہلے غلبہ حاصل نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ اس مدت کو نبی کریم کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے فرمایا جاؤ، اونٹوں کی تعداد بڑھا دو اور اسی طرح مدت میں بھی اضافہ کر دو۔ چنانچہ ابو بکر اس کے پاس گئے اور کہا سالوں کو بھی زیادہ کرتا ہوں اور مال کو بھی، نو سال کی مدت اور سو اونٹوں مقرر ہوئے اور طرفین اس پر راضی ہوئے۔ اس وقت شرط باندھنا حرام نہیں ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس خوف سے کہ ابو بکر شہر سے چلے نہ جائیں عبد الرحمن بن ابی بکر کو ضامن مقرر کیا اور جب ابی بن خلف جنگ احد میں شریک ہونے کے لیے گیا تو عبد الرحمن نے کہا ضامن دو، اس نے ضامن دے دیا۔ جنگ احد میں ابی بن خلف حضور نبی کریم کے ہاتھوں مارا گیا۔ صلح حدیبیہ یا غزوہ خیبر کے روز رومیوں کے فارسیوں پر فتح مند ہونے کی خبر پہنچی۔ عبد الرحمن نے ابی بن خلف کے ضامن سے اونٹ لیے اور رسول اللہ کی خدمت میں لایا۔ نبی کریم نے اسے تصرف میں لانے کا حکم دیا۔[36]

عائشہ صدیقہ کا نکاح اور رخصتی

خدیجہ بنت خویلد ا کی وفات کی وجہ سے نبی کریم پریشان رہنے لگے خویلہ بنت حکیم بن عثمان بن مظعون اس حالت کو دیکھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی خدیجہ دنیا سے رحلت فرما گئیں، گھر کا انتظام بغیر موافق ساتھی کے جو غمگین دل کی تسکین اور گھریلو مہمات کی کفالت کر سکے، حاصل نہیں ہوتا، اب اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کے لیے کسی شریف عورت کا رشتہ طلب کریں۔آپ نے فرمایا خویلہ! عورتوں میں سے وہ کون سی عورت ہے جو اس کام کی لیاقت اور ہمارے ساتھ مناسبت رکھتی ہوں؟

خویلہ نے کہا اگر دوشیزہ پسند کریں تو وہ بھی ہے اور اگر ثیب چاہیں تو وہ بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: کون ہے؟خویلہ نے کہا: دوشیزہ عائشہ آپ کے دوست ابو بکر کی بیٹی اور ثیب سودہ بنت زمعہ جو آپ پر ایمان لا چکی ہیں۔حضور نبی کریم نے فرمایا: دونوں کا رشتہ میرے لیے مانگ۔ خویلہ پہلے ابو بکر کے گھر آئیں اور نبی کریم کی طرف سے عائشہ کی خواستگاری کی۔ابو بکر کو شبہ ہوا کہ میں نے نبی کریم سے عقد اخوت باندھا ہے۔ کیا بھائی کی لڑکی کی بھائی سے شادی کی جا سکتی ہے؟خویلہ نبی کریم کی خدمت میں آئیں اور مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا: واپس جا کر انھیں کہو کہ میرے اور آپ کے درمیان میں اخوت اسلامی ہے، نسبی اور رضاعی نہیں جو تمھاری بیٹی کی حرمت کا موجب ہو۔خویلہ نے ابو بکر کے پاس آ کر اطلاع دی اور مطمئن کیا۔ ابو بکر صدیق کے دل کو پھر ایک اور اندیشہ نے آ پکڑا کہ مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کے لیے عائشہ کا رشتہ مانگا ہوا ہے اور انھوں نے قبول کر لیا ہے، اس کے ساتھ وعدہ تھا اور ابو بکر نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی تھی۔ اس وجہ سے خویلہ کو کہا تو اسی جگہ ٹھہر اور خود مطعم کے گھر گئے۔ مطعم کی بیوی نے جب ابو بکر کو دور سے دیکھا کہا: اے ابو بکر! کیا تو اس بات کی امید رکھتا ہے کہ ہمارے لڑکے کو ہمارے دین سے پھیر دے گا اور اسے مسلمان کر لے گا، اسے اپنی لڑکی دے گا یہ نہیں ہو سکتا۔ ابو بکر نے معطم سے پوچھا کیا تو بھی اسی طرح کہتا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ ابو بکر نے اسے غنیمت جانا اور وہاں سے گھر آئیں اور خویلہ سے کہا: پیغمبر سے کہو کہ وہ تشریف لے آئیں۔خویلہ آئیں اور ابو بکر کی طرف سے نبی کریم کو بلایا۔آپ تشریف لے آئے اور عائشہ سے نکاح کیا۔ اس وقت عائشہ کی عمر مبارک چھ سال تھی اور آپ کی رخصتی سن ہجری کے پہلے سال ہوئی۔بعث کے دسویں سال ماہ شوال میں نبی کریم اور عائشہ صدیقہ کا عقد نکاح منعقد ہوا۔[37]

رخصتی

مشہور روایت کے مطابق عائشہ کی رخصتی ماہ شوال 1ھ چار شنبہ کے روز ہوئی۔ نبی پاک ﷺ ابو بکر صدیق کے گھر تشریف لائے۔ انصار کے مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ اس وقت عائشہ کی عمر نو سال تھی۔ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ان دنوں ہم محلہ شیخ بنی الحارث میں رہتے تھے۔ ایک روز آن تشریف لائے تو میں سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ میری والدہ نے آ کر میرے بالوں میں کنگی کی، منہ دھویا اور مجھے کھینچتے ہوئے اس مکان کے دروازہ تک لے گئی جہاں سید عالم تشریف فرما تھے۔ چونکہ میں نے والدہ کے ہاتھ میں بے چینی کا اظہار کیا تھا میرا سانس پھول گیا۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد مجھے سید عالم کی خدمت میں لے گئی۔ آن کو میں نے اس تخت پر جو ہمارے گھر میں تھا بادشاہ کی مانند تشریف فرما دیکھا، مجھے لے جا کر آپ کی گود میں بیٹھا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ حق تعالی آپ کے لیے اس پر اور اس کے لیے آپ پر برکت نازل فرمائے، ہمارے پاس دعوت ولیمہ کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ اونٹ یا بھیڑ بکری ذبح کی، ہماری عروسی کا طعام دودھ کا ایک پیالہ تھا جو سعد بن عبادہ کے گھر سے بھیجا گیا تھا، عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ جو موجود تھیں اس دودھ میں سے ہم نے پیا، پھر حاضرین نے مبارک دی اور باہر چلے گئے اور مبارک وقت میں ام المومنین عائشہ صدیقہ کا نبی کریم ﷺ سے زخاف ہوا۔ اس خاص حجرہ میں جو مسجد کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا قیام کیا اور اس جگہ آپ ﷺ نے ظاہری وصال فرمایا۔[38]

ام جمیل کو محمد نظر نہ آئے

جب سورہ لہب نازل ہوئی جس میں ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جب ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے سنا کہ اس کے خاوند اور اس کے متعلق آسمان سے سورت اتری ہے تو غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی۔ ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی۔ اس وقت حضور اکرم نماز میں تلاوت قرآن فرما رہے تھے اور قریب ہی ابو بکر صدیق بیٹھے ہوئے تھے۔ ام جمیل بڑبڑاتی ہوئی آئی اور نبی اکرم کے پاس سے گزرتی ہوئی ابو بکر صدیق کے پاس آئی اور مارے غصہ کے منہ میں جھاگ بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمھارے رسول کہاں ہیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے میری اور میرے شوہر کی ہجو کی ہے۔ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میرے رسول شاعر نہیں ہے کہ کسی کی ہجو کریں۔ پھر وہ غیظ و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم میں چکر لگاتی رہی اور بکتی جھکتی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈھونڈتی رہی۔ مگر جب وہ حضور اقدس کو نہ دیکھ سکی تو بڑبڑاتی ہوئی حرم سے جانے لگی اور ابو بکر سے کہنے لگی کہ میں تمھارے رسول کا سر کچلنے کے لیے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ مجھے نہیں ملے۔ ابو بکر صدیق نے نبی کریم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا میرے پاس سے وہ کئی بار گذری مگر میرے اور اس کے درمیان میں ایک فرشتہ حائل ہو گیا کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی۔ اس واقعہ کے متعلق سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 45 نازل ہوئی ترجمہ:

اور اے محبوب تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا۔

[39]

کفار کی مزید ایذایت رسانیاں

جناب ابو طالب اور خدیجہ بنت خویلد ہمیشہ نبی کریم کے پشتیبان رہے۔ ان کی وفات کے بعد مشرکین قریش کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ آپ پر ظلم کرنے میں بہت دلیر ہو گئے۔ اسی سال حضور تبلیغ حق کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ اہل طائف آپ کے ساتھ نہایت بد سلوکی سے پیش آئے جس کے نتیجے میں آپ بہت زخمی ہو گئے۔ وہاں سے مکہ واپس آ کر آپ نے معمول کے مطابق نہایت تندہی سے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ مشرکین نے کئی بار نبی کریم پر دست تعدی دراز کیا اور آپ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ارباب سیر نے اس قسم کے چند واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں ابو بکر صدیق نبی کریم کے آڑے آئے اور خود مار کھائی لیکن حضور کو چشم زخم نہیں پہنچنے دیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دن رسول اکرم کعبہ میں مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا اور اس نے آپ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر بل دینا شروع کر دیا تا کہ گلہ گھونٹ کر آپ کو شہید کر ڈالے۔ اتنے میں ابو بکر صدیق آ پہنچے انھوں نے دھکا دے کر عقبہ کو پیچھے ہٹا دیا اور قرآن کی آیت پڑھی ترجمہ:

کیا تم ایک آدمی کو محض اس بناء پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے حالانکہ وہ تمہارے پاس اس دعوٰی پر تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔

بخاری

مشرکین حضور کو چھوڑ کر ابو بکر پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔

مسند نبرار میں علی المرتضی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے رسول اکرم کو گھیر لیا۔ وہ آپ کو گھیسٹتے اور دھکے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم ہی وہ شخص ہو جو صرف ایک معبود کی پرستش کا حکم دیتے ہو۔ علی فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو مشرکین کے مقابلہ کی ہمت نہ پڑی لیکن ابو بکر صدیق (مردانہ وار) آگے بڑھے، مشرکین کو مارتے پیٹتے گراتے اور ہٹاتے رسول اللہ تک جا پہنچے اور آپ کو ان ظالموں کے نرغے سے نکال لیا، اس وقت بھی آپ کی زبان پر یہ آیت تھی ترجمہ:

کیا تم ایک آدمی کو محض اس بناء پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے حالانکہ وہ تمہارے پاس اس دعوٰی پر تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔

اب مشرکوں نے ابو بکر صدیق کو پکڑ لیا اور آپ کے سر اور داڑھی کے بہت سے بال نوچ ڈالے اور بری طرح مجروح کر دیا۔

ابن ہشام اور ابن جریر طبری نے عبد اللہ بن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد حرام میں قدم رکھا تو مشرکین قریش نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے:

تم ہی ہمارے بتوں کی عیب گیری کرتے ہو اور ہمارے مذہب کو برا کہتے ہو۔

آپ نے فرمایا: ہاں میں ہی کہتا ہوں۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ کی روائے مبارک کو گریبان کے پاس سے مٹھی میں لے لیا۔ یہ دیکھ کر ابو بکر صدیق روتے ہوئے آگے بڑھے اور آپ کو کفار کے پنجۂ ستم سے چھڑایا، اس وقت بھی ابو بکر کی زبان پر یہی آیت تھی ترجمہ:

کیا تم ایک آدمی کو محض اس بناء پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔

[40]

رسول اکرم ﷺ کے تبلیغی دورے

دعوت عام کے بعد سرور عالم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ہر سال عکاظ (میلہ)، مجنہ اور ذوالمجار کے میلوں میں اور حج کے موقع پر منی تشریف لے جاتے تھے جہاں عرب کے گوشے گوشے سے لوگ آ کر جمع ہوتے تھے آپ ہر قبیلے کے پڑاؤ میں جا کر اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ ہجرت مدینہ تک آپ کا یہی معمول رہا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ ابو بکر صدیق کو کئی بار ان تبلیغی دوروں میں نبی کریم کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔ امام حاکم اور امام بیہقی نے ایسے ہی ایک دورے کا حال اس طرح بیان کیا ہے۔ دسویں نبوی میں حج کے موسم میں رسول اکرم اور ابو بکر صدیق قبائل کو دعوت دیتے ہوئے ایک مجلس میں پہنچے جہاں چند ذی وجاہت اشخاص مصروف گفتگو تھے۔ ابو بکر صدیق نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا: "اے بیت اللہ کے مہمانو! تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟" جوب ملا: "ہم شیبان بن ثعلبہ میں سے ہیں۔" جواب دینے والا ایک قد آور وجیہ آدمی تھا اس کے سر پر سیاہ زلفیں تھیں جو دو حصوں میں منقسم اس کے سینے پر لہرا رہی تھیں۔ ابو بکر کو معاً کچھ یاد آگیا۔ انھوں نے اس شخص سے پوچھا: "اگر میں غلطی نہیں کرتا تو تم مفروق بن عمرو ہو۔" اس نے کہا: "تم نے خوب پہچانا بھائی، میں مفروق بن عمرو ہی ہوں اور یہ میرے ساتھ ہانی بن قبیصہ، نعمان بن شریک اور مثنی بن حارث ہیں۔" ابو بکر تمام قبیلوں کے انساب سے واقف تھے مفروق کا جواب سن کے حضور سے عرض کی: "یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ لوگ اپنے قبیلے کا خاصہ ہیں اور ان سے بڑھ کر معزز ان کی قوم میں نہیں۔ آپ اگر اجازت دے تو میں ان سے مفصل گفتگو کروں۔" حضور نے فرمایا: "ضرور۔" اب ابو بکر پھر مفروق کی طرف متوجہ ہوئے، وہ نہایت فصیح البیان شخص تھا جواب دینے کے لیے سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ابو بکر: تمھارے قبیلے میں کتنے لوگ ہیں؟ مگروق: ہم لوگ ایک ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور ظاہر ہے یہ کوئی کم تعداد نہیں۔ ابو بکر: تم لوگ اپنی حفاظت کیسے کرتے ہو؟ مفروق: ہم لوگ اپنی حفاظت کے لیے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن ہر قوم کا مقدر بہر حال اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابو بکر: تم اپنے دشمنوں سے کیسے لڑتے ہو؟ مفروق: جب ہم جنگ پر آ جاتے ہیں تو کچھ نہ پوچھ کہ ہمارے غیظ و غضب کا کیا عالم ہوتا ہے۔ اس وقت ہم جس طرح دشمن سے نبزآزما ہوتے ہیں یہ بھی بس ہم جانتے ہیں۔ ہم گھوڑوں کو اولاد سے بڑھ کر سمجھتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں کو دودھ دینے والی اونٹنیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ تا ہم فتح و شکست تو بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی ہار بھی جاتے ہیں۔ اس کے بعد مفروق نے ابو بکر سے کہا: شاید آپ لوگ قریش میں سے ہیں۔ ابو بکر: ہاں بھائی تمھارا قیافہ درست ہے، تم نے سنا ہوگا کہ ہم میں اللہ کے رسول مبعوث ہوئے ہیں وہ (حضور اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ ہی ہیں۔ مفروق: ہاں ہم نے ان کے بارے میں سنا ہے۔ پھر وہ حضور سے مخاطب ہو کر کہا: اے قریشی بھائی! آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ نبی کریم آگے بڑھ کر بیٹھ گئے اور ابو بکر صدیق آپ پر اپنے کپڑے کا سایہ کر کے قریب کھڑے ہو گئے۔ نبی کریم نے فرمایا: میں تمھیں دعوت دیتا ہوں کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے مددگار بنو اور میری حفاظت کرو تا کہ میں لوگوں تک اللہ کے احکام بلا روک ٹوک پہنچا سکوں۔ قریش نے اللہ کے کام کو روکنے کے لیے ایکا کر لیا ہے۔ اللہ کے رسول کو جھٹلایا ہے باطل پر اڑ گئے ہیں اور اللہ بے شک تمام باتوں سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔ مفروق: آپ اور کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ اس کے جواب میں نبی کریم نے قرآن حکیم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی جن کو سنتے ہی مفروق بے اختیار پکار اٹھا: اے قریشی بھائی خدا کی قسم آپ کی دعوت سراسر بھلائی ہے اس قوم نے جھوٹ بولا اور زیادتی کی جس نے آپ کو جھٹلایا۔ ہانی بن قبیصہ اور مثنی بن حارث نے بھی مفروق کی تائید کی لیکن دعوت توحید مکمل طور قبول کرنے میں اس بنا پر معذرت کی کہ ہم لوگ فارس کے پڑوس میں آباد ہیں، ہو سکتا ہے کہ کسری کو ہمارا قبول اسلام نا گوار گذرے اور وہ ہمیں کچل ڈالے۔ اس کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہاں عرب کے قرب و جوار کے حاکموں کے مقابلے پر ہم آپ کی اعانت کرسکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا: شیبانی بھائیو! تمھارے جواب میں کوئی برائی نہیں لیکن کسری اور اسلام کی اطاعت بیک وقت ممکن نہیں۔ اللہ کے دین کو لے کر وہی کھڑا ہو سکتا ہے جو چاروں طرف سے اس کی محافظت پر کمر بستہ ہو جزوی اعانت اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ فرما کر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر آگے روانہ ہو گئے۔[41]

واقعۂ معراج کی تصدیق

ام ہانی بنت ابی طالب سے روایت ہے کہ فرمایا: نبی کریم کو معراج میرے گھر میں ہوا، رات وہاں آرام فرمایا، صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: اے ام ہانی! آج رات مجھے بیت المقدس لے گئے، وہاں سے آسمانوں پر پہنچایا گیا، صبح سے پہلے واپس لے آئے۔ ام ہانی فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میری درخواست ہے کہ اس عجیب بات کو منکروں کے سامنے پیش نہ فرمائیں، وہ یقین نہیں کریں گے اور آپ کو جھوٹا کہیں گے۔ نبی کریم نے فرمایا: خدا کی قسم! میں اس قصہ کو کسی سے پوشیدہ نہیں رکھو گا۔ دوسرے ہی دن جب صبح ہوئی اور سورج افق سے طلوع ہوا۔ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم مسجد حرام تشریف لائے اور حجرہ میں غمگین و خستہ خاطر بیٹھ گئے کیونکہ قریش کی تکذیب اور کم ظرفوں کے استہزاء کا خدشہ تھا، اسی خیال میں تھے کہ ابو جہل لعین آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور آپ سے استہزاء کے طور پر کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوئی نئی چیز ظاہر ہوئی ہے اور عجیب و غریب معانی سے کوئی حقیقت حاصل ہوئی؟ نبی کریم نے فرمایا: ہاں، آج میں نے ایک ایسا سفر کیا ہے جو کسی نے نہیں کیا اور ایسی خبر لایا ہوں کہ آج تک کوئی نہیں لایا۔ اس نے کہا کہاں تک کا سفر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں کے طبقات تک گیا۔ اس نے کہا آج رات گئے اور صبح مکہ میں تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ وہ کہنے لگا ایسی بات کو قوم کے سامنے بیان کریں گے؟ نبی کریم نے فرمایا ہاں۔ ابو جہل چیخ اٹھا اے گروہ بنی کعب اور اے بنی لوی!، لوگ ارد گرد جمع ہو گئے۔ ابو جہل نے کہا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جو کچھ مجھ سے کہا ہے ان لوگوں کے سامنے بھی بیان کیجئے۔ نبی کریم نے فرمایا رات مجھے بیت المقدس لے گئے، پھر وہاں سے آسمانوں پر لے گئے۔ حاضرین حیران رہ گئے اور دست تاسف ملنے گئے، بعض اس کام میں لغو کرنے لگے کیونکہ ان کی ناقص عقلوں میں یہ بات ناممکنات میں سے تھی۔ انھوں نے اسے اس قدر بعید از عقل سمجھا کہ کمزور ایمان مسلمانوں کی ایک جماعت مرتد ہو گئی۔ والعیاذ باللہ من ذلک، ابو جہل منافقین کی ایک جماعت کے ساتھ ابو بکر صدیق کے پاس آیا اور کہا: آپ اپنے ساتھی کے پاس چ لیے تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ابو بکر نے پوچھا: آپ کیا فرماتے ہیں؟ ابو جہل نے کہا کہتے ہیں رات مجھے بیت المقدس میں لے گئے حالانکہ رات وہ قوم میں تھے۔ ابو بکر نے پوچھا کیا یہ بات آپ نے فرمائی ہے؟ ابو جہل نے کہا ہاں۔ ابو بکر نے فرمایا: کوئی تعجب کی بات نہیں، میں آپ کی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں، اگر آپ فرمائیں کہ میں ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل گیا اور واپس آ گیا تو بھی میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔ ابو جہل نے کہا: میں نے کسی ساتھی کو اپنے ساتھی کی اس طرح تصدیق کرنے والا نہیں دیکھا جیسا آپ ہیں، وہ خود بھی یہی دعوی کرتے ہیں۔ ابو بکر صدیق نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے رات آسمانوں پر لے جایا گیا ہے، آپ نے فرمایا ہے یا نہیں؟ نبی کریم نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا ہے۔ ابو بکر نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر عرض کی یا رسول اللہ! کیسے ہوا؟ آپ نے شروع سے آخر تک بیان فرمایا۔ ابو بکر صدیق آپ کی ہر بات ختم کرنے پر کہتے آپ نے سچ فرمایا۔ پھر نبی کریم نے فرمایا: اے ابو بکر! تم میری ہر بات کی تصدیق کرتے ہو۔ ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ! کیسے تصدیق نہ کروں؟ وہ خدا جس نے جبرائیل کو ہزار مرتبہ نیچے اتارا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی زمین سے آسمانوں پر لے جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ثابت اور مقرر ہو گیا کہ سب سے پہلے جس شخص نے نبی کریم کے معراج کی تصدیق کی ابو بکر صدیق تھے۔ کہتے ہیں کہ اس روز آپ صدیق کے لقب سے ملقب ہوتے، آیت آتی

والذی جاء بالصدق و صدق بہ

اور سب سے پہلے جس شخص نے جھٹلایا اور نبی کریم کی تکذیب کی ابو جہل تھا۔ اس کے متعلق آیت اتری

فمن اظلم ممن کذب علی اللہ و کذب بالصدق اذ جاؤ ہ

، پس جو شخص معراج کی تصدیق کرتا ہے وہ ابو بکر صدیق کا پیرو کار ہے اور جو شخص انکار کرتا ہے وہ ابو جہل کی اولاد ہے۔[42]

محمد کا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمانا

مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب تھا۔ جب محمد نے اس شہر میں سکونت اختیار کی تو اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑھ گیا۔ پھر یہ نام مختصر ہو کر مدینہ مشہور ہو گیا۔ جب نبی کریم نے ہجرت اس طرف فرمائی تو اس وقت یہاں دو قبائل بنو اوس و بنو خزرج اور کچھ یہودی آباد تھے۔ یہ شہر مکہ سے دو سو پچاس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔[43]

ہجرت کی اجازت

جب قریش پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ اہل مدینہ کے عہد و پیمان ظاہر ہو گئے تو انھوں نے ازسر نو مسلمانوں پر دست تعدی دراز کر دیا۔ سید عالم کے صحابہ کے لیے مکہ میں ٹھہرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہ گئی تو نبی کریم نے دوستوں سے فرمایا کہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جائیں، وہ یکے بعد دیگرے ہجرت کرنے لگے، جس نے سب سے پہلے بادینہ ہجرت میں قدم رکھا ایک روایت کے مطابق مصعب بن عمیر اور ایک دوسرے قول کے مطابق ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد المخزومی تھے۔[44] ابو بکر صدیق نے مکہ سے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلا جائے آپ نے نبی کریم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا: اے ابا بکر! صبر کیجئے۔ امید ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی۔ ابو بکر نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا آپ اس کے امید وار ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ [45] ابو بکر نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے ہمراہی کا شرف نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا ہاں ساتھ چلو۔ اس بشارت کے بعد ارادہ ملتوی کر دیا اور چار ماہ تک منتظر رہے۔[46] اپ نے دو اونٹ خریدے ایک نبی کریم کی خاطر چار سو درہم میں اور واقدی کی ایک روایت کے مطابق آٹھ سو درہم میں اور ایک اپنے لیے خریدا۔ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے اور چارہ کھلاتے رہے تا کہ خوب موٹے تازے ہو جائیں۔ [45]

ابو بکر صدیق کا خواب

اسی زمانے میں ابو بکر صدیق نے ایک خواب دیکھا کہ چاند آسمان سے نیچے اتر کر بطحا مکہ اور شہر مکہ میں وارد ہوا اور مکہ کا تمام صحر اس نور سے منور ہو گیا ہے، پھر اس چاند نے آسمان کا رخ کیا اور اپنی جگہ پر جا کر ٹھہر گیا اور اپنے نور و ضیا سے تمام روئے زمین کو روشن و منور کر دیا۔ بہت سے دوسرے ستاروں نے بھی اسی طرح حرکت کی، پھر وہ چاند ستاروں کے ہزاروں لاؤ لشکر کے ساتھ فضا میں آیا اور دوبارہ حرم کعبہ میں اترا۔ حرم اسی طرح روشن تھا لیکن تین سو ساٹھ گھر اور ایک روایت کے مطابق چار سو گھر تاریک رہے، جب وہ چاند حرم میں پہنچا اس کے اطراف و جوانب پھر روشن ہو گئے، پھر وہ چاند مدینہ کے اوپر چلا آیا حتی کہ عائشہ ا کے گھر میں قیام کیا، پھر زمین پھٹ گئی اور اس میں سمو گیا۔ جب ابو بکر خواب سے بیدار ہوئے تو رونے لگے کیونکہ آپ فن تعبیر رویاء میں مشہور و ممتاز تھے۔ آپ نے اس خواب کی تعبیر و تحویل کی نظر سے دیکھا تو آپ کو معلوم ہو گیا کہ وہ چاند نبی کریم کا آفتاب جمال ہے اور ستارے آپ کے عزیز و اقارب اور صحابہ کرام ہیں جو آپ کی موافقت میں ہجرت اور مسافرت اختیار فرمائیں گے اور مدینہ میں ہجرت کریں گے اور اس چاند کا مکہ کی طرف لوٹنا فتح کی دلیل ہے جو نبی کریم کو حاصل ہو گی اور اس چاند کا عائشہ کے گھر میں آنے سے یہ مراد ہے کہ عائشہ کو آپ کی زوجہ مطہرہ بننے کا شرف حاصل ہو گا اور زمین کے پھٹنے اور اس میں غائب ہونے سے یہ مراد ہے کہ آپ فوت ہوں گے اور عائشہ کے گھر میں دفن ہوں گے۔ ابو بکر صدیق کو اس سے دو غم ہوئے، ایک اپنے ملک و وطن سے ہجرت کا غم اور دوسرا سید عالم کی جدائی کا غم۔ آپ نے دل میں سوچا جب غربت درپیش ہے تو نبی کریم کی مصاحبت کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔[47]

کفار کی کانفرنس

جب کفار مکہ نے دیکھا کہ نبی کریم اور مسلمانوں کے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہو گئے ہے اور مدینہ جانے والے مسلمانوں کو انصار نے پناہ دی ہے تو ان کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی مدینہ چلے جائے اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج لے کر مکہ پر چڑھائی نہ کر دے۔ چنانچہ اس خطرہ کا دروازہ بند کرنے کے لیے کفار مکہ نے اپنے دارالندوہ (پنچائت گھر) میں ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کی۔ یہ مکہ کا ایسا زبردست نمائندہ اجتماع تھا کہ مکہ کا کوئی دانشور اور با اثر شخص نہ تھا جو اس میں شریک نہ ہوا ہو۔ خصوصیت کے ساتھ ابو سفیان، ابو جہل، عتبہ، جبیر بن مطعم، نضر بن حارث، ابو النجتری، زمعہ بن اسود، حکیم بن حزام، امیہ بن خلف وغیرہ تمام سرداران قریش اس میں شامل تھے۔ شیطان لعین بھی کمبل اوڑھے ایک بزرگ کی صورت میں آگیا۔ قریش کے سرداروں نے نام و نسب پوچھا تو بولا کہ میں شیخ نجد ہوں اس لیے کانفرنس میں آ گیا ہوں کہ میں تمھارے معاملے میں اپنی رائے پیش کر دوں۔ اس اجلاس میں مختلف تجاویز پیش کی گئی۔ ابوالنجتری نے کہا کہ ان کو کسی کوٹھری میں بند کر کے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دو اور ایک سوراخ میں ان کو کھانا پانی دے دیا کرو۔ شیخ نجدی نے کہا کہ یہ رائے اچھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کیا تو ان کے جانثاروں کو خبر ہو جائیں گی اور وہ اپنی جان پر کھیل کر ان کو قید سے نکال چھڑالیں گے۔ ابو الاسود ربیعہ بن عمرو عامری نے مشورہ دیا ان کو مکہ سے نکال دو تا کہ وہ کسی اور علاقے میں جا کر رہیں۔ اس طرح ہم کو ان کے قرآن اور تبلیغ اسلام سے نجات مل جائے گی۔ یہ سن کر شیخ نجدی بگڑ کر کہا تمھاری اس رائے پر لعنت کیا تم کو معلوم نہیں کہ ان کے کلام میں کتنی مٹھاس اور تاثیر و دل کشی ہے؟ خدا کی قسم اگر تم لوگ ان کو شہر بدر کر کے چھوڑ دو گے تو یہ پورے عرب میں لوگوں کو قرآن سنا سنا کر تمام قبائل عرب کو اپنا تابع فرمان بنا لیں گے اور پھر اپنے ساتھ ایک عظیم لشکر لے کر تم پر ایسی یلغار کر دیں گے کہ تم ان کے مقابلے سے عاجز و ناچار ہو جاؤ گے اور پھر بجز اس کے کہ تم ان کے غلام بن کر رہو کچھ بنائے نہ بنے گی اس لیے ان کو جلا وطن کرنے کی تو بات ہی مت کرو۔ ابو جہل بولا صاحبو! میرے ذہین میں ایک رائے ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی۔ یہ سن کر سب کے کان کھڑے ہو گئے اور سب نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہیے وہ کیا ہے؟ ابو جہل نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہر قبیلہ کا ایک مشہور بہادر تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور سب یکبارگی حملہ کر کے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کر ڈالیں۔ اس تدبیر سے خون کرنے کا جرم تمام قبائل کے سر پر رہے گا۔ ظاہر ہے کہ خاندان بنو ہاشم اس خون کا بدلہ لینے کے لیے تمام قبائل سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھ سکتے۔ لہذا یقیناً وہ خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم لوگ مل جل کر آسانی کے ساتھ خون بہا کی رقم ادا کر دیں گے۔ ابو جہل کی یہ خونی تجویز سن کر شیخ نجدی مارے خوشی کے اچھل پڑا اور کہا بے شک یہ تدبیر بالکل درست ہے۔ اس کے سوا کوئی اور تجویز قابل قبول نہیں۔ چنانچہ تمام شرکاء کانفرنس نے اتفاق رائے سے اس تبویز کو پاس کر دیا اور مجلس برخاست ہو گئی اور ہر شخص یہ خوفناک عزم لے کر اپنے اپنے گھر چلا گیا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو کچھ اس انداز میں بیان فرمایا

(اے محبوب یاد کیجیے) جس وقت کفار آپ کے بارے میں خفیہ تدبیر کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں یہ لوگ خفیہ تدبیر کر رہے تھے اور اللہ خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ کی پوشیدہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔

[48]

نبی کریم ﷺ صدیق کے گھر

جب کفار نبی کریم کے قتل پر اتفاق کر کے کانفرنس ختم کر چکے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو جبرائیل رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب! آج رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جائے۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور اقدس ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ ابو بکر نے عرض کیا کہ یاررسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ اور اس کی بہن کے سوا کوئی نہیں ہے۔ حضور نے فرمایا اے ابو بکر! اللہ تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔ ابو بکر نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائے۔ آپ نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ ابو بکر صدیق نے چار ماہ سے دو اونٹنیوں کو ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں کہ ہجرت کے وقت یہ سواری کے کام آئیں گی۔ عرض کی یا رسول اللہ! ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دو گا۔ ابو بکر نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت سے مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔ عائشہ بنت ابی بکر تو اس وقت کم عمر تھیں لیکن آپ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر نے سامان سفر درست کیا اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے توشہ دان کو باندھا اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا۔ یہی وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر آپ کو "ذات العطاقین" (دوپٹکے والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضور اقدس نے ایک کافر کو جس کا نام "عبد اللہ بن اریقط" تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہنمائی کے لیے اجرت پر نوکر رکھا اور ان دونوں اونٹنیوں کو سپرد کر کے فرمایا کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر "غار ثور" کے پاس آجائے۔[49] عامر بن فہیرہ کو بکریاں چرانے پر مقرر کیا کہ شام کے وقت ان کے پاس لایا کرے تاکہ وہ ان کا دودھ پیا کریں اور عبد اللہ بن ابی بکر کو جو تیز رفتار اور پہلوان تھا کفار کی جاسوسی کے لیے مقرر کیا تا کہ وہ دن کے وقت قریش میں رہے اور حالات معلوم کرے اور ان کی خبریں ان تک پہنچائے۔ ان مہمات سے فارغ ہونے کے بعد ابو بکر نے کچھ نقدی لی جس سے سفر میں ضرورت پوری ہو سکیں اور اسماء کہتی ہے کہ وہ پانچ ہزار درہم تھے۔[50]

کاشانہ نبوت کا محاصرہ

کفار نے اپنے پروگرام کے مطابق کاشانہ نبوت کو گھیر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ حضور ﷺ سو جائیں تو آپ پر قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ اس وقت گھر میں حضور کے پاس صرف علی بن ابی طالب تھے۔ کفار مکہ اگرچہ رحمت عالم کے بدترین دشمن تھے لیکن حضور کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو آپ کے پاس امانت رکھتے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی بہت سی امانتیں کاشانہ نبوت میں تھیں۔ حضور نے علی سے فرمایا کہ تم میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر میرے بسٹر پر سو رہو اور میرے چلے جانے کے بعد تم قریش کی امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر مدینہ چلے آنا۔ حضور نے بستر نبوت پر جان ولایت کو سلا کر ایک مٹھی خاک ہاتھ مبارک میں لی اور سورہ یٰسٓ کی ابتدائی آیتوں کو تلاوت فرماتے ہوئے نبوت خانہ سے باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے کافروں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے مجمع سے صاف نکل گئے۔ نہ کسی کو نظر آئے نہ کسی کو خبر ہوئی۔ ایک دوسرا شخص جو اس مجمع میں موجود نہیں تھا اس نے لوگوں کو خبر دی کہ محمد (ﷺ) تو یہاں سے نکل گئے اور چلتے وقت تمھارے سروں پر خاک ڈال گئے۔[51] کہتے ہیں جس شخص کے سر پر خاک پڑی وہ آگے جا کر غزوہ بدر میں جہنم رسید ہوا۔ جب انھوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو ان نامبارک سروں پر خاک پڑی ہوئی تھی۔ پھر انھوں نے ایک دراڑ میں سے اندر جانکا تو کسی کو سوئے ہوا پایا، کہنے لگے وہ رہا محمد (ﷺ)! اپنی جگہ سویا ہوا ہے، انھیں گرفتار کرنے کے لیے اندر داخل ہوئے، علی المرتضی اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب انھوں نے آپ کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ اس شخص نے ٹھیک کہا، انھوں نے علی سے سوال کیا، علی! محمد (ﷺ) کہاں ہیں۔ علی نے کہا مجھے ان کی نگرانی پر مقرر نہیں کیا گیا تھا، مجھے کیا خبر کہ وہ کہاں ہیں۔ مشرکین حیران و پریشان اور شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ کچھ دیر آپ کو قید رکھا آخر کار آپ کو ابو لہب کے کہنے پر چھوڑ دیا گیا۔[52]

ہجرت رسول ﷺ اور صدیق کی خدمات

رحمت عالم ﷺ اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام "حزورہ" کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پزیر نہ ہوتا۔[53] بائیس ماہ صفر دو شنبہ کی رات آپ اور ابو بکر صدیق غار ثور کی طرف چل دیے۔ آن ایڑیوں کے بل گئے تاکہ راستہ میں قدموں کے نشانات نہ پڑیں۔ ابو بکر کبھی آپ کے آگے چلتے کبھی پیچھے کبھی دائیں کبھی بائیں۔ حضور اکرم نے دریافت فرمایا: اے صدیق! تم کبھی آگے، کبھی پیچھے، کبھی دائیں اور کبھی بائیں کیوں چلتے ہو۔ عرض کی یارسول اللہ! گھاٹ لگانے والے سے ڈرتا ہوں تو آگے آگے چلتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کوئی دشمن ہماری تلاش میں نہ آ رہا ہو پیچھے ہو جاتا ہوں، کبھی پہلو میں گھاٹ لگائے ہوئے سے ڈرتا ہوں تو دائیں بائیں یا آگے چلتا ہوں تا کہ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو مجھے پینچے۔ جب پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو چونکہ نبی کریم کی نعلین مبارک تنگ تھیں۔ آپ کے پائے مبارک زخمی ہو گئے، ان سے خون ٹپکنے لگا، صدیق اکبر نے جب دیکھا کہ آن کے پائے مبارک مجروح ہو گئے ہیں تو آن کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ نبی کریم ﷺ کو جب غار کے منہ پر لے آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ آپ یہاں تھوڑی دیر آرام فرمائیے، تا کہ میں پہلے غار میں جا کر اس کی دیکھ بھال کر لوں، اندھیری رات اور غار حشرات الارض سے خالی نہیں ہوا کرتا، یہ کہہ کر ابو بکر غار میں داخل ہو گئے۔ آپ نے دیکھا کہ غار بہت ہی خستہ حال و خراب ہے، عرصہ بعید سے کوئی شخص اس میں داخل نہیں ہوا تھا اور زمانہ دراز سے اس نے کسی مہمان کا منہ نہیں دیکھا، ابو بکر نے اس کپڑے کو جو خود پہنے ہوئے تھے ٹکڑے ٹکڑے کیا، اپنے دست مبارک سے تاریکی میں ایک ایک سوراخ کو تلاش کر کے ان ٹکڑوں سے اچھی طرح بند کیا۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ ابو بکر کا وہ جامہ برد صابری بہت بیش قیمت تھا۔ آپ نے تمام سوراخوں کو اچھی طرح بند کیا لیکن ایک سوراخ کے لیے کوئی کپڑا نہیں بچا تو آپ نے اپنے پاؤں کی ایڑی کو اس جگہ رکھ دیا۔[54]

سید عالم ﷺ غار ثور میں

جب صدیق اکبر نے تمام غار کو اچھی طرح صاف کر لیا تو سید عالم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اندر تشریف لے آئیں۔ چنانچہ آپ غار میں تشریف لے گئے۔ حق سبحانہ تعالی نے فی الفور غار کے منہ پر جھاڑیاں اگا دی، عنکبوت نے غار کے منہ پر پردہ کر دیا، جنگلی کبوتروں کے ایک جوڑے نے حکم خداوندی سے غار میں گھونسلا بنایا اور اسی رات انڈا دے دیا۔ یہ تمام پردہ داری کے انتظامات آن ﷺ کی خاطر تھے تا کہ آپ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ جب نبی کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے تو ابو بکر صدیق کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ ابو بکر نے جس سوراخ پر ایڑی رکھی ہوئی تھی اس سوراخ میں سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا مگر صدیق نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمت عالم ﷺ کے خواب راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر نثار ہو گئے۔ جس سے رحمت عالم بیدار ہو گئے اور اپنے یار غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابو بکر کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً سارا درد جاتا رہا۔[55]

کفار مکہ غار کے دہانے پر

اسماء بنت ابو بکر فرماتی ہیں کہ جب آن ﷺ اور میرے والد مکہ سے باہر نکل گئے تو چونکہ کفار ابو بکر کی حضور کے ساتھ دوستی کو جانتے تھے۔ دوسرے روز قریش کی ایک جماعت ہمارے گھر آئی اور ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، میں باہر آئی مشرکین نے مجھ سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے، میں نے کہا مجھے معلوم نہیں، ان میں سے ابو جہل نے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ میرے کان سے گوشوارہ گر پڑا، پھر ابو جہل نے ہر جگہ اعلان کر دیا کہ جو شخص ابو بکر اور محمد (ﷺ) کو جو بھاگ گئے ہیں پکڑ لائے گا میں اسے سو اونٹ انعام دونگا۔ اس طرح جو شخص ہمیں ان کے پاس پہنچا دے گا اسے بھی سو اونٹ دوں گا۔ جوانان قریش نے جب یہ اعلان سنا تو مال و دولت کے لالچ میں آکر مسلح ہوئے اور پہاڑوں اور گزرگاہوں کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک کھوجی کو جو ابو کذر کے نام ساتھ منسوب تھا، پاؤں کے نشانات معلوم کرنے کے لیے کے ساتھ لے لیا۔ ابو کذر ان کے پاؤں کے نشانات کو غار ثور تک لے گیا اور کہا کہ تمھارا مطلوب اس جگہ سے آگے نہیں گیا، نامعلوم اس جگہ سے آسمان کو اٹھ گئے یا زمین کھا گئی اور ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اس نے کہا تمھارا مطلوب اس غار میں ہے۔ مشرکین نے جب کبوتر کا انڈا اور تار عنکبوت (مکڑی) غار کے دھانے پر دیکھا تو کھوجی کو کہا تیری عقل جاتی رہی ہے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیدائش سے پہلے عنکبوت نے یہاں جالا تنا ہو گا۔ نقل ہے کہ مشرکین اس قدر نزدیک پہنچ گئے تھے کہ آن اور ان کے درمیان میں چالیس گز سے زیادہ نہیں تھا۔ ابو بکر نے ان کی باتیں سنیں تو غمگین ہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آن نے پوچھا: ابو بکر! رونے کا کیا سبب ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ کی ذات اقدس کو تکلیف پہنچنے سے ڈرتا ہوں کہ دین اسلام نہ مٹ جائے۔ سید عالم نے فرمایا اے میرے پیارے دوست "اور مت گھبراؤ! خدا ہمارے ساتھ ہے۔" ابو بکر نے عرض کی یارسول اللہ اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپ نے فرمایا ابو بکر! ان دو شخصوں کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا خدا تعالی ہے۔ ابو بکر صدیق نے آنسو پونچھ ڈالے اور اپنے آپ کو قدرت کردگار کے حوالے کر دیا۔ جب کھوجی کفار کو بتا رہا تھا کہ تمھارا مطلوب اس غار میں ہے اور اس سلسلے میں اصرار کرتا تھا، اس وقت مشرکین کی ایک جماعت غار کے پاس سے گذر رہی تھی کبوتر اپنے گھونسلے سے اڑا۔ جب انھوں نے مکڑی کا جالا دیکھا اور کبوتری کا انڈا دیکھا کہنے لگے اس غار میں کوئی داخل ہوتا تو لازمی یہ انڈا ٹوٹ جاتا اور مکڑی کا جالا پھٹ جاتا۔ جب نبی کریم نے یہ بات سنی تو سمجھ گئے کہ خدا نے مکڑی کے جالے کے ذریعے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور بیضہ کبوتر کے ذریعے اپنی حمایت میں لے لیا ہے۔ نبی کریم نے ان کے حق میں دعا خیر فرمائی کہتے ہیں کہ حرم مکہ میں جس قدر بھی کبوتر ہیں وہ اسی کبوتر کی نسل سے ہیں۔ جس کے متعلق آپ نے دعائے خیر فرمائی تھی اور اتنا سا عمل کرنے کی بدولت پکڑے جانے، ذبح کیے جانے اور لوگوں کے شکار کرنے سے قیامت تک محفوظ ہو گئے۔ غار ثور میں نبی کریم اور ابو بکر صدیق نے تین دن رات قیام فرمایا۔ ہر رات عبد اللہ بن ابی بکر آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک ایک بات اور کام گوش گزار کرتا، اس طرح آپ لوگ کفار کے مکر و فریب سے سے با خبر رہے۔ عامر بن فہیرہ جو ابو بکر کا آزاد کردہ غلام تھا بکریاں چراتا تھا جب رات کا کچھ حصہ گذر جاتا تو بکریاں غار کے دہانہ پر لے آتا۔ نبی کریم اور ابو بکر دودھ پر رات گزارتے اور اسی طرح تین راتیں گذر گئیں۔ پھر آن ﷺ نے مدینہ منورہ کا عزم فرمایا۔[56]

محمد ﷺ کا مدینہ منورہ کی طرف سفر

چوتھے دن رسول اکرم ﷺ یکم ربیع الاول دو شنبہ کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبد اللہ بن اریقط جس کو راہنمائی کے لیے کرایہ پر آپ نے نوکر رکھ لیا تھا وہ قرارداد کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھے۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے دوسری پر ابو بکر صدیق اور عامر بن فہیرہ بیٹھے اور عبد اللہ بن اریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔[57]

ام معبد کی بکری

دوسرے روز مقام قدید میں ام معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کے مکان پر آپ لوگوں کا گذر ہوا۔ ام معبد ایک ضعیفہ عورت تھی جو اپنے خیمہ کے باہر بیٹھی رہا کرتی تھی اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ نبی کریم نے اس سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا مگر اس کے پاس کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے خیمہ کے ایک جانب ایک بہت لاغر بکری کھڑی ہے۔ دریافت فرمایا کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ ام معبد نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ ام معبد نے اجازت دے دی اور آپ نے "بسم اللہ" پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے اور ام معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ یہ معجزہ دیکھ کر ام معبد اور اس کے خاوند دونوں مسلمان ہو گئے۔ روایت ہے کہ ام معبد کی یہ بکری 18 ہجری تک زندہ رہی اور برابر دودھ دیتی رہی اور عمر فاروق کے دور خلافت میں جب "عام الرماد" کا سخت قحط پڑا کہ تمام جانوروں کے نتھنوں کا دودھ خشک ہو گیا اس وقت بھی بکری صبح و شام برابر دودھ دیتی رہی۔[58]

سراقہ کا گھوڑا

جب اُم معبد کے گھر سے حضور اکرم ﷺ آگے روانہ ہوئے تو مکہ کا ایک مشہور شہسوار سراقہ بن مالک بن جعثم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیاـ[59] سید عالم ﷺ غدیر سے آگے بڑھ چکے تھے اور خدا کے بھروسے اور اطمینان سے مدینہ کا راستہ طے کر رہے تھے۔ خواجہ عالم قرآن مجید کی تلاوت فرمائے جا رہے تھے جب سراقہ دور سے تعاقب کرتا نظر آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک پہنچا اس کا گھوڑا سر کے بل گرا اور وہ زمین پر گر پڑا، وہ پھر اٹھا اور سو اونٹوں کے لالچ نے اسے اس بات پر ابھارا کہ وہ پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور آپﷺ کے ارادے سے چل پڑا اور وہ اس قدر نزدیک پہنچ گیا کہ جو نبی پاک قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے اس کی آواز اسے سنائی دینے لگی۔ ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہمارے پکڑے جانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی اور رونے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے ابو بکرؓ روتے کیوں ہو؟ ابو بکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کے لیے نہیں روتا، میں آپ کی ذات گرامی اور گمشدگی پر روتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا دشمن کا غم مت کیجئے کیونکہ دوست ہمارے ساتھ ہے۔ آپ نے دعا فرمائی اے اللہ اس دشمن کے شر کو جس طرح تو چاہتا ہے دور فرما۔ حقیقت یہ تھی کہ آپ اور سراقہ کے درمیان میں ایک نیزہ یا دو نیزہ کا فرق رہ گیا تھا کہ فی الفور سراقہ کے گھوڑے کے چاروں دست و پا زانوؤں تک طویلہ کی میخ کی مانند زمین میں گڑ گئے۔ سراقہ چلا اٹھا اے محمد (ﷺ) میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کی دعا کا اثر ہے۔ اب دعا فرمائیے کہ میرا گھوڑا آزاد ہو جائے، مجھے آپ سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس چلا جاؤں گا اور جو شخص پیچھے آ رہا ہو گا اسے بھی واپس لے جاؤں گا۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور فی الفور گھوڑے کے پاؤں سے باہر نکل آئے۔ پھر سراقہ نے کہا اے محمد (ﷺ) میں اپنے نور بصیرت سے دیکھتا ہوں کہ تیری شمع نبوت کی شعاعیں تمام دنیا کو منور کریں گی۔ مجھے عہد نامہ عطا فرمائیے کہ جب آپ کی عزت و جلال کا جھنڈا ثریا کو چھونے لگے تو میں اس کے وسیلہ سے آپ کی بارگاہ جلال میں راہ پا سکوں۔ سید المرسلین نے پوچھا اے عامر کیا تیرے پاس قلم و دوات ہے؟ عرض کیا ہاں۔ عامر بن فہیرہ نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امان نامہ لکھا اور اسے دے دیا۔ جب سراقہ واپس لوٹا تو بہت سے متلاشی اس راستہ پر اس کے پیچھے آ رہے تھے، سراقہ جس کے پاس پہنچا اسے کہتا کہ میں بھی محمد (ﷺ) کی طلب میں اس راستہ میں آیا تھا مجھے ان کا کوئی نشان نہیں ملا اور لوگوں کو واپس کیے جاتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد جب آن غزوہ حنین سے لوٹے تو مقام جعرانہ میں آپ کی خدمت میں سراقہ حاضر ہوا اور اور امان نامہ پیش کیا اور آپ نے فرمایا آج نیکی اور وفا کا دن ہے، اسی جگہ دولت اسلام سے بہر مند ہو۔[60]

بریدہ اسلمی کا جھنڈا

جب حضور ﷺ مدینہ کے قریب پہنچے تو بریدہ بن حصیب اسلمی قبیلہ سہم کے ستر سواروں کو ساتھ لے کر اس لالچ میں آپ کی گرفتاری کے لیے آئے کہ قریش سے ایک سو اونٹ انعام میں مل جائے گا۔ مگر جب حضور ﷺ کے سامنے آئے اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا محمد بن عبد اللہ ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔ جمال نبوت ان کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ فوراً کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں آ گئے اور کمال عقیدت سے درخواست پیش کی کہ یا رسول اللہ! میری تمنا ہے کہ مدینہ میں آپ کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ کہا اور اپنا عمامہ سر سے اتار کر اپنے نیزہ پر باندھ لیا اور حضور اقدس کے علمبردار بن کر مدینہ تک آگے چلتے رہے۔ پھر دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ مدینہ میں کہا اتریں گے۔ تاجدار عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اونٹنی خدا کی طرف سے مامور ہے یہ جہاں بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہے۔[61]

زبیر و طلحہ سے ملاقات

ہجرت نبوی سے پہلے زبیر بن عوام بغرض تجارت ملک شام گئے ہوئے تھے۔ وہ رسول اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور ابو بکر صدیق کے داماد (اسماء بنت ابو بکر کے شوہر) تھے۔ وہ مال تجارت لے کر شام سے مکہ کی طرف واپس آ رہے تھے کہ راستے میں نبی اکرم ﷺ اور ابو بکرؓ سے ملاقات ہوئی۔ زبیر نے آنحضور اور ابو بکر کی خدمت میں سفید کپڑے پیش کیے جو انھوں نے بخوشی قبول فرما لیے۔ علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ابو بکر کے ابن عم طلحہ بن عبید اللہ تیمی بھی اس زمانے میں شام گئے ہوئے تھے۔ شام سے مراجعت کے وقت ان کو بھی راستے میں سرور عالم ﷺ اور ابو بکر صدیق سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انھوں نے بھی دونوں مقدس ہستیوں کی خدمت میں کچھ شامی ملبوسات پیش کیے اور نبی کریم کو بتایا کہ اہل مدینہ آپ کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔[62]

قبا میں آمد

آٹھ روز کے سفر کے بعد آن ﷺ آٹھ ربیع الاول سنہ 14 نبوی کو دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچے۔ قبا مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے اور وہ مدینہ کا ایک محلہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ وہاں قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے لوگ بکثرت آباد تھے اور روشنی اسلام سے منور ہو چکے تھے۔ مکہ سے آپ کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینہ میں پہنچ چکی تھی۔ اس لیے انصار مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپ کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ دور سے تشریف لاتے ہوئے نظر آئے گے۔ جب دھوپ تیز اور ناقابل برداشت ہو جاتی تو واپس اپنے گھر آ جاتے۔ نبی کریم ﷺ چونکہ قبا کے نزدیک دوپہر کے وقت پہنچے لہذا قبا والے مشتاقین اس وقت انتظار کرتے کرتے اپنے گھروں میں واپس آ گئے تھے۔ ایک یہودی جو روزانہ مسلمانوں کے جم غفیر کو اس طرح بستی سے باہر انتظار کرتے ہوئے دیکھتا تھا اور جانتا تھا کہ آن مکہ سے آنے والے ہیں جن کا ان لوگوں کو انتظار ہے۔ وہ اتفاقاً اس وقت اپنی گڑھی یا مکان کی چھت پر چڑا ہوا تھا۔ اس نے دور سے آن ﷺ کے مختصر قافلہ کو آتے ہوئے دیکھ کر گمان کیا کہ یہی وہ قافلہ ہے جس میں آپ تشریف لا رہے ہیں، چنانچہ اس نے زور سے آواز لگائی

اے گروہ عرب، اے دوپہر کو آرام کرنے والو! تمہارا مطلوب یا تمہاری خوش نصیبی کا سامان تو یہ آ پہنچا ہے۔

آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور تمام قبا میں جوش و مسرت کا ایک شور مچ گیا۔ انصار نے دیکھا کہ آپ کھجوروں کے ایک باع کی طرف آ رہے ہیں۔ ابو بکر صدیق نے یہ خیال فرما کر کہ لوگوں کو محمد کے پہنچانے میں شبہ نہ ہو کہ رسول اللہ کون سے ہیں۔ فوراً آپ کے پیچھے آ کر چادر سے آپ کے اوپر سایہ کیا جس سے آقا اور خادم کی پہچان بآسانی ہونے لگی۔ جب نبی اکرم قبا میں داخل ہوئے تو انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں آپ کے داخل ہونے کی خوشی میں یہ پڑھ رہی تھیں

ہم پر بدر نے ثنیات الوداع سے طلوع کیا

جب تک دعا کرنے والا ہے ہم پر شکر کرنا واجب ہے اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی ﷺ آپ ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ اس کی اطاعت ضروری ہے

آپ قبا میں دو شنبہ کے دن داخل ہوئے اور جمعہ تک یہیں مقیم رہے۔ آپ کلثوم بن ہدم کے مکان میں اور ابو بکر صدیق حبیب بن اساف کے مکان میں فروکش ہوئے۔ سعد بن خثیمہ کے مکان میں نبی کریم مجلس فرماتے۔ یعنی سعد بن خثیمہ مکان میں آ آ کر آپ کی زیارت کرتے اور آپ کے گرد مجتمع رہتے تھے۔ قبا میں آپ نے انھیں چند ایام کے اندر ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔ اس کے بعد 12 ربیع الاول جمعہ کے روز آپ قبا سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ ابھی آپ قبا میں ہی فروکش تھے کہ علی المرتضی بھی آپ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ نے یہ سفر مکہ سے مدینہ تک پیدل طے کیا۔ نبی کریم غار ثور میں جب تک رہے، علیؓ مکہ میں رہ کر لوگوں کی امانتیں واپس کرتے رہے۔ عجیب اتفاق ہے جس دن نبی کریم ﷺ غار ثور سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اسی دن علی المرتضی بھی مکہ سے مدینہ کی طرف چلے مگر آپ چونکہ تنہا روانہ ہوئے اس لیے رات بھر تو سفر کرتے لیکن دن کو کہیں چھاؤں میں پڑاو کرتے۔ نبی کریم نے معروف راستہ سے بچ کر تشریف لائے اور آٹھ دن میں قبا پہنچے۔ علیؓ چونکہ معروف راستے پر آئے لیکن پیدل تھے تو اس لیے نبی کریم سے تین چار دن بعد قبا پہنچے۔[63]

شہر مدینہ منورہ میں آمد

جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ قبا اور بنی عمرو بن عوف یعنی قبا والوں سے رخصت ہو کر شہر مدینہ میں قیام کے ارادے سے چلے۔ مدینہ کے ہر محلہ میں ہر ایک خاندان اس امر کا خواہاں تھا کہ آن ہم میں مقیم ہوں۔ آپ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آ گیا۔ آپ نے وہیں ایک میدان میں سو آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا فرمائی۔ یہ مدینہ میں آپ کا پہلا جمعہ تھا اور پہلا خطبہ تھا۔ اس جگہ بھی بعد میں ایک مسجد تیار کی گئی۔ نماز جمعہ ادا فرما کر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے۔ قبیلہ بنو سالم بن عوف کے لوگوں نے آ کر آپ کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور آپ کو اپنے یہاں ٹھہرنا چاہا۔ دوسرے قبیلوں اور دوسرے محلوں کے لوگوں نے اپنے اپنے یہاں جانے کا اصرار کیا اور اس طرح بحث و تکرار شروع ہوئی۔ آپ نے فرمایا: میری ناقہ کو نہ روکو، اس کی مہار چھوڑ دو۔ اس کو اللہ کی طرف سے حکم مل چکا ہے جہاں میری ناقہ بیٹھ جائے گی میں وہی ٹھہروں گا۔ چنانچہ ناقہ چلنے لگی اور تمام انصار و مہاجرین ناقہ کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں چلنے لگے۔ نبی کریم نے مہار بالکل ڈھیلی چھوڑ دی اور ناقہ اپنی خوشی سے آہستہ آہستہ چلتی رہی۔ ناقہ بنو بیاضہ کے محلے، بنو ساعدہ کے محلے، بنو الحارث بن الخزرج کے محلے سے ہوتی ہوئی جب بنو عدی بن النجار کے محلہ میں پہنچی تو ان لوگوں کا بڑا دعوی تھا کہ نبی کریم ﷺ ہم میں قیام کریں گے کیونکہ اس قبیلہ میں عبد المطلب کے ننھیال تھے لیکن ان لوگوں کو بھی وہی جواب ملا کہ میری ناقہ کو چھوڑ دو جہاں یہ بیٹھ جائے گی میں وہی ٹھہروں گا۔ ناقہ بنو عدی بن النجار کے محلے سے آگے بنو مالک بن النجار کے محلے میں داخل ہوئی تو ایک غیر آباد افتاوہ زمین میں بیٹھ گئی فوراً پھر کھڑی ہو گئی۔ کھڑی ہو کر کچھ دور تک چلی اور پھر خود بخود واپس لوٹی اور ٹھیک اسی جگہ بیٹھ کر گردن زمین پر ڈال دی اور دم ہلانے لگی۔ نبی کریم اس سے اترے آئے۔ ساتھ میں ابو ایوب انصاری خالد بن زید کا مکان تھا وہ خوشی خوشی آپ کا اسباب اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے۔ سات مہینوں تک آپ ﷺ نے ابو ایوب انصاری کے ہاں قیام فرمایا۔[64]

مسجد نبوی کی تعمیر اور اہل و عیال کی مدینہ آمد

وہ جگہ جہاں نبی کریم ﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی رافع بن عمر کے دو یتیم بیٹوں سہل اور سہیل کی مالکیت تھی اور وہ دونوں اسعد بن زرارہ کے زیر کفالت تھے، اس جگہ کھجوریں فروخت کرتے تھے، آن کی تشریف آوری سے پہلے وہاں مسلمان نماز پڑھتے تھے اور سعد بن زراہ ان کی امامت کرتے تھے۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے پوچھا یہ زمین کس کی ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ سہل اور سہیل کی مالکیت ہے۔ اسعد اور اس کے زیر کفالت بچوں نے دل و جان سے سید انس و جاں کر دی لیکن آن نے اسے قبول نہیں فرمایا بلکہ دس مثقال سونا کے عوض اسے خریدا اور ابو بکر صدیق کے حوالے کیا۔ انھوں نے وہ قیمت ادا کر دی۔[65] علامہ ابن حجر عسقلانی، ابن سعد اور بلاذری نے لکھا ہے کہ یہ قیمت ابو بکر صدیق نے ادا کی تھی۔[66] ابو بکر صدیق کے مال سے اس جگہ کی قیمت نبی کریم نے ادا فرمائی۔ اس زمین میں چند درخت، کچھ کھنڈر اور کچھ مشرکوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے درختوں کو کانٹنے اور مشرکوں کی قبروں کو کھود کر پھینک دینے کا حکم دیا۔ پھر زمین کو ہموار کر کے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی۔[67] مسجد نبوی کی تعمیر میں نبی کریم ﷺ نے دیگر صحابہ کرام کے شانہ بشانہ کام کیا۔ سیدنا ابو بکر بھی مسجد کی تعمیر میں پیش پیش رہے اور اپنی کمر پر پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ ابتدا میں مسجد نبوی انتہائی سادہ بنائی گئی۔ دیواریں پتھر اور گارے سے بنائی گئیں اور چھت کھجور کے پتوں کی بنائی گئی۔[68] جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ حضور نبی اکرم صحابہ کرام کے ساتھ مل کر کام کر رہے تو آپ صحابہ کو جوش دلانے کے لیے رجز کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ

اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت ہی کی بھلائی ہے۔ لہذا اے اللہ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔

اس مسجد کا نام مسجد نبوی ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے دینوی تکلفات سے پاک اور اسلام کی سادگی کی سچی اور صحیح تصویر تھی، اس مسجد کی عمارت اول طول و عرض میں ساٹھ گز لمبی اور چون گز چوڑی تھی۔ اس کا قبلہ بیت المقدس کی جانب بنایا گیا تھا مگر جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو مسجد کے شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف زمانوں میں اس کی تجدید و توسیع ہوتی رہی۔ مسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترا تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترا کا نام "صفہ" ہے جو صحابہ کرام گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترا پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی اصحاب صفہ کہلاتے تھے۔[69]

اہل و عیال کی مدینہ آمد

آن ﷺ نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو جو آپ کے خاص غلام تھے دو اونٹ اور پانچ سو درہم خرچ دے کر مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی دو صاحبزادیاں ام کلثوم بنت محمد، فاطمہ بنت محمد اور آپ کی بیوی ام المومنین سودہ بنت زمعہ، زید کی بیوی ام ایمن اور اس کے بیٹے اسامہ بن زید کو مدینہ لائے۔ [70] عبد اللہ بن ابی بکر انہی لوگوں کے ساتھ ام رومان ابو بکر صدیق کی بیوی، اسماء بنت ابی بکر اور ام امومنین عائشہ بنت ابی بکر کو بھی ساتھ مدینہ لائے۔ [71] طلحہ بن عبید اللہ نے بھی ان کے ساتھ موافقت کی۔ چنانچہ اہلبیت کی رفاقت میں یہ تمام حضرات مدینہ منورہ آ گئے اور اس طرح یہ ٹہنیاں اپنے اصل کے ساتھ مل گئیں۔ آن نے خاص اپنی رہائش کے لیے مسجد نبوی کے متصل حجرہ تعمیر کیا۔ اس کی تکمیل کے بعد ابو ایوب کے گھر سے اہل و عیال کے ساتھ اپنے حجرہ مبارکہ میں منتقل ہو گئے۔ [70] آپ نے ازواج مطہرات کے لیے بھی حجرے بنوائے۔ اس وقت بی بی سودہ اور عائشہ صدیقہ نکاح میں تھیں تو دو ہی مکان بنائے۔ جب اور ازواج مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ یہ مکانات بہت سادگی کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ دس دس ہاتھ لمبے، چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے، کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کے پتیوں کی چھت اور وہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔[72] دوسری طرف بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں ایک مکان جو حارثہ بن لقمان کا تھا اس میں ابو بکر صدیق کے اہل و عیال رہائش پزیر ہو گئے۔[73]

مدینہ منورہ کی آب و ہوا

روایت میں ہے کہ جب مہاجرین مدینہ میں آگئے۔ اس جگہ کی ہوا عفونت تھی، انھیں موافق نہ آئی، اکثر مہاجرین بیمار ہو گئے۔ ان میں صدیق اکبر عامر بن فہیرہ اور بلال ابن رباح ایک ہی گھر کے شامل تھے۔ بخار نے انھیں پریشان کر دیا۔ محمد روزانہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ [74] ابو بکر صدیق کو اتنا شدید بخار ہوا کہ کہ زندگی کی امید نہ رہی، اس وقت آپ نے یہ اشعار پڑھے

ہر آدمی اس حالت میں اپنے اہل و عیال میں صبح کرتا ہے کہ موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔

[71]

بلال جب بخار سے آرام پاتے، عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف اور ان کے ناخلف ساتھیوں پر لعنت کرتے کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے وہ مکہ کی عمدہ ہوا سے محروم ہوئے تھے اور مدینہ کی متعفن ہوا میں گرفتار ہوئے۔ [74] صحیح بخاری میں ہے کہ عائشہ صدیقہ پدر گرامی کی یہ حالت دیکھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اورکفیت عرض کی۔ نبی کریم نے اسی وقت دعا کی:

الہی تو مکہ کی طرح یا اس سے بھی مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کر، اس کو بیماریوں سے پاک فرما، اس کے صاع اور مد میں برکت دے اور اس کے (وبائی) بخار کو حجفہ میں منتقل کر دے۔

محبوب رب العالمین کی دعا فوراً در جابت پر پہنچی، سیدنا ابو بکر صدیق بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ پاک کی آب و ہوا مہاجرین کے لیے مکہ سے بھی زیادہ خوشگور ہو گئی۔ [71]

مواخات مدینہ

نبی کریم ﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ اور کوشش صرف فرمائی، وہ شہر کا امن و امان اور باشندوں کی تعلقات باہمی کا خوشگوار بنانا تھا۔ آپ نے اس بات کو جاتے ہی محسوس فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے۔ وہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت اور موجب پیچیدگی نہ ہونے پائے۔ ساتھ ہی آپ کو یہ بھی خیال تھا کہ مہاجرین جنھوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اپنے گھر، وطن، عزیز و اقارب، مال و زر، خاندان اور برادری سب کو چھوڑ کر مدینہ میں آ پڑے ہیں اور زیادہ پریشان و دل شکستہ نہ ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایک دن تمام انصار و مہاجرین کو ایک جلسہ میں جمع فرما کر اخوت اسلامی کا وعظ فرمایا اور مسلمانوں کے اندر بھائی چارہ قائم کر کے انصار و مہاجرین کے تعلقات کو نہایت خوشگور بنا دیا۔ ایک مہاجر اور ایک انصار کے درمیان مواخاۃ قائم ہو گئی۔ ابو بکر صدیق کے دینی بھائی خارجہ بن زید بن ابی زہیر انصاری بنے۔ عمر فاروق کے دینی بھائی عتبان بن مالک انصاری ہوئے۔ ابو عبیدہ ابن الجراح کا بھائی چارا معاذ انصاری سے، عبدالرحمن بن عوف کا سعد بن ربیع انصاری سے، زبیر ابن العوام کا سلمہ بن سلامہ سے، عثمان غنی کا ثابت بن المنذر انصاری سے رشتہ اخوت قائم ہوا۔ اس طرح طلحہ بن عبید اللہ اور کعب بن مالک میں، مصعب بن عمیر اور ابو ایوب انصاری میں، عمار بن یاسر اور حذیفہ بن یمان میں بھائی چارا مستحکم ہوا۔ غرض ایک ایک مہاجر کا ایک ایک انصاری سے رشتہ اخوت قائم ہو گیا۔[75] چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لیے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا آدھا ہمارا۔ حد ہو گئی کہ سعد بن الربیع انصاری جو عبد الرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے ان کی دو بیویاں تھیں، سعد بن ربیع نے عبد الرحمن سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ سے اس نکاح کر لیں۔ سعد کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر عبد الرحمن بن عوف نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا کہ اللہ تعالی یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آپ کو مبارک فرمائے مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انھوں نے مدینہ کے مشہور بازار "قینقاع" کا راستہ بتا دیا۔ عبد الرحمن بن عوف بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اس طرح روزانہ بازار جاتے رہے اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ کافی مالدار ہو گئے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ انھوں نے شادی کر کے گھر بسا لیا۔ ان کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دوکانیں کھول لیں۔ ابو بکر صدیق نے کپڑے کی تجارت شروع کر دی، عثمان کھجوروں کی تجارت کرنے لگے اور عمر فاروق بھی تجارت میں مشغول ہو گئے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دی۔ غرض باوجود یکہ مہاجرین کے لیے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔[76]

فخاص یہودی کے ساتھ حادثہ

ایک دن ابو بکر صدیق یہود کے پاس ان کے عبادت خانے میں گئے تو ان میں سے بہت سے لوگوں کو انھیں میں سے ایک شخص فخاص نامی کے پاس دیکھا وہ ان عالموں اور ماہروں میں سے ایک تھا اور اس کے ساتھ ان کے عالموں میں سے ایک اور عالم اشبع نامی بھی تھا تو ابو بکر نے فخاص سے کہا افسوس فخاص اللہ سے ڈر اور اسلام اختیار کر کیونکہ واللہ تو اس بات کو جانتا ہے کہ محمد ﷺ یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور تمھارے پاس اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں جس کا ذکر توریت و انجیل میں تم لوگ پاتے ہوں۔ فخاص نے ابو بکر سے کہا واللہ اے ابو بکر ہمیں اللہ کی کوئی احتیاج نہیں ہے (بلکہ) وہی ہمارا محتاج ہے۔ ہم اس کے آگے عاجزی اور رازی نہیں کرتے جس طرح وہ ہمارے آگے عاجزی اور رازی کرتا ہے اور ہم اس سے بے نیاز ہیں اور وہ ہم سے بے نیاز نہیں ہے اگر وہ ہم سے بے نیاز ہوتا تو وہ ہم سے ہمارے مال قرض طلب نہ کرتا جیسا کہ تمھارے دوست کا دعوٰی ہے وہ ہمیں تو سود سے منع کرتا ہے اور (خود) وہی (سود) ہمیں دیتا ہے اور اگر وہ ہم سے بے نیاز ہوتا تو ہمیں (سود) نہ دیتا۔ راوی نے کہا (یہ سنتے ہی) ابو بکر کو غصہ آگیا، آپ نے فخاص کے منہ پر زور سے ایک تھپڑ مارا اور فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں اور ہم میں جو عہد و پیماں ہے (وہ) نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن تیرا سر اڑا دیتا۔ پس فخاص رسول اللہ کے پاس گیا اور کہا اے محمد (ﷺ) دیکھو تمھارے دوست نے میرے ساتھ کیا (برا) سلوک کیا تو رسول اللہ نے ابو بکر سے فرمایا:

جو تم نے کیا اس کا باعث کیا تھا؟

ابو بکر نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس دشمن خدا نے ایک بڑی (نازیبا) بات کہی۔ اس نے اس بات کا دعوی کیا کہ اللہ ان لوگوں کا محتاج ہے اور یہ لوگ اس سے بے نیاز ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو اس کے کہنے سے مجھے برائے خدا غصہ آ گیا اور میں نے اس کے منہ پر (تھپڑ) مارا۔ فخاص (یہ سنتے ہی) مکر گیا اور کہا ایسا نہیں کہا تو اللہ تعالی نے فخاص کے قول کے متعلق فخاص کے رد اور ابو بکر صدیق کی تصدیق میں (یہ آیت) نازل فرمائی:

اللہ نے ان (لوگوں) کی بات سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم بے نیاز ہیں جو کچھ انہوں نے کہا ہے ہم اس کو اور ان کے انبیاء کے قتل کو ابھی لکھ لیتے ہیں اور (جب جزا کا وقت آئے گا تو) ان سے کہیں گے جلا دینے والا عذاب (کا مزا ذرا) چکھو (تو)۔

اور ابو بکر صدیق کو جو اس معاملے میں غصہ آگیا اس کے متعلق (یہ) نازل فرمایا:

جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان سے اور جنہوں نے شرک کیا ہے ان سے ضرور تمہیں بہت سی تکلیف دہ باتیں سننا ہوں گی اور اگر تم صبر کرو اور احتیاط سے کام لوتو یہ قطعی (سفید) کاموں میں سے ہے۔

پھر فخاص اور اس ساتھی یہود علما کی باتوں سے متعلق (یہ ارشاد) فرمایا:

اور (یاد کرو) وہ جب ان لوگوں سے عہد لیا گیا جن کو کتاب دی گئی کہ تمہیں لوگوں سے اس کو کھلم کھلا بیان کرنا ہو گا اوراسے تم چھپاؤ گے نہیں۔ تو انہوں نے اس کواپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا اور اس کے بدلے ذرا سی قیمت لے لی تو کس قدر برا تبادلہ ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ جو لوگ خوش ہو رہے ہیں اپنے (اس) کیے پر (کہ انہوں نے توریت کے مضامین میں اوٹ پٹانگ بیان کر دیئے) اور چاہتے ہیں کہ جو کام (اظہار حق کا) انہوں نے نہیں کیا اس کی تعریف کی جائے۔ ان کے متعلق (نیک) خیال نہ کر پس ان کے متعلق یہ خیال نہ کر کہ وہ عذاب سے چھوٹ جائیں گے۔ حالانکہ ان کے لیے درد ناک عذاب (تیار) ہے۔

[77]

فاطمۃ الزہرا کا نکاح و رخصتی

ہجرت کے دوسرے سال ماہ رجب یا ماہ صفر ان دو پاک مہینوں میں سے ایک میں فاطمہ کا عقد نکاح عمل میں آیا۔ ام سلمہ اور سلمان فارسی نے کہا ہے کہ فاطمہ جب عہد طفولیت سے سن بلوغت کو پہنچیں تو اکابرین قریش نکاح کا پیغام دینے لگے۔ نبی کریم ﷺ کسی کی طرف کوئی توجہ نہیں فرماتے تھے۔ ایک روز ابو بکر نے اس قسم کا اظہار فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا اختیار قبضہ قدرت میں ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وحی کا انتظار کر رہا ہوں۔ عمر فاروق نے نکاح کا پیغام دیا۔ انھیں بھی یہ جواب ملا۔

ایک روز ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور سعد بن معاذ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور فاطمہ کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اکابرین قریش نے بتول کے لیے نکاح کا پیغام دیا لیکن قبول نہیں ہوا۔ علی المرتضی نے ابھی تک پیغام نہیں دیا اور اس امر کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ابو بکر نے فرمایا، میرا گمان ہے کہ علی کے سامنے رکاوٹ صرف مال کی کمی ہے اور فاطمہ کا معاملہ علی کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ خدا اور اس کا رسول اس کے نکاح پر رضا مند ہیں۔ پھر ابو بکر نے سعد اور عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تم میرے ساتھ موافقت کرتے ہو کہ ہم علی سے ملیں اور اسے فاطمہ کے ساتھ نکاح کا پیغام دینے کی ترغیب دیں۔ اگر تنگدستی اور فقر کی وجہ سے معذرت کرے تو اس کی امداد کریں۔ سعد نے کہا اے ابا بکر خدا تعالی ہمیشہ آپ کو امور خیر کی توفیق عنایت فرماتا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اے ابا بکر چ لیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تینوں بزرگوار مہاجرین و انصار کے سردار مسجد سے حیدر کرار کی تلاش میں نکلے۔ علی اپنے اونٹ کو ایک انصاری کے نخلستان میں پانی پلانے لے گئے تھے۔ جب آپ نے تینوں بزرگوں کو دیکھا تو ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور خیریت دریافت کی۔ امیر المومنین ابو بکر نے فرمایا اے ابو الحسن! نیکی کی کوئی ایسی خصلت نہیں جس میں آپ سبقت نہ لے جاتے ہوں اور آپ کا نبی کریم کے ساتھ ایسا مقام و مرتبہ ہے کہ کوئی شخص اس میں شریک نہیں۔ اکابرین و اشراف قریش نے فاطمہ کے لیے پیغام دیا لیکن شرف قبولیت حاصل نہ کر سکیں اور میرا گمان ہے کہ اسے آپ کے لیے روک رکھا ہے آپ پیغام کیوں نہیں دیتے۔ علی نے جب یہ بات سنی تو رو پڑے، فرمایا اے ابا بکر اس آگ کو نہ بھڑکائیے جسے میں نے بڑی تکلف سے تسکین دی ہے۔ آپ مجھے اس رغبت کی یاد دلاتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی شخص کو ایسی رغبت نہیں ہے جیسی مجھے ہے لیکن میرے لیے تنگدستی مانع ہے۔ ابو بکر صدیق نے کہا اے ابو الحسن! ایسا مت کہیے، خدا اور رسول کے نزدیک دنیا کی کوئی وقعت نہیں، تنگدستی اور قلت مال کسی حثیت سے بھی اس گفتگو کے لیے رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ علی نے اونٹ کھولا اور اس کی مہار کو پکڑ کر گھر لے گئے اور باندھ دیا اور نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت نبی کریم ام سلمہ کے گھر تشریف لائے ہوئے تھے۔ جب علی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ام سلمہ نے پوچھا کون؟ حضور نے فرمایا: اے سلمہ اٹھو اور دروازہ کھول دو، یہ وہ مرد ہے جسے خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ بھی خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے۔ ام سلمہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کون شخص ہے جس کے متعلق آپ گواہی دیتے ہیں۔ حضور نے فرمایا، میرے چچا کا بیٹا اور میرا بھائی علی بن ابی طالب۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں اچھل پڑی اور ایسی بھاگی کہ قریب تھا کہ منہ کے بل گر پڑوں۔ میں نے دروازہ کھول دیا، خدا کی قسم وہ اس وقت تک گھر داخل نہ ہوئے جب تک میں اپنے حرم خانہ میں نہ چلی گئی، پھر وہ آئے اور کہا اسلام علیک یا رسول اللہ۔ حضور نے فرمایا وعلیک اسلام یا ابا الحسن ورحمتہ اللہ و برکاتہ اور انھیں اپنے پاس بیٹھا لیا۔ علی سر جھکائے زمین کو دیکھے جا رہے تھے جس طرح کوئی ضرورت مند ہو لیکن شرم کی وجہ سے اپنی حاجت بیان نہ کر سکتا ہو۔ حضور نے فرمایا، اے علی: میرا خیال ہے تم کسی چیز کے آرزو مند ہو مگر اسے بیان کرنے میں شرم محسوس کرتے ہو، جو کچھ تمھارے دل میں ہے کہہ دو اور شرم مت کرو تمھاری خواہش پوری ہو گی۔ علی نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو علم ہے کہ بچپن سے ہی آپ نے مجھے اپنے والد ابو طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت اسد سے اپنی ملازمت کے لیے مخصوص فرمایا، مجھے ظاہری و باطنی تربیت سے سعادت بخشی اور یہ احسان و شفقت جو اپنے متعلق میں نے آپ سے مشاہدہ کیا اپنے والدین سے اس کا عشر عشیر بھی ملاحظ نہیں کیا۔ حق سبحانہ تعالی نے آپ کی برکت سے مجھے اپنے آباواجداد کے باطل پن سے نجات دی اور دین تویم اور صراط مستقیم تک پہنچایا۔ میری عمر و زندگانی کا ذخیرہ عیش و کامرانی کا سرمایہ آپ ہی ہیں۔ یا رسول اللہ اب جبکہ خدمت و سعادت کی دولت کی امداد سے میری عزت و تمکیں کے بازو قوی ہو گئے ہیں اور دوعالم کی فوز وفلاح مجھے حاصل ہے، میرے دل میں یہ تمنا منقش ہو گئی ہے کہ میرا کوئی گھر بار نہیں اور نہ کوئی بیوی ہے جو محرم راز اور مونس جاں فگار ہو اور عرصہ سے میری خواہش تھی کہ فاطمہ کے کیے پیغام دوں لیکن گستاخی کے خیال سے ہچکچا رہا تھا یا رسول اللہ کیا ایسا ممکن ہے۔ ام سلمہ کہتی ہیں، میں دور سے دیکھ رہی تھی حضور کی جبین مبیں دمک اٹھی، مسکرا کر فرمایا، اے علی: گھریلو ضررویات کی کوئی تمھارے پاس ہے جسے تم وسیلہ بناؤ۔ علی نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے دوست احباب میں سے کوئی شخص میرے حالات سے اس قدر واقف نہیں جیسا کہ آپ واقف ہیں اور آپ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، میرے پاس ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے، آپ جیسا حکم فرمائیں۔ نبی کریم نے فرمایا، تلوار کی تمھیں ضرورت ہے ہر وقت جہاد کے لیے مستعد رہتے ہو اور اونٹ تمھاری سواری اور راستہ طے کرنے کا ذریعہ ہے وہ بھی ضروری ہے۔ میں تیری طرف سے زرہ پر اکتفاہ کرتا ہوں۔ حضور نے اپنی بیٹی کا مہر ڈھال مقرر کیا۔ علی سے فرمایا، اپنی یہ ڈھال جا کر فروخت کر دو اور قیمت لے آؤ۔ آپ نے ڈھال عثمان کو چار سو اور دوسری روایت کے مطابق چار سو اسی درہم میں فروخت کی۔ جب ڈھال عثمان کے سپرد کر دی اور قیمت وصول کر لی تو عثمان نے فرمایا ابا الحسن: آپ اس ڈھال کے زیادہ مستحق ہیں میں یہ ڈھال آپ ہی کو ہبہ کرتا ہوں۔ شاہ مرداں چونکہ خود بھی سخی تھے جب انھوں نے عثمان کے اس طرز عمل کو دیکھا، شکریہ ادا کر کے آن کی خدمت میں حاضر ہوئے، ڈھال بھی درہم بھی آپ کی خدمت میں پیش کیے اور تمام صورت حال سے آگاہ فرمایا۔ نبی کریم نے عثمان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ان درہم میں سے مٹھی بھر درہم ابو بکر صدیق کو عطا فرمائے تا کہ وہ ضرورت خانہ داری کی چیزیں خرید لائیں اور بلال اور سلمان فارسی کو ساتھ کر دیا تا کہ بوجھ بن جائے تو اٹھا لائیں۔ صدیق فرماتے ہیں کہ ہم جب باہر نکلے، میں نے گنا تو تین سو ساٹھ درہم تھے۔ ان تمام سے میں نے فاطمہ کے لیے سامان خریدا۔ جن میں ایک مصری گدیلہ جو پشم سے بھرا ہوا تھا، ایک چمڑے کا گدیلہ جس میں کھجور کے پتے تھے، عبا خیبری، چند مٹی کے برتن اور ریشم کا ایک پردہ تھا۔ یہ تمام چیزیں حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ حضور نے جب انھیں دیکھا، آپ کی آنکھیں نم آلودہ ہو گئیں اور یہ دعا فرمائی

اے اللہ اس قوم پر برکت نازل فرما جس کے بہترین برتن مٹی کے ہیں۔

ابن جوزی کی روایت کے مطابق نبی کریم نے باقی درہم ام سلمہ کے سپرد کیے تا کہ بعض دوسری اشیاء خریدنے پر خرچ کرے۔[78]

رخصتی

ایک دن عقیل ابن ابی طالب علی کے پاس تشریف لائے اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اب اپنی لخت جگر کو رخصت کر دیں۔ علی نے جواب دیا، میری بھی یہی خواہش ہے۔ چنانچہ دونوں حضرات ام ایمن کے پاس تشریف لے گئے۔ ایمن ان دونوں کو ازواج مطہرات کے پاس لے گئیں۔ انھوں نے حضور سے عرض کیا: یا رسول اللہ علی کی خواہش ہے کہ ان کی بیوی کو رخصت کر دیجیے۔ حضور راضی ہو گئے اور چند درہم علی کو دیے اور فرمایا: جاؤ بازار سے چھوہارے اور پنیر خرید لاؤ۔ علی نے پانج درہم کا گھی، چار درہم کے چھوہارے اور ایک درہم کا پنیر خریدا اور سب چیزیں حضور کی خدمت میں پیش کر دیں۔ حضور نے ان چیزوں کو دعوت ولیمہ کے لیے رکھ دیا۔ پھر آپ نے فاطمہ کو بلایا، اپنے سینہ مبارک پر ان کا سر رکھا، پیشانی پر بوسہ دیا اور ان کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں دے کر فرمایا: اے علی! پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو۔ اور اے فاطمہ: تیرا شوہر بہت اچھا ہے اب تم دونوں میاں بیوی اپنے گھر جاؤ۔ پھر دونوں کو میاں بیوی کے فرائض و حقوق بتائے اور خود دروازے تک وداع کرنے آئے۔ دروازے پر علی کے دونوں بازو پکڑ کر انھیں دعائے خیر و برکت دی۔ علی اور سیدہ دونوں اونٹ پر سوار ہوئے سلمان فارسی نے اس کی نکیل پکڑی۔ اسماء بنت عمیس اور بعض روایتوں کے مطابق سلمی ام رافع یا ایمن سیدہ کے ہمراہ گئیں۔ فاطمہ کی رخصتی کے بعد حضور نے علی کی طرف سے دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے جو اشیاء اس مقصد کے لیے منگوائی تھیں ان سب کا مالیدہ تیار کرنے کا حکم دیا اور ہھر علی سے فرمایا کہ باہر جو بھی مسلمان ملے اسے اندر لے آؤ۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین و انصار کو اس بابرکت دعوت میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب مہمانوں نے کھانا کھا لیا تو آپ نے ایک پیالہ کھانا علی کو اور ایک سیدہ فاطمہ کو مرحمت فرمایا۔[79]

غزوئہ بدر

بدر مدینہ منورہ سے تقریباً اسی میل کے فاصلے پر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں زمانہ جاہلیت میں سالانہ میلا لگتا تھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام بدر تھا اور اسی کے نام پر اس جگہ کا نام بدر رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ بدر کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا جس میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان میں سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔[80]

جہاد کی اجازت

12 صفر 2 ہجری تاریخ اسلام میں وہ یادگار دن ہے جس میں خداوند کردگار نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ

جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔ (الحج)

امام محمد بن شہاب زہری کا قول ہے کہ جہاد کی اجازت کے بارے یہی وہ آیت ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی۔ مگر تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے جو آیت اتری وہ یہ ہے:

خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔ (البقرہ)

2ہجری میں مسلمانوں کو خداوند تعالی نے کفار سے لڑنے کی اجازت دے دی مگر یہ اجازت مشروط تھی کہ صرف انھیں کفار سے لڑوں جو مسلمانوں پر حملہ کریں۔ ہجرت کی بعد کی جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام لڑائیاں کفار کی جانب سے مسلمانوں کے سر پر مسلط کی گئیں اور غریب مسلمانوں نے بدرجہ مجبوری تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔[81]

جنگ کی تیاری

اچانک رمضان 2 ہجری میں مدینہ میں خبر ملی کہ کفار مکہ کا قافلہ جس میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو ابن عاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں ملک شام سے مکہ کی طرف جا رہا ہے اور اس میں کفار مکہ کا مل تجارت بہت زیادہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہے کیوں نہ ہم کفار مکہ کے اس قافلے پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تا کہ کفار کی شامی تجارت بند ہو جائیں اور مجبور ہو کر صلح کر لیں۔ چنانچہ 12 رمضان کو بڑی عجلت کے ساتھ یہ لوگ مدینہ سے نکلے۔ اس لشکر کا یہ حال تھا کہ نہ تو ان کے پاس زیادہ ہتھیار تھے نہ تعداد زیادہ تھی اور نہ کوئی فوجی راشن کی بڑی مقدار تھی۔ جب مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لیے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار کی فوج کا دل بادل مسلمانوں پر حملہ کرنے کے کیے تیار ہو گیا۔ جب یہ خبر حضور ﷺ کو ملی تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے صورت حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے قریش کے قافلے سے ملاقات ہو جائے یا پھر ہو سکتا ہے کفار کے لشکر سے جنگ کی نوبت آ جائے۔ ارشاد گرامی سن کر ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا لیکن آپ انصار کی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائے گے جب کفار مکہ مدینہ پر چڑھ آئیں گے لیکن یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔ انصار میں سے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ نبی کریم کا چہرہ مبارک دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے؟ خدا کی قسم! ہم وہ جانثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار مقداد بن اسود نے جوش میں آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے بائیں، آگے سے پیچھے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔[82]

کفار قریش بدر میں

کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تھے اس لیے مناسب جگہوں پر قبضہ کر لیا اور مسلمان شام کے وقت بدر کے قریب پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے علی المرتضی و زبیر ابن عوام اور سعد بن ابی وقاص کو بدر کی طرف بھیجا تا کہ قریش کی خبر لائیں۔ ان حضرات نے قریش کے دو غلاموں کو پکڑ لیا جو پانی بھرنے پر مقرر تھے۔ نبی کریم نے ان دونوں غلاموں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس قریشی فوج میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہیں؟ دونوں غلاموں نے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو النجتری، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدو، عباس بن عبد المطلب وغیرہ سب اس لشکر میں شامل ہیں۔ یہ فہرست سن کر نبی کریم ﷺ نے اصحاب سے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانو سن لو! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف ڈال دیا ہے۔[83]

محمد کا سائبان

ابن اسحاق نے کہا مجھ سے عبد اللہ بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ان سے کسی نے بیان کیا کہ سعد بن معاذ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم آپ کے لیے ایک (ایسا) سائبان تیار کرنا (چاہتے) ہیں کہ آپ اس میں تشریف رکھیں اور آپ کے پاس ہی آپ کی سواریاں تیار رہیں اور اس کے بعد ہم اپنے دشمن سے مقابلہ کریں گے۔ پھر اگر اللہ نے ہمیں غلبہ عنایت فرمایا اور ہمارے دشمن پر ہمیں فتح نصیب فرمائی تو ہمارا مقصد حاصل ہو گیا اور اگر کوئی دوسری صورت پیش آئی تو آپ اپنی سواریوں پر سوار ہو کر ہماری قوم سے مل جائیے جو ہمارے پیچھے ہیں کیونکہ یا نبی اللہ بہت سے لوگ ایسے آپ کے ساتھ آنے سے پیچھے رہے گئے ہیں کہ آپ کی محبت میں ہم ان سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ اگر انھیں خیال ہوتا کہ آپ کو جنگ کرنا ہو گا تو وہ آپ کو چھوڑ کر پیچھے نہ رہ جاتے۔ اللہ ان کے ذریعے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ وہ آپ کے خیر خواہ رہیں گے اور آپ کے ساتھ جہاد کریں گے۔ محمد نے ان کی بہت تعریف فرمائی اور ان کی بھلائی کی دعا کی۔ اس کے بعد رسول اللہ کے لیے سائبان بنایا گیا۔[84]

حفاظت

حضور ﷺ مجاہدین اسلام کی صف بندی سے فارغ ہو کر مجاہدین کی قرارداد کے مطابق اپنے سائبان میں تشریف لے گئے۔ اب اس سائبان کی حفاظت کا سوال بے حد اہم تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل نشانہ حضور تاجدار دوعالم ہی کی ذات تھی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اس سائبان کا پہرہ دے لیکن اس موقع پر بھی آپ کے یار غار صدیق اکبر ہی کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ وہ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے اور سعد بن معاذ بھی چند انصاریوں کے ساتھ اس سائبان کے گرد پہرہ دیتے رہے۔[85]

سرکار دو عالم ﷺ کی دعا

قریشی لشکر بڑے تکبر سے میدان جنگ میں آیا تھا۔ ان مشرکوں کو پورا یقین تھا کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گئے۔ انھوں نے اس قادر مطلق ہستی کو یکسر بھلا رکھا تھا جو ممولے سے باز کو ہلاک کرا دیتی ہے۔ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے میدان میں اتری تھی۔ انھیں اللہ کی نصرت کا پورا یقین تھا۔ ان کے چہروں پر ذرا بھی پریشانی نہیں تھی۔ وہ اللہ کی ذات پر کامل بھروسا رکھتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ اللہ نے اپنے نبی کی مدد ضرور کرے گا۔ محمد بھی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں انتہائی سوزہ و گداز کے ساتھ نصرت و فتح کی التجا کر رہے تھے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ترجمہ:

(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول کر لی (اور کہا) بے شک میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے سے تمہاری مدد کروں گا۔

محمد اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر نصرت الہی کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے یہ دعا کرنے لگے:

اے اللہ! تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا اسے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھ سے جس چیز کا وعدہ فرمایا تھا وہ عطا فرما۔ اے اللہ! اگر آج اہل اسلام کا یہ مٹھی بھر گروہ ہلاک ہو گیا تو روئے زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔

نبی کریم ﷺ قبلہ رخ ہو کر ہاتھ پھیلائے ہوئے اللہ تعالی کے سامنے گڑ گڑا رہے تھے۔ اسی دوران میں آپ کے کندھوں سے چادر مبارک گر گئی۔[86] ابو بکر صدیق آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور انھوں نے چادر مبارک اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈالی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں عرض کیا کہ حضور! اب بس کیجئے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے یار غار صدیق جانثار کی بات مان کر حضور ﷺ نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا کہ ترجمہ:

عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (القمر)

[87]

عبد الرحمٰن بن ابی بکر کفار مکہ کے ساتھ

ابو بکر صدیق کے بیٹے عبد الرحمن بن ابو بکر غزوہ بدر کے وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور بڑے طاقتور جوان تھے۔ مشرکین کی صفوں سے نمودار ہوئے اور للکارنے لگے: کوئی ہے جو میدان میں آئے؟ یہ آواز ابو بکر صدیق کے کانوں میں بڑی تو آپ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر کی طرح فوراً اٹھے اور اس للکارنے والے سخص کی طرف جانے لگے تا کہ اس کا مقابلہ کریں تو آن نے ابو بکر کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ آپ نہ جائیں۔ اے ابو بکر! آپ اپنی ذات سے ہمیں فائدہ دیں۔[88] جب عبد الرحمٰن مسلمان ہو گئے تو ایک دن اپنے والد ماجد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ بدر کے دن کئی مرتبہ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے والد سمجھ کر آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے بیٹے کی بات سن کر فرمایا: تم اس موقع پر میری تلوار کے نیچے نہیں آئے، اگر تم میری تلوار کے نیچے آتے تو قسم ہے اللہ عزوجل کی! میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑتا کیونکہ جنگ بدر حق اور باطل کے درمیان معرکہ تھا اور تم باطل کے نمائندے تھے۔[89]

اسیران بدر کی سفارش

مسلمانوں کو جنگ بدر میں فتح نصیب ہوئی اور وہ قریش کے ستر قیدی ہمراہ لے کر مدینہ واپس آ گئے۔ ان قیدیوں میں کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے مکہ میں مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے تھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ اب مسلمان جس پر جس قدر سختی کرتے کر سکتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے گرفتار شدہ مشرکین کے ساتھ سلوک کے بارے میں ابو بکر صدیق، عمر فاروق، علی المرتضی اور دوسرے اکابرین سے مشورہ کیا۔ ابو بکر صدیق نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قریش مکہ کے جو قیدی ہیں ان میں اکثریت آپ کے خاندان کے لوگوں کی ہے میری رائے ہے کہ ان سے مناسب فدیہ لے کر انھیں چھوڑ دیں تا کہ جو فدیہ ملے اس سے مسلمانوں کی مالی حالت بہتر کرنے میں مدد ملے اور ہم اپنے فوجی مصارف کو بھی پورا کر سکیں۔ عمر فاروق نے عرض کیا: اللہ کی قسم میری رائے سید ابو بکر صدیق والی نہیں ہو سکتی۔ میری رائے ہیں ہر ایک کا سر قلم کر دینا چاہیے تا کہ کفار مکہ کو پتا چلا کہ ہمارے دل میں ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں۔ اس طرح وہ ہماری سختی دیکھیں گے تو ان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ حضور نبی کریم نے جب عمر فاروق کی بات سنی تو خیمے کے اندر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر بعد آپ واپس باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالی بعض لوگوں کے دل نرم کر دیتا ہے تو دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض کے دل سخت کر دیتا ہے تو وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔ ابو بکر کی مثال ابراہیم (اسلام) کی سی ہے وہ اللہ عزوجل کے حضور عرض کرتے ہیں:

جو میری بات مان لے وہ میرے ساتھ ہے اور جو میری نا فرمانی کرے تو اس کی مغفرت فرما اور تو رحم کرنے والا ہے۔

اور ابو بکر تمھاری مثال عیسی ابن مریم علیہ اسلام کی سی ہے جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

اے اللہ! انہیں عذاب دے تو حق ہے کہ یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تیرا اختیار ہے کہ تو غالب و حکیم ہے۔

اور اے عمر تیری مثال نوح (اسلام) کی سی ہے جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں یوں دعا فرماتے ہیں:

اے پروردگار! زمین پر کسی کافر کو نہ رہنے دے۔

اور اے عمر تمھاری مثال موسی ابن عمران علیہ اسلام کی سی ہے جو اللہ عزوجل کے حضور عرض کرتے ہیں:

اے پروردگار! ان کے مال تباہ کر دے ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ یہ درد ناک عذاب دیکھے بغیر ماننے والے نہیں ہیں۔

[90]

حضور رحمت عالم ﷺ نے ابو بکر صدیق کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چار چار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جو لوگ مفلسی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیے گئے۔ ان قیدیوں میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس دس لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔[91]

ام المومنین حفضہ بنت عمر فاروق کا نکاح

ہجرت کے تیسرے سال سید کائنات ﷺ نے پیشوائے اصحاب عمر بن خطاب کی بیٹی حفصہ بنت عمر کو امہات المومنین میں داخل فرمایا۔ حفصہ پہلے حنیس بن عذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں۔ ہجرت کے دوسرے سال حنیس نے انھیں طلاق دے دی۔ لشکر اسلام کی جنگ بدر سے واپسی کے بعد عمر فاروق نے ابو بکر صدیق اور عثمان غنی سے اس نکاح کی پیش کش کی لیکن کسی نے بھی عمر فاروق کو کوئی جواب نہ دیا۔ اس وجہ سے عمر کو رنج پہنچا اور عثمان کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے حفصہ کے نکاح کی عثمان سے درخواست کی اس نے شانی جواب نہیں دیا۔ سید عالم نے فرمایا: اے عمر! حق سبحانہ و تعالی تیری بیٹی کو عثمان سے بہتر خاوند عطا فرمائے گا اور عثمان کے لیے حفصہ سے بہتر اور شریف عورت مقرر ہو چکی ہے۔ ماہ شعبان 3 ہجری میں سید رسل ﷺ نے حفصہ کو طلب کیا اور انھیں نبوت پناہی ﷺ کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب سلسلہ مستحکم ہو گیا ایک روز عمر فاروق نے بطور تذکرہ ابو بکر صدیق سے کہا: کیا بات تھی کہ میں نے اپنی بیٹی تمھارے سامنے پیش کی آپ نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہ دیا۔ صدیق اکبر نے کہا: میں نے سنا تھا کہ پیغمبر ﷺ نے اسے یاد فرمایا ہے، اس وجہ سے میں نے خاموشی اختار کی۔ عمر فاروق نے کہا وہ خوشخبری آپ نے مجھے کیوں نہ سنائی۔ ابو بکر صدیق نے کہا: آقا کا راز فاش کرنا آداب بندگی کے خلاف ہے۔[92]

غزوہ احد

بدر کی شکست نے قریش کو اور برافروختہ کر دیا تھا اور انھوں نے اس شکست کا بدلہ لینے کی تیاریاں بہت بڑے پیمانے پر شروع کر دیں۔ شاعروں نے اپنی آتش بیانی سے آس پاس کے قبائل میں آگ لگا دی اور ادھر عورتوں نے مقتولین بدر کا نوحہ کر کے قریش کے ایک ایک نوجوان کو جوش انتقام سے اس طرح بھر پور کر دیا کہ ہر شخص کی زبان پر "الثار" "الثار" تھا۔ ابو سفیان کی سرکردگی میں جو کاروان تجارت ملک شام سے واپس آیا تھا اس کا عظیم منافع کو جنگی فنڈ میں جمع کرادیا گیا۔ اس مرتبہ قریش یہ طے کر کے چلے کہ وہیں میدان جنگ میں لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں گے یا وہ اپنے مقتولین بدر کا انتقام لیں گے۔ عباس بن عبد المطلب جو اگرچہ اسلام قبول کر چکے تھے لیکن جاسوسی کی غرض سے مکہ میں واپس آ گئے تھے۔ انھوں نے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے نبی کریم ﷺ کو قریش کی تیاریوں کی اطلاع کر دی۔[93] تمام خبروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد بنی کریم ﷺ مسلمانوں کا ایک لشکر جس کی تعداد ایک ہزار تھی بارہ شوال تین ہجری کو مدینہ سے لے کر نکلے کہ جبل احد جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے اس کے دامن میں قریش کے لشکر سے مقابلہ کیا جائے گا۔ آگے قریش کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی منافق اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر نبی کریم کے لشکر سے علاحدہ ہو کر واپس چلا گیا اور لشکر اسلام کی تعداد سات سو رہ گئی۔ حضور نبی کریم نے عبد اللہ بن جبیر کو پچاس تیر اندازوں کا دستہ دے کر احد کی پشت پر تعینات فرمایا تا کہ اگر کوئی دشمن پیچھے سے حملہ کرے تو وہ اس کو روک سکیں۔[94] جب عام جنگ شروع ہوئی تو امیر حمزہ بن عبد المطلب، علی المرتضی اور ابو دجانہ اس بے جگری کے ساتھ لڑے کہ دشمنوں کی صفوں کو الٹ دیا۔ مسلمانوں کے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے قریشی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنا شروع کر دیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے احد کے درہ پر تعینات مسلمانوں نے درہ چھوڑ دیا اور مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔ چند مسلمان اب درہ پر موجود تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے احد کے عقب سے حملہ کر دیا۔ اس حملے نے جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ یہ وقت اسلام کے لیے نازک ترین تھا۔ مسلمانوں میں افراتفری کے عالم میں مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں کو شہید کرنے لگی۔ اس نازک مرحلے میں کفار نے افواہ اڑا دی کہ سرکار عالم شہید ہو گئے۔[95] اس دوران میں کفار نے حضور نبی کریم کی ذات اقدس پر حملہ کر دیا تو آپ کے دفاع کے لیے ابو بکر صدیق، عمر فاروق، علی المرتضی اور طلحہ بن زبیر جیسے صحابہ نے جانثاری کا ثبوت دیا اور آپ کو دشمن کے وار سے بچاتے رہے۔ [96] جب ایک نا اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا اس وقت بھی ابو بکر صدیق پائے استقلال میں جنبش نہ آئی اور آپ اخیر تک میدان جنگ میں ڈٹے رہے۔ جب رحمت عالمین ﷺ زخم ہو گئے تو ابو بکر صدیق اور کچھ دوسرے صحابہ نے آپ کو سہارا دے کر پہاڑ پر ایک محفوظ مقام تک لے گئے۔[97] ابو سفیان میدان سے جانے لگا تو احد کے قریب آیا اور زور زور سے پکارا کہ کیا یہاں محمد (ﷺ) ہیں؟ نبی کریم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جوب نہ دو۔ پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں ابو بکر ہیں؟ نبی کریم نے فرمریا کہ کوئی کچھ جواب نہ دے۔ پھر اس نے پکارا کیا تم میں عمر ہیں؟ جب اس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا تو ابو سفیان گھمنڈ سے کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ضرور میرا جواب دیتے۔ یہ سن کر عمر فاروق سے ضبط نہ ہو سکا اور آپ نے چلا کر کہا کہ اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے۔ ہم سب زندہ ہیں۔[98] مسلمانوں کو جب معلوم ہو گیا کہ حضور زندہ ہیں تو ان کے حوصلے بلند ہو گئے اور انھوں نے اپنی منتشر طاقت کو سمیٹ کر پھر اس جوش و خروش کے ساتھ حملہ کیا کہ بہادران قریش کے چھکے چھڑا دیے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ حضور نے دریافت کیا ان کا تعاقب کون کرے گا؟ ستر بہتر صحابہ نے اپنے نام پیش کیے۔ امام بخاری نے ابو بکر صدیق اور زبیر کے ناموں کی تصریح کی ہے۔[99] ان سرفروشوں نے حمرالاسد کے مقام تک مشرکین قریش کا تعاقب کیا۔ [100] روایت میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن حضور نبی کریم ﷺ کی پیشانی مبارک پر ایک کڑی پیوست ہو گئی۔ ابو بکر صدیق اس کڑی کو اپنے دانتوں سے نکالنے کے لیے جھکے تو ابو عبیدہ بن الجراح نے آپ کو قسم دے کر فرمایا کہ آپ یہ کڑی انھیں نکالنے دیں۔ چنانچہ ابو عبیدہ نے وہ کڑی اپنے دانتوں سے نہایت نرمی کے ساتھ نکالنا شروع کی اور جب وہ کڑی نکل آئی تو ابو عبیدہ کے دانت مبارک سارے گر گئے۔ اس جنگ میں حضور نبی کریم ﷺ کے ہر دلعزہز چچا جان سینا امیر حمزہ بن عبد المطلب نے جان بحق نوش فرمائی۔ ان کے علاوہ عبد اللہ بن جحش اور مصعب بن عمیر جیسے نامور صحابہ نے جان بحق نوش فرمائی۔ اس جنگ میں ستر کے قریب صحابہ کرام شہید ہوئے جبکہ بائیس کے قریب کفار جہنم واصل ہوئے۔ [96]

غزوہ بنو نضیر

عمرو بن امیہ ضمری نے قبیلہ بنو کلاب کے جن دو شخصوں کا قتل کر دیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کا خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرما دیا تھا اور اسی معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئےـ[101] کیونکہ وہ مقتول بنی عامر سے تھے اور بنی عامر بنو نضیر کے حلیف تھے۔ اس سبب سے حضور نے ان سے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا اے محمد (ﷺ) بہتر ہے جس طرح آپ چاہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر بنی نضیر کے لوگوں نے پوشیدہ مشورہ کیا کہ ایسا موقع فرصت کا ہاتھ نہ لگے گا۔ محمد (ﷺ) کو زندہ چھوڑ دو۔ ایک شخص عمرو بن حجائل بن کعب کو انھوں نے اس کام پر آمادہ کیا جس دیوار نیچے حضور تشریف رکھتے تھے، دوسری طرف وہ اس کے اوپر چڑھ کے ایک بہت بڑا پتھر حضور کے اوپر گرا دے تا کہ حضور شہید ہو جائیں۔[102] نبی کریم کے ساتھ ابو بکر و عمر اور علی بن ابی طالب بھی تھے۔ محافظ حقیقی پروردگار عالم عزوجل نے اپنے حبیب کو یہودیوں کی اس ناپاک سازش سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ اس لیے آپ فوراً ہی وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چلے آئے اور مدینہ تشریف لا کر صحابہ کرام کو یہودیوں کی اس سازش سے آگاہ فرمایا۔[103] محمد نے محمد بن مسلمہ سے کہا بھیجا کہ تم لوگ میرے شہر سے نکل جاؤ اور میرے ساتھ اس میں نہ رہو۔ تم نے جس بد عہدی کا قصد کیا، وہ کیا میں تمھیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں اس کے بعد جو بھی نظر آئے گا اس کی گردن مار دی جائے گی۔[104] بنو نضیر جلا وطن ہونے کے لیے تیار ہو گئے مگر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی ان یہودیوں کا حامی بن گیا اور کہا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے کو تیار ہیں ساتھ بنو قریظہ اور بنو غطفان والے بھی آپ لوگوں کی مدد کرے گے۔ یہ سن کر بنو نضیر کے یہودیوں کو حوصلہ مل گیا اور شیر بن گئے۔ نبی کریم کے پاس کہا بھیجا ہم مدینہ چھوڑ کر نہیں جائے گے آپ کے دل میں جو آئے کر لیجیے۔[105] حضور نے زور سے تکبیر کہی اور صحابہ نے بھی تکبیر کہی۔ آپ نے فرمایا یہود نے اعلان جنگ کر دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اصحاب کے ساتھ ان کی طرف روانہ ہوئے اور بنی النضیر کے میدان میں نماز عصر پڑھی۔ علی کو اپنا عَلم دیا اور مدینہ پر ابن ام مکتوم کو خلیفہ بنایا۔ جب انھوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو پتھر اور تیر لے کر قلعوں پر چڑھ گئے۔ قریظہ ان سے علاحدہ رہے، ابن ابی اور حلفائے غطفان نے بھی انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا اور وہ ان کی مدد سے مایوس ہو گئے۔ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کر لیا اور باغ کاٹ ڈالا تب انھوں نے کہا ہم آپ کے شہر سے نکلتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج میں اس کو نہیں مانتا لیکن اس سے اس طرح نکلو کہ تمھارے لیے تمھاری جانیں ہوں گی اور سوائے زرہ کے جو کچھ اونٹ لاد لیں گے وہ ہو گا۔ اس شرط پر یہود اتر آئے۔ [106] یہود نے اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی سوار کر لیا اور چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں نکلے۔ کچھ خیبر چلے گئے اور زیادہ تعداد ملک شام جا کر اذرعات اور اریحاء میں آباد ہو گئے۔ ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کی مسلمانوں نے تلاشی لی تو پچاس لوہے کی ٹوپیاں، پچاس زرہیں اور تین سو چالیس تلواریں نکلیں جو حضور ﷺ کے قبضہ میں آئیں۔[107] تمام مال حضور کے لیے مخصوص تھا۔ آپ نے اس کے پانچ حصے نہ فرمائے نہ کسی کا کوئی حصہ لگایا۔ اپنے اصحاب میں سے چند لوگوں کو عطا فرمایا اور ان اموال سے ان کو وسعت عطا فرمائی۔ ان اصحاب کے نام یہ ہیں۔ ابو بکر صدیق کو بیر حجر، عمر بن خطاب کو بیر جرم، عبد الرحمن بن عوف کو سوالہ، صہیب بن سنان کو الضراط، زبیر بن عوام کو اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کو البویلہ، سہیل بن حنیف اور ابو دجانہ کو وہ مال دیا جو ابن خرشد کا مال کہلاتا تھا۔ [106]

آیت تیمم کا نزول

ابن عبد البر، ابن سعد، ابن حبان وغیرہ محدثین و علما سیرت کا قول ہے کہ تیمم کی آیت غزوہ مریسیع (بنو مصطلق) میں نازل ہوئی مگر روضتہ الاحباب میں لکھا ہے کہ آیت تیمم کسی دوسرے غزوہ میں اتری ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔ بخاری شریف میں آیت تیمم کا نزول کچھ اس طرح مذکور ہے۔ عائشہ صدیقہ کا بیان ہے کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم لوگ مقام "بیداء" یا "ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا حضور اور کچھ لوگ اس ہار کی تلاش میں وہی ٹھہر گئے اور وہاں پانی نہیں تھا تو کچھ لوگوں نے ابو بکر صدیق کے پاس آ کر شکایت کی کہ کیا آپ دیکھتے نہئں کہ عائشہ نے کیا کیا؟ حضور اور صحابہ کو یہاں ٹھہرا لیا ہے حالانکہ یہاں پانی موجود نہیں ہے۔ یہ سن کر ابو بکر صدیق میرے پاس آئے اور جو کچھ خدا نے چاہا انھوں نے مجھ کو (سخت وسست) کہا اور پھر (غصہ میں) اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچا مارنے لگے اس وقت محمد میری ران پر سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے اس وجہ سے (مار کھانے کے باوجود) میں ہل نہیں سکتی تھی صبح کو جب رسول اللہ بیدار ہوئے تو وہاں کہیں پانی موجود نہیں تھا ناگہاں حضور پر آیت تیمم نازل ہو گئی چنانچہ حضور اور تمام صحابہ نے تیمم کیا اور فجر کی نماز ادا کی۔ اس موقع پر اسید بن حضیر نے (خوش ہو کر) کہا کہ اے ابو بکر کی آل! یہ تمھاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ پھر ہم لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہم نے ہار کو پا لیا۔[108]

غزوہ خندق (احزاب)، سریۂ ام قرفہ

ذو القعدہ پانچ ہجری میں غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں پیش آیا۔ جس میں لشکر اسلام کی تعداد تین ہزار اور دشمنان اسلام کی تعداد چوبیس ہزار کے قریب تھی۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے مشورہ دیا کہ ہمیں دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے شہر کے گرد خندق کھودنا چاہیے کیونکہ شہر کے تین جانب باغات، مکانات یا پہاڑ تھے البتہ چوتھی جانب کھلی تھی اس جانب خندق کھود کر شہر کا دفاع کیا گیا۔ یوں پانچ گز گہری اور پانچ گز چوڑی خندق کھودی گئی۔ حضور نبی کریم نے خندق کی کھدائی کے لیے دس دس صحابہ کا ایک گروہ تشکیل دیا۔ ابو بکر صدیق بھی نبی کریم اور دیگر صحابہ کرام خندق کی کھودائی میں شب و روز مشغول رہے۔ ابو بکر صدیق جبل سلع کی چوٹی پر چڑھ جاتے اور چاروں طرف نظر دوڑاتے اور مدینہ منورہ میں لوگوں کو پر سکون دیکھ کر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتے۔ ایک مرتبہ نبی کریم تھک کر سو گئے تو ابو بکر صدیق آپ کے گرد پہرہ دیتے رہے تا کہ آپ کی نیند خراب نہ ہو۔[109] مشرکین نے تین ہفتے تک مدینہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ اس دوران میں انھوں نے کئی بار شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن مسلمان جانبازوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا۔ تین ہفتوں کے بعد کفار کی ہمت جواب دے گئی اور ایک رات جب سخت سردی کے عالم میں آندھی چلی تو وہ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بھاگ گئے۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں کا ایک دستہ سیدنا ابو بکر کے ماتحت خندق کے ایک حصے کی حفاظت پر مامور تھا۔ اس موقع پر بعد میں ایک مسجد بنا دی جو مسجد صدیق کے نام سے مشہور ہوئی۔ [100]

سریۂ ام قرفہ

رمضان (بروایت دیگر جمادی الاخری) چھ ہجری میں نبی کریم ﷺ نے ابو بکر صدیق کو سو صحابہ کے ہمراہ بنو قزارہ کی سرکوبی کے لیے وادی القری بھیجا۔ بنو قزارہ کے لشکر کی قیادت ایک عورت ام قرفہ کر رہی تھی۔ ابو بکر صدیق نے دشمن کو شکست دی اور مظفر و منصور واپس آئے۔[110]

صلح حدیبیہ (بیعت رضوان)

صلح حدیبیہ کا واقعہ ماہ ذی قعدہ چھ ہجری میں پیش آیا۔ نبی کریم ﷺ چودہ یا پندرہ سو صحابہ کرام کو لے کر عمرہ کی نیت سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ ذوالحیلفہ میں پہنچ کر جو اہل مدینہ کا میقات (احرام بندھنے کی جگہ) ہے آپ نے احرام بندھا اور ایک خزاعی شخص کو جاسوسی کی غرض سے پہلے روانہ کر دیا۔ غدیر الاشطاط جو حدیبیہ کے سامنے ہے وہاں پہنچتے ہی جاسوس مل گیا۔ اس نے بتایا کہ قریش آپ کو زیارت بیت اللہ نہیں کرنے دے گے اور انھوں نے آپ کے ساتھ جنگ کی پوری تیاری کر لی ہے۔ نبی کریم نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ تو بیت اللہ کی زیارت کے لیے نکلے ہیں آپ نہ کسی کو قتل کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے آپ بیت اللہ کا رخ کیجئے اگر ان میں سے کسی نے ہم کو روکا اور مزاہم ہوا تو ہم اس سے جنگ کرے گے۔ نبی کریم نے یہ سن کر فرمایا: تو بسم اللہ چلو۔ نبی کریم صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے اور مقام حدیبیہ میں فروکش ہو کر بدیل بن ورقاء الخزاعی کی معرفت قریش کو کہا بھیجا کہ ہم جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں بلکہ مقصد صرف عمرہ کرنا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ مصالحت کر لو ورنہ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے اس وقت تک لڑوں گا جب تک میری گردن تن سے جدا نہ ہو جائے۔ مسلسل جنگوں اور ان میں پیہم شکستوں کے باعث قریش دم خم پہلے سے ہی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ کچھ حیص بیص کے بعد انھوں نے منظور کر لیا اور مصالحت کی گفتگو کرنے کے لیے عروہ بن مسعود کو جو تجربہ کار اور نہایت چالاک شخص تھا اپنا نمائندہ بنا کر روانہ کیا۔ نبی کریم نے عروہ سے وہی کہا جو بدیل کے ذریعے پہلے کہا بھیجا تھا۔ عروہ بولا اے محمد (ﷺ) اگر آپ نے جنگ کی اور قریش کا خاتمہ کر دیا تو آپ نے کیا اپنے سے پہلے کبھی کسی ایسے شخص کا نام سنا ہے جس نے خود اپنی قوم کا قلع قمع کر دیا ہو۔ اگر جنگ کا نتیجہ دوسرا ہو (آپ کو شکست ہوئی) تو میں آپ کے ساتھیوں میں ایسے ملے جلے آدمی دیکھتا ہوں جو آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ابو بکر حلیم اور بردبار تھے لیکن عروہ کی زبان سے یہ سن کر برہم ہو گئے اور بولے بد معاش! کیا ہم لوگ محمد کو چھوڑ کر بھاگ سکتے ہیں۔ عروہ نے یہ تیور دیکھ کر پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ابو بکر۔ اب عروہ نے ابو بکر سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تمھارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں اب تک نہیں چکا سکا تو میں تم کو جواب دیتا۔[111] عروہ کی واپسی کے بعد نبی کریم نے عثمان بن عفان کو مکہ بھیجا۔ قریش نے انھیں مکہ میں روک لیا۔ ادھر حدیبیہ میں افواہ مشہور ہو گئی کہ عثمان کو قریش نے شہید کر ڈالا۔ اس پر حضور نے ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس بات پر بیعت لی کہ ہم عثمان کا بدلہ لینے کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔ اس بیعت کو "بیعت رضوان" کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں شریک ہونے کو اللہ تعالی نے کھلے الفاظ میں اپنے راضی ہونے کی بشارت دی۔ ابو بکر صدیق کو بھی اس بیعت رضوان کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ بعد میں خبر ملی کہ عثمان کی شہادت کی خبر غلط تھی لیکن مسلمانوں کا جوش و حوصلہ دیکھ کر قریش ہمت ہار بیٹھے اور اور انھوں نے چند شرطوں پر مسلمانوں سے دس سال کے لیے صلح کر لی۔ بظاہر یہ شرطیں کفار کے حق میں تھیں، اس لیے عمر فاروق بہت مضطرب ہو کر ابو بکر صدیق کے پاس تشریف لائے۔ عمر: یا ابا بکر! محمد اللہ کے سچے پیغمبر ہیں نا؟ ابو بکر: ہاں ہیں۔ عمر: کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟ ابو بکر: ہاں (ہم حق پر اور دشمن باطل پر ہے)۔ عمر: تو پھر ہم دین میں یہ پستی کیوں گوارا کریں؟ ابو بکر: اے شخص، آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اللہ ان کی مدد کرے گا، تم ان کی اطاعت کے لیے جاؤ۔ خدا کی قسم ﷺ حق پر ہیں۔ عمر: کیا آپ ﷺ ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے؟ ابو بکر: ہاں لیکن کیا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ تم اسی سال بیت اللہ جاؤ گے؟ عمر: نہیں۔ ابو بکر: تو تم بیت اللہ جاؤ گے اور طواف بھی کرو گے۔ عمر اب خاموش ہو گئے۔ صلح نامہ پر جن صحابہ کرام نے مسلمانوں کی طرف سے دستخط کیے ان میں نبی کریم کے بعد سب سے پہلے دستخط کرنے والے ابو بکر صدیق تھے۔[112]

غزوہ خیبر

محرم سات ہجری میں غزوہ خیبر کا واقعہ پیش آیا۔ خیبر عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا جو متعد مضبوط قلعوں پر مشتمل تھا۔ ایک قلعہ قموص تھا جو عرب کے مشہور پہلوان مرحب کے زیر تھا۔ نبی کریم ﷺ نے مختلف قلعوں کو فتح کرنے کے غرض سے متعدد دستے متعین کیے اور ہر دستے کا جدا جدا امیر مقرر کیا جاتا۔ قلعہ قموص کی مہم میں ابو بکر صدیق کو روانہ کیا۔ انھوں نے بہت شجاعت دکھائی لیکن قلعہ فتح نہیں ہو سکا کیونکہ وہ علی شیر خدا کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔[113]

سرّیۂ بنو کلاب، سرّیۂ ذات السلاسل اور سرّیۂ سیف الحجر (مہم خبط)

سرّیۂ بنو کلاب

شعان سات ہجری میں حضور بنی کریم نے ابو بکر صدیق کو بنو کلاب کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ لوگ نجد میں وادی القری کی جانب آباد تھے۔ مقابلہ ہوا جس میں دشمن کے چند آدمی قتل ہوئے اور کچھ گرفتار ہوئے۔ یہ مجاہدین کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے۔

سرّیۂ ذات السلاسل

سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلوع ملی کہ وادی القری میں بنو قضاعہ کے کچھ گروہ مدینہ پر حملہ کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ ان کا مقام اجتماع مدینہ سے دس یوم کی مسافت پر تھا۔ ماہ جمادی الآخرہ آٹھ ہجری میں آپ نے عمرو بن العاص کو تین سو مہاجرین و انصار کے ساتھ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ اثنائے راہ میں عمرو بن العاص کو خبر ملی کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے نبی کریم سے کمک مانگ بھیجی۔ آپ نے ابو عبدیدہ بن الجراح کو دو سو مجاہدین کے ساتھ ان کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ ان مجاہدین میں عمر و ابو بکر بھی شامل تھے۔ مفسدہ پردازوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ لیا تا کہ جم کر لڑ سکیں اور بھاگنے کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔ اس لیے یہ مہم ذات السلاسل (زنجیروں والی) کے نام سے مشہور ہو گئی۔ عمرو بن العاص کے پاس کمک پہنچی تو انھوں نے مفسدین پر پُرزور حملہ کر دیا۔ دشمنوں نے کچھ دیر مقابلہ کیا لیکن پھر بھاگنا شروع کر دیا اور شکست فاش سے دوچار ہوئے۔ مجاہدین کامیاب ہو کر مدینہ واپس لوٹے۔ عمرو بن العاص کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضور نے انھیں ایسے لشکر کا امیر مقرر کیا جس میں ابو بکر و عمر جیسے اصحاب شامل تھے شاید حضور کے نزدیک ان کی قدرومنزلت ان اصحاب سے بڑھ کر ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو کون سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ عائشہ۔ میں نے عرض کیا کہ عورتوں میں نہیں بلکہ مردوں میں۔ فرمایا کہ عائشہ کے والد۔ میں نے عرض کی کہ پھر کون۔ فرمایا کہ عمر بن خطاب۔ میرے مزید استفار پر آپ نے چند اور اصحاب کے نام لیے۔ اب میں خاموش ہو گیا اور اپنے دل میں کہا کہ پھر کبھی آپ سے یہ سوال نہیں کرو گا۔

سرّیۂ سیف الحجر (مہم خبط)

رجب آٹھ ہجری میں سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح کو تین سو آدمی دے کر جہینہ کے علاقے کی طرف روانہ فرمایا جو سمندر کے کنارے مدینہ سے پانچ دن کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان تین سو آدمیوں میں ابو بکر صدیق اور عمر فاروق بھی شامل تھے۔ اتفاقاً سفر میں رسد ختم ہو گئی اور مجاہدین کو درختوں کے سوکھے پتوں پر گزارا کرنا پڑا۔ جب یہ ساحل سمندر پر پہنچے تو سمندر کی موجوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کنارے پر ڈال دی جس کا گوشت مجاہدین نصف ماہ تک کھاتے رہے جس سے وہ خوب توانا ہو گئے۔ شرارت پر آمادہ بنو جہینہ کو مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور مقابلہ کیے بغیر بھاگ گئے جس کے بعد مجاہدین واپس لوٹے۔ سیف الحجر کے معنی سمندر کا کنارہ ہے اس لیے اس مہم کو سیف الحجر کہا جاتا ہے۔ خبط ایسے پتوں کو کہتے ہیں جو لکڑی مار کر گرائے جائے، چونکہ مجاہدین کو چند دن ایسے پتوں پر گزارا کرنا پڑا اس لیے یہ سرّیۂ مہم خبط سے مشہور ہو گیا۔[114]

فتح مکہ

رمضان المبارک آٹھ ہجری میں محمد کی زندگی میں وہ عظیم الشان واقعہ رونما جو تاریخ نبوت میں ایک سنہری باب کی حثیت رکھتا ہے۔ حضور نبی کریم جو آٹھ سال پہلے انتہائی دکھ اور تکلیف کی حالت میں اپنے یارغار ابو بکر صدیق کے ہمراہ بے یارومددگار رات کی تاریکی میں ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے۔ آٹھ برس بعد اللہ عزوجل آپ کو ایک عظیم فاتح کی حثیت سے دوبارہ آپ کے آبائی شہر مکہ مکرمہ میں داخل فرما دیا۔[115] صلح نامہ حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمانوں اور قریش مکہ کے حلیف قبائل بھی دس سال تک ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے لیکن ابھی صلح کو صرف اٹھارہ ماہ ہی گذرے تھے کہ قریش کے حلیف قبیلے بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا اور ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ قریش نے بھی بنو بکر کا ساتھ دیا۔ بنو غزاعہ کے ایک وفد نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر بنو بکر اور قریش کے خلاف فریاد کی۔ نبی کریم نے قریش کے پاس ایک قاصد بھیجا کہ بنو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دو یا بنو بکر کا ساتھ چھوڑ دو ورنہ سمجھ لو کہ حدیبیہ کی صلح ختم ہو گئی۔ قریش کے کچھ جوشیلے لوگوں نے بڑے غرور سے کہہ دیا کہ ہمیں تیسری بات منظور ہے لیکن قاصد کے جانے کے بعد وہ بہت پچھتائے اور ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ صلح نامہ کی تجدید کرا لائیں۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ صلح نامہ کی تجدید کر دیں لیکن آپ اس پر رضا مند نہ ہوئے۔ اس کے بعد ابو بکر صدیق کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی کہ آپ اس معاملے میں حضور سے سفارش کریں لیکن آپ نے بھی صاف جواب دے دیا تو وہ کچھ اور اصحاب سے ملے لیکن کسی نے سفارش کی ہامی نہ بھری تو ابو سفیان معاہدہ کی یک طرفہ تجدید کر کے واپس چلا گیا۔[116] جب ابو سفیان ناکام ہو کر واپس لوٹا گیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور اس مقصد کے لیے اپنے تمام حلیف قبائل کو بھی حکم نامے بھیجے۔ کسی بھی صحابی حضور سے پوچھنے کی ہمت نہ کی کہ وہ کس سے جنگ کی تیاری کا حکم دے رہے ہیں یہاں تک کہ حضور نے بھی کسی صحابی حتی کہ اپنے رازدان سیدنا ابو بکر صدیق سے بھی اس بات کا ذکر نہ کیا کہ وہ کس سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق اپنی صاحبزادی ام المومنین عائشہ صدیقہ کے پاس گئے تو ام المومنین ہتیھار نکال رہی تھیں۔ آپ نے اپنی صاحبزادی سے حضور کے فرمان کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ تمام تیاریاں خاموشی کے ساتھ ہوتی رہیں۔ دس رمضان المبارک آٹھ ہجری کو حضور ﷺ اپنے دس ہزار جانثاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے جب لشکر اسلام مقام جحفہ پہنچا تو نبی کریم نے لشکر کو خیمہ زن ہونے کا حکم دیا۔ اسی مقام پر حضور کے چچا سیدنا عباس بن عبد المطلب جو بعض وجوہات کی بنا پر حضور کی مرضی سے مکہ میں قیام پزیر تھے اپنے اہل و عیال کے ساتھ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور لشکر اسلام میں شامل ہو گئے۔[117]

  • امام بیہقی نے ابو سفیان کے بارے میں ابوبکر صدیق کا ایک خواب بیان کیا ہے کہ صبح سویرے سیدنا ابو بکر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں نے آج یہ خواب دیا ہے کہ ہم آپ کی معیت میں مکہ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اچانک مکہ سے ایک کتیا بھونکتی ہوئی نکلی۔ ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ پیٹھ کے بل زمین پر لیٹ گئی اور اس کے وجود سے دودھ بہنے لگا۔

رسول اکرم نے فرمایا: اہل مکہ کی قوت دم توڑ چکی ہے۔ وہ اب اپنا دودھ پیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی رشتہ داریوں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ ان میں سے اب کئی لوگ اب تم سے ملنے والے ہیں، اگر تمھاری ملاقات ابو سفیان سے ہو تو اسے قتل نہ کرناـ[118] سردران قریش کو جب حضور کی آمد کی اطلاع ملی تو انھوں نے تحقیق کے لیے ابو سفیان کو بھیجا۔ جب ابو سفیان نے لشکر اسلامی کا جائزہ لیا تو وہ اتنا عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر حیران رو گیا۔ اس نے واپس جا کر سردران قریش سے کہا اب بھی وقت ہے کہ وہ حضور سے جا کر معافی مانگ لیں تا کہ صلح ہو جائے اور خطرہ ٹل جائے۔ جب لشکر اسلام فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو حضور نبی کریم نے اعلان فرمایا کہ جو شخص حرم کعبہ میں پناہ لے گا اس کے لیے امان ہے، جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا اس کے لیے بھی امان ہے اور جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائے گا اس کے لیے بھی امان ہے۔ حضور جس وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ اپنی اونٹنی قصوٰی پر سوار تھے۔ یہ وہی اونٹنی تھی جو ہجرت کی رات آپ نے ابو بکر صدیق سے خریدی تھی۔ آپ کے دائیں جانب ابو بکر صدیق تھے اور پیچھے دس ہزار کا لشکر عظیم تھا۔ فتح مکہ کے بعد تقریباً تمام عرب نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ فتح مکہ اصل میں دین حق کی بلندی کا دن تھا آپ نے عام معافی کا اعلان کر دیا لیکن چند کفار ایسے تھے جو گستاخ رسول میں شمار ہوتے تھے ان کو معافی نہیں ملی بلکہ ان کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ افراد مکہ سے بھاگ گئے تھے لیکن بعد میں آ کر اسلام قبول کر لیا اور ان کو بھی دربار رسالت سے معافی مل گئی۔ ابو داود کی روایت ہے کہ نبی کریم اور صحابہ کا مکہ مکرمہ میں قیام سترہ روز تک رہا۔ ترمذی شریف کی روایت کہ اٹھارہ روز تک قیام رہا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انیس دن قیام فرمایا۔ نبی کریم نے مکہ مکرمہ کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد فرماتے ہوئے انھیں مکہ کا گورنر نامزد کیا۔ معاذ بن جبل کو نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر فرمایا تا کہ وہ نو مسلموں کو احکام دین سکھائے۔ امام مسلم کی روایت کے مطابق مکہ سولہ رمضان کو فتح ہوا۔ امام احمد کی روایت کے مطابق اٹھارہ رمضان المبارک کو مکہ فتح ہوا۔ محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق بیس رمضان کو فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ بعض دوسری روایات کے مطابق سترہ رمضان کو مکہ فتح ہوا۔[119]

ابو قحافہ عثمان بن عامر کا قبول اسلام

سیدنا اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مقام ذی طوی میں ٹھہرے ہوئے تھے، اس دن ابو قحافہ نے جو نابینا تھے، اپنی چھوٹی بیٹی سے کہا: اے بیٹی مجھے جبل ابی قبيس پر لے چلو۔ جب ابو قحافہ جبل ابی قبیس پر پہنچے تو پوچھا: اے بیٹی تم اس وقت کیا دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا: میں لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی ہوں۔ ابو قحافہ نے کہا: یہ گھڑ سوار ہیں۔ لڑکی نے کہا: ایک آدمی اس ہجوم کے آگے آگے دوڑ رہا ہے۔ ابو قحافہ کہنے لگے: بیٹی! یہ گھڑ سواروں کا قائد ہے۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے کہا: سارے گھڑ سوار بکھر گئے ہیں۔ ابو قحافہ نے کہا: جب گھڑ سوار آگے بڑھنے لگے تو مجھے فوراً گھر لے چلنا۔ لڑکی انھیں لے کر گھر کی طرف چل دی۔ مگر گھڑ سواروں نے ابو قحافہ کو ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی پا لیا۔ لڑکی کے گلے میں چاندی کا ایک ہار تھا جسے ایک آدمی نے اتار لیا۔ رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے تو مسجد حرام میں جلوہ افروز ہوئے۔ ابو بکر صدیق اپنے والد ماجد ابو قحافہ کو لے کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب محمد نے ان کو دیکھا فرمایا: تم نے انھیں گھر ہی میں کیوں نہ رہنے دیا؟ میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔ ابو بکر صدیق کہنے لگے: اے للہ کے رسول میرے والد اس بات کے مستحق تھے کہ وہ آپ کی خدمت میں چل کر آتے بجائے اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ رسول اللہ نے انھیں اپنے سامنے بیٹھا لیا۔ پھر آپ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر پھیرا اور فرمایا: مسلمان ہو جائیے۔ ابو قحافہ فوراً مسلمان ہو گئے۔ سیدنا اسماء کہتی ہیں کہ جب میرے والد ابو بکر اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ کے پاس لے کر گئے تو ان کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ نے ابو بکر سے فرمایا: ان کے بالوں کا رنگ بدل دیجیے۔ پھر سیدنا ابو بکر اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے: میں اللہ تعالی اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار کس کے پاس ہے؟ کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا تو سیدنا ابو بکر نے اپنی بہن سے کہا: اے میری بہن! اپنے ہار کے بدلے ثواب کی امید رکھ کیونکہ آج امانتوں پر لوگوں کی توجہ نہیں یعنی جیش کی کثرت اور لوگوں کے انتشار کی وجہ سے کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔[120]

غزوہ حنین و طائف

غزوہ حنین

حنین مکہ اور طائف کے درمیان میں ایک وادی کا نام ہے۔ عرب کا مشہور بازار ذوالمجاز اسی کے پاس لگتا ہے۔ مکہ مکرمہ کی فتح اور قریش کے مغلوب ہونے کے باعث عرب کے دوسرے قبائل کا بھی زور ٹوٹ گیا اور انھوں نے بھی اسلام قبول کرنا شروع کر دیا لیکن بنو ہوزان اور بنو ثقیف یہ دو قبائل جو فنون سپہ گری و جنگ جوئی کے میدان کے شہ سوار تھے اسلام کی عداوت میں اور سخت ہو گئے اور انھوں نے بڑے زور سے مسلمانوں پر حملہ کی تیاری شروع کر دی۔ جب نبی کریم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے جاسوس کے ذریعے اس کی تصدیق کی تو آپ نے صحابہ کرام کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔[121] شوال آٹھ ہجری میں غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا۔ اس غزوہ میں ابو بکر کو سرورعالم ﷺ کی ہمرکابی کا شرف نصیب ہوا۔ ابتدا میں بنو ہوزان کی بے پناہ تیراندازی سے سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو تمام مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور چند مسلمان نبی کریم کے گرد رو گئے تھے۔ ان میں ابو بکر صدیق چند انصار اور آپ کے اہل خانہ میں سے عباس بن عبد المطلب، ابو سفیان بن حارث وغیرہ شامل تھے۔ حضور کے کہنے پر عباس نے متفرق ہونے والے مسلمانوں کو آواز دی تو وہ پلٹ پڑے اوراس زور سے جم کر حملہ کیا کہ دشمن نے سامان چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا۔[122] جب مال غنیمت جمع ہونا شروع ہوا تو نبی کریم نے اعلان کیا من قتل قتیلا فلہ سلبہ یعنی جس نے بھی کسی شخص کو قتل کیا اس کا تمام سامان جو میدان جنگ میں لایا اسی کو ملے گا۔ ابو قتادہ انصاری نے ایک مشرک کو جو بڑا بہادر اور طاقت ور تھا قتل کیا لیکن اب اسے شہادت کی ضرورت ہوئی تو اسے کوئی نہیں ملا۔ انھوں نے اصل واقعہ نبی کریم کی خدمت میں عرض کیا۔ ایک شخص بولا ہاں ابو قتادہ سچ کہتے ہیں اور جس شخص کو اس نے قتل کیا اس کا متروکہ میرے پاس ہے۔ اب آپ یہ مجھے ہی دے دیجیے۔ ابو بکر صدیق پاس ہی بیٹھے تھے یہ سن کر بولے نہیں قسم اللہ کی یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ قریش کے ایک بجو کو مقتول کا سامان دیں اور اللہ کے اس شیر کو نہ دیں جس نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر جنگ کی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ ابو بکر سچ کہتے ہیں۔ چنانچہ وہ سامان ابو قتادہ کو ہی دیا گیا۔[123]

غزوہ طائف

حنین کی شکست خوردہ فوج طائف میں جمع ہونے لگی جو ایک نہایت محفوظ مقام تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حنین کے اموال غنیمت وغیرہ کو مقام جعرانہ میں چھوڑ کر طایف کے لیے روانہ ہوئے اور طائف پہنچتے ہی قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ اہل قلعہ کے پاس بڑا سازوسامان موجود تھا اور انھوں نے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور قلعہ سر نہ ہو سکا۔ نبی کریم نے ابو بکر سے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کسی نے مجھ کو ایک لبالب پیالہ نذر کیا ہے لیکن ایک مرغے نے اس میں ٹھونگ مار دی اور جو کچھ پیالہ میں تھا گر پڑا۔ ابو بکر نے عرض کیا: اس خواب سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس محاصرہ سے کامیابی نہیں ہو گی۔ ارشاد ہوا: ہاں! میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ چنانچہ محاصرہ اٹھا لیا گیاـ[124] طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اور کل بارہ اصحاب شہید ہوئے۔ سات قریش سے، چار انصار سے اور ایک شخص بنی لیث سے۔ زخمیوں میں عبد اللہ بن ابی بکر بھی شامل تھے جو ایک تیر سے زخمی ہوئے تھے۔ بعد میں اچھے بھی ہو گئے لیکن ایک مدت کے بعد ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ماجد کے دور خلافت میں وفات پائی۔[125] چونکہ یہ زخم غزوہ طائف میں آیا تھا اس لیے ان کا شمار شہدائے طائف میں کیا جاتا ہے۔[126]

غزوہ تبوک

مسلمانوں پر حملے کی خبر

یوں تو عرب میں بارشیں کم ہی ہوتی ہیں لیکن نو ہجری میں تو خشک سالی نے قیامت ڈھا دی اور سارے ملک عرب میں قحط کی کفیت پیدا ہو گئی۔ مدینہ باغوں کا شہر تھا لیکن قحط اور گرمی کی شدت سے اہل مدینہ بھی پناہ مانگ رہے تھے۔ ان کی امیدیں اپنے نخلستان سے وابستہ تھیں جن میں کھجور کے درختوں پر پھل گدرا چکے تھے اور ان کے اتارنے کا وقت قریب آ پہنچا تھا۔ یہی دن تھے کہ مدینہ میں وارد ہونے والے بعض تاجروں کی زبانی مسلمان یہ خبر سن کر چونک اٹھے کہ رومیوں کا ایک زبردست لشکر اپنے زیر اثرغسانی حکمرانوں کے ساتھ مل کر عرب پر دھاوا بولنے کے لیے پرتول رہا ہے اور عرب اور شام کی درمیانی سرحد پر آباد بعض دوسرے عرب مسیحی قبائل لنحم، جذام، عاملہ وغیرہ بھی رومیوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔

جنگ کی تیاری

سرور عالم ﷺ نے نے رومیوں کے لشکر کی عرب پر حملہ کرنے کی خبریں سنی تو فیصلہ کیا کہ رومیوں کو عرب کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دیا جائے اور آگے بڑھ کر شام کی سرحد پر ان کا مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے عرب کے تمام قبیلوں کو اطلاع بھیجی کہ قیصر روم کے مقابلے کے لیے فوراً پہنچو۔ ساتھ میں آپ نے اہل مدینہ کو بھی جہاد کی تیاری کا حکم دیا۔ حضور عام طور پر کسی مہم پر روانہ ہوتے وقت اپنی منزل مقصود ظاہر نہیں کرتے تھے لیکن اس موقع پر آپ نے لوگوں کو صاف الفاظ میں اپنی منزل مقصود بھی بتا دی۔ مسلمانوں کے لیے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا، کھجور کی فصل تیار، ہولناک گرمی، تپتے ہوئے بے آب و گیا صحراؤں کا سفر، خوراک پانی اور سواریوں کی قلت، ہر چیز ان کے سامنے تھی لیکن انھوں نے حضور کے ارشاد پر بغیر حیل و حجت کے لبیک کہا اور ہمہ تن جہاد کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ جب باہر کے قبائل مدینہ منورہ پہنچ گئے تو بہت بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے خوراک ہتھیار اور سواریاں مہیا کرنے کے لیے بہت سے مال و اسباب کی ضرورت تھی۔ اس لیے حضور نے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر مال و سامان دینے کی ترغیب دی۔ اس موقع پر اخلاص و ایثار کے حیرت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ سب صحابہ کرام نے اپنی مالی استطاعت سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔ عمر فاروق نے اپنا آدھا مال راہ خد میں پیش کر دیا۔ عثمان غنی نے ایک ہزار دینار اور سینکڑوں اونٹ پالان سمیت پیش کر دیے۔ طلحہ بن عبید اللہ نے مال و دولت کا ایک انبار لے کر حاضر ہوئے۔ عاصم بن عدی نے ستر وسق کھجوریں پیش کیں۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر اللہ کی راہ میں دے دیے۔

ابو بکر صدیق ان سب میں بازی لے گئے۔ انھوں نے اپنے گھر کا سارا مال و اسباب لا کر بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا اور گھر میں جھاڑو پھیر دی۔

حضور نے پوچھا: ابو بکر! اہل و عیال کے لیے کیا رکھا؟ عرض کی: بس ان کے کیے اللہ اور اس کا رسول باقی ہیں۔ عمر فاروق کا بیان ہے جس وقت لشکر تبوک کے لیے انفاق کا ارشاد ہوا میں خوب مال دار تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر ابو بکر سے آگے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے۔ چنانچہ میں گھر گیا اور اپنے مال اسباب کا نصف لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔

محمد نے پوچھا: عمر! بال بچوں کے کیے کیا چھوڑا؟

میں نے عرض کیا: اسی قدر۔ اس کے بعد ابو بکر آئے ان کے پاس جو کچھ تھا سب اٹھا لائے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ابو بکر! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے ان کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول کو چھوڑا ہے۔ اب مجھ کو یقین ہو گیا کہ میں ابو بکر سے کبھی بازی نہیں لے جا سکتا۔

تبوک روانگی

رجب نو ہجری میں نبی کریم تیس ہزار فوج لے کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آپ نے ابو بکر کو سب سے بڑا عَلم عطا فرمایا اور امامت کے منصف پر فائز فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ لشکر کے جائزہ کی خدمت بھی سپرد کی۔ موسم سخت گرم اور راستہ دشوار گزار تھا، کسی جگہ ایسے ریتلے اور بے آب و گیاہ میدان آئے جہاں زہریلی ہوائیں چلتی تھیں۔ مسلمان لا تعداد مصیبتیں جھیل کر تبوک پہنچے جو مدینہ سے شمال کی طرف چودہ منزل کے فاصلے پر سرحد شام کے قریب ایک مشہور مقام ہے۔ اس مہم میں مسلمانوں کو جن تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اس وجہ سے اس کو "جیش العسرۃ" اور "غزوۃ العسرۃ" بھی کہا جاتا ہے۔

تبوک میں قیام

تبوک میں دشمن کو مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی ہمت نہ ہوئی بلکہ آس پاس کے مسیحی حکمرانوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ پاس کی ایک ریاست دومۃالجندل کا عرب حاکم اکیدر قیصر روم کے زیر اثر تھا حضور نے خالد بن ولید کو چار سو سوار دے کر اس کو مطیع کرنے کے لیے بھیجا۔ خالد نے اکیدر کو شکست دی اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے آئے۔ نبی کریم نے اس کو چند شرطوں پر معافی دے دی۔ بیس دن تبوک میں قیام کے بعد حضور نے مدینہ منورہ کی طرف واپسی اختیار فرمائی۔[127]

وفد بنو تمیم

نو ہجری میں بنو تمیم کا وفد بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا۔ قبول اسلام کے بعد یہ وفد مدینہ سے چلنے لگا تو قبیلے کی امارت کا سوال پیدا ہوا۔ ابو بکر صدیق نے حضور سے عرض کی کہ قعقاع بن معبد بن زرارہ کو رئیس مقرر فرما دیجیے۔ عمر فاروق بولے نہیں اقرع بن حابس امیر ہوں۔ ابو بکر نے کہا: تم کو صرف میری مخالفت منظور ہے۔ عمر نے جواب دیا کہ کبھی نہیں۔ بات بڑھی اور دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی:

اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور جس طرح آپس میں زور سے بولتے ہو ان (نبی) سے زور سے نہ بولو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال بیکار ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (الحجرات)

اس آیت کا نزول دونوں بزرگوں کے لیے ایک آزمائش تھی۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو تقوی کے لیے آزمایا تھا۔ دونوں اس آزمائش میں کامیاب ہوئے نہ صرف اسی وقت اپنی آوازوں کو پست کر لیا بلکہ ہمیشہ کے لیے اپنا شعار بنا لیا کہ حضور کے سامنے نہایت دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے۔ اس آیت میں اس طرف شارہ ہے:

جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازوں کوپست کرتے ہیں انہی کے قلوب کو اللہ تعالی نے تقوی کے لیے آزما لیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور ثواب عظیم ہے۔ (الحجرات)

[128]

امارت حج

غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد حج کا موسم آیا تو سرکارعالم ﷺ نے تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ حج کے لیے مکہ مکرمہ بھیجا۔ اس قافلے کا امیر آپ نے ابو بکر صدیق کو مقرر فرمایا چونکہ حضور خود بعض ضروری دینی کاموں کی وجہ سے حج کے لیے نہ جا سکے۔ آپ نے قربانی کے لیے جانور بھی ابو بکر کے ساتھ بھیج دیے۔ ایک رویت کے مطابق ان جانوروں (اونٹوں) کی تعداد بیس تھی۔ نبی کریم نے ان جانوروں کی گردنوں میں اپنے دست مبارک سے پٹکے باندھے اور قربانی کے نشان لگائے۔ ان کے علاوہ ابو بکر صدیق نے اپنے پانچ جانور بھی ساتھ لیے۔ حضور نے کچھ دوسرے ضروری کام سعد بن ابی وقاص، جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو ہریرہ کے سپرد کیے۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ نے ان کو معلم اور منادی مقرر فرمایا۔[129] ابو بکر صدیق نے امیر کے تمام فرائض ادا کیے اور اپنے ساتھیوں کے کھانے، سونے اور پینے کا برابر انتظام کرتے رہے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس طرح سے منظم کیا کہ دشمنان اسلام یہی سمجھتے رہے کہ مسلمان تعداد میں زیادہ ہیں۔ [130]

علی کی آمد

عربوں کے ہاں رواج تھا کہ دو قوموں کے درمیان موجود معاہدوں کی تجدید یا خاتمے کے لیے صاحب معاہدہ یا اس کے قریبی رشتہ دار کا اعلان کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ جب ابو بکر صدیق اور مسلمانوں کی روانگی کے بعد سورت براءت یعنی سورت توبہ کی ابتدائی آیات نازل ہو گئیں۔ ان میں نئے احکام دیے گئے تھے جن کے مطابق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مشرکوں کے لیے جزیرہ نما عرب میں کوئی جگہ نہیں البتہ جن کے ساتھ معاہدے تھے ان کی تکمیل مدت تک پاسداری کی جائے گی۔ یہ نئے احکام مشرکوں تک پہنچانے لازمی تھے تا کہ آئندہ سال کوئی مشرک بیت اللہ کے حج کی ہمت نہ کرے۔ وہ لوگ مسلمان ہو جائیں یا جزیرہ نمائے عرب سے جلا وطنی کے لیے تیار ہو جائیں۔ نبی کریم نے اس مقصد کے لیے علی المرتضی کو یہ آیات دے کر مکہ مکرمہ روانہ فرمایا۔[131] جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ جب ہم مقام عرج پر پہنچے تو سیدنا ابو بکر نے ہمیں فجر کی نماز کے لیے پکارا۔ اس دوران میں ہم نے اونٹنی کے بلبلانے کی آواز سنی۔ ابو بکر صدیق ہم سے فرمانے لگے کہ یہ حضور ﷺ کی اونٹنی کی آواز ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضور خود ہوں۔ اگر حضور خود ہوں تو ہم ان کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ اس دوران میں علی المرتضی آئے۔ ابو بکر نے پوچھا: اے علی! کیسے آنا ہوا؟ کیا قاصد بن کر آئے ہو یا قائد کر؟ علی نے عرض کیا: میں قائد نہیں قاصد بن کر آیا ہوں اور حضور نے مجھے سورہ توبہ دے کر بھیجا ہے کہ میں یہ حج کے دن لوگوں کو سناؤں۔ [130]

ادائیگی حج

سیدنا ابو بکر صدیق نے سات ذو الحجہ کو اہل مکہ اور حجاج کے روبرو خطبہ ارشاد فرمایا۔ آٹھ ذو الحجہ کو انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر باب بنو شیبہ سے نکل کر منی روانہ ہو گئے۔ منی میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ نو ذوالحجہ کو سورج بلند ہونے کے بعد منی سے عرفات کے لیے روانہ ہوئے۔ سورج ثبیر پہاڑ پر چمک رہا تھا جب مسلمان اللہ کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے عرفات کی جانب چل رہے تھے۔ وادی نمرہ میں امیر حج کے لیے بالوں سے بنے ہوئے خیمے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ امیر حج سیدنا ابو بکر صدیق نے اس خیمہ میں قیلولہ کیا۔ پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور وادی عرنہ تشریف لے گئے۔ وہاں خطبہ دیا اور مسلمانوں کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ نماز ظہر اور عصر پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد آپ وادی عرفات میں داخل ہوئے۔ وہاں سورج غروب ہونے تک وقوف کیا۔ اللہ تعالی کے حضور مناجات و دعائیں کیں۔ مشرکین مکہ وادی عرفات میں داخل نہیں ہوتے تھے وہ مزدلفہ تک آتے تھے کیونکہ وہ خود کو حمس یعنی مذہبی لیڈر کہلاتے تھے۔ اس لیے حدود حرم سے باہر نہیں جاتے تھے۔ محمد نے مشرکین کی مخالفت کرنے کے لیے سیدنا ابو بکر کو وادی عرفات میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا لہذا انھوں نے سورج غروب ہونے تک عرفات میں وقوف کیا، پھر واپس مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں اکھٹیں ادا کیں اور پھر فجر تک وہیں آرام فرمایا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد خوب دعائیں مانگیں۔ پھر روشنی ہونے پر اور سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چل پڑے اور لوگوں کو بھی ہدایت کی کہ روشنی ہونے پر مزدلفہ سے روانہ ہو جاؤ۔ انھوں نے یہاں بھی مشرکین کی مخالفت کی کیونکہ وہ سورج بلند ہونے تک مزدلفہ سے روانہ نہیں ہوتے تھے۔ سیدنا ابو بکر اپنی سواری آرام سے چلاتے ہوئے منی کی طرف چل پڑے لیکن جب وادی محسر میں پہنچے تو سواری کو تیز کر دیا اور اس کو پار کرنے کے بعد دوبارہ سکون سے سفر کرنا شروع کر دیا۔ وادی محسر وہی وادی ہے جہاں ابرہہ بادشاہ کے لشکر پر عذاب الہی نازل ہوا تھا۔ وہ بیت اللہ کو گرانے کے نا پاک ارادے سے آیا تھا۔ سیدنا ابو بکر منی پہنچ کر جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں پھر قربانی کی اور سر کے بال منڈائے۔ بعد ازاں خطبہ ارشاد فرمایا۔[132] ابو بکر صدیق نے یوم ترویہ (اٹھ ذو الحجہ)، یوم عرفہ (نو ذو الحجہ) اور یوم نحر (دس ذو الحجہ) کو امیر حج کی حثیت سے خطبہ دیا اور علی نے سورت توبہ کی چالیس آیات تلاوت فرمائیں جن کے مطابق اب کوئی شخص برہنہ ہو کر حج نہیں کرے گا، کافروں سے تمام تعلقات توڑے جاتے اور آئندہ کوئی کافر خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ منادای کرنے والے ان آیات کی اس زور سے منادی کرتے کہ ان کے گلے بیٹھ جاتے تھے۔

مدینہ منورہ واپسی

حج سے فارغ ہونے کے بعد ابو بکر صدیق اور علی دونوں ایک ساتھ مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ واپسی تک علی سیدنا ابو بکر کی اقتداء میں نماز ادا کرتے رہے۔[133]

حجۃ الوداع

مکہ مکرمہ کی طرف روانگی

جب حضور نبی کریم ﷺ نے حج بیت اللہ کا پختہ ارادہ فرما لیا تو تمام قبائل عرب کو قاصد بھیجے جو مشرف باسلام ہو چکے تھے کہ حرام کی طرف روانگی کا ارادہ پختہ ہو گیا ہے جو حج کا ارادہ رکھتا ہے آ کر ساتھ مل جائے۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرف پورے عرب میں پھیل گئی۔ نبی کریم نے پچیس ذی قعدہ تاریخ دو شنبہ ایک روایت کے مطابق شنبہ کے روز مدینہ سے ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب اس منزل میں پہنچے نماز قصر ادا کی قربانی کے خاص چند اونٹ آپ کے لیے ساتھ لیے ان میں سے ایک کو اپنے دست مبارک سے اشعار اور تقلید فرمایا۔ اس سفر میں فاطمہ اور تمام امہات المومنین نے ہودجوں میں بیٹھ کر حضور کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا۔ جب دوسری نماز کو ذوالحلیفہ میں ادا کیا تو اپنی اونٹنی قصوی پر سوار ہو کر احرام باندھا۔ جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں حضور کی خدمت میں تھا جب ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو محمد بن ابی بکر اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے، اسماء نے حضور کے پاس پیغام بھیجا کہ میں نفاس کے ساتھ کیا کروں۔ حضور نے فرمایا غسل کر اور اپنی شرم گاہ کو کسی چیز کے ساتھ باندھ دے اور اپنے احرام پر قائم رہ۔ اسماء بنت ابی بکر روایت کرتی ہیں کہ میرے والد نے مدینہ میں حضور سے عرض کی کہ زاملہ یعنی وہ اونٹ جس پر زادراہ لادتے ہیں میرے پاس ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کا توشہ اس پر لدا ہوا ہو۔ ان کی درخواست پوری ہوئی اور فرمایا کہ آٹا، ستو اور کھجور زادراہ کے لیے ترتیب دے کر اونٹ پر لادا اور سیدنا ابو بکر نے اس پر اپنے ایک غلام کو سوار کیا اور باہر نکلے ایک رات غلام نے اتر کر اونٹ کو بیٹھا دیا اور سو گیا، جب بیدار ہوا اسے زاملہ دکھائی نہ دیا غلام پکارتا ہوا اپنے گمشدہ اونٹ کو تلاش کرتا تھا اور حضور منزل جرح پر اترے ہوئے تھے، ظہر کی نماز کا وقت تھا کہ غلام آیا ابو بکر صدیق نے پوچھا کہ زاملہ کہاں ہے اس نے کہا گم ہو گیا ہے ابو بکر حضور کے زادراہ کے لیے پریشان ہو گئے اور غلام کو مارا حضور نے فرمایا کہ تم اس مجرم کو نہیں دیکھتے کہ کیا کرتا ہے۔ نقل ہے کہ نبی سالم سے آل فضلہ کو اطلاع ہوئی کہ حضور کا زاملہ گم ہو گیا ہے تو کھجوروں، پنیر اور روغن کا ایک پیالہ حضور کے بھیجا فرمایا، اے ابو بکر آؤ خدا تعالی نے ہمارے لیے پاکیزہ غذا بھیج دی ہے۔ ابو بکر صدیق غلام کی شکایت کرتے تھے۔ حضور نے فرمایا اے ابو بکر اطمینان کرو یہ معاملہ ہمارے اور غلام کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں پس حضور، آپ کے اہل خانہ اور ابو بکر صدیق نے اس سے تناول کیا اور سیر ہو گئے۔ نقل ہے کہ صفوان معقل اسلمی جو ساقہ لشکر پر تھا آیا اور حضور کی زاملہ کو بٹھا دیا اور ابو بکر سے کہا تحقیق کر لیجئے کہ اس اونٹ پر جو سامان لدا ہوا تھا ضائع نہ ہوا ہو۔ تفتیش کی کہا کہ تمام ٹھیک ہیں صرف ایک پیالہ جس سے ہم پانی پیتے ہیں موجود نہیں ہے غلام نے کہا وہ پیالہ میرے پاس ہے ابو بکر صدیق نے خدا کا شکر ادا کیا۔[134]

ادائیگی حج

چار ذو الحجہ کو نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے خاندان بنو ہاشم کے لڑکوں نے تشریف آوری کی خبر سنی تو خوشی سے دوڑ پڑے اور آپ نے نہایت ہی محبت و پیار کے ساتھ کسی کو آگے کسی کو پیچھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لیا۔ فجر کی نماز آپ نے مقام ذی طوی میں ادا فرمائی اور غسل فرمایا پھر آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب کعبہ معظمہ پر نگاہ مہر نبوت پڑی تو آپ نے یہ دعا پڑھی کہ

اے اللہ! عزوجل تو سلامتی دینے والا ہے اور تیری طرف سے سلامتی ہے۔ اے رب! ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ۔ اے اللہ! اس گھر کی عظمت و شرف اور عزت و ہیت کو زیادہ کر اور جو اس گھر کا حج اور عمرہ کرے تو اس کی بزرگی اور شرف و عظمت کو زیادہ کر۔

جب آپ حجر اسود کے سامنے تشریف لے گئے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر بوسہ دیا پھر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا جس میں شروع کے تین چکروں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکروں میں معمولی چال سے چلے۔ ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کبھی آپ نے چھڑی کے ذریعے سے کیا کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو چھوم لیا کبھی کبھی لب مبارک کو حجر اسود پر رکھ کر بوسہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی رکن یمانی کا بھی آپ نے استلام کیا۔ جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر پھر حجر اسود کا استلام فرمایا اور سامنے کے دروازہ سے صفا کی جانب روانہ ہوئے قریب پہنچے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ

بے شک صفا اور مروہ اللہ کے دین کے نشانوں میں سے ہیں۔ (البقرہ)

پھر صفا اور مروہ کی سعی فرمائی اور چونکہ آپ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے اس لیے عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ نے احرام نہیں اتارا۔ آٹھویں ذو الحجہ جمعرات کے دن آپ منی تشریف لے گئے اور پانچ نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر منی میں ادا فرما کر نویں ذو الحجہ جمعہ کے دن آپ عرفات میں تشریف لے گئے۔ حضور نے عرفات پہنچ کر ایک کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں آپ نے بہت سے ضروری احکام اسلام کا اعلان فرمایا کہ

سن لو! جاہلیت کے تمام دستور میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں۔

اے لوگو! بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بے شک تمھارا باپ (آدم علیہ اسلام) ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب سے۔ تمھارا خون اور تمھارا مال تم پر تا قیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح تمھارا یہ دن، تمھارا یہ مہینہ، تمھارا یہ شہر محترم ہے۔

اپنا خطبہ ختم فرماتے ہوئے آپ نے سامعین سے فرمایا کہ

تم سے خدا کے یہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا جواب دو گے؟

تمام سامعین نے کہا کہ ہم لوگ خدا سے کہہ دیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا کہ

اے اللہ! تو گواہ رہنا۔

عین اسی حالت میں جب کہ خطبہ میں آپ اپنا فرض رسالت ادا فرما رہے تھے یہ آیت نازل ہوئی کہ

آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا۔ (المائدہ)

[135]

تمام صحابہ نے یہ آیت مبارکہ سن کر بڑی خوشی ہوئی لیکن ابو بکر صدیق رونے لگے کیونکہ وہ اپنی فراست ایمانی سے سمجھ گئے کہ جب دین مکمل ہو گیا تو حضور اب زیادہ عرصہ تک اس ظاہری دنیا میں نہیں رہیں گے۔[136] خطبہ کے بعد آپ نے ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی پھر موقف میں تشریف لے گئے اور جبل رحمت کے نیچے غروب آفتاب تک دعاؤں میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے ایک لاکھ سے رائد حجاج کے ازدحام میں مزدلفہ پہنچے۔ یہاں مغرب پھر عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی۔ مشعر حرام کے پاس رات بھر امت کے لیے دعائیں مانگتیں رہے اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منی کے لیے روانہ ہو گئے اور وادی محسر کے راستہ سے منی میں آپ جمرہ کے پاس تشریف لائے اور کنکریاں ماریں پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا کہ

حج کے مسائل سیکھ لو! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد میں دوسرا حج نہ کروں گا۔

منی میں بھی آپ نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں عرفات کے خطبہ کی طرح بہت سے مسائل و احکام کا اعلان فرمایا۔ پھر قربان گاہ تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ قربانی کے ایک سو اونٹ تھے کچھ تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اونٹوں کو نحر فرمایا اور باقی کو علی کو سونپ دیا اور گوشت، پوست، جھول، نکیل سب کو خیرت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ قصاب کی مزدوری بھی اس میں سے ادا نہ کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔ قربانی کے بعد معمر بن عبد اللہ سے نبی کریم ﷺ نے سر کے بال اتروائے اور کچھ حصہ ابو طلحہ انصاری کو عطا فرمایا اور باقی موئے مبارک کو تمام مسلمانوں میں تقسیم کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔ اس کے بعد آپ مکہ تشریف لائے اور طواف زیارت فرمایا۔ پھر چاہ زمزم کے پاس تشریف لائے خاندان عبد المطلب کے لوگ حاجیوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھ کو ایسا کرتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تمھارے ہاتھ سے ڈول چھین کر خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پینے لگیں گے تو میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پیتا۔ عم رسول عباس بن عبد المطلب نے زمزم پیش کیا اور آپ نے نے قبلہ رخ کھڑے کھڑے زمزم نوش فرمایا۔ پھر منی واپس تشریف لے گئے اور بارہ ذو الحجہ تک تک منی میں مقیم رہے اور ہر روز سورج ڈھلنے کے بعد جمروں کو کنکری مارتے رہے۔ تیرہ ذو الحجہ منگل کے دن آپ نے سورج ڈھلنے کے بعد منی سے روانہ ہو کر محصب میں رات بھر قیام فرمایا اور صبح کو نماز فجر کعبہ کی مسجد میں ادا فرمائی اور طواف وداع ادا فرمایا۔[137]

مدینہ منورہ واپسی

طواف وداع ادا کرنے کے بعد نبی کریم، مہاجرین و انصار مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے دس دن مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ نے مقام ذوالحلیفہ میں رات بسر فرمائی اور صبح کو مدینہ منورہ میں نزول فرمایا۔[138]

سیدنا ابو بکر صدیق بحثیت امام

سہل بن سعد سے مروی ہے کہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان میں جھگڑا ہو گیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ نماز ظہر کے بعد ان کے درمیان میں صلح کروانے تشریف لے گئے۔ آپ نے جاتے ہوئے بلال سے فرمایا کہ بلال! اگر مجھے دیر ہو جائے اور عصر کا وقت ہو جائے تو ابو بکر سے کہنا کہ وہ نماز عصرمیں لوگوں کی امامت کریں۔ چنانچہ نماز عصر کا وقت ہو گیا اور بلال نے نماز کے لیے اقامت کہی اور سیدنا ابو بکر امامت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس دوران میں حضور بھی تشریف لے آئے۔ آپ صفوں کوپھلانگتے ہوئے ابو بکر کے پیچھے آ کھڑے ہوئے۔ اس دوران میں صحابہ کرام نے ابو بکر صدیق کو متوجہ کرنے کے لیے سیٹیاں بجائیں کیونکہ سیدنا ابو بکر جب نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تو پھر کسی جانب متوجہ نہ ہوتے تھے۔ ابو بکر نے جب دیکھا کہ لوگ سیٹیاں بجانے سے رک نہیں رہے تو انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضور کو تشریف فرما دیکھا۔ آپ نے حضور کے لیے جگہ چھوڑنی چاہی تو حضور نے اشارہ سے فرمایا کہ امامت کرتے رہو۔ سیدنا ابو بکر نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر پیچھے ہٹ گئے تو حضور آگے بڑھے اور امامت فرمائی۔ نماز پڑھنے کے بعد حضور نے ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ ابو بکر! تم نے امامت کیوں نہ کروائی؟ ابو بکر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابو قحافہ کے بیٹے کا اتنا مقام کیا کہ وہ آپ کا امام بنے۔ اس موقع پر حضور نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ وہ اگر نماز میں کوئی ایسا فعل دیکھیں تو بجائے سیٹیاں بجانے کے سبحان اللہ کہیں۔[139] ام المومنین عائشہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ کا مرض شدید ہو گیا تو بلال نماز کی اطلاع دینے آئے فرمایا ابو بکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے کہا یارسول اللہ! ابو بکر غمگین آدمی ہیں وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے، اگر آپ عمر کو حکم دے دیں (تو مناسب ہو) فرمایا: ابو بکر ہی کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے حفصہ بنت عمر سے کہا کہ تم آپ سے کہو کہ ابو بکر غمگین آدمی ہیں وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے، اس لیے آپ عمر کو حکم دیں تو بہتر ہو۔ حفصہ نے عرض کی تو فرمایا: بے شک تم لوگ یوسف کی ساتھ والیاں ہوں، ابو بکر ہی کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حفصہ نے عائشہ سے کہا کہ میں ایسی نہیں ہوں کہ مجھے تم سے کوئی خیر پہنچے۔ لوگوں نے ابو بکر کو حکم دیا کہ نمازیں پڑھیں۔[140] چنانچہ ابو بکر صدیق نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔ جب آپ غسل فرما چکے تو عباس بن عبد المطلب اور علی بن ابی طالب آپ کے مقدس بازو تھام کر آپ کو مسجد میں لائے۔ سیدنا ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پا کر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں نماز پڑھائی۔ آپ کو دیکھ کر ابو بکر اور دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ نے ایک خطبہ دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسلام بیان فرما کر انصار کے فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورہ العصر اور ایک آیت بھی تلاوت فرمائی۔[141]

فضیلت

جب محمد حجتہ الوداع سے واپس تشریف لائے تو منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: لوگو! بے شک ابو بکر نے کبھی مجھے تکلیف نہیں دی، پس تم ان کا مرتبہ پہچانو۔ لوگو! میں ان سے راضی ہوں۔[142]

محمد (ایک دن) اپنی مرض وفات کے دنوں میں سر مبارک پر پٹی باندھ کر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر حمد و ثنا بیان کی، پھر نجیف آواز میں فرمایا: لوگوں میں ابو بکر کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی جان اور مال کے ذریعہ مجھ پر بہت احسان کیا ہو، اگر میں لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا لیکن اسلام کی اخوت سب سے بہتر ہے، پھر آپ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا: ابو بکر کے دروازہ کے سوا اس مسجد کے تمام دروازے بند کر دو۔[143]

وفات پیغمبر اسلام

ربیع الاول دوشنبہ گیارہ ہجری کے دن صبح کے وقت نبی کریم ﷺ کی طبیعت میں کچھ سکون تھا۔ آپ نے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ فجر کی نماز کے لیے صفیں باندھے کھڑے تھے آپ کا روئے انور فرط مسرت سے چمک اٹھا۔ لوگوں نے آہٹ پا کر خیال کیا کہ آپ مسجد میں تشریف لانا چاہتے ہیں۔ وہ خوشی سے بے قابو ہو چلے، ابو بکر نے بھی پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے ان کو نماز پوری کرنے کا اشارہ کیا اور حجرے کا پردہ گرا دیا۔ اس روز بظاہر حضور کے مرض میں افاقہ معلوم ہوتا تھا اس لیے ابو بکر نماز کے بعد حضور سے اجازت لے کر سخح تشریف لے گئے جو ایک میل کے فاصلے پر ہے جہاں ان کی بیوی حبیبہ بنت خارجہ رہتی تھیں۔ ابو بکر کے جانے کے بعد جوں جوں دن چڑھتا گیا آپ کی بیماری میں شدت آتی گئی۔[144] وفات سے تھوڑی دیر قبل ام المومنین عائشہ کے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر تازہ مسواک ہاتھ میں لیے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ ام المومنین عائشہ نے سمجھا کہ مسواک کی خواہش ہے۔ انھوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست اقدس میں تھما دی۔ آپ نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا سینہ اقدس میں سانس کی گھر گھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں نے یہ الفاظ سنے کہ

نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال رکھو۔

پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرہ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔ بی بی عائشہ سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ

(اب کوئی نہیں) بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔

یہی الفاظ زبان اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس دست مبارک لٹک گیا اور آنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی قدسی روح عالم قدس میں پہنچ گئی۔ (انا للہ وانا علیہ راجعون)

اللہم صل وسلم وبارک علی سیدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین تاریخ وفات میں مورخین کا بڑا اختلاف ہے لیکن اس پر تمام علمائے سیرت کا اتفاق ہے کہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینا تھا۔ تیسرے پہر آپ نے وصال فرمایا۔[145]

وصال مبارک کا اثر

ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں: جب نبی کریم ﷺ کا وصال مبارک ہوا تو لوگ ہجوم کر آئے اور رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ فرشتوں نے نبی کریم کو آپ کے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ آپ کے وصال مبارک کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ بعض نے آپ کے وصال کو جھٹلا دیا، بعض گونگے ہو گئے اور طویل مدت کے بعد بولنا شروع کیا، بعض کی حالت خلط ملط ہو گئی اور بے معنی باتیں کرنے لگے بعض باختہ ہو گئے اور بعض غم سے نڈھال ہو گئے۔[146] عثمان غنی پر ایسا سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ ادھر ادھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر کسی سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کسی کی کچھ سنتے تھے۔ علی المرتضی رنج و ملال میں نڈھال ہو کر اس طرح بیٹھ رہے کہ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ عبد اللہ بن انیس کے قلب پر ایسا دھچکا لگا کہ وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔ عمر فاروق اس قدر ہوش کھو بیٹھے کہ انھوں نے تلوار کھینچ لی اور نگی تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں ادھر ادھر آتے جاتے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد کا انتقال ہو گیا تو میں اس کی تلوار سے گردن اڑا دوں گا۔[147] ابو بکر صدیق نے سالم بن عبید کی زبانی یہ دلدوز خبر سنی تو وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر سخح سے مدینہ منورہ پہنچے۔[148] کسی سے کوئی بات نہ کہی اور سیدھے عائشہ صدیقہ کے حجرے میں چلے گئے۔ نبی کریم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ پر جھکے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں نہایت گرم جوشی سے بوسہ دیا اور کہا کہ آپ اپنی حیات اور موت دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہرگز خداوند تعالی آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔ آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس کے ساتھ وفات پا چکے۔ اس کے بعد ابو بکر صدیق مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت عمر لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمر! بیٹھ جاؤ۔ عمر نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تو آپ نے انھیں چھوڑ دیا اور خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے خطبہ دینا شروع کر دیا کہ امابعد! جو شخص تم میں سے محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد ﷺ کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عزوجل کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ پھر ابو بکر نے سورہ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

اور محمد (ﷺ) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو ثواب دے گا۔

عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ابو بکر نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔

عمر کا بیان ہے کہ میں نے جب ابو بکر صدیق کی زبان سے سورہ آل عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ واقعی نبی کریم کا وصال ہو گیا۔[149]

تجہیز و تکفین

چونکہ حضور اقداس ﷺ نے وصیت فرما دی تھی کہ میری تجہیز و تکفین میرے اہل بیت اور اہل خاندان کریں۔ اس لیے یہ خدمت آپ کے خاندان ہی کے لوگوں نے انجام دی۔ چنانچہ فضل بن عباس، قثم بن عباس، عباس بن عبد المطلب، علی اور اسامہ بن زید نے مل جل کر آپ کو غسل دیا اور ناف مبارک اور پلکوں پر جو پانی کے قطرات اور تری جمع تھی علی نے جوش محبت اور فرط عقیدت سے اس کو زبان سے پی لیا۔ غسل کے بعد تین سوتی کپڑوں کا جو سحول گاؤں کے بنے ہوئے تھے کفن بنایا گیا ان میں قمیص و عمامہ نہ تھا۔[150]

نماز جنازہ

تجہیز و تکفین کے بعد نبی کریم کی وصیت کے مطابق جسم اطہر کو مکان میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کے فرشتوں نے فوج در فوج حضور پر نماز پڑھی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے گروہ در گروہ نماز پڑھی لیکن ہر گروہ نے بغیر امامت کے نماز ادا کی۔ سب سے پہلے علی عباس اور پھر بنو ہاشم اس دولت سے سرفراز ہوئے۔ پھر مرد صحابہ گروہ در گروہ جاتے اور ایک ایک کر کے درود و زیارت کا شرف حاصل کرتا۔ اس کے بعد عورتوں پھر بچوں نے اس طرح نماز ادا کی۔ تا کہ ہر شخص کو کامل ثواب حاصل ہو اور یہ معاملہ حضور کی وصیت پر بھی مبنی تھا۔ علی سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا محمد کے جنازہ میں کوئی شخص امامت نہ کرے کیونکہ حضور زندگی کے دنوں میں بھی اور وصال کے اوقات میں بھی تمھارے امام ہیں۔[151]

مدفن

سب سے پہلا جو اختلاف صحابہ کرام کے مابین واقع ہوا وہ یہ تھا کہ بعض نے کہا کہ حضور ﷺ کو مکہ میں دفن کیا جائے کہ وہ شہر آپ کا مولد ہے (وہاں آپ کی ولادت شریف پوئی)، بعض کہتے تھے کہ آپ کو آپ کی مسجد ہی میں دفن کیا جائے، کچھ نے کہا کہ جنت البقیع میں دفن کیا جائے اور بعض اصحاب نے کہا کہ بیت المقدس میں تدفین عمل میں لائی جائے جو مدفن انبیا علیہ اسلام ہے۔[152] اس موقع پر بو بکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم سے یہ سنا ہے کہ نبی اپنی وفات کے بعد اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے جس جگہ اس کی وفات ہوئی ہو۔ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر لوگوں نے حضور کے بچھونے کو اٹھایا اور اسی جگہ (حجرہ عائشہ صدیقہ) میں آپ کی قبر انور تیار کی اور آپ اسی میں مدفون ہوئے۔ ابو طلحہ انصاری نے قبر شریف تیار کی جو لحد والی تھی۔ جسم اطہر کو فضل بن عباس، قثم بن عباس، عباس اور علی نے قبر منور میں اتارا۔[153]

صدیق اکبر کا مرثیہ

محمد بن عمروالوقدی نے اپنے رجال (رواة) سے روایت کی ہے کہ ابو بکر صدیق نے رسول اللہ کے وصال مبارک پر درج ذیل مرثیہ کہا ہے:

یا عین ذابکی ولا تسألی

و حُقَّ البکاءُ علی السیّد

اے آنکھ! گریہ کر اور اس سے ملول نہ ہو، ایسے سردار کے شایان شان ہے کہ اس پر روئیں۔

علی خیر خِنِدف عند البلاءِ

امسٰی یغیب فی الملحد

ایسے سردار پر جو آزمائش کے وقت بہترین ثابت ہوئے، آج ان کی شام اس طرح ہوئی کہ قبر میں دفن ہو گئے۔

فصلٌی الملیك ولّی العباد

وربّ البلاد علی احمد

وہ مالک جو بندوں کا والی اور شہروں کا پروردگار ہے رسول اللہ پر درود بھیجے۔

فکیف الحیاۃ لفقد الحبیب

و زین المعاشر فی المشھد

اب زندگی کی کیا صورت ہے، وہ محبوب تو کھو گیا، جو تمام حاضرین صحبت کے لیے وجہ زینت تھا وہ تو جاتا رہا۔

فلیت الممات لنا کلنا

و کنا جمیعاً مع المھتدٰی

اے کاش! ہم سب کو موت آ جاتی اور سب کے سب اسی ہدایت یافتہ کے ساتھ ہوتے۔

ولہ ایضاً

لمٌا رأیت نبیٌنا مُتجدّہ ضاقت علّی بعرضمن الدُور

جب میں نے اپنے پیغمبر کو کہ سب کے پیغمبر تھے، زمین کے اندر جاتے دیکھا، تو مکانات باوجود اپنی وسعت کے مجھ پر تنگ ہو گئے۔

وارتعت رَوعةَ مستھام والہ

والعظمُ منی واھنٌ مکسور

میں اس شیدائی کی طرح خوف زدہ ہو گیا جو گھبرایا ہوا حیران و پریشان پھر رہا ہو۔ میری ہڈی کمزور دست و شکستہ ہو گئی۔

اعتیق انّ حِبّك قد ثوی

وبقیت منفردًا وانت حسیر

اے عتیق! تیر محبوب تو دفن ہو گیا، اب تو اکیلا رہ گیا، تکان اور تعجب تجھ پر طاری ہے۔

یالیتنی من قبل مھلكِ صاحبی

غبیّتُ فی جَدَث علّی صخور

اے کاش! میں اپنے صاحب کی وفات سے قبل ہی، کسی قبر میں اس طرح دفن ہو جاتا کہ مجھ پر پتھر ہوتے۔

فلتحدثن بدایعٌ من بعدہ

تعیی ابّھن جوانح وصدور

آپ کے بعد ایسے نئے نئے حوادثاث پیش آئیں گے، جن (کی گراں باری) سے پسلیاں اور سینے تھک جائیں گے۔

باتت ھموم تاوبنی حشدا

متل الضحورنا مست ھدت الجسدا

غم و الم کے گروہ رات پھر پلٹ کے میرے پاس آتے رہے، وہ ایسے سخت تھے کہ پتھروں کی طرح تمام شب جسم کو توڑا کیے۔

یالیتنی حیثُ بنتُ الغداۃ بہ

قالوا الرسول قد امسٰی میّتا فقدا

اے کاش! (اس وقت میں مر گیا ہوتا) جس وقت دن کو مجھے خبر ملی اور لوگوں نے کہا کہ محمد انتقال فرما گئے۔

لیت القیامة قامت بعد مھلکہ

ولا نرٰی بعدہ مالاً ولا ولدا

کاش آپ کی وفات کے بعد قیامت قائم ہو جاتی کہ نہ ہم آپ کے بعد مال و دولت کو دیکھتے نہ اولاد کو۔

واللہ اثنی علی شیءٍ فقدت بہ

من البریّة حتٰی ادخل اللحدا

واللہ! مخلوقات میں سے جو چیز مجھ سے کھوئی جا چکی ہے میں ہمیشہ اس کی ثناء صفت کیا کروں گا یہاں تک کہ قبر میں داخل ہو جاؤں۔

کم لِی بعدك من ہم ینصبی

اذا تذکرّت انّی لا اراك ابدا

آپ کے بعد غم و الم کیا کچھ مجھے آزار پہنچاتے رہیں گے۔ جب میں یہ یاد کروں گا کہ اب کبھی مجھے آپ کا دیدار نصیب نہ ہو گا۔

کان المصفاء فی الاخلاق قد علموا

و فی العفاف فلم نعدل بہ احدا

سب کو معلوم تھا کہ آپ کیسے پاکیزہ اخلاق تھے، عفت و پرہیزگاری میں ہم سب کسی کو بھی آپ کا ہمسر نہیں سمجھتے تھے۔

نفسی فداؤك من میتٍ ومن بدنٍ

ما اطیب الذکر والاخلاق والجسدا

میری جان آپ پر قربان، کیا تابوت تھا، کیسا جسم تھا، آپ کی یاد کتنی پاکیزہ تھی، اخلاق کیسے اچھے تھے، بدن کتنا لطیف تھا۔[154]

بیعت خلافت

نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد آپ کے جانثار صحابہ کی پر جو کفیت طاری ہوئی وہ قدرتی تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بعضوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ آپ ﷺ کا انتقال ہی نہیں ہوا ان کا یہ کہنا فرط محبت کے سبب تھا نہ کہ نا فہمی سے۔ اسی اثنا میں انصار سقیفہ نبی ساعدہ میں سعد بن عبادہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ ان کا دعوی تھا کہ رسول اللہ کے بعد استحقاق خلافت انصار کو حاصل ہے۔ کیونکہ انھوں نے دین کی مدد کی۔ رسول اللہ کو اپنے یہاں ٹھہرایا ان کے ساتھ ہو کر اعداء دین سے لڑے لیکن وہ مہاجرین جو سقیفہ نبی ساعدہ اسی وقت پہنچ گئے تھے انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ چنانچہ فریقین بحث و تکرار شروع ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کی اطلاع ابو بکر و عمر کو ہوئی۔ یہ دونوں بزرگ مع ابو عبیدہ بن جراح سقینہ روانہ ہوئے۔ اثنا راہ عاصم بن عدی و عویم بن سامدہ سے ملاقات ہو گئی، انھوں نے ان کو روکنے کا قصد کیا لیکن وہ لوگ ان کے روکنے سے نہ رکے۔ جس قدر جلد ممکن ہو سکا، سقینہ میں جہاں پر انصار جمع تھے جا پہنچے اور باہم مباحثہ ہونے لگا۔ ابو بکر: ہم لوگ سابقین اولین میں ہیں رسول اللہ کے ساتھ مکہ میں رہے کفار کے ہاتھوں ایذائیں اٹھائیں۔ پھر انھیں کے ہمراہ ہجرت کی۔ تم لوگ اس بارے میں ہم لوگوں سے بحث نہ کرو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تم کو حق و نصرت نیز سابق الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بایں لحاظ ہم لوگ امرا ہیں اور تم وزراء ہو۔ حباب بن منذر بن الجوع: مناسب یہ ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ہو یہ کہہ کر انصار کی طرف مخاطب ہو کر کہا " اے گروہ انصار اگر مہاجرین اس سے انکار کریں تو ان کو تم اپنی تلواروں سے اپنے شہر سے نکل باہر کرو، دین کی اشاعت ہمارے ذریعہ سے ہوئی ہے، ہم لوگ خلافت رسول اللہ کے مستحق ہیں۔ لیکن بخیال رفع نزاع ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک امیر ہو اور ایک ہم میں سے۔" عمر بن خطاب: تم کو خوب یاد ہو گا کہ محمد نے ہم کو تمھارے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے اور اگر تم کو استحقاق امارت ہوتا تو آن تم کو وصیت کرتے۔ عمر فاروق اس قدر کہنے پائے تھے کہ حباب بن المنذر اٹھ کر بحث کرنے لگے اور دونوں آدمیوں میں زور زور سے باتیں ہونے لگیں۔ ابو عبیدہ ان دونوں بزرگوں کو روک رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ اے گروہ انصار اللہ سے ڈرو تم لوگ وہ ہوں جنھوں نے سب سے پہلے آن کی مدد کی۔ پس اب تم سب سے پہلے ان لوگوں میں سے نہ بنو۔ جنھوں نے اپنے طبائع کو متبدل و متغیر کر دیا ہو۔ بشیر بن سعد بن النعمان بن کعب بن الخزرج: بے شک رسول اللہ قبیلہ قریش سے تھے اور ان کی قوم امارت و خلافت کی زیادہ مستحق ہے اور ہم لوگ اگرچہ انصار دین سابق الاسلام ہیں۔ لیکن اس اسلام سے ہمارا مقصد اللہ تعالی کا راضی رکھنا تھا اور اس کی اطاعت مدنظر تھی۔ اس کا معاوضہ ہم دنیا میں نہیں چاہتے اور نہ اس بابت ہم مہاجرین سے جھگڑا کرنا چاہتے ہیں۔ حباب بن المنذر: اے بشیر تو نے واللہ بڑی بزدلی ظاہر کی تو نے سارا کارخانہ ہی درہم برہم کر دیا۔ بشیر: نہیں، نہیں میں نے بزدلی سے اپنا خیال ظاہر نہیں کیا۔ بلکہ مجھے یہ بات ناگوار معلوم ہوئی کہ میں امارات و خلافت کے لیے ایسی قوم سے نزاع کرو جو اس کی مستحق ہے۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ محمد نے فرمایا

کل امام قریش سے ہوں گے۔

اس کلام کے تمام ہوتے ہی دو چار انصار و مہاجرین نے اس کی تصدیق کر دی، جس سے حباب بن المنذر کا خیال بدل گیا اور دفعتہ وہ شوروغل جو اس مجع میں امارت کے سلسلے میں برپا تھا بالکلیہ رفع ہو گیا۔ سب کے سب ایک خاموشی کی حالت میں ہو گئے۔ ابو بکر نے عمر و ابو عبیدہ کی طرف بیعت کا اشارہ کیا۔ عمر نے کہا کہ میں ہرگز بیعت نہ لوں گا جب تک ابو بکر موجود ہیں۔ ابو عبیدہ نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ تب بشیر بن سعد نے اٹھ کر سب سے پہلے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر عمر و ابو عبیدہ نے پھر اوس نے کیونکہ یہ خزرج کی امارت سے کبیدہ خاطر تھے۔ انھیں لوگوں میں اسید بن حضیر بھی تھے۔ ان کے بعد بیعت کرنے والے چاروں طرف سے ابو بکر کی بیعت پر امنڈے چلے آتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی ہی کثرت ہو گئی کہ تل رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔ سعد بن عبادہ ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے کسی نے ان کے ہمراہیوں میں سے کہا دیکھو کہیں سعد اس کشمکش میں دب کر نہ مر جائے۔ عمر نے جواب دیا کہ اس کو اللہ تعالی ہی نے مارا ہے۔ سعد یہ بات سن کر اٹھ کر ان سے دست بگریباں ہو گئے۔ عمر کو بھی غصہ آ گیا لیکن ابو بکر کے روکنے سے رک گئے۔ جب سب لوگ بیعت کر چکے تو سعد کو بیعت کرنے کے لیے کہا گیا سعد نے بیعت سے انکار کر دیا۔ بشیر نے کہا یہ تن تنہا آدمی ہیں ان سے درگزر کرو اور ان کی ان کی حالت میں رہنے دو۔ پس سعد اس واقعہ کے بعد نہ تو ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے اور نہ ان سے ملتے تھے۔ یہاں تک کہ ابو بکر کا انتقال ہو گیا۔ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ سعد نے بھی تھوڑی دیر کے بعد اسی دن ابو بکر کے ہاتھ بیعت کر لی تھی اور بعضون نے کہا ہے کہ اس واقعے کے بعد سعد شام کی طرف چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ انتقال ہو گیا۔

خطبہ خلافت

ابو بکر بیعت سقیفہ کے دوسرے دن مسجد میں آئے اور ممبر پر بیٹھ کر لوگوں سے بیعت عامہ لی۔ اس کے بعد کھڑے ہو کر حمد و نعت کے بعد حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا:

ایھا الناس قد ولیت علیکم وسلت بخیر کم فان احسنت فاعیونی و ان اسات فقومونی الصدق امانة والکذاب خیانة والضعیف فیکم قوی عندی حتی اخذلہ حقہ والقویٰ ضعیف عندی حتی اخذ منہ الحق ان شاء اللہ تعالی۔ لا پدع منکم الجھاد فانہ لا یدعہ قوم لا اضربہم اللہ بالذل اطیعونی ما اطعت اللہ و رسولہ فاذا عصیت اللہ و رسولہ فلاطاعة لی علیکم قوموا الی صلواتکم رحمکم اللہ

اے لوگو! میں تمھارا حاکم بنا دیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں ٹھیک ٹھیک رہوں تو میری مدد کرو اور اگر بری راہ اختیار کر لوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچ امانت اور جھوٹ خیانت ہے اور تم میں جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ جب تک میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق واپس نہ لے لوں کوئی شخص جہاد ترک نہیں کرے گا کیونکہ اللہ جہاد چھوڑنے والوں پر ذلت ڈال دیتا ہے۔ تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں اور جب نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت نہ کرو۔ اچھا اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم پر رحم فرمائے۔

علی کی بیعت

یہ بیعت باجماع انصار و مہاجرین ہوئی۔ اگرچہ ابتداً انصار میں سے سعد بن عبادہ اور مہاجرین میں سے علی و بنو ہاشم و زبیر و طلحہ بیعت میں پیچھے رہے۔ لیکن واقعات و حالات قبل و بعد بیعت غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کا ابتداً بیعت سے تخلف (پیچھے رہنا) کرنا تقاضائے بشریت سے تھا نہ کہ کسی اور خیال و وجہ سے۔ جیسا کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ ابو بکر کی بیعت کے بعد ایک روز ابو سفیان مدینہ میں علی کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے کہ "مدینہ میں ایک عجیب شورش دیکھتا ہوں، جس کو سوائے کشت و خون کے اور کوئی چیز نہیں فرو کر سکتی اے آل عبدمناف ابو بکر تمھارے ہوتے ہوئے سرداری کا کیسے مستحق ہو سکتا ہے کہاں ہیں وہ دونوں ضعیف و ذلیل۔ علی و عباس یہ عجیب بات ہے کہ حکومت و سلطنت قریش کے نہایت چھوٹے اور حقیر قبیلہ میں چلی جائے" یہ کہہ کر علی سے مخاطب ہو کر کہا: "ہاتھ بڑھاؤ میں تمھارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ لہذا اگر تم کہو میں ابو بکر پر یہ میدان تنگ کر دوں گا اور پلک جھپکتے میں اسے سواروں اور پیادوں سے بھر دوں۔" علی نے یہ سن کر اس کا جواب نہایت سختی سے دیا اور کہا واللہ تمھاری اس بات میں سوائے فتنہ و فساد کے اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ بخدا تم نے اسلام میں آتش فتنہ روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ جاؤ مجھے تمھاری نصیحت کی ضرورت نہیں۔ ابو سفیان اس جواب سے اپنے کہے پر پیشمان ہو کر اٹھ گئے اور علی سیدھے ابو بکر کے پاس گئے۔ اتفاق سے اس وقت ابو بکر کے پاس عمر بیٹھے ہوئے تھے۔ علی نے ابو بکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: " کہ میں آپ سے کچھ گفتگو کرنے آیا ہوں اور تخلیہ چاہتا ہوں۔" ابو بکر نے عمر کو ہٹا دیا۔ تب علی نے فرمایا: " آپ نے سقیفہ میں میری عدم موجودگی میں بیعت کیوں لی؟ آپ نے مجھ سے مشورہ تک نہ لیا۔ آپ مجھ کو بلوا لیتے۔" ابو بکر نے جواب دیا: "کہ میں سقیفہ میں بیعت لینے کی غرض سے نہیں گیا تھا، بلکہ انصار و مہاجرین کا نزاع رفع کرنے گیا تھا۔ انصار کہتے تھے کہ ہم میں سے امیر ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ ہم میں سے ہو، دونوں اس بات پر لڑنے کے لیے تیار ہو رہے تھے میں نے خود اپنی بیعت کی درخواست نہیں کی بلکہ حاضرین نے بالاتفاق خود میرے ہاتھ پر بیعت کی باقی رہا یہ امر کہ میں نے تم کو بلوایا نہیں اور میں نے مشورہ نہیں لیا۔ اس کا انصاف تم خود کر سکتے ہوں کہ تم جب تجہیز و تکفین میں مصروف تھے تو میں تم کو کیسے محض اس کام کے لیے وہاں بلواتا اور اس سلسلے میں مشورہ کرتا۔ اگر میں ان لوگوں کے کہنے سے بیعت نہ لیتا تو بہت جلد اس قدر فتنہ فساد برپا ہو جاتا جس کا فرو کرنا امکان سے باہر تھا۔" علی یہ جواب سن کر تھوڑی دیر تک کچھ سوچتے رہے۔ اس کے بعد ہاتھ بڑھا کر ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ آن ﷺ کے وصال کے چالیس روز بعد علی نے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی یہی صحیح ہے۔

من گھڑت اور غلط روایتیں

اس واقعہ کے دوران میں لوگوں نے خوب خوب قصے اختراع کیے ہیں کوئی کہتا ہے کہ (عیاذ باللہ) عمر نے فاطمہ بنت محمد کا گھر جلا دیا اور اس وجہ سے کہ وہاں وہ لوگ جمع ہوتے تھے جنھوں نے بیعت سے تخلف (توقف) کیا تھا اور کوئی کہتا ہے کہ عمر علی کی مشکیں باندھ کر بیعت کرنے کو پکڑ لائے تھے اور فاطمہ کے ایک لات ماری تھی جس سے اسقاط حمل ہو گیا ((الی غیر ذلک)) لیکن ان روایات کی اس کے سوائے کوئی اصلیت نہیں ہے کہ محبت کے پردے میں بھی لوگوں نے بزرگان دین کی ہر پہلو سے توہین کی ہے۔ ((واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم))[155]

میراث رسول ﷺ کا معاملہ

ابو بکر صدیق کی بیعت کے بعد ام المومنین عائشہ صدیقہ کے علاوہ تمام امہات المومنین نے چاہا کہ عثمان ذوالنورین کو سفیر بنا کر خلیفتہ الرسول کی خدمت میں بھیجیں اور وراثت کا مطالبہ کریں۔ عائشہ کو ان کے ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:

کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتیں، کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے، میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہو گی میں جو کچھ چھوڑ دوں گا صدقہ ہو گا

یہ ارشاد نبوی سن کر تمام ازواج مطہرات خاموش ہو گئیں اور ابو بکر صدیق کو اس معاملے میں کوئی فیصلہ صادر نہ کرنا پڑا۔ (صحیح بخاری کتاب المخازی باب حدیث بنی النضیر نیز کتاب الفرائض)

دوسری طرف فاطمتہ الزہرا اور عباس بن عبد المطلب نے ابو بکر صدیق سے مطالبہ کیا کہ خیبر اور فدک کی جائداد (رسول اکرم ﷺ) کی میراث کے طور پر ان میں تقسیم کی جائے۔ اس مطالبہ کے جواب میں ابو بکر صدیق نے فرمایا:

میں نے محمد سے سنا ہے آپ فرماتے تھے ہمارے مال میں وراثت نہیں ہو گی ہم جو کچھ چھوڑیں گے صدقہ ہو گا البتہ آل محمد ﷺ اس میں سے نفقہ لے سکتے ہیں۔ خدا کی قسم! سلوک کرنے کے معاملہ میں محمد کی قرابت مجھ کو اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے۔

(صحیح بخاری کتاب المخازی باب حدیث بنی النضیر)

دوسری روایت میں ابو بکر صدیق کے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں:

خدا کی قسم! میں محمد کے صدقہ میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا، اس کی جو حالت محمد کے عہد میں تھی، وہی رہے گی اور میں وہی کروں گا جو محمد کرتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب المخازی باب غزوہ خیبر)

تیسری حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:

میں بالکل وہی کروں گا جو محمد کرتے تھے اور اس میں سے کچھ ترک نہ کروں گا کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے کسی چیز سے انحراف کیا (کچھ چھوڑا) تو کج ہو جاؤں گا۔

چوتھی حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں:

میں نے سنا ہے کہ نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تا ہم میں ان سب کی سرپرستی کروں گا جن کی سرپرستی محمد کرتے تھے اور ان سب پر خرچ کروں گا جن پر آپ خرچ کرتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 10۔)

چنانچہ ابو بکر صدیق نے اس جائداد کا وہی انتظام کیا جو رسول اکرم کے عہد مبارک میں ہوتا تھا۔ آپ سال بھر کے لیے اس میں سے اہل بیت کا نفقہ نکالتے تھے، اس کے بعد جو باقی بچتا تھا اس کو خدا کا مال قرار دیتے تھے یعنی مسافروں، غریبوں، مسکینوں اور اہل حاجت پر صرف کرتے تھے۔ ابو بکر صدیق کا جواب سن کر فاطمہ کا رد عمل کیا تھا اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔

سیدہ فاطمہ ابو بکر سے ناراض ہو گئیں اور آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی۔ (بخاری)

فاطمتہ الزہرا کو ابو بکر صدیق کے جواب سے رنج تو ضرور ہوا اور ناراض بھی ہوئیں لیکن بعد میں راضی ہو گئیں۔ (طبقات ابن سعد)

فاطمہ نے ابو بکر کا جواب سن کر فرمایا:

پھر آپ نے محمد سے جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق عمل کیجئے

(مسند احمد بن حنبل جلد 1۔)

فاطمہ بیمار ہوئیں تو ابو بکر ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ ان کی مزاج پرسی کی اور فرمایا:

میں نے تو گھر بار، مال و دولت اور کنبہ و قبیلہ محض اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا اور اہل بیت تمہاری رضا کے لیے چھوڑا تھا۔

اس پر فاطمہ ان سے خوش ہو گئیں اور کوئی غبار دل میں باقی نہ رکھا۔ (البدایہ و النہایہ - حافظ ابن کثیر)

سیدہ فاطمہ نے ابو بکر کا جواب سن کر اپنے مطالبے پر دوبارہ زور دیا تو ابو بکر صدیق نے فرمایا:

اے خیرة النساء، اے خیر الاباء کی لخت جگر! خدا کی قسم میں نے محمد کی رائے سے ذرا بھی تجاوز نہیں کیا، میں نے وہی کچھ کیا جس کا آپ نے حکم دیا۔ محمد فدک سے آپ (اہل بیت) کی ضروریات زندگی (خوراک) لیا کرتے تھے اور باقی مستحقین میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور مجاہدین کو سواریاں اسی میں سے مہیا فرمایا کرتے تھے۔ میں اللہ تعالی کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی وہی کچھ کروں گا جس طرح محمد کیا کرتے تھے۔

یہ سن کر فاطمہ ا راضی ہو گئیں۔ (شرح نہج البلاغہ جلد خامس علامہ کمال الدین مشیم الجرانی)

جمہور علما اہل سنت و جماعت نے سیدہ فاطمتہ الزہرا (تا دم وفات) نا راضی والی روایت کو محل نظر ٹھہرایا ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس موضوع پر بخاری کی کئی روایتوں میں سے صرف ایک روایت میں فاطمہ کی ناراضی بیان کی گئی ہے اور یہ راوی کی قیاس آرائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ بات باور کرنا مشکل ہے کہ سیدہ فاطمہ جسیی پاک فطرت خاتون نے محمد کا ارشاد گرامی سن کر اسے تسلیم نہ کیا ہو بلکہ یہ ارشاد سنانے والے سے ناراض ہو گئیں اور یوں بھی سیدہ فاطمہ کی ارفع و اعلیٰ سیرت اور الفقر فخری کے مصدق کردار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ان کو دنیا کے مال اور جائداد سے کوئی رغبت نہ تھی۔ ان کو تو جو مقرر حصہ ملتا تھا اس کو بھی راہ خدا میں لٹا دیتی تھیں اور خود فقر و فاقہ سے زندگی بسر کرتی تھیں۔ اس لیے یہ بات بعید از قیاس ہے کہ وہ پاک ہستی رسول پاک ﷺ کا ارشاد گرامی:

ہمارا کوئی وارث نہ ہو گا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہو گا

سن کر ابو بکر صدیق جیسی پاک نہاد ہستی سے ناراض ہو گئی ہوں۔ اگر وہ وقتی طور پر رنجیدہ ہوئیں اور اس کا کسی شکل میں اظہار بھی کیا تو اس کی تاویل یہی کی جا سکتی ہے کہ وہ حضور کے ارشاد گرامی کا مطلب کچھ اور سمجھتی تھیں اور ابو بکر صدیق اس کا جو مفہوم سمجھتے تھے اس سے ان کو اتفاق نہ ہو گا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بتقاضائے بشریت ان کی ناراضی عارضی تھی بعد میں وہ ابو بکر صدیق سے راضی ہو گئیں اور کسی قسم کا ملال اپنے دل میں باقی نہ رکھا۔[156]

بخاری شریف جلد دوم صفحہ 575 اور مسلم شریف جلد دوم صفحہ 90 میں مالک بن اوس سے مروی ہے کہ مجمع صحابہ کرام جن میں عباس، عثمان، علی، عبد الرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص م موجود تھے۔ عمر فاروق نے سب کو قسم دے کر پوچھا کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ سب نے اقرار کیا کہ ہاں حضور نے ایسا فرمایا ہے۔ ان احادیث کریمہ کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب علی کی خلافت کا زمانہ آیا اور حضور کا ترکہ خیبر اور فدک وغیرہ ان کے قبضہ میں ہوا پھر ان کے بعد حسنین کریمین وغیرہ کے اختیار میں رہا مگر ان میں سے کسی نے ازواج مطہرات یا اہل بیت کرام کو باغ فدک وغیرہ سے حصہ نہ دیا۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ نبی کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ اس لیے ابو بکر صدیق نے فاطمہ کو باغ فدک نہیں دیا نا کہ بغض و عدوات کے سبب جیسا کہ رافضی الزام لگاتے ہیں۔ آیت کریمہ

وَ وَرِثَ سُلَیْمِانُ دَاودَ

یا اس کے علاوہ قرآن مجید و حدیث شریف میں جہاں بھی کہیں انبیا کرام کی وراثت کا ذکر ہے اس سے علم شریعت و نبوت مراد ہے نہ کہ درہم و دینار[157]

ابتدائی مشکلات

ابو بکر صدیق کو مسند آرائے خلافت ہوتے ہی اپنے سامنے صعوبات، مشکلات اور خطرات کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا۔ ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے، دوسری طرف مرتدین اسلام کی ایک جماعت علم بغاوت بلند کیے ہوئے تھی۔ منکرین زکوة نے علاحدہ شورش برپا کر رکھی تھی۔ ان دشواریوں کے ساتھ اسامہ بن زید کی مہم درپیش تھی جن کو آن ﷺ نے اپنی حیات ہی میں شام پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تھا۔[158]

لشکر اسامہ کی روانگی

رسول اکرم ﷺ نے اپنے وصال سے کچھ روز پہلے رومیوں سے جنگ موتہ کا انتقام لینے کے لیے ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا تھا جس کا سردار زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ کو مقرر فرمایا تھا۔ اس لشکر میں اکثر بڑے بڑے صحابہ کرام ابو بکر و عمر وغیرہ بھی شامل تھے۔ لیکن ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول اکرم وصال فرما گئے۔

بعض صحابہ کے مشورے

رسول اکرم کے وصال کے بعد بہت سے عرب قبائل میں ارتداد کی وباء پھیل گئی نو مسلم قبائل جن دلوں میں نور ایمان کی چمک پوری طور پر منعکس نہیں ہوئی تھی ایک ایک کر کے مرتد ہونے لگے۔ یہ وقت اسلام کے لیے بڑا نازک تھا۔ بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصہ کے لیے لشکر اسامہ کی روانگی ملتوی کر دی جائے اور پہلے مرتدین سے نمٹ لیا جائے لیکن ابو بکر نے اس مشورہ کو قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا: " میں اس جھنڈے کو نہیں کھول سکتا جسے رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے باندھا ہو۔" پھر بعض صحابہ نے عرض کیا کہ "اسامہ کی بجائے جو جو ایک نوعمر اور ناتجربہ کار شخص ہیں کسی اور کو سردار بنا دیجئے۔" ابو بکر صدیق نے غصہ ہو کر فرمایا: " جسے خدا کے رسول نے سردار بنایا ہو مجھے اسے معزول کرنے کا کیا حق ہے؟

روانگی

ابو بکر نے لشکر اسامہ کو روانگی کا حکم دیا اور یکم ربیع الثانی گیارہ ہجری کو یہ لشکر روانہ ہوا۔ اس لشکر کو رخصت کرنے کے لیے ابو بکر خود کچھ دور تک تشریف لے گئے اس طرح کہ اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ اسامہ نے عرض کیا کہ اے خلیفتہ الرسول! آپ بھی سوار ہو جائیں ورنہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں بھی پیدل ہو جاؤں۔ ابو بکر صدیق نے جواب دیا:

خدا کی قسم دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں ہو سکتی۔ کیا حرج ہے اگر میں خدا کے راستہ میں تھوڑی دور تک اپنے پاؤں غبار آلود کر لوں جبکہ غازی کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

اس لشکر میں عمر فاروق بھی شامل تھے اور ان کا خلیفتہ المسلمین کے مشیر کی حثیت سے مدینہ میں رہنا ضروری تھا اس لیے ابو بکر نے اپنی ضروریات ظاہر کر کے اسامہ سے درخواست کی کہ وہ انھیں چھوڑ دیں۔ اسامہ نے اجازت دے دی۔ یہ حقیقت میں ذات نبوت کی تعظیم تھی۔ ابو بکر صدیق کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسامہ اس ذات مقدس کی طرف سے مامور ہیں جن کا اقتدار میرے اقتدار سے بالا ہے۔ لہذا مجھے ان کے اختیارات میں داخل دینے کا حق نہیں۔ جب ابو بکر سے اسامہ جدا ہونے لگے تو ابو بکر نے انھیں کچھ نصیحتیں فرمائیں۔

دیکھو! خیانت نہ کرنا۔ دھوکا نہ دینا۔ مال نہ چھپانا۔ کسی کے اعضاء کو نہ کاٹنا۔ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ کھجور کے درختوں کو نہ جلانا۔ پھل والے درختوں کو نہ کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے سوا کسی بکری، گائے یا اونٹ کو نہ کاٹنا۔ تمہارا گزر ایک قوم پر ہو گا جو دنیا کو چھوڑ کر اپنی خانقاہوں میں بیٹھی ہو گی تم اس سے تعرض نہ کرنا۔

یہ ایسی سنہری نصیحتیں ہیں جو بطور اصول جنگ تسلیم کر لی جائیں تو آج بھی دنیا سے وحشت و درندگی کا بہت کچھ خاتمہ ہو سکتا ہے۔

واپسی

لشکر اسامہ نے بڑی جلدی سے سفر کرتے ہوئے شام کی بستیوں پر حملہ کر دیا۔ بہت سے کفار کو قتل کیا۔ بہت سا مال غنیمت اور فتح کی خوشخبری لے کر چالیس روز کے بعد واپس لوٹے۔

فوائد

اگر ابو بکر صحابہ کرام کے دونوں مشوروں میں سے کسی ایک مشورہ کو بھی مان لیتے تو دوسروں کو حکم رسول ﷺ سے سرتابی کے لیے ایک مثال مل جاتی۔ شام کا یہ حملہ اسلام کے لیے مفید ثابت ہوا۔ منافقین اور مرتدین کہنے لگے کہ مسلمانوں کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ورنہ وہ اتنی دور اتنے قوی دشمن کے مقابلے کے لیے اپنی فوج نہ بھیجتے۔ چنانچہ بہت سے مرتد قبائل ڈر کر پھر اسلام میں داخل ہو گئے۔[159]

سیدہ فاطمۃ الزہرا کا سفر آخرت

سرور عالم ﷺ کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ سیدہ فاطمہ زہرا کو ہوا۔ آپ ہر وقت غمگین رہتی اور دل گرفتہ رہنے لگیں۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ حضور کے وصال کے بعد کسی نے سیدہ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ سرور دو عالم کے وصال کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں اور جلد ہی خالق حقیقی کی جانب سے بلاوا آ گیا جس کی آپ اس دن سے منتظر تھیں جب حضور نے انھیں بتایا تھا کہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھے عالم آخرت میں ملو گی۔ سیدہ کی تاریخ وفات کے بارے میں اہل سیر میں سخت اختلاف ہے۔ مختلف روایات کے مطابق سیدہ نے حضور کے کے وصال کے ستر دن یا دو ماہ یا چار ماہ یا چھ ماہ یا آٹھ ماہ یا اٹھارہ ماہ بعد وفات پائی۔ جمہور ارباب سیر نے چھ ماہ والی روایت کو ترجیح دیا ہے کہ سیدة النساء نے تین رمضان المبارک گیارہ ہجری (منگل کی رات) کو سفر آخرت اختیار کیا۔ محققین علمائے شیعہ کے نزدیک سیدہ نے 3 جمادی الآخر گیارہ ہجری کو وفات پائی۔ سیدہ کا کس مرض میں انتقال ہوا یا وہ کتنا عرصہ صاحب فراش رہے اہل سیر نے اس کی تصریح نہیں کی۔ اس ضمن میں جو روایتیں ملتی ہے ان سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ نے اپنی وفات سے پہلے کیا کیا وصیتیں کی تھیں اور یہ کہ انھیں پہلے سے اپنی وفات کا احساس ہو گیا تھا۔ البتہ بعض اہل سیر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ شدت غم سے سیدہ کا جسم روز بروز گھلنے لگا یہاں تک کہ آپ سخت نجیف و نزار ہو گئیں اور انتہائی ضعف و نقاہت کے سبب وفات پا گئیں۔ علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ وفات سے پہلے سیدہ فاطمہ نے اسماء بنت عمیس (زوجہ ابو بکر صدیق) کو بلا کر فرمایا: میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا پورا لحاظ رکھنا سوائے اپنے اور میرے شوہر کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا اور تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔ اسماء نے کہا: یا بنت رسول اللہ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کے ایک ڈولے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال لیتے ہیں۔ پھر انھوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں انھیں جوڑا اور پھر ان پر کپڑا تان کر سیدہ بتول کو دکھایا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور بعد وفات سیدہ کا جنازہ اسی طریقہ سے اٹھایا گیا۔ حافظ ابن عبد البر نے استیعاب میں بھی یہی روایت بیان کی ہے۔ علامہ ابن سعد کاتب لواقدی نے طبقات میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں ایک عجیب روایت بیان کی ہے۔ ابن سعد نے اس کو ام سلمی سے روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے ام رافع سے۔ قیاس یہ ہے کہ ام سلمی اور ام رافع ایک ہی شخصیت ہے ان کا اصل نام سلمی اور کنیت ام رافع ہے۔ یہ سیدہ کی کنیز تھیں۔ وہ کہتیں ہیں جس وقت فاطمہ کی وفات ہوئی علی گھر سے باہر تھے، سیدہ فاطمہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں غسل کروں گی، پانی کا انتظام کرو اور میرے پہننے کے لیے صاف اور عمدہ کپڑے بھی نکال دو۔ میں نے پانی کا انتظام کر دیا اور کپڑے بھی نکال دیے۔ سیدہ بتول نے اچھی طرح غسل کیا اور کپڑے پہنے اور پھر فرمایا میرا بستر کر دو میں لیٹوں گی۔ میں نے بستر بچھا دیا۔ وہ بستر پر قبلہ کی طرف منہ کر کے لیٹ گئیں اور مجھ سے فرمایا اب میرا چل چلاؤ ہے، میں غسل کر چکی ہوں اب دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں اور نہ میرا بدن کھولا جائے۔ یہ فرما کر انھوں نے وفات پائی۔ جب علی گھر آئے تو میں نے یہ واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے اسی غسل پر اکتفا کیا اور ان کو دفن کر دیا۔ ابن جوزی اور بعض دوسرے علما نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا اور لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ کو اسماء بنت عمیس (زوجہ ابو بکر صدیق)، سلمی ام رافع اور علی نے تدفین سے پہلے شریعت کے مطابق غسل دیا۔ جمہور علمائے اہل تشیع کے نزدیک سیدہ فاطمہ کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو صرف علی نے غسل دیا، خود ہی نماز جنازہ پڑھائی اور ایک خاص تابوت میں ان کا جنازہ اٹھایا گیا جو ام ایمن نے سیدہ فاطمہ کی وفات سے پہلے بنا کر ان کو دکھا دیا تھا۔ پھر انھیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا۔ سیدة النساء کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟ امام بخاری اور کچھ دوسرے محدثین اور ارباب سیر نے لکھا ہے کہ سیدہ کی نماز جنازہ علی نے پڑھائی۔ ایک روایت میں عباس بن عبد المطلب اور ایک میں خلیفتہ الرسول ابو بکر صدیق کا نام بھی لیا گیا ہے۔ (البدایہ و النہایہ - حافظ ابن کثیر) کنز العمال میں امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں

فاطمہ دختر محمد فوت ہوئیں تو ابو بکر و عمر دونوں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تشریف لائے۔ ابو بکر نے علی المرتضی کو جنازہ پڑھانے کے لیے کہا کہ آگے تشریف لایئے تو علی المرتضی نے جواب دیا کہ آپ خلیفہ رسول ہیں میں آپ سے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ پس ابو بکر نے مقدم ہو کر نماز جنازہ پڑھائی۔

(کنز العمال جلد 6 صفحہ 318 طبع قدیم) علامہ محب طبری نے ریاض المنضرة میں علی (امام زین العابدین) بن حیسن کا یہ بیان نقل کیا ہے

علی نے نماز جنازہ کے لیے ابو بکر سے کہا کہ آگے تشریف لایئے۔ ابو بکر نے جواب دیا کہ اے ابو الحسن! آپ کی موجودگی میں؟ انہوں نے کہا، ہاں، آپ آگے تشریف لایئے۔ خدا کی قسم آپ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہ کا جنازہ نہیں پڑھائے گا۔ پس ابو بکر نے فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہ رات کو دفن کر دی گئیں۔

ریاض النضرة جلد 1 صفحہ 156۔) علامہ ابن سعد نے طبقات میں مکمل سند کے ساتھ یہ راویت بیان کی ہے:

ابراہیم نخعی نے کہا ہے کہ ابو بکر صدیق نے فاطمہ دختر محمد پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں۔

(طبقات ابن سعد جلد دوم صفحہ 19 طبع لیڈن یورپ) بعض روایتوں میں ہے کہ علی نے فاطمہ کی تدفین سے پہلے ابو بکر صدیق کو ان کی وفات کی اطلاع ہی نہ دی لیکن یہ بات اس لیے قابل یقین نہیں کہ خود ابو بکر صدیق کی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس فاطمہ کی وفات سے قبل ان کے پاس موجود تھیں اس لیے ابو بکر صدیق ان کی وفات کی خبر سے کیسے بے خبر رہے سکتے ہیں۔ سیدہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی اس سے ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ آخرت میں اس کے بارے میں کسی سے سوال ہو گا۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سیدہ کی تدفین رات کے وقت عمل میں لائی گئی۔ جنازہ بڑی خاموشی سے اٹھایا گیا اور اس میں بنو ہاشم کے علاوہ چند خاص صحابہ کرام ہی شریک ہو سکے۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ کو علی، عباس بن عبد المطلب اور فضل بن عباس نے قبر میں اتارا۔ جائے تدفین کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں۔ 1- سیدہ کا مدفن دار عقیل کے ایک گوشے میں ہے۔ 2- جنت البقیع میں ہے۔ 3- رسول اکرم کے روضہ مبارک کے قریب ہے۔ 4- سیدہ اپنے گھر میں مدفون ہوئیں، جب مسجد نبوی کی توسیع کی گئی تو یہ جگہ بھی شامل مسجد ہو گئی۔ مدینہ منورہ میں سیدہ فاطمۃ الزہرا سے منسوب مزار پر صدیوں تک ایک شاندار عمارت قائم رہی جب سعودی حکومت نے ایسی عمارتیں اور قبے منہدم کرائے تو اس عمارت کو بھی منہدم کرا دیا۔ مورخ مسعودی نے بیان کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ کی تدفین کے بعد علی گھر واپس گئے تو سخت غم زدہ تھے اور بار بار یہ اشعار پڑھ رہے تھے

میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی بیماریوں اور مصیبتوں نے مجھے چاروں طرف سے آ گھیرا ہے اور اہل دنیا جب تک دنیا میں ہیں بیمار ہیں، ہر ایک جائی کے بعد دوستوں سے مفارقت ہو کر رہتی ہے اور وہ زمانہ جو مفارقت کے سوا ہوتا ہے تھوڑا ہوتا ہے۔ احمد ﷺ کے بعد فاطمہ کی مفارقت اس بات کی دلیل ہے کہ دوست ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا۔

بعض روایتوں میں ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا کی وفات کا علم اہل مدینہ کو ہوا تو تمام مرد و عورتیں اشکبار ہو گئے۔ لوگوں پر اس طرح حیرت اور دہشت طاری ہوئی جس طرح سرور دو عالم ﷺ کے وصال کے دن طاری ہوئی تھی۔ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق بادیدہ گریاں علی المرتضی کے پاس گئے اور ان سے تعزیت کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ علی کچھ عرصہ تک روزانہ فاطمہ کی قبر پر تشریف لے جاتے، فاطمہ کو یاد کر کے روتے اور یہ شعر پڑھتے:

خدایا میری کیا حالت ہے کہ میں قبروں پر سلام کرنے آتا ہوں لیکن حبیب کی قبر میرے سوال کا جواب ہی نہیں دیتی۔ اے قبر تجھے کیا ہوا کہ پکارنے والے کو کوئی جواب نہیں دیتی کیا تو احباب کی محبت سے رنجیدہ ہو گئی ہے

[160]

فتنئہ ارتداد

رسول اکرم ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد اس زمانہ میں جب اسامہ رومیوں سے لڑ رہے تھے ابو بکر صدیق بالکل خاموشی کی حالت میں بیٹھے رہے۔ اگرچہ عربوں کے مرتد ہونے کی خبریں وقتاً فوقتاً آتیں رہیں آخر ردت کی یہ نوبت پہنچ گئی کہ ادھر سوائے قبیلہ قریش و ثقیف کے کل قبائل عرب عام طور پر کل یا بعض مرتد ہو گئے اور ادھر مسیلمہ کذاب کے کاموں میں ایک گونہ استحکام پیدا ہو گیا۔ طلیحہ کے پاس قبائل طے اور اسد کا ایک خاصا گروہ جمع ہو گیا، غطفان مرتد ہو گیا۔ بنو ہوازن نے ان سے اتفاق کیا صدقہ بند کر دیا۔ بنو سلیم کے خاص خاص لوگ اسلام سے پھر گئے۔ علیٰ ہذا ہر مقام پر اکثر آبادی ارتداد کی بلائے بد میں مبتلا ہو گئے۔ یمن، یمامہ، بنی اسد اور ہر ایک مقام کے امرا و نوابین کے قاصد عرب کے عام طور سے مرتد ہونے کی خبریں لانے لگے۔ ابو بکر نہایت استقلال و مضبوطی سے ان کل خبروں کو سن کر خطوط و نامہ بروں سے محاسبہ کرتے رہے اور ان کی سرکوبی کے لیے اسامہ کی واپسی کے منتظر تھے۔[161] اس فتنہ کی وجوہ حسب ذیل تھیں

  1. عرب اسلام سے پہلے مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان ٹکڑیوں کو ملا کر ایک ملت بنا دیا۔ مگر چونکہ وہ برسہا برس سے اس کے عادی نہ تھے اس لیے انھوں نے اس نظام ملی کو اپنی آزادی کے لیے ایک زنجیر سمجھا اور اسے توڑ کر نکل بھاگنے کی فکر کرنے لگے۔
  2. قرآن کریم نے حکومت اسلامی کے شعبئہ مالیات کے لیے زکوة کو بنیاد ٹھہرایا۔ زکوة اسلام کے اصولوں کے مطابق امیروں سے لی جاتی ہے اور غریبوں پر صرف کی جاتی ہے اور اس کا مقصد قوم میں دولت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ مگر اسے بھی ایک بار سمجھا گیا اور اس بار کو اتار پھیکنے کی کوشش کی جانے لگی۔
  3. شراب عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی جو ان کا دل پسند کھیل تھا اور زنا ایک مرغوب تفریح۔ اسلام کے قانون نے ان سب برائیوں پر کڑی بندشیں قائم کر دیں جو ان لوگوں پر گرا گزریں۔

یہ مرض ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے جو مرکز اسلام سے دور نجد و یمن وغیرہ کے علاقوں میں رہتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ کی صحبت انھیں نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کی شوکت کو دیکھ کر ان کی گردنیں ضرور خم ہو گئی تھیں۔ مگر دلوں میں خضوع کی کفیت پیدا نہیں ہوئی تھی چنانچہ قرآن کریم نے خود ان لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:-

دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اے رسول (ﷺ) کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ہیں ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔

پھر اس پر طرہ یہ ہوا کہ خدا کے سچے نبی ﷺ کی کامیابی کو دیکھ کر عرب میں بہت سے جھوٹے نبوت کے دعوے دار پیدا ہو گئے۔ ان کم بجتوں نے سوچا کہ نبوت کا دعوی بھی دنیاوی ترقی کا ایک اچھا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کے دل پہلے ہی مریض تھے وہ ان شیاطین کے جال میں بآسانی پھنس گئے۔[162]

مدینہ منورہ پر حملہ اور دفاع مدینہ

قبیلہ عبس و ذیبان جوش مردانگی سے ابل پڑے۔ عبس، ابرق، ذیبان ذی القصہ میں آ اترے۔ ان کے ساتھ کچھ لوگ بنی اسد اور بنی کنانہ کے بھی تھے۔ ان لوگوں نے متفق ہو کر چند آدمیوں کو بطور وفد ابو بکر صدیق کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ انھوں نے بمقابلہ معززین مدینہ نماز کی کمی اور زکوة کی معافی کی درخواست کی۔ ابو بکر نے کہا واللہ اگر ایک عقال (جس رسی سے اونٹ کے پاؤں باندھتے ہیں) نہ دیں گے، تو میں ان سے جہاد کروں گا اور پانچ وقت کی نماز میں سے ایک رکعت کی بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ مرتدین کے وفود یہ سخت جواب سن کر اپنے گروہ میں واپس آئے اور مسلمانوں کی قلیل تعداد سے آگاہ کیا۔ عبس و ذیبان اس خبر کے سنتے ہی مارے خوشی کے جامہ سے باہر ہو گئے۔ اس وقت بلا پس و پیش مدینہ پر حملہ کر دیا۔ لیکن ان کے حملہ کرنے سے پہلے ہی ابو بکر صدیق نے یہ انتطام کر رکھا تھا کہ گشت پر علی و زبیر و طلحہ و عبد اللہ بن مسعود کو مقرر کیا تھا اور جو لوگ مدینہ میں موجود تھے ان کو مسجد نبوی کے سامنے یک جا کر رکھا تھا۔ جس وقت عبس و ذیبان نے اسلامی گشت پر حملہ کیا۔ ابو بکر نے اس واقعہ سے مطلع ہوتے ہی مسلمانان مدینہ کو ان کی کمک پر بھیج دیا۔ مرتدین کو شکست ہوئی اور اسلامی لشکر نے ذی خشب تک ان کا تعاقب کیا۔ اس کے بعد مرتدین دوسرے راستے سے بانسری و دف بجاتے زمین پر پاؤں پٹکتے طرح طرح کی حرکات و تماشے کرتے ہوئے لوٹے جس سے اسلامی لشکر کے اونٹ بھڑک کر بھاگے کہ انھوں نے مدینہ میں ہی جا کر دم لیا۔ ادھر مرتدین نے یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی۔ اہل ذی قصہ کو مدینہ پر حملہ کے لیے کہلا بھیجا۔ ادھر ابو بکر خود مقابلہ کے قصد سے مسلح ہو کر نکلے۔ میمنہ پر نعمان بن مقرن میسرہ پر عبد اللہ بن مقرن اور ساقہ پر سوید بن مقرن کو مقرر کر کے فجر کی نماز اول وقت پڑھ کر مرتدین پر حملہ آور ہوئے۔ دوپہر نہ ہونے پائی تھی کہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی اور مرتدین میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ بنی اسد سے حبال مارا گیا۔ ظہر کے وقت نعمان چند مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت لے کر مدینہ واپس ہوئے اور ابو بکر مرتدین کے تعاقب میں ذی قصہ تک بڑھتے چلے گئے۔ اسی اثناء میں بنو ذیبان و عبس نے موقع پر نعمان پر دفعتہً حملہ کر کے مال غنیمت لوٹ لیا اور جس قدر مسلمان سامنے آئے انھیں شہید کر ڈالا۔ ابو بکر صدیق جب تعاقب سے واپس لوٹے اور اس واقعہ کو سنا تو قسم کھائی جس قدر مرتدین و مشرکین نے مسلمانوں کو شہید کیا اتنے ہی آدمیوں کو میں ان میں مار دوں گا اور جب تک دشمن خدا سے اس کا بدلہ نہ لے لوں گا آسائش سے نہ بیٹھوں گا۔

ابو بکر اسی ارادے میں تھے کہ مدینہ میں اطراف و جوانب ممالک سے صدقات آگئے اور اسامہ بھی مال غنیمت اور فتح کی خوش خبری لیے ہوئے آ پہنچے۔

ابو بکر صدیق نے اسامہ کو مدینہ میں نائب بنا کر لشکر اسلام کو مرتب کیا اور آپ خود چند آدمیوں کو لے کر ذی خشب و ذی قصہ کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ ابرق پہنچ کر عبس و ذیبان و بنو بکر (کنانہ) ثعلبہ بن سعید اور ان کے ہمراہیوں سے مقابلہ ہو گیا۔ فریقین نے کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ انجام کار مرتدین شکست کھا کر بھاگے تو مسلمانوں نے ان کو شمشیر و نیزہ پر رکھ لیا اور ایک کثیر جماعت ان میں سے ماری گئی۔ اس واقعہ کے بعد ابرق میں ابو بکر نے چند روز قیام کر کے بنو ذیبان کو ان مقامات سے بالکل بے دخل کر کے مسلمانوں کے قبضہ میں دے دیا اور خود مدینہ منورہ واپس آگئے۔[163]

لشکر اسلام کی روانگی

اس عرصہ میں لشکر اسامہ تازہ دم ہو چکا تھا۔ ابو بکر صدیق اسے لے کر ذوالقصہ جو مدینہ سے نجد کی سمت ایک برید (بارہ میل) کے فاصلہ پر ہے پہنچے۔ وہاں آپ نے کل اسلامی فوج کو گیارہ دستوں میں تقسیم کیا۔ ہر دستہ کا ایک الگ سردار مقرر کیا اور اسے ایک جھنڈا دیا۔ یہ گیارہ سردار اپنے دستوں کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کیے گئے۔ ان گیارہ سرداروں کے نام یہ ہیں:- 1- خالد بن ولید 2- عکرمہ بن ابی جہل 3- شرجیل بن حسنہ 4- مہاجر بن ابی امیہ 5- حذیفہ بن محصن 6- عرفجہ بن ہرثمہ 7- سوید بن مقرن 8- علا بن الحضرمی 9- طریفہ بن حاجر 10- عمرو بن العاص 11- خالد بن سعید مجاہدین کے ان دستوں کی روانگی سے پہلے ابو بکر صدیق نے مرتدین کے نام ایک عام پیغام بھیجا۔ اس پیغام میں انھیں فتنہ و فساد سے باز آنے اور اسلامی برادری میں دوبارہ داخل ہونے کی دعوت دی اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو ان سے تعرص نہ کیا جائے گا۔ پھر فوج کے سپہ سلاروں کے نام ہدیت نامہ جاری فرمایا:-

میں مجاہدین اسلام کو ہدیت کرتا ہوں کہ وہ ہر حال میں خدا سے ڈریں۔ حکم خداوندی کی تعمیل میں پوری کوشش کریں۔ جو لوگ حلقہ اسلام سے نکل کر شیطان کے جال میں پھنس گئے ہیں ان کے ساتھ جہاد کریں لیکن تلوار اٹھانے سے پہلے انہیں اسلام کا پیغام پہنچائیں اور ان پر محبت پوری کر دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو فوراً ہاتھ روک لیں لیکن اگر انکار کریں تو ان پر حملہ کر دیں یہاں تک کہ وہ کفر سے باز آ جائیں۔ مرتدین جب دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائیں تو اسلامی فوج کا سردار انہیں آگاہ کر دے کہ ان کے ذمہ اسلام کے کیا کیا فرائض ہیں؟ اور مسلمانوں پر ان کے کیا کیا حقوق ہیں؟ ان کے فرائض کو ان سے پورا کرایا جائے اور ان کے حقوق ادا کیے جائیں۔ امیر لشکر اپنے ساتھیوں کو جلد بازی اور فساد سے روکے۔ دشمنوں کی بستی میں اندھا دھند نہ گھس جائے خوب دیکھ بھال کر داخل ہو ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے۔ سردار فوج کوچ اور قیام کی حالت میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ میانہ روی اور نرمی کا برتاؤ کرے ان کی دیکھ بھال رکھے۔ ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے اور گفتگو میں نرمی اختیار کرے۔

اس کے بعد اسلامی لشکر کے دستے اپنے تجربہ کار سرداروں کی رہنمائی میں حریفوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

طلیحہ بن خویلد کی توبہ

بنی اسد میں ایک شخص طلیحہ تھا حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد اس کے دماغ میں نبوت کا خبط سمایا۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم میں نبوت کا دعوی کر دیا۔ بنی اسد سب اس کے تابع ہو گئے۔ بنی اسد اور بنی طے کے درمیان معاہدہ دوستی تھا لہذا انھوں نے بھی اپنے حلیف کا ساتھ دیا اور قبیلہ غطفان کے بھی بہت سے لوگ ان کے شریک ہو گئے۔ طلیحہ نے اس عظیم الشان فوج کو لے کر نجد میں چشمہ بزاخہ پر پڑاؤ ڈالا۔ خالد بن ولید طلیحہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ عدی بن حاتم طائی جو قبیلہ بنی طے کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے اس زمانہ میں مدینہ میں مقیم تھے انھوں نے ابو بکر سے عرض کیا مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنے قبیلہ کو سمجھا بجھا کر اس فتنہ سے نکال لوں۔ ابو بکر صدیق نے اجازت دیدی۔ عدی کی کوششوں سے ان کے قبیلہ کے تمام افراد طلیحہ سے علاحدہ ہو گئے اور پھر یہی کوششیں انھوں نے قبیلہ جدیلہ میں بھی کی اور یہاں بھی انھیں کامیابی ہوئی۔ خالد بن ولید اپنی فوج کو لے کر چشمہ بزاخہ پر پہنچے اور طلیحہ کے لشکر سے زبردست مقابلہ کیا۔ جب طلیحہ کے لشکر پر شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تو بنو غطفان کا سردار عینیہ بن حصن فزاری جو طلیحہ کا مدد گار تھا اس کے پاس آیا۔ اس وقت طلیحہ چادر میں لپٹا اس طرح بیٹھا تھا گویا اس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عینیہ نے پوچھا کہیے کہ جبرائیل کوئی پیغام لائے؟ طلیحہ بولا ہاں اور پھر ایک مقفی عبارت سنائی جس کا مطلب تھا کہ آخر میں جیت ہماری ہی ہو گی۔ عینیہ نے کہا اے فزارہ یہ شخص کذاب ہے اور پھر اپنے آدمیوں کو لے کر اس کے لشکر سے علاحدہ ہو گیا۔ جب طلیحہ نے دیکھا کہ شکست لازمی ہے تو اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر شام کی طرف بھاگ گیا اور بعد میں کفر سے توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ طلیحہ نے اس کے بعد فتوحات عراق کے موقع پر بہت بہادری دکھائی اور اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔

مالک بن نویرہ کا قتل

رسول اکرم ﷺ نے بنی تمیم میں پانچ امیر مقرر فرمائے تھے۔ جب حضور وصال فرما گئے تو ان میں سے بعض مرتد ہو گئے اور بعض اسلام پر قائم رہے۔ مرتد ہونے والوں میں مالک بن نویرہ بھی شامل تھا۔ اس نے زکوة روک لی اور قبیلہ کے مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ بنی تمیم میں ابھی خانہ جنگی ہو رہی تھی کہ بنی تغلب کی ایک عورت سجاح بنت حارث ادھر سے گذر رہی تھی۔ یہ عورت پہلے نصرانی تھی۔ آن ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد اس پر بھی نبوت کا جنون سوار ہوا اور عرب کے بہت سے اوباش اس کے ساتھ ہو گئے۔ یہ اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ پر حملہ کے ارادہ سے نکلی تھی۔ راستہ میں جب بنی تمیم کی بستیوں کے پاس سے گذر ہوا تو اس نے مالک بن نویرہ کے پاس پیغام دوستی بھیجا۔ مالک نے اس کا پیغام قبول کر لیا اور اسے مشورہ دیا کہ وہ مدینہ سے پہلے بنی تمیم کے مسلمانوں پر حملہ کرے۔ سجاح نے ان مسلمانون پر حملہ کر دیا۔ مسلمان اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لیے بھاگ گئے۔ سجاح اپنی فوج کو لے کر مدینہ کی طرف بڑھنے لگی۔ جب وہ مقام نباج میں پہنچی تو وہاں بنی تمیم ہی کی ایک اور جماعت سے اس کا مقابلہ ہو گیا۔ اس مقابے میں ان لوگوں نے اس کے کچھ آدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ آخر میں اس شرط پر صلح ہو گئی کہ سجاح ان کے آدمیوں کو چھوڑ دے اور وہ اس کے آدمیوں کو اور یہ مدینہ کا ارادہ چھوڑ کر واپس چلی جائے۔ چنانچہ سجاح ناکام یمامہ کی طرف لوٹ گئی۔ اس دوران میں بنی تمیم کے مرتدین کو خدا نے ہدایت دی اور انھوں نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔ مگر مالک بن نویرہ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر سکا تھا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو لے کر مقام بطاح میں پڑاؤ ڈال دیا۔ خالد بن ولید جب طلیحہ کے مقابلے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے مالک بن نویرہ کے مقابلہ کا ارادہ کیا۔ مالک بن نویرہ نے اپنے ساتھیوں کو منتشر کر دیا۔ خالد نے اپنے آدمی بھیج کر مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرا لیا۔ آپ نے مالک کے قتل کا حکم دیا اور اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ بعض مسلمانوں نے عمر بن خطاب سے کہا کہ مالک بن نویرہ نے گرفتاری سے پہلے اپنی بستی میں اذان دلوا دی تھی اس لیے خالد نے اسے قتل کر کے زیادتی کی ہے۔ خالد سے مالک بن نویرہ کا قصاص لینا چاہیے۔ خالد نے جواب دیا کہ مالک بن نویرہ نے قتل کے خوف سے اذان دلوائی تھی۔ ابو بکر صدیق نے فیصلہ کیا کہ خالد سے چونکہ واقعہ کی تحویل میں غلطی ہوئی ہے اس لیے ان سے قصاص نہیں لیا جاتا اور آپ نے مالک بن نویرہ کا خون بہا اپنی طرف سے ادا کر دیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ

اللہ کی تلوار کو جسے اس نے کافروں پر چمکایا ہے میں روپوش کرنے والا کون ہوں

مسیلمہ کذاب کا قتل

قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک وفد محمد کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ اس وفد میں ایک شخص مسیلمہ بن تمامہ بھی موجود تھا۔ اس نے کہا میں اس شرط پر اسلام لاؤں گا کہ محمد ﷺ اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنا دیں۔ رسول اللہ کے دست مبارک میں اس وقت کھجور کی ایک ٹہنی تھی۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسلام کے عوض کجھور کی یہ ٹہنی بھی مجھ سے مانگے گا تو میں نہ دوں گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تو وہی کاذب ہے جس کے متعلق مجھے خواب میں پہلے ہی خبر دی جا چکی ہے۔

محمد نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں آپ کو اس کا بہت فکر ہوا۔ پھر خواب ہی میں آپ کو حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارے۔ آپ نے پھونک ماری تو وہ دونوں کنگن اڑ گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد عرب میں دو جھوٹے نبی پیدا ہوں گے۔ چنانچہ ایک اسود عسنی تھا دوسرا مسیلمہ۔ (مسلم)

اس طرح جب مسیلمہ مایوس ہو کر واپس اپنے وطن یمامہ لوٹا اور آن ﷺ کی بیماری کی خبر سنی تو نبوت کا دعوی کر دیا اور کہا کہ میں نبوت میں محمد (ﷺ) کا شریک بنا دیا گیا ہوں۔ پھر اس نے حضور کی خدمت میں ایک خط بھیجا۔ خط کا مضمون یہ تھا:- "مسیملہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام" "سلام علیک! میں نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کر دیا گیا ہوں لہذا آدھی دنیا آپ کی ہے اور آدھی میری، لیکن مجھے آپ سے انصاف کی امید نہیں۔" حضور نبی کریم نے اس خط کا یہ جواب دیا :-

محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام

سلام علی من اتبع الھدی اما بعد "درحقیقت زمین خدا کی ہے اپنے بندوں میں سے وہ جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بناتا ہے اور انجام کار کامیابی خدا سے ڈرنے والوں کی ہے۔" (الاعراف)

رسول اکرم کے وصال فرمانے کے بعد ابو بکر نے عکرمہ بن ابی جہل کو اس کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اور شرجیل بن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے پیچھے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ شرجیل کا انتظار کریں۔ عکرمہ نے کامیابی کا سہرا تن تنہا اپنے سر باندھنے کے شوق میں شرجیل کا انتظار کیے بغیر مسیلمہ پر حملہ کر دیا اور شکست کھائی۔ ابو بکر صدیق کو جب خبر ہوئی تو بہت ناراض ہوئے اور عکرمہ کو حکم دیا کہ وہ یمن کی طرف جا کر اہل مہرہ کا مقابلہ کریں۔ خالد بن ولید اس وقت تک نبی تمیم کے مقابلے سے فارغ ہو چکے تھے۔ آپ نے انھیں مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اور شرجیل کو حکم دیا کہ وہ ان کا انتظار کرے۔ مسیلمہ کو جب خالد بن ولید کے پہچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی عظیم الشان فوج کو جو چالیس ہزار جوانواں پر مشتمل تھی لے کر نکلا۔ دونوں فونوں میں سخت ہولناک لڑائی ہوئی۔ شروع میں مسلمانوں پر شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور مسیلمہ کے آدمی خالد کے خیمہ تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن خالد نے سنبھل کر حملہ کیا اور دشمنوں کو دھکیلتے چلے گئے۔ خالد نے خود مسیلمہ کو مبازرت کے لیے پکارا۔ وہ آیا مگر مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو جس سے اس کے لشکر میں بھی بھگدڑ مچ گئی اور بری طرح شکست کھائی۔ مسیلمہ اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر اپنے ایک باغ میں جس کا نام اس نے حدیقۃ الرحمٰن رکھا تھا چھپ گیا اور باغ کے دروازے بند کرا دیے۔ ایک بہادر انصاری براء بن مالک نے کہا مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔ چنانچہ انھیں پھینک دیا گیا اور انھوں نے تن تنہا مسیلمہ کے پہرہ داروں کو قتل کر کے دروازہ کھول دیا۔ اب مسلمان اندر گھس گئے اور مسیلمہ کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ خود مسیلمہ بھی خدا کی تلوار سے نہ بچ سکا۔ مسیلمہ کو قتل کرنے والوں میں سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب کے قاتل وحشی بھی شامل تھے گویا اس طرح انھوں نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا۔ مسیلمہ کے قتل کے بعد اس کی قوم بنی حنیفہ نے مسلمانوں سے نرم شرائط پر صلح کر لی۔ صلح کی تکمیل ہو چکی تھی کہ ابو بکر کا حکم پہنچا کہ بنی حنیفہ کے تمام سپاہی قتل کر دیے جائیں لیکن چونکہ خالد ان سے عہد نامہ کر چکے تھے لہذا اسی پر قائم رہے۔ پھر بعد میں بنی حنیفہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔

اسود عسنی کا قتل

رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں جب یمن فتح ہوا تو آپ نے باذان فارسی کو (جو کسری کی جانب یمن کے عامل (حاکم) تھے اور اسلام لے آئے تھے) یمن کا عامل مقرر کر دیا۔ ان کا مرکز حکومت صنعاء تھا۔ جب باذان کا انتقال ہوا تو آپ نے یمن کی حکومت متعدد عاملوں میں تقسیم کر دی۔ ان عاملوں میں سے ایک باذان کا بیٹا "شہر" بھی تھا جو صنعاء کا عامل مقرر کیا گیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ کے وصال فرمانے سے کچھ پہلے یمن میں ایک شخص اسود جس کا اصلی نام "عبہلہ" تھا اور قبیلہ "عنس" سے تعلق رکھتا تھا نے نبوت کا دعوی کیا۔ قبیلہ مذحج کے لوگ اس کے پیرو کار ہو گئے اور انھوں نے اسود کے ساتھ مل کر نجران پر حملہ کر دیا اور وہاں سے عامل نجران عمرو بن حزم کو نکال دیا۔ اب اسود اپنی قوم کے سات سو آدمیوں کو لے کر صنعاء پر حملہ آور ہوا اور وہاں کے عامل شہر بن باذان کو قتل کر کے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح کے بعد تمام یمن میں اس کی دھوم مچ گئی اور یمن کے بہت سے ضعیف الایمان لوگ اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ محمد کو جب یہ کفیت معلوم ہوئی تو آپ نے ابناء (یمن کی ایرانی فوج جو مسلمان ہو گئی تھی) کے سرداروں اور ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو لکھا کہ اسود کو جس طرح ہو سکے قتل کر دیا جائے۔ اسود نے شہر بن باذان کو شہید کر کے اس کی بیوی سے شادی کر لی تھی۔ شہر کی بیوی اس سے سخت متنفر تھی اور وہ اس کے چنگل سے چٹکارا پانا چاہتی تھی۔ فوج ابناء کے سرداروں "فیروز" اور "دازدیہ" نے اس کی مدد سے رات کے وقت اسود کو قتل کر دیا اور صبح ہوتے ہی اسود کے مکان کی چھت پر چڑھ کر اذان دیدی۔ اذان کی آواز سنتے ہی ایک شور مچ گیا اور اسود کے آدمی شہر سے نکل بھاگے اوت صنعاء اور عدن کے درمیان منتشر ہو گئے۔ اسود کے قتل سے یمن میں امن و امان برقرار ہو گیا اور اسلامی عامل اپنے اپنے مرکزوں میں واپس لوٹ آئے۔ اس فتح کی خبر مدینہ میں جس صبح کو پہنچی اس سے پہلے والی شام کو رسول اللہ وصال فرما چکے تھے۔ گویا یہ پہلی بشارت تھی جو ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں مدینہ منورہ پہنچی۔ اسود کی شورش کا کل زمانہ صرف چار مہینے تھا۔ جب محمد کے وصال فرمانے کی خبر یمن پہنچی تو قیس بن عبد یغیوث مرتد ہو گیا اور اس نے اسود کے منتشر آدمیوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع ہونے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اور ان کی مدد سے قیس نے صنعاء پر قبضہ کر لیا اور ابناء کے بال بچوں کو پکڑ کر انھیں جزیروں میں قید کر دیا۔ ابناء کے سردار فیروز کو جب یہ کفیت معلوم ہوئی تو اس نے بنی عقیل اور عک سے مدد طلب کی۔ ان قبائل نے مدد کی اور ان کی مدد سے ابناء کے بچوں کو قیس کے آدمیوں کے پنجہ سے نکال کر پھر فیروز ان لوگوں کی مدد سے قیس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران مہاجر بن امیہ جنہیں ابو بکر نے اسود کے آدمیوں کے مقابلے کے لیے روانہ کیا تھا اور عکرمہ بن ابی جہل جو عمان اور مہرہ کی مہم سے فارغ ہو گئے تھے اپنی اپنی فوبوں کو لے کر ابناء کی مدد کو آ پہنچے۔ اسلامی فوج نے صنعاء پر قبضہ کر لیا اور قیس اور عمرو معدی کرب زبیری (جو مرتد ہو کر اسود کا ساتھی بن گیا تھا) کو گرفتار کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ مدینہ پہنچ کر انھوں نے اپنے کرتوتوں پر ندامت ظاہر کی اور دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ ابو بکر صدیق نے بھی ان کی خطا معاف کر دی اور انھیں آزاد کر دیا۔

فتنہ بحرین

بحرین میں ربیعہ کے بہت سے قبائل عبد القیس اور بنو بکر وغیرہ آباد تھے۔ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں اہل بحرین کا بھی ایک وفد حاضر ہوا تھا اور یہ اسلام لے آئے تھے۔ آن نے منذر بن ساوی کو ان کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ جونہی نبی کریم نے وصال فرمایا منذر بن ساوی کا بھی انتقال ہو گیا اور اہل بحرین مرتد ہو گئے۔ بنو بکر تو ارتداد پر اڑے رہے لیکن عبد القیس اپنے سردار جارود بن معلی کی بدولت اس فتنہ سے نکل آئے۔ واقعہ یہ ہوا کہ جارود نے اپنی قوم کو جمع کر کے کہا اے عبد القیس تم مسلمان ہونے کے بعد کیوں کافر ہو گئے۔ عبد القیس: محمد (ﷺ) اگر نبی ہوتے تو وہ کیوں انتقال کرتے۔ اس سے معلوم ہوا وہ نبی نہیں تھے۔ جارود: اچھا یہ تو بتاؤ محمد ﷺ سے پہلے بھی کچھ نبی ہوئے تھے۔ عبد القیس: کیوں نہیں، بہت جارود: پھر وہ کہاں گئے؟ عبد القیس: جاتے کہاں انتقال کر گئے۔ جارود: بس تو پھر محمد ﷺ کی بھی اسی طرح وفات ہو گئی جس طرح اور خدا کے نبیوں کی ہوئی۔ بھائیو! میں تو سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ عبد القیس: پھر ہم بھی سب اقرار کرتے ہیں۔ عبد القیس کی اس طرح دوبارہ مسلمان ہونے کی خبر بنو بکر کے سردار حطم بن ضبیعہ کو پہنچی تو وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کے مقابلے کے لیے نکلا اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ حطم بن ضبیعہ کے ساتھ اور بھی بہت سے کافر و مرتدین ہو لیے تھے۔ ابو بکر نے علا بن حضرمی کو حطم کے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ راستہ میں ثمامہ بن اثال اور قیس بن عاصم بھی بنی حنیفہ اور بنی تمیم کے آدمیوں کو لے کر ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ علا اپنی فوج کو لے کر جارود کی مدد کو پہنچے۔ حطم بھی اپنی جمعیت کو لے کر مقابلہ پر آیا اور دونوں فوجوں کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔ مرتدین اور مسلمانوں نے اپنے اپنے کیمپ کے سامنے خندقیں کھود رکھی تھی۔ دونوں طرف سے کچھ دستے روزانہ صبح کو مقابلے کے لیے نکلتے اور شام کو واپس اپنے پڑاؤ پر آ جاتے۔ ایک رات مسلمانوں نے غنیم کی فوج میں شور و شغب کی آواز سنی۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شراب کے نشہ میں چور ہو کر اودہم مچا رہے ہیں۔ مسلمانوں نے فوراً حملہ کر دیا۔ جتنے قتل ہو سکے انھیں قتل کر دیا جو باقی بچے ان کو گرفتار کر لیا۔ خود سردار لشکر حطم بھی قتل ہو گیا۔ حطم کے کچھ ساتھیوں میں سے جزیرہ دارین (خلیج فارس میں بحرین کے قریب ایک جزیرہ ہے) میں جا چھپے۔ مسلمان سمندر میں گھس کر وہاں پہنچے اور انھیں قتل کیا۔ ان کے علاوہ عمان کے بعض قبائل اور قبیلہ کندہ کے لوگ بھی مرتد ہو گئے تھے۔ ابو بکر کے بھیجے ہوئے سپہ سلاروں کی ان سے بھی جنگیں ہوئیں اور ہر جگہ مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔

اسلام کا محسن اعظم

ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد عرب میں جو ارتداد کی آندھیاں چلیں وہ ایسی خوف ناک تھیں کہ آفتاب اسلام کی روشنی کے چھپ جانے میں کسر نہ رہی تھی۔ مگر ابو بکر صدیق کے عزم راسخ اور رائے ثاقب سے مطلع اسلام پھر بے غبار ہو گیا۔ درحقیقت محمد کے بعد اسلام کی حفاظت و اشاعت میں ابو بکر کا ہی مسلمانوں پر سب سے بڑا احسان ہے۔ ان واقعات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کی شان نہیں کہ وہ مخالفت کی شدت اور دشمنوں کی کثرت سے گھبرا جائے۔ مسلمان تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔ ہاں ایمان کی کمزوری کے سبب مغلوب ہو سکتے ہیں۔ خلافت صدیقی کے ابتدائی دور میں مسلمان چاروں طرف سے دشمنوں سے گھر گئے تھے۔ عبد اللہ بن مسعود کے الفاظ میں ان کی حالت بکریوں کے اس ریوڑ کی سی تھی جو جاڑوں کی ٹھنڈی رات میں بارش کی حالت میں جنگل بیابان میں بغیر چرواہے کے رہ جائے۔ مگر صدیق اکبر کی ایمانی قوت نے دشمنوں کی طاقت کی پروا نہ کی اور ان کے سامنے فولادی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند تعالی نے اپنا وعدہ :-

اگر تم (دین) خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے ڈگمگاتے قدم جما دے گا

پورا فرمایا۔ کافروں اور مرتدوں کے سر اسلام کی عظمت کے سامنے جھک گئے اور اسلام کا جھنڈا پوری آن بان کے ساتھ لہرانے لگا۔[164]

تدوین قرآن مجید و حدیث شریف

صحیح بخاری میں زید بن ثابت سے روایت ہے کہ جنگ یمامہ کے موقع پر ابو بکر صدیق نے میری جانب ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ میرے پاس اس وقت عمر فاروق بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں بے شمار حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور اگر اس طرح جنگوں میں حفاظ کرام شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کے ایک بہت بڑے حصے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اس لیے ان کی رائے ہے کہ میں قرآن کریم کو جمع کروں۔ ابو بکر فرماتے ہیں کہ میں نے فرمایا کہ میں وہ کام نہیں کر سکتا جو نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں نہیں کیا۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کار خیر کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میری رائے بھی سیدنا عمر فاروق والی بن گئی۔ تم نوجوان ہو اور حضور نبی کریم کے کاتب وحی بھی ہو اس لیے تم قرآن کریم جمع کرو۔ زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو میں اسے قرآن مجید جمع کرنے سے زیادہ آسان سمجھتا۔ سیدنا ابو بکر نے مجھ سے فرمایا کہ یہ کار خیر ہے اور اللہ عزوجل نے میری رائے بھی وہی کر دی جو عمر فاروق اور سیدنا ابو بکر کی تھی۔ میں نے کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور صحابہ کرام کے سینوں سے قرآن مجید کو اکٹھا کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کے وصال تک یہ صحیفے ان کے پاس محفوظ رہے جو بعد ازاں سیدنا عمر فاروق کے سپرد ہوئے اور آپ کی شہادت کے بعد عثمان غنی کے پاس پہنچے جنھوں نے اس کی نقلیں کروا کر مختلف علاقوں میں بھیجیں۔ زید کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم سیدنا ابو بکر نے اس لیے دیا کہ وہ کاتب وحی تھے اور حضور نبی کریم کی ہر وحی انھوں نے تحریر فرمائی تھی اس کے علاوہ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور نبی کریم کو قرآن مجید سنایا کرتے تھے تا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو حضور ان کی اصلاح فرما دیں۔ نبی کریم ﷺ کے وصال سے کچھ روز قبل ہی زید نے حضور کو سارا قرآن پاک سنایا تھا اور نبی کریم نے آپ کی تعریف فرمائی۔ قرآن مجید جمع کرانا ابو بکر صدیق کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی وجہ سے رہتی دنیا تک ہر مسلمان کو قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہو گئی۔ قرآن پاک کو پہلی مرتبہ کتابی شکل ابو بکر صدیق نے ہی دی تھی۔

تدوین حدیث

ابو بکر صدیق نے اپنے مختصر دور میں قرآن مجید اکٹھا کرنے کے علاوہ تدوین حدیث کا کام بھی سر انجام دیا۔ آپ نے اپنے دور خلافت میں حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جن میں نبی کریم ﷺ کی مستند پانچ سو احادیث موجود تھیں۔ آپ نے یہ مجموعہ اپنی بیٹی ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے سپرد کیا تھا۔ سیدنا ابو بکر نے تدوین احادیث میں نہایت احتیاط سے کام لیا اور یہ مجموعہ اپنی بیٹی کے سپرد کرتے ہوئے انھیں نہایت احتیاط سے رکھنے کا حکم دیا۔ روایت میں آتا ہے کہ جب سیدنا ابو بکر نے احادیث کا نسخہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کو دیا تو اس رات ان کے ہاں قیام فرمایا اور تمام رات اس خوف سے کروٹیں بدلتے رہے کہ کہیں کسی حدیث کے تحریر کرنے میں کوئی کوتاہی نہ رہ گئی ہو۔ ام المومنین سے جب آپ کے والد ماجد کی اس کفیت کے مطلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے اول معلوم ہوتا تھا کہ شاید والد صاحب سخت بیمار ہیں اور اسی بے چینی میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔[165]

ایک غلط فہمی کا ازالہ

قرآن مجید کی جمع و تدوین کے مطلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ عہد نبوت میں کلام مجید کی آیتوں اور سورتوں میں باہم کوئی ترتیب نہیں تھی اور نہ سورتوں کے نام وضع ہوئے تھے اس لیے عہد صدیق میں جو کام انجام پایا وہ ان آیتوں اور سورتوں کو باہم مرتب کرنا تھا۔ لیکن یہ ایک افسوس ناک غلطی ہے۔ درحقیقت جس طرح قرآن مجید کی ہر آیت الہامی ہے اسی طرح آیات اور سورتوں کی باہمی ترتیب اور سورتوں کے نام بھی الہامی ہیں اور خود مہبط وحی و الہام ﷺ کی زندگی میں یہ تمام کام انجام پا چکے تھے۔[166]

فتوحات عراق و شام

اہل حیرہ کی اطاعت

محرم بارہ ہجری (مطابق 633ء) میں ابو بکر صدیق نے خالد بن ولید کو یمامہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد عراق میں ایلہ کی جانب داخل ہونے کو لکھا (ایلہ منتہائے بحر فارس پر جانب شمالی بصرہ کے قریب واقع ہے) نیز یہ بھی لکھا کہ اہل فارس اور ان لوگوں کی تالیف قلوب کرنا جو ان کے ملک میں دیگر مذاہب و ملت کے آباد ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خالد یمامہ کی مہم سے فارغ ہو کر مدینہ ابو بکر صدیق کے پاس آئے اور یہاں سے ان کے حکم پر عراق کی طرف روانہ ہو کر بانقیاد بوسوما پہنچے۔ ان کے حکمرانان جابان وصلوبانے حاضر ہو کر دس ہزار دینار پر مصالحت کر لی۔ خالد اس رقم کو وصول کر کے حیرہ پہنچے۔ اپنے یسر ایاس میں قبیصہ طائی کے ہمراہ حیرہ کے شرفاء اسلام کی آمد کی خبر سن کر خالد بن ولید کے پاس آئے۔ خالد نے ان سے کہا ہم کلمتہ اللہ کی غرض سے آئے ہیں تم لوگ اسلام قبول کر لو یا مطیع اسلام ہو کر جزیہ دو تو ہم تمھاری جان و مال کے ذمہ دار و محافظ ہوں گے یا برسر میدان جنگ میں آؤ۔ شرفاء حیرہ نے اسلام کی اطاعت قبول کر کے نوے ہزار درہم جزیہ (خراج) پر صلح کر لی۔ بعض کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر نے خالد بن ولید کو اسفل عراق میں ایلہ کی جانب داخل ہونے کا حکم دیا تھا اور عیاض بن غنم کو لکھا تھا کہ وہ اعلیٰ عراق سے داخل ہو کر مضیخ سے لڑائی شروع کر کے عراق میں خالد سے جا ملیں اگرچہ اس سے بیشتر مثنی بن حارث شیبانی ابو بکر صدیق سے اجازت لے کر عراق چلے گئے تھے اور خالد بن ولید کے پہنچنے سے پہلے لڑائی چھیڑ دی تھی۔ پس جس وقت خالد عراق پہنچے اس وقت ابو بکر کے حکم سے مثنی بن حارث و حرملہ و مدعور (بامعزور) و سلمان ایلہ میں خالد بن ولید کے لشکر سے آ کر مل گئے۔

جنگ سلاسل

خالد کے ہمراہ دس ہزار فوج تھی اور مثنی بن حارث کے ساتھ آٹھ ہزار تھے۔ خالد بن ولید نے اپنے لشکر کل کو تین حصوں میں منقسم کر کے اگلے حصے پر مثنی کو اور درمیانی پر عدی بن حاتم کو اور پچھلے پر خود متعین رہے اور تینوں حصوں کو مختلف راستوں سے اس طرح روانہ کیا کہ ہر حصہ دوسرے حصے سے ایک دن کی مسافت پر تھا۔ پہلے دونوں حصوں کو حصنیر میں دشمنان دین سے مقابلہ کرنے کی غرض سے جمع کیا۔ شاہ فارس کی جانب سے اس صوبہ کا گورنر ہرمز نامی ایک نہایت دلیر نبردآزما تھا جو خشکی میں عرب سے اور بحر ہند میں ہند سے لڑتا تھا۔ ہرمز خالد کی آمد سن کر اردشیر کسری کے پاس ایک اطلاعی عرضداشت بھیج کر خود نہایت عجلت سے تیاری کر کے ایک منتظم فوج لیے ہوئے حصنیر آ پہنچا۔ اس کے مقدمہ الجیش پر قباد و انوش جان (اولاد اردشیر اکبر) تھے انھوں نے بھاگنے کے خیال سے اپنی فوج کو چاروں طرف سے زنجیروں سے گھیر دیا۔ فریقین نے حصنیر کے سامنے ایک میدان میں اپنی اپنی فوجیں کی صفوں کو منظم کیا۔ اتفاق سے ان کے مقابلے کے لیے اسلامی لشکر جہاں پر خیمے نصب کر رہا تھا وہاں پانی نہ تھا تو خالد کے ہمرائیوں نے کہا یہ کیا کر رہے ہو تم؟ لشکر بغیر پانی کے مر جائے گا۔ خالد نے جواب دیا

صبر کرو اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے۔

یہ سن کر لوگ خاموشی کے ساتھ خیمے نصب اور اسباب اتارنے لگے تھوڑی دیر بعد بحکم خدا ایک ابر آیا جس سے ان کے ارد گرد کے چشمے بھر گئے۔

صفوان کے منتظم ہونے کے بعد خالد اسلامی لشکر کی صفوں سے نکل کر میدان جنگ میں گئے اور للکار کر اپنے مقابلہ پر لڑنے والے کو طلب کیا۔ ہرمز آواز سن کر میدان میں نکل آیا۔ دونوں لڑنے والے گھوڑوں سے اتر کر پیادہ ہو گئے۔ پہلے خالد نے ہرمز پر حملہ کیا، ہرمز نے پیچھے ہٹ کر خالد پر حملہ کیا، خالد نے اس کی تلوار چھین کر اس کی کمر کو پکڑ کر زمین پر پٹک دیا۔ جانثاران فوج کا دستہ یہ دیکھ کر خالد کی طرف بڑھا لیکن خالد کا دلیرانہ حملہ ان کو ہرمز کے قتل سے نہ روک سکا۔ یہ دستہ خالد تک پہنچنے ہی نہیں پایا تھا کہ قعقاع بن عمرو نے اس دستہ پر حملہ کر کے ایک ایک کو چن چن کر مار ڈالا۔ اس کے بعد بقیہ لشکر فارس میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔ تھوڑی دیر تک مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے جس کو پایا قتل کر دیا اور اس جنگ کا نام ذات سلاسل (زنجیروں والی) ہے۔ خالد نے ہرمز کے قتل کے بعد اس کے ہتھیار اور اسباب اتار لیے اور اس کی صرف ایک ٹوپی ہی ایک لاکھ کی تھی۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد خالد نے مال غنیمت سے خمس اور نوید فتح دے کر قاصد کو ابو بکر کے پاس بھیجا۔

حصن المراة کی فتح

قاصد کو ابو بکر صدیق کے پاس روانہ کر کے خالد خود حصنیر سے روانہ ہو کر موضع جسراعظم (بصرہ) میں جا اترے۔ مثنی بن حارث کو دشمنان خدا کے پیچھے روانہ کیا۔ چنانچہ مثنی نے حصن المراة کا محاصرہ کر کے اس کو فتح کر لیا۔ حاکم قلعہ کی بیوی مسلمان ہو گئی اور مثنی نے اس کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ انھیں ایام میں خالد بن ولید نے معقل بن مقرن کو ایلہ کی طرف روانہ کیا تھا لیکن اس کو عتبہ بن غزوان نے عمر بن خطاب کے زمانہ خلافت چودہ ہجری میں فتح کیا۔

جنگ مذار

کسرائے اردشیر نے ہرمز کی اطلاعی عرضداشت (جس میں اس نے خالد کی آمد کا لکھا تھا) پڑھ کر ہرمز کی مدد پر قارن بن قریانس کو فوج کے ساتھ روانہ کیا تھا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی ہرمز مارا جا چکا تھا اور اس کے ہمراہی بھاگے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ مقام مذار میں قارن اور منہرہ میں ہرمز کے لشکریوں سے ملاقات ہوئی۔ قارن نے ان لوگوں کو دم دلاسہ دے کر دوبارہ لڑائی پر آمادہ کیا اور اپنے ہمراہ لے کر لشکر اسلام سے مقابلہ کرنے کی غرض سے نہر پر آ کر ٹھہرا۔ خالد بن ولید یہ سن کر لشکر اسلام کو منظم کر کے قارن کے مقابلے پر آئے۔ فریقین نے مردانگی سے لڑائی شروع کی اثناء جنگ میں معقل بن الاعشی بن النباش نے قارن کو اور عاصم نے انوش جان کو عدی نے قباد کو ایک ہی حملہ میں مار ڈالا۔ جس کی وجہ سے پھر لشکر فارس کو شکست ہوئی۔ اس معرکہ میں ان لوگوں کے علاوہ جو دارو گیر، وقت نہر میں ڈوب گئے تین ہزار فارس کے لشکری مارے گئے جو باقی رہے ان سے جزیہ لے کر اپنی حفاظت میں لے لیا۔ مسلمانوں کو اہل فارس سے بے حد مال و اسباب ملا اور ان کے مقتولین کے لڑکوں اور عورتوں کو قید کر کے لونڈی غلام بنا لیا۔ قارن کی لڑائی کے بعد مسلمانوں نے فارس سے کوئی بڑی لڑائی نہیں لڑی۔ اس جنگ کا نام ثتی یعنی نہر ہے۔

جنگ دلجہ

اس شکست کے بعد ارد شیر نے سواد کے بہت بڑے شہسوار اندرعز کو روانہ کیا اور اس کے پیچھے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ بہمن جاذویہ کو بھی بھیجا۔ اندرعز نے اپنے ہمراہ فوج کے علاوہ اردشیر کے حکم کے بموجب حیرہ و کسکو کے درمیان میں سے عرب ضاحبہ اور دہقانوں کے ایک گروہ کثیر کو اپنے لشکر میں شامل کر کے دلجہ میں صف آرائی کی۔ خالد بن ولید نہر کو عبور کر کے اس کے مقابلے پر گئے۔ لڑائی سے پہلے خالد نے اپنی فوج کے ایک حصہ کو کمین گاہ میں چھپا دیا تھا اور بقیہ لشکر کو دو حصوں میں منقسم کر کے مقابل ہوئے تھے۔ اسلامی لشکر خالد کے اشارے سے لڑتا ہوا آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔ جس وقت لشکر فارس کمین گاہ سے آگے بڑھے اہل کمین گاہ نے کمین گاہ سے نکل کر لشکر فارس پر پیچھے سے اور سامنے سے والے لڑنے والے اسلامی لشکر نے سامنے سے اور خالد بن ولید نے ایک کوس کا چکر کاٹ کر دائیں بازو سے حملہ کر دیا۔ لشکر فارس اس اچانک حملہ سے گھبرا گیا اور ایک گروہ کثیر ان کا مارا گیا، اندرعز لڑتے لڑتے پیاس کی شدت سے مر گیا اور باقی لشکریوں کو خالد نے امان دے کر اپنی حفاظت میں لے لیا۔

جنگِ الیس

چونکہ اس لڑائی میں دو مسیحی بنی وائل کا جار بن بحیر، دوسرا عجل کا ابن عبد الاسود مسلمانوں نے گرفتار کر لیے تھے اس وجہ سے بنی وائل کے نصرانی برہم ہو کر مسلمانوں کے خلاف مقام الیس میں جمع ہوئے۔ عبد الاسود عجلی کو اپنا سردار بنایا۔ اردشیر نے شکست کے بعد بہمن جاذویہ کو عرب کے نصرانیوں کے ساتھ مقام الیس میں پہنچ کر مدد دینے اور ان کے ہمراہ ہو کر لڑنے کو لکھا اور لکھا کہ جب تک جابان مرزبان نہ پہنچ لے اس وقت تک لڑائی نہ چھیڑی جائے۔ بہمن جاذویہ عجل و بنی وائل کے نصرانیوں کے پاس اردشیر کا پیغام پہنچا کر واپس اردشیر کے پاس مشورے کی غرض سے آیا۔ لیکن اردشیر کی علالت نے اس کو عجلت کے ساتھ الیس کی طرف لوٹنے نہ دیا۔ اس اثناء میں جابان، نصرانیان عرب بنی وائل و تمیم اللات و ضبیعہ و عرب انصاحیہ کے پاس الیس میں آ گیا۔ جب ان لوگوں کے اجتماع کی خبر خالد بن ولید کو پہنچی تو وہ بھی ان کی طرف لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ انھوں نے الیس میں پہنچ کر بلا کیسی انتظار کے اعلان جنگ کر دیا اور خود میدان جنگ میں بڑھ کر لڑنے والوں کو طلب کیا۔ فریق مخالف فوج سے مالک بن قیس مقابلے پر آیا جس خالد نے دم لینے کی بھی مہلت نہ دی۔ مالک بن قیس کے مارے جانے کے بعد لڑائی کا بازار بے حد گرم ہو گیا۔ عرب کے نصرانی لڑتے جاتے تھے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بہمن جاذویہ کو دیکھ رہے تھے جس سے معلوم ہوتا وہ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ان کی مایوسانہ کوششوں نے جواب دے دیا اور ادھر بہمن جاذویہ کے آنے سے قطعاً ناامید ہو گئے تو ایک دوسرے پر منہ کے بل گرتے پڑتے میدان جنگ سے بھاگے۔ مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرنا شروع کر دیا اور ایک کثیر گروہ قید کر لیا گیا جن کو خالد بن ولید نے قتل کیا اس قدر کثیر تعداد میں آدمی مارے گئے کہ خون کی ندی جاری ہو گئی۔ اس جنگ میں مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی جاتی ہے لیکن مال غنیمت کا کوئی صحیح اندازہ نہیں ہو سکا۔

امعیشیا کی فتح

خالد عجمیوں کے کھانے پر جا کھڑے ہو گئے اور دن بھر کی لڑائی سفر میں تھکے ہارے اور بھوکے پیاسے مسلمانوں نے لڑائی ختم ہونے کے بعد کھانا شروع کر دیا۔ یہ واقعہ ماہ صفر میں واقع ہوا ہے اس کے بعد خالد اپنا لشکر لیے ہوئے امعیشیا جا پہنچے اور تیزی سے حملہ کر دیا کہ اہل امعیشیا اپنا مال و اسباب تک دوسرے مقام تک نہ پہنچا سکے۔ اسلامی لشکر نے اس واقعہ میں اس قدر مال غنیمت فراہم کیا کہ اتنا کسی جگہ نہیں ملا ہو گا۔

اہل حیرہ کی اطاعت

متذکرہ بالا مہم سے فارغ ہو کر خالد بن ولید اسلامی لشکر کو کشتیوں میں سوار کر کے حیرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ابن زیان و مرزیان حیرہ نے مع زاویہ کے حیرہ سے نکل کر غریین میں پہنچ کر لشکر کو منظم کیا اور اپنے ایک لڑکے کو ایک کثر التعداد لشکر دے کر خالد بن ولید کے مقابلے کے لیے روانہ کیا تا کہ اسلامی لشکر کشتیوں سے خشکی پر نہ اترنے پائے۔ خالد نے اس سے فرات کو باد قلا پر حملہ کر دیا اور مرزبان کے بیٹے کو اس کے کل ہمرائیوں کے ساتھ قتل کر کے حیرہ کی طرف بڑھے۔ ابن زیان و مرزیان حیرہ اپنے لڑکے کا قتل اور اردشیر کی موت کا واقعہ سن کر بغیر جنگ حیرہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ خالد بن ولید غریین پہنچ کر قیام فرمایا۔ مسلمانوں نے قصور حیرہ کا محاصرہ کر لیا اور اثناء محاصرہ دیور کو بزور تیغ فتح کیا۔ جب طول حصار سے محصورین بے آب و دانا مرنے لگے اور قیسیس و رہبانوں نے اہل قصور کو چلا چلا کر سخت و ست کہنا شروع کر دیا۔ تب ایاس بن قبیصہ قصرابیض سے اور عمرو بن عبد المسیح ابن قیس ابن حیان ابن الحرث قصور حیرہ سے نکل کر خالد بن ولید کے پاس گفتگو کرنے آئے۔ خالد نے حیرہ کی کثرت آبادی سے تعجب ہو کر اس کا حال دریافت کیا۔ عمرو بن عبد المسیح نے کہا کہ میں نے دمشق و حیرہ کے درمیان میں ایک دوسرے سے اس قدر متصل قصبات دیکھے ہیں کہ ایک عورت ان دونوں شہروں کے درمیان میں بغیر اس کے کہ اس کے پاس زاد سفر سوائے چند کھجوروں کے اور کچھ نہ ہو، سفر کر سکتی ہے۔ خالد یہ سن کر ہنس پڑے اور اس کے خادم کے ہاتھ سے تھیلی لے کر کھول کر زہر کو اپنے ہاتھ پر پھیلا لیا اور اس سے دریافت کیا کہ تم اس کو ہمراہ کیوں لائے ہو؟ عمرو بن عبد المسیح نے جواب دیا کہ اس کو اپنے ہمراہ اس خیال سے لایا ہوں کہ اگر میں تم کو اپنے خیال کے خلاف پاؤں تو اس صورت مجھے زیادہ عزیز ہو گی۔ اس سے کہ میں اپنی قوم میں کوئی چیز بدل کر جاؤں۔ خالد یہ کہہ کر کہا کہ

جب تک موت نہیں آتی اس وقت تک کوئی شخص نہیں مر سکتا۔ (بسم اللہ لا یضر مع اسمہ شئی)

پڑھ کر اس کو کھا گئے، تھوڑے عرصہ کے عالم بے ہوشی میں پڑے رہے اور اس کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اچھی طرح باتیں کرنے لگے۔ ابن عبد المسیح نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا

واللہ تم لوگ جو چاہو گے وہ حاصل کر لو گے جب تم میں ایسا ایک شخص موجود رہے گا۔

اس کے بعد ان لوگوں نے خالد سے ایک لاکھ نوے ہزار یا دو لاکھ نوے ہزار اور کرامت بنت عبد المسیح کو دے کر صلح کر لی۔

صلح کے بعد کرامت شویل کو دے دی گئی کیونکہ اس سے پیشتر ایک وقت میں جبکہ آن ﷺ بطور پیشن گوئی کے حیرہ پر اپنی امت کی استیلا کا ذکر فرما رہے تھے۔ اس وقت شویل نے کرامت بن عبد المسیح کو آن ﷺ سے مانگ لیا تھا اور آپ نے کرامت کے دینے کا شویل سے وعدہ کر لیا تھا۔ پس جب حیرہ فتح ہوا تو شویل نے خالد کو آن ﷺ کا وعدہ یاد دلا کر کرامت کو لے لیا اور کرامت نے ایک ہزار درہم اپنی قیمت دے کر اپنے آپ کو آزاد کر لیا یہ واقعہ ماہ ربیع الاول بارہ ہجری کا ہے۔

نواحی قبائل کی اطاعت

حیرہ کے گرد و نواح کے دیہات و قصبات اور چھوٹے چھوٹے شہر والے جو حیرہ کے آخری انجام کو دیکھ رہے تھے۔ فتح حیرہ کے بعد خالد کے پاس آئے اور اطراف حیرہ سے مابین فلاکیج تک پر دو مرتبہ ہزار ہزار درہم دے کر خالد سے صلح کر لی۔ اس کے بعد خالد نے ضرار بن الازور و ضرار بن الخطاب و قعقاع بن عمرو و مثنی بن حارث و عینیہ بن الشماس (م) امرا لشکر کو سواد حیرہ کی طرف بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ دینا منظور کر لیں تو ان سے کچھ نہ کہنا ورنہ قتل و غارت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ پس ان لوگوں نے حسب الحکم خالد حیرہ سے شطِ دجلہ تک فتح کر لیا۔

خالد کا شاہ فارس کو پیغام

اسی اثناء میں خالد نے شہنشاہ فارس کو خط لکھا:

حمد و نعت کے بعد تمام ستائش اللہ کے واسطے ہے جس نے تمہارے نظام کو کھول دیا اور تمہارے مکر کو سست کر دیا اور تمہارے گروہ کو متفرق کر دیا اور اگر ہم ایسا نہ کرتے (حملہ نہ کرتے) تو تمہارے لیے برائی ہوتی۔ پس تم لوگ ہمارے حکم کے مطیع ہو جاؤ ہم تم کو اور تمہارے ملک کو چھوڑ دیں گے اور دوسروں کی طرف چلے جائے گے (تم سے متعرض نہ ہوں گے) ورنہ یہ ہو گا کہ تم لوگ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں گے جو موت کو دوست رکھتے ہیں جیسا کہ حیات کو تم دوست رکھتے ہو۔

اور شہنشاہ فارس کے مرزبانوں کے پاس ایک گشتی مراسلہ اس مضمون کا بھیجا:

اللہ کا شکر ہے جس نے تمہاری تیزی توڑ دی، تمہاری جمعیت منتشر کر دی۔ تمہاری عورتیں بھگا دیں اور تمہاری شوکت خاک میں ملا دی لہذا اسلام لے آؤ۔ سلامتی سے رہو گے ورنہ میرے ذمہ میں آ جاؤ اور جزیہ ادا کرو اگر یہ بھی نہ مانو تو میں تمہارے مقابلے کے لیے ایسے جانباز لایا ہوں جنہیں موت اس طرح محبوب ہے جیسے تمہیں شراب محبوب ہے۔

ایرانیوں میں اختلاف

اگرچہ ان دنوں اہل عجم میں اردشیر کی موت کی وجہ سے اختلاف ہو رہا تھا۔ باوجود طائف الملوکی کے خالد کے مقابلے کے لیے سب متفق تھے۔ انھوں نے بہمن جاذویہ کو ایک لشکر پر سردار مقرر کر کے مسلمانوں کو لڑنے کو بھیج دیا تھا۔ خالد بن ولید ایک برس تک شام پر حملہ کرنے سے پہلے حیرہ میں مقیم رہے۔ کبھی حیرہ کے بلائی حصہ کو اور گاہے حیرہ تحتانی حصہ کو اپنے قبضہ میں لانے کی فکر کرتے رہتے اور اہل فارس کے گروہ کے گروہ اس کو بچانے پر کمر بستہ رہے۔ جس پر خالد قبضہ کر لیا کرتے تھے۔ مگر ایسا کوئی شخص ان کی نظر میں نہ آتا جس کی حکومت کو سب اہل فارس تسلیم کر لیتے اور اس کے ساتھ جمع ہو کر خالد کی دست برد سے اپنے ملک کو بچا لیتے کیونکہ سیرین نے ان تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا تھا جو بہرام جور کی نسل سے تھے۔ پس جب مذکورہ بالا خالد کا خط پہنچا تو کسری کے خاندان کی عورتوں نے فرخ زاد بن بندوان کو اس امر کے لیے مقرر کیا کہ وہ ایسے شخص کو بادشاہ بنائے جس کے مطیع اہل کسری ہو سکتے ہوں۔

جریر بن عبد اللہ کی روانگی

حیرہ کی فتح کے بعد جریر بن عبداللہ البجلی خالد کے پاس آ گئے اس پیشتر وہ خالد بن سعید بن العاص کے ساتھ شام میں تھے۔ وہاں سے خالد بن سعید کی اجازت سے ابو بکر کے پاس اس غرض سے چلے آئے تھے کہ وہ اپنی قوم کے تفرقہ کو دور کر کے سب کو ایک کر دیں جیسا کہ آن ﷺ نے خالد بن سعید سے اس کا وعدہ فرمایا تھا۔ ابو بکر صدیق یہ سن کر خالد بن سعید سے سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم مجھ سے فضول باتیں کرنے آئے ہو تم دیکھتے ہو کہ اس وقت فارس و روم کے مہم میں ہم مصروف ہیں۔ تم سیدھے خالد کے پاس جاؤ وہ اس وقت پہنچے جب کہ وہ حیرہ فتح کر چکے تھے اور اس سے پہلے عراق میں کا رہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں یہ شریک نہیں ہو سکے اور نہ انھوں نے اہل ردت کے قتل و جنگ میں خالد کے ساتھ شرکت کی۔

انبار کی فتح

حیرہ پر قبضہ کر لینے کے بعد خالد لشکر کو منظم کر کے انبار کے قصد سے روانہ ہوئے اور مقدمتہ الجیش پر اقرع بن حابس کو مقرر کیا۔ شیرزاد والی ساباط لشکر انبار کا اعلیٰ افسر تھا۔ اس نے لشکر اسلام کے مقابلے پر اپنے لشکر کو آراستہ اور فصیلوں اور خندقوں درست کر کے مسلمانوں کی نقل و حرکت دریافت کرنے کی غرض سے جاسوسوں کو مقرر کیا۔ خالد نے انبار پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا اور شہر پناہ کی فصیلوں کے مقابلے پر مٹی کے دمدمے باندھ کر تیر باری شروع کر دی۔ جس سے یک لخت ایک ہزار آدمیوں کی آنکھیں پھوٹ گئیں۔ اس کے بعد کمزور و ناتواں اونٹوں کو ذبح کر کے خندق کو بھر دیا اور اس طرح اسلامی لشکر خندقوں کو عبور کر کے انبار کی فصیل تک پہنچ گیا۔ اس مقام پر مسلمانوں اور کفار کے درمیان میں ایک سخت خون ریز لڑائی ہوئی۔ اہل انبار نے ہر چند اسلامی لشکر کو پسپا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھتے گئے۔ ناچار ہو کر شہرزاد نے خالد کے پاس صلح کا پیغام بھیجا۔ خالد نے شہرزاد سے اس شرط پر صلح کی کہ شہرزاد بلا اسباب و ہتھیار جنگ صرف تین روز کا کھانا اور اپنے مخصوص لوگوں کا کھانا لے کر شہر چھوڑ دے۔ شہرزاد بموجب صلح انبار چھوڑ پر بہمن جاذویہ کے پاس چلا گیا اور خالد بن ولید مظفر و منصور انبارمیں داخل ہوئے۔

معرکہ عین التمر

خالد نے انبار پر زبرقان بن بدر کو انبار کا حاکم مقرر کیا اور خود عین التمر پر حملہ کیا۔ عین التمر میں مہران بن بہرام چوبیس عجمیوں کا ایک گروہ عظیم اور عقبہ بن ابی عقبہ عرب کے کثیر التعداد آدمیوں کو لیے ہوئے موجود تھا۔ اس کے علاوہ گرد و نواح میں ایک بہت بڑا گروہ نمر و تقلب و آباد وغیرہ قبائل عرب کے مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے ہوئے تھے۔ عقبہ نے ابن بہرام سے کہا کہ ہم کو اور خالد کو لڑنے دو کیونکہ ہم دونوں عرب ہیں اور عرب کی لڑائی عرب خوب سمجھتا ہے۔ ابن بہرام نے کہا کہ تم یہ بات بہت صحیح کہتے ہو بے شک لوہے کو لوہے سے نرم کرنا چاہیے۔ ابن بہرام نے یہ جواب دے کر عقبہ کو خالد کے مقابلہ پر بھیجا۔ خالد نے تن تنہا عقبہ پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا۔ عقبہ کا لشکر بغیر جنگ کیے ہوئے لڑائی کے میدان سے بھاگ نکلا۔ مسلمانوں نے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو قید کر لیا۔ ابن بہرام پر اس واقعہ سے ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ میدان جنگ کا کیا ذکر ہے قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا اور عقبہ کے شکست خوردہ ہمرائیوں نے قلعہ میں پہنچ کر دروازہ بند کر لیا۔ خالد بن ولید نے چاروں طرف سے قلعہ کا محاصرہ کر کے لشکر کو قیام کا حکم دے دیا۔ محصورین نے چار روز کے بعد فتح نصیب سپہ سالار خالد بن ولید سے امن کی درخواست کی۔ خالد نے مصلحتاً امن دینے سے انکار کیا اور بزور تیغ قلعہ سے باہر نکال کر عقبہ کو مع اس کے لشکریوں کے قتل کر ڈالا۔ جو کچھ مال و اسباب قلعہ میں تھا اس پر قبضہ کر لیا اور چالیس نو عمر لڑکوں کو جو اس قلعہ کے کلیسہ میں انجیل سیکھتے اور سکھاتے تھے گرفتار کر کے باہم تقسیم کر لیا جن میں سیرین ابو محمد، نصیر ابو موسی، حمران مولی عثمان وغیرہ شامل تھے۔ اس واقعہ میں مسلمانوں میں سے عمیر بن رماب سہمی مہاجرین حبشہ میں سے اور بشیر بن سعد انصاری و ابو نعمان شہید ہوئے۔ اس خداداد کامیابی کے بعد خمس و نوید دے کر ایک قاصد ابو بکر صدیق کی بارگاہ میں روانہ کیا۔

اکیدر بن عبد الملک و جودی بن ربیعہ کا خاتمہ

فتح عین التمر کے بعد خالد بن ولید کے پاس عیاض بن غنم کا خط آیا جو نصرانیوں اور مشرکین عرب، بھراد کلب و غسان و تنوح و ضحاعم سے دومتہ الجندل میں لڑ رہے تھے۔ عیاض نے عرب مشرکوں اور نصرانیوں سے تنگ آ کر خالد سے اعانت کی درخواست کی تھی۔ خالد بن ولید کا لشکر اگرچہ شب و روز کی لڑائی کرتے کرتے تھک گیا تھا لیکن اس کی رگوں میں اسلامی خون کا جوش ویسا ہی موجود تھا جیسا کہ لڑائی سے پہلے تھا۔ خالد نے خط پاتے ہی لشکر کو تیاری کا حکم دیا اور خود مسلح ہو کر نکل کھڑے ہوئے۔ دومتہ الجندل میں دو رائیس تھے ایک اکیدر بن عبد الملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ یہ دونوں مسلمانوں کے مقابلے پر تلے ہوئے تھے۔ اکیدر نے خالد کی آمد کی خبر کا سن کر ہمرائیوں سے صلح کرنے کو کہا جب انھوں نے انکار کیا تو اکیدر ان کا ساتھ چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ خالد نے یہ واقعہ سن کر چند آدمیوں کو اکیدر کو گرفتار کرنے کے لیے بھیج دیا جنھوں نے اس کے ہمراہ جو کچھ تھا اکیدر کو قتل کر کے قبضہ کر لیا باقی رہا جودی اس نے اپنے لشکر کے ایک حصہ کو عیاض کے مقابلے پر جو دومتہ الجندل کے مشرقی جانب تھے لڑنے کو بھیجا اور خود دوسرے حصہ کو لے کر خالد کے مقابلے پر آیا۔ خالد نے لشکر کی صف سے نکل کو جودی کو للکارا۔ جودی جس وقت میدان میں آیا خالد نے دوڑ کر گرفتار کر لیا اور مسلمانوں نے دفعتاً حملہ کر کے اس کے ساتھیوں کو اور عیاض نے اپنے مقابل فریق کو پسپا کر دیا۔ شکست خوردہ گروہ نے دونوں طرف سے شکست کھا کر قلعہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا۔ خالد نے اہل قلعہ سے دروازہ کھول دینے کے لیے کہا لیکن وہ لوگ مقابلے سے نہ ہٹے۔ چنانچہ خالد نے ان کے روبرو جودی کو مار ڈالا اور اس کے بعد قلعہ پر دھاوا کر کے اس کو بازور تیغ فتح کر لیا۔ قلعہ میں جتنے جوان اور لڑنے والے تھے (ابن اثیر نے لکھا ہے کہ ان قیدیوں میں قبیلہ کلب کے بہت سے آدمی تھے جن کو بنی تمیم نے خالد سے یہ کہہ کر کے ہم نے ان کو امن دیا ہے قتل سے بچا لیا اور یہ لوگ ان کے حلفاء تھے ) سب کو قتل کر دیا لیکن لڑکوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنا لیا۔

معرکہ حصید

اہل فارس نے خالد بن ولید کے دومتہ الجندل چلے جانے کے بعد حیرہ کو ایک بار پھر واپس لینے کی کوشش کی۔ انھوں نے حیرہ کو خالد سے خالی پا کر اس پر بزور قبضہ کر لینا ایک آسان امر سمجھ کر اپنے لشکر کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ حیرہ کے عربوں نے بھی عقبہ ابی عقبہ کے قتل سے برہم ہو کر مسلمانوں کے خلاف ان کو ابھارا۔ چنانچہ دو نامی سپہ سالار زرمہر و روزبہ انبار کی طرف خروج کر کے حصید و خنافس تک پہنچ گئے۔ قعقاع بن عمرو نے (جس کو خالد بن ولید نے بطور نائب کے حیرہ میں مقرر کیا تھا ) یہ خبر سن کر دو فوجیں حیرہ سے اہل فارس کے مقابلہ پر روانہ کیں۔ جو ان دونوں کے درمیان میں ردیف میں حائل ہو گئیں۔ اسی اثناء میں خالد براستہ حیرہ مدائن واپس آ رہے تھے۔ قعقاع بن عمرو و ابو لیلی حصید میں خالد کے آنے سے پہلے اہل فارس سے بھڑ گئے اور عظیم خونریز لڑائی کے بعد دونوں سپہ سالاروں کو فتح نصیب ہوئی۔ اس معرکہ میں عجمیوں کے لشکر کا دو حصہ نذر تیغ ہو گئے باقی ایک حصہ لشکر خنافس کی طرف بھاگا جہاں پر ان لوگوں کا ایک مشہور و نامور شہسوار بہوذان ایک گروہ کثیر لیے ہوئے ٹھہرا ہوا تھا۔ ابو لیلی نے ان کا تعاقب کیا لیکن بہوذان اس شکست خوردہ گروہ کے ساتھ خنافس سے نکل کر مضیخ کی طرف بھاگا۔ مضیخ میں ہذیل بن عمران و ربیعہ بن بحیر عرب جزیرہ کا ایک بڑا گروہ لیے ہوئے اہل حصید کی امداد کی غرض سے مقیم تھا۔

مضیخ کی فتح

یہ واقعات سن کر خالد نے ابو لیلی و قعقاع بن عمرو کو ایک معین یوم و وقت پر مضیخ کے قریب جمع ہونے کو لکھا۔ پس جس وقت یہ لوگ وقت و یوم مقرر مضیخ کے قریب آ گئے تو اس وقت خالد بن ولید نے ہذیل اور اس کے لوگوں پر جو ان کے ہمراہ تھے تین اطراف سے حملہ کر کے ان میں سے بے شمار و بے حد آدمیوں کو تہ تیغ کر ڈالا۔ ہذیل چند آدمیوں کو لے کر بھاگ گیا۔ مضیخ میں ہذیل کے ساتھ عبد العزیز بن ابی رہم (اوس مناة سے) اور لبیدہ بن جریر بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے اور ابو بکر صدیق نے ان کے اسلام کی بابت لکھ دیا تھا لیکن اس معرکہ جنگ میں ہذیل کے ہمراہیوں کے ساتھ قتل ہو گئے تھے۔ پس ابو بکر صدیق نے نے ان کا خون بہا ادا کیا اور ان کی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی۔ عمرفاروق خالد سے متذکرہ دونوں اصحاب اور مالک بن نویرہ کے قتل سے کبیدہ خاطر تھے اور سیدنا ابو بکر سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اہل شرک کے ساتھ رہے گا اس کا یہی نتیجہ ہو گا۔

ثنی کی مہم

اس واقعہ کے بعد ہذیل تو عتاب بن اسید کے پاس بشر جا پہنچا۔ لیکن خالد، قعقاع اور ابو لیلی کو دو مختلف راستوں سے ربیعہ بن بحیر تغلبی پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کر کے خود ایک جداگانہ راستہ سے روانہ ہوئے اور ایک یوم و وقت مقرر پر جمع ہونے کی ہدایت کر دی۔ ربیعہ بن بحیر ثنی میں (جو رصافہ کے مشرقی جانب ہے) اہل فارس کی کمک کے لیے آ کر ٹھہرا ہوا تھا اور اس کے ہمراہ عربوں کا ایک بہت بڑا گروہ تھا۔ خالد نے ہمراہیوں کو ربیعہ پر تین اطراف سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس واقعہ میں دشمنان خدا اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے۔ سوائے عورتوں اور لڑکوں کے سب کے سب مارے گئے۔ ایک متنفس ان میں سے نہ بچا۔ عورتوں اور لڑکوں کو مسلمانوں نے قید کر لیا۔

عتاب بن اسید کا انجام

خالد بن ولید ثنی کی مہم سے فارغ ہو کر نہایت عجلت و تیزی سے قبل اس کے کہ ربیعہ کا واقعہ ان کو معلوم ہو بشر عتاب بن اسید کے سر پر جا پہنچے جہاں ہذیل نے جا کر پناہ لی تھی۔ چاروں طرف سے ان کو گھیر کے ایک ایک کو قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد خالد رصافہ کی طرف بڑھے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہلال بن عقبہ اور اس کے ہمراہی منتشر و متفرق ہو کر بھاگ گئے تھے۔ لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔

جنگ فراض

خالد بن ولید رصافہ سے رضاب و فراض کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ دونوں مقامات شام و عراق و جزیرہ کی سرحد پر وقعہ ہیں۔ یہاں پر فارس و عرب جزیرہ کی امداد کو رومی لشکر اور قبائل تغلب و نمردایاد کی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ خالد نے فراض پہنچ کر مسلسل جنگ میں مصروف رہنے کی وجہ سے رمضان کے روزے قضا کر دیے۔ رومی لشکر نے فرات کے قریب پہنچ کر خالد کے پاس کہلا بھیجا کہ

یا تو تم فرات عبور کر آؤ یا ہم کو عبور کرنے کی اجازت دے دو۔

خالد نے جواب دیا کہ

تم فرات کو عبور کر کے آؤ۔

اس پر رومی لشکر نے پیغام بھیجا کہ

تم ذرا ہمارے راستہ سے ہٹ جاؤ۔

خالد نے ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا۔ رومی لشکر چار و ناچار فرات کو اسفل کی طرف سے عبور کر کے مسلمانوں کے مقابلے پر آیا اور لڑائی شروع کر دی۔ لڑائی کا آغاز خطرناک تھا۔ رومی اور ان کے ہمراہی ایک فیصلہ کن لڑائی لڑ رہے تھے۔ اسلامی لشکر شب و روز لڑتے لڑتے تھک گیا تھا لیکن اللہ اکبر کی صدا پر ان کی رگوں میں خون اس طرح جوش کے ساتھ دورہ کرنے لگتا تھا جیسے لڑائی سے پہلے گردش کرتا تھا اور وہ طیش میں آ کر ایسے وار کرتے تھے کہ بڑے بڑے دلاور نبر و آزما ان کے سامنے جانے کی ہمت نہ کرتے تھے۔ پیہم لڑائی کے بعد میدان جنگ سے لشکر روم بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بھاگتے ہی اور لوگ بھی بھاگ نکلے۔ اس معرکہ اور تعاقب کے دوران میں فریق ثانی کے ایک لاکھ آدمی مارے گئے۔

خالد کی بغرض حج روانگی

آخری ماہ ذیقعدہ تک خالد بن ولید فراض میں مقیم رہے لیکن اس ماہ کے ختم ہونے سے پانچ راتیں قبل خالد نے اسلامی لشکر کو حیرہ کی جانب واپس ہونے کا حکم دیا اور ساقہ کے ساتھ شجرة بن الاغر کو روانہ کر کے خود فراض سے چند آدمیوں کو لے کر حج ادا کرنے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ خالد بن ولید اس عجلت سے حج کر کے واپس ہوئے کہ اسلامی لشکر کے ساتھ حیرہ میں داخل ہو گئے۔ سوائے چند لوگوں کو جن کو پہلے سے معلوم تھا اور کسی کو بھی ان کے آنے جانے کا حال معلوم نہیں ہوا۔ جب ابو بکر صدیق کو یہ حال معلوم ہوا تو انھوں نے خالد سے ناراض ہو کر عراق سے شام کی طرف بھیج دیا۔ حج سے واپسی کے بعد خالد نے سوق بغداد و قطربل و عفرقوما و مکسن و بادردبا پر شب خون مار کر ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ اسی سال ابو بکر صدیق بھی حج ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے اور مدینہ میں عثمان بن عفان کو مقرر کر گئے تھے۔

خالد بن سعید کی شام کو روانگی

اوئل تیرہ ہجری (634ء) میں حج سے واپس ہو کر سیدنا ابو بکر نے خالد بن سعید بن العاص کو ایک لشکر اسلامی کا سردار مقرر کر کے شام کی طرف روانہ کیا تھا لیکن بعض کہتے ہیں کہ موصوف کو خالد کی عراق کی طرف روانگی کے وقت ساتھ ہی شام کی طرف روانہ کیا تھا لیکن خالد بن سعید کی شام کی طرف روانگی سے قبل ابو بکر صدیق نے اپنا حکم واپس لے لیا تھا۔ آن ﷺ کی وفات کے بعد خالد بن سعید چند روز تک ابو بکر صدیق کی بیعت سے پس و پیش کر رہے تھے اور علی و عثمان بن عفان رؤسائے عبد مناف کے پاس گئے تھے۔ اگرچہ علی نے ان کو پس و پیش کرنے سے منع فرمایا تھا اس کے بعد خالد بن سعید نے صدیق اکبر کی بیعت کر لی تھی اور جب ان کے بیعت لینے کی اطلاع شیخین (ابو بکر صدیق و عمر فاروق) کو ہوئی تو پھر ابو بکر صدیق نے خالد بن سعید کو دوبارہ امیر لشکر مقرر کر کے روانہ کیا اور حکم دیا کہ قاصد تا حکم ثانی تیما میں مقیم رہیں۔ مسلمانان عرب کو جہاد پر آمادہ و تیار کریں اور کسی سے سوائے اس کے نہ لڑیں جو ان سے لڑیں۔ چنانچہ خالد بن سعید کی تحریک سے عرب کا ایک گروہ کثیر جمع ہو گیا۔

جیش البدل

قیصر روم نے یہ خبریں سن کر شام میں عرب الضاحیہ بھر و سلیح و کلب و غسان و لنجم و جذام کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر لڑائی پر تیار کر دیا۔ خالد بن سعید نے ابو بکر صدیق کو اس سے مطلع کیا اور وہ حسب حکم ان کے عرب الضاحیہ کی طرف بڑھے۔ جس وقت خالد بن سعید ان کے لشکر گاہ کے قریب پہنچے وہ لوگ گھبرا کر متفرق ہو گئے۔ خالد ان کے مورچوں پر قبضہ کر کے بحکم صدیق اکبر آگے بڑھے۔ بطریق روم ماہان ثانی ایک لشکر کو لے کر ان کے مقابلے پر آیا۔ خالد نے نہایت سخت لڑائی کے بعد بطریق ماہان کو شکست دے کر اس کے لشکر کے بڑے حصے کو قتل کر ڈالا۔ ایک خط میں اس معرکہ کا تفصیلی حال لکھ کر ابو بکر صدیق کے پاس روانہ کیا اور امداد کی درخواست کی۔ اتفاق سے یہ خط اور ذواکلاع مع حمیر کے یمن سے اور عکرمہ بن ابی جہل مع ان لوگوں جو ان کے ساتھ تہامہ و عمان و بحرین سے آئے تھے ایک ساتھ مدینہ پہنچے۔ ابو بکر صدیق نے ان لوگوں کو خالد بن سعید کے پاس بھیج دیا۔ نیز اس وقت شام کی مہم کا اہتمام کرنے لگے۔ کل امرا صدقات کو تبدیل کر کے خالد بن سعید مدد کے لیے بھیج دیا اسی اعتبار سے اس لشکر کا نام جیش البدل رکھا گیا۔

عمرو بن العاص کی روانگی

چنانچہ عمرو بن العاص کو شام کی مہم پیش آ جانے سے صدقات سعد ہذیم و بنی عذرہ سے تبدیل کر کے جہاد روم میں خالد بن سعید کے ساتھ شریک ہونے کو لکھا اور فلسطین کی طرف حملہ کرنے کا حکم دیا جن کو آن ﷺ نے عمان کی طرف روانہ کیا تھا اور ان سے آپ نے یہ وعدہ فرمایا کہ عمان سے واپسی پر پھر وہ اپنے مضافات و اعمال کی طرف بھیج دیے جائے گے لیکن جب یہ آن ﷺ کے وصال کے بعد عمان سے واپس ہوئے تو ابو بکر صدیق نے بھی آن ﷺ کے ایفاء عہد کے خیال سے صدقات سعد ہذیم و بنی عذرہ کی طرف ان کو بھیجا اور ولید بن عقبہ کو جو صدقات قضاعہ کے متولی تھے اردن کی جانب بڑھنے کے لیے لکھا اور ایک حصہ لشکر پر یزید بن ابی سفیان کو امیر مقرر کیا جس میں سہیل بن عمرو وغیرہ بھی شامل تھے اور ایک جماعت پر ابو عبیدہ بن جراح کو افسر مقرر کر کے حمص پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا اور ان میں سے ہر ایک کو ضروری نصیحتیں کر دیں۔ جو ہدایتیں ابو بکر صدیق نے امرا اسلام کو روانگی کے وقت کی تھیں ان کا ترجمہ و خلاصہ یہ ہے:

میں نے تم کو مسلمانوں کا افسر مقرر کیا ہے اس غرض سے کہ تمہارا میں امتحان لوں اور تم کو آزماؤں کہ تم مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے اگر اچھا برتاؤ کرو گے تو تم سے اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو گا اور دنیا میں تمہارے مضافات بڑھا دوں گا اور آخرت میں تم کو اس کا اجر ملے گا اور اگر تم نے کوئی برائی کی تو میں تم کو معزول کر دوں گا۔ ہر حال میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا کیونکہ وہ تمہارے باطن کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح تم ظاہر کو۔ اللہ تعالی کے نزدیک محبوب اور بہتر وہی شخص ہے جو باعتبار اعمال صالح کے اس سے قریب ہو۔ زمانہ جاہلیت کے عادات و اطوار ترک کر دینا۔ کیونکہ اللہ تعالی اس سے اور اس کے کرنے والوں کو برا جانتا ہے۔ لشکر کے ساتھ سفر کرنے میں ہمیشہ ان کی صحبت کا خیال رکھنا اور جب انہیں کچھ سمجھانا ہو تو مختصر کلام میں سمجھانا کیونکہ زیادہ بولنا نقصان پہنچاتا ہے۔ نمازوں کو مقرر اوقات پر پڑھنا، رکوع اور سجود بہ اطمینان کرنا اور جب تمہارے دشمنوں کے قاصد آئیں تو ان کی عزت کرنا۔ اپنے پورے لشکر کی حفاظت کرنا، رات کو پہرہ مقرر کرنا ایسا نہ ہو کہ غفلت میں دشمن تم پر حملہ آور ہو جائیں۔ اپنا ظاہر و باطن یکساں رکھنا۔ جو کام کرو مشورہ سے کرو اور جب نگہبانی میں کسی سے غفلت دیکھو تو اس کو سزا دینا لیکن زیادتی کے ساتھ نہیں مستحق کی عقویت سے ڈرنا لشکریوں کے افعال و حرکات کی نگرانی کرتے رہنا۔ لڑکوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ ہتھیار رکھ دے یا اسلام قبول کر لے تو اس کو بھی نہ مارنا۔ سچائی اور ایفاء وعدہ کے ہمیشہ پابند رہنا یہ احسن وصایا ہیں ان پر عمل کرنا۔ جاؤ اللہ کے نام پر اور اللہ کی راہ میں لڑو۔

بطریق ہامان سے جھڑپ

جب خالد بن سعید کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی امداد کے لیے مدینہ سے اسلامی عساکر روانہ کیے گئے ہیں تو انھوں نے رومیوں سے جنگ کرنے میں عجلت سے کام لیا اور امرا اسلامی لشکر سے پہلے رومیوں سے متصادم ہو گئے۔ بطریق ہامان ایک لشکر کثیر التعداد فوج لے کر ان کے مقابلہ پر آیا اور ایک لڑائی لڑ کر دمشق کی طرف چلا گیا۔ (ابن اثیر کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ابو عبیدہ بن الجراح بلقاء کے دروازے پر رومیوں سے لڑے تھے جس میں اہل بلقاء نے زیر ہو کر صلح کر لی تھی۔ یہ پہلی صلح تھی جو شام میں ہوئی۔ پھر رومی عربہ سرزمین فلسطین میں جمع ہوئے جن کے سر کرنے کو یزید بن ابی سفیان نے ابو امامہ باہلی کو روانہ کیا۔ عربہ میں رومیوں کی یزید بن ابی سفیان کے لشکر سے لڑائی ہوئی۔ رومیوں نے بھاگ کر واشن میں جا کر دم لیا۔ ابو امامہ نے ان کو وہاں سے بھی لڑ کر بھاگا دیا۔ ان لڑائیوں کے بعد مرج صفر کا واقعہ پیش آیا جس میں سعید ابن خالد شہید ہوئے۔) خالد بن سعید شام کو لوٹتے ہوئے مرج الصفر جا پہنچے۔ خالد کے ساتھ اس واقعہ میں ذواکلاع اور عکرمہ و ولید بن عقبہ بھی تھے۔ جس وقت یہ لوگ دمشق کے قریب مرج الصفر میں داخل ہو گئے تب ہامان نے چاروں اطراف سے راستہ بند کر کے حملہ کر دیا۔ اتفاقیہ سعید بن خالد سامنے پڑ گئے اور انھیں سے اس کا مقابلہ ہو گیا اس نے انھیں شہید کر ڈالا۔ ان کے باپ خالد نے یہ خبر سن کر مع اپنے چند ہمراہیوں کے شام سے بھاگ کر ذی المروہ (قریب مدینہ) میں آکر دم لیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد عکرمہ اسلامی لشکر لیے ہوئے شام کے قریب رومیوں کے مقابلے پر صف آراء رہے۔ اس اثناء شرجیل بن حسنہ عراق سے ابو بکر صدیق کے پاس خالد بن ولید کے سفیر بن کر حاضر ہوئے تھے۔ چند آدمیوں کو جمع کر کے شرجیل کے ہمراہ اردن کی طرف روانہ کر دیا اور شرجیل کی جگہ ولید بن عقبہ کو روانہ کیا۔

شرجیل و معاویہ کی روانگی

شرجیل بن حسنہ خالد بن سعید سے اثناء راہ میں ملتے ہوئے ان کے ہمراہیوں میں سے کچھ لوگوں کو لیتے ہوئے اردن کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے بعد ابو بکر صدیق نے ایک چھوٹا سا لشکر منظم کر کے معاویہ بن ابی سفیان کی سرکردگی میں یزید بن ابی سفیان کی امداد کو روانہ فرمایا۔ معاویہ ذی المروہ سے بقیہ لوگوں کو لے کر یزید بن ابی سفیان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب خالد بن سعید ذی المروہ میں تنہا رہ گئے تو ان کو مدینہ میں آنے کی اجازت دی گئی۔

مجاہدین کا یرموک میں اجتماع

پس جب امرا لشکر اپنا اپنا لشکر لیے ہوئے شام پہنچ گئے اور ہرقل کو ان کی امداد کی اطلاع ہوئی تو اس نے پہلے اپنے سرداران لشکر کو جمع کر کے عربوں سے لڑنے کے لیے منع کیا اور یہ رائے ظاہر کی کہ عرب جو چاہتے ہوں ان کو دے کر صلح کر لی جائے لیکن اس کے اراکین لشکر نے اس سے انکار کیا اور عربوں سے لڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ہرقل نے مجبور ہو کر اپنے امرا لشکر کو اسلامی لشکر کے مقابلے پر اس طرح تقسیم کیا کہ شقیقہ تدارق (اپنے حقیقی بھائی) کو نوے ہزار فوج کے ساتھ عمرو بن العاص کے مقابلہ پر بلقاء کی طرف، دراقص کو بمقابلہ شرجیل بن حسنہ پچاس ہزار لشکر کے ساتھ اردن کی طرف اور قیقلان بن نسطوراس کو ساٹھ ہزار فوج دے کر ابو عبیدہ بن الجراح کے مقابلہ پر جابیہ کی طرف روانہ کیا۔ امرا اسلام میں یہ کثرت فوج اور تیاری کو سن کر صلاح و مشورہ ہونے لگے۔ سب نے باتفاق رائے یہ قرار پایا کہ چونکہ اس قدر کثیر التعداد لشکر سے علاحدہ علاحدہ مقابلہ کرنا مسلمانوں کو معرض زوال میں ڈالنا ہے لہذا کل اسلامی لشکر کو یکجا ہو کر لڑنا چاہیے۔ اس اثناء میں ابو بکر صدیق کا اسی مضمون کا خط آ پہنچا۔ پھر کیا تھا سب کے سب یرموک میں جمع ہو گئے۔

خالد بن ولید کی یرموک کی طرف روانگی اور مشکلات

مسلمانوں کی تعداد اس وقت اکیس ہزار تھی ہرقل نے بھی اپنے متفرق لشکر کو یرموک میں جمع ہونے کا حکم دیا اور ملحان کے روانہ کرنے کا وعدہ کیا۔ رومیوں کے لشکر کا افسراعلیٰ شقیقہ تدراق تھا اور اس کے مقدمتہ الجیش پر جرجہ، میمنہ پر ماہان، میسرہ پر دراقص اور ساقہ میں قیقلان بن نسطوراس تھا۔ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان میں وادی و خندق حائل تھی جس سے نہ رومی لشکر مسلمانوں پر حملہ کر سکتا تھا اور نہ مسلمان آگے بڑھ سکتے تھے۔ مسلمانوں نے طویل قیام سے گھبرا کر ابو بکر صدیق کو لکھا اور ان سے امداد طلب کی۔ ابو بکر صدیق نے خالد بن ولید کو لشکر شام پر امیر مقرر کر کے عراق سے روانہ کیا اور ان کے پیچھے مثنی بن حارث کو امارت پر متعین فرمایا۔ خالد بن ولید نے حسب حکم ابو بکر صدیق عراق میں مثنی بن حارث کی سرکردگی میں نصف لشکر عراق میں چھوڑ کربقیہ نصف اپنے ساتھ شام لے کر روانہ ہو گئے۔ جس وقت حددواء میں پہنچے اہل حددواء نے راستہ نہ دیا، لڑائی پر آمادہ ہوئے۔ خالد نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست دیتے ہوئے مضیخ میں جا اترے۔ مضیخ میں بنی تغلب کا ایک گروہ اسلامی لشکر کو روکنے کے لیے جمع ہو رہا تھا خالد کا ان سے مقابلہ ہوا۔ صبح سے دوپہر تک لڑائی ہوتی رہی۔ ظہر کے قریب بنی تغلب میدان سے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کو قتل و قید کیا اور ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ ان قدیوں میں صہبا بنت حبیب بن بحیر مادر عمر بن علی بن ابی طالب تھیں۔ اس کے بعد خالد نے دوسرے روز یہاں سے سفر کر کے قراقر (ماء کلب) میں پہنچ کر قیام فرمایا اور وہاں پر رہنے والوں پر شب خون مارا۔ خالد نہایت تیزی سے سوی (اب بہراء) کی طرف روانگی کے لیے تیاری کرنے لگے اور رافع بن عمیروطائی کو راہبری کے لیے بلایا اور اس سے راستہ کا حال دریافت کیا۔ رافع نے کہا کہ تم اس راستہ کو اتنے بڑے لشکر و اسباب کے ساتھ طے نہیں کر سکو گے جب کہ بخدا ایک تنہا سوار کو بھی یہ راستہ طے کرتے ہوئے موت کا خوف ہوتا ہے آج سے پانچ دن تک تم کو اس راستہ میں کسی مقام پر پانی نہیں ملے گا۔ خالد نے یہ سن کر جواب دیا کہ مجھ کو یہ راستہ طے کرنا ضروری ہے مجھے اس سے زیادہ اور کیا کام ہوگا کہ میں رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد کرنے جا رہا ہوں۔ تیرا مقصود اس کہنے سے ہے یہ ہے کہ میں ان کی مدد کو نہ جاؤں۔ میں نے اپنی جان اللہ کے راہ میں وقف کر دی ہے۔ رافع یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور خالد نے اپنے امرا اسلام کو طلب کیا اور حکم دیا کہ تم لوگ اپنی جماعت سے کہہ دوں کہ ہر شخص اپنے لیے پانچ دن کا پانی لے لے اور اونٹوں کو مکرر پانی پلا دے۔ لشکریوں نے اس حکم کو سنتے ہی اونٹوں کے کجادوں سے چھاگلوں اور مشکیزوں کو کھول کر پانی بھر لیا اور اونٹوں کو کچھ وقفہ دے کر مکرر پانی پلا دیا اور ان کے پاؤں پر کپڑے لپیٹ دیے تاکہ روزانہ کے سفر سے پھٹنے سے محفوظ رہیں۔ الغرض جب لشکریوں نے اپنا انتظام کر لیا اس وقت خالد بن ولید اپنے ہمراہ لے کر آگے بڑھے اور اسلامی لشکر ان کے پیچھے روانہ ہوا چار شبانہ روز کی مسافت طے کر کے پانچویں روز علمین کے قریب پہنچے۔ رافع نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ غور سے دیکھو اس گرد و نواح میں عوسج کا درخت دکھائی دیتا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا ہم کو عوسج دکھائی نہیں دیتا۔ رافع یہ سن کر (انا للہ و انا علیہ راجعون) پڑھ کر کہا کہ افسوس تم بھی ہلاک ہوئے اور مجھ کو بھی ہلاک کیا میں پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ راستہ دشوار گزار ہے۔ تھوڑی دور چل کر پھر اس نے لوگوں کو عوسج ڈھونڈنے کے لیے کہا اور لوگوں نے دور سے عوسج کو دیکھ کر تکبیر کہی۔ رافع نے کہا اس کی جڑ کے پاس کھودو۔ لوگوں نے اس کے کہنے پر گز بھر کا گڑھا کھود کر چشمہ کا منہ کھول دیا۔ لشکریوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اونٹوں کو پانی پیلا کر چھاگلوں اور مشکیزوں کو بھر لیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد سوی پہنچ گئے۔ یہی سوی بہراء کے رہنے کا مقام تھا۔ لوگ حالت غفلت میں بیٹھے ہوئے شراب پی رہے تھے اور اس کا مغنی (گویا) گا رہا تھا مسلمانوں نے ان پر چھاپہ مارا ان کو اور ان کے سردار حرقوص بن نعمان بہرانی کو مار کر ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے روانہ ہو کر اہل ارک و تدمر سے صلح کرتے ہوئے قریتین پہنچے۔ قریتین والوں نے اسلامی لشکر سے مزاہمت کی۔ باہم لڑائی ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ان کو شکست دی اور ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اسلامی لشکر حوارین میں پہنچا یہاں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ پھر یہاں سے عصر کے وقت روانہ ہو کر دوسرے روز ظہر کے قریب قصم میں پہنچا۔ یہاں قبیلہ قضاعہ کے بنی مشجعہ رہتے تھے ان لوگوں نے خالد سے صلح کر کے اپنی جان اور عزت بچا لی۔ اس کے بعد خالد رافع کے ساتھ اسلامی لشکر لیے ہوئے مرج ربط پہنچے اور اسی دن غسان پر حملہ کر کے ان کو قتل و قید کیا اور اسی مقام سے ایک سریہ کنیسہ غوطہ کی طرف بھیجا جو ان کے مردوں کو مار کر عورتوں اور لڑکوں کو گرفتار کر لائے۔ دوسرے روز مرج ربط سے چل کر بصرہ میں پہنچے اور اہل بصری سے لڑ کر کامیابی حاصل کی۔ یہ پہلا شام کا شہر تھا جو خالد و اہل عراق کے ہاتھوں فتح ہوا۔ خالد نے یہاں کے اور دوسرے مقامات سے جو مال غنیمت حاصل ہو چکا تھا اس کو مسلمانوں پر تقسیم کر کے حسب دستور خمس (پانچواں حصہ) ابو بکر صدیق کے پاس مدینہ کو روانہ کیا اور خود یہاں سے ماہ ربیع الثانی تیرہ ہجری کے آخری دن بروز ہفتہ چل کر غازیان اسلام شام کے پاس یرموک پہنچ گئے۔

معرکہ یرموک

اتفاق سے جس روز خالد بن ولید یرموک میں اسلامی لشکر میں پہنچے اسی روز ہامان بطرق بھی مع شماسہ اور قسیسوں اور رہبانوں کے رومی لشکر میں داخل ہوئے۔ خالد شام سے ہی اپنی فوج کی تنظیم میں مصروف ہو گئے۔ صبح ہوتے ہوتے لشکر کو منظم کر کے ہر ایک امیر کو اس کی جماعت پر ذمہ دار کر کے خالد نے اپنے مقابل پر اور امرء لشکر نے اپنے اپنے مقابل پر حملہ کیا۔ فریقین جی توڑ کر لڑنے لگے اور اپنی قسمت کے آخری فیصلہ کو دیکھنے کو بڑھ چڑھ کر وار کرتے جاتے تھے۔ اگر رومی لشکر اپنے مذہبی پیشواؤں کو تحریک و وعظ سے ایک قدم بڑھنے کا قصد کرتا تو اسلامی لشکر خالد کے نعرہ تکبیر سے رومیوں کو دس دس قدم پیچھے ہٹا دیتا۔ آخرالامر خالد نے ہامان کو شکست دے کر میدان جنگ سے بھاگا دیا۔ اس کے بعد دیگر رومی افسروں کے بھی یکے بعد دیگر پاؤں اکھڑنے شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میدان جنگ رومیوں سے خالی ہو گیا۔ دو لاکھ چالیس ہزار رومی لشکر میں اکثر مارے گئے اور کچھ لوگ واقوصہ دہوے میں ڈوب گئے اور ایک حصہ خندق میں گر کر مر گیا۔ ان کے نامی گرامی سپہ سالار اور مشاہیر سلطنت قتل کیے گئے۔ منجملہ ان کے تدارق برادر ہرقل بھی تھا۔ اس رومی لشکر کا نہایت چھوٹا حصہ شکست کھا کر مرتا کھپتا ہرقل تک پہنچا جو ان دنوں لڑائی کا نتیجہ سننے اور اپنے لشکر کو مدد پہنچانے کی غرض سے حمص میں مقیم تھا۔ اپنے لشکر کی یہ غیر متوقع شکست سن کر اور ان کی بدحواسی دیکھ کر حمص میں نہ ٹھہر سکا اسی وقت حمص سے نکل کر دوسرے شہر چلا گیا اور حمص و دمشق کی قلعہ بندی کا حکم دے دیا۔ اس وقعہ میں لشکر اسلام کی تعداد چھیالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ ان میں ستائیس ہزار تو ان امرا کے ساتھ تھے جن کو ابو بکر صدیق نے شام پر حملہ کرنے کے لیے مدینہ سے روانہ کیا تھا اور دس ہزار خالد بن ولید کے ساتھ عراق سے آئے تھے اور تین ہزار وہ لوگ تھے جو خالد بن سعید کے بھاگ جانے کے بعد باقی رہ گئے تھے اور چھ ہزار عکرمہ بن ابی جہل کے ہمراہ رہ گئے تھے۔ یہ لڑائی جمادی الاول میں ہوئی اس سے پیشتر ایسی تیاری نہ عربوں نے کی تھی اور نہ رومیوں نے۔ خالد بن سعید نے پہلے اپنے ایک لشکر کے ایک ہزار آدمیوں کی جماعت علاحدہ کر کے اس پر ایک امیر مقرر کیا تھا اور اس کا نام کردوس رکھا تھا کیونکہ رومیوں نے بھی اسی اپنے لشکر کو تقسیم کیا تھا۔ اس لڑائی میں ابو سفیان بن حرب بہت زیادہ نیک نام رہے۔ وہ بڑے مخمصوں میں پڑ گئے تھے۔

جرجہ کا قبول اسلام

ارباب سیر و تواریخ نے لکھا ہے کہ اثناء جنگ جنگ میں مدینہ سے ایک قاصد ابو بکر صدیق کے انتقال اور عمر فاروق کی امارت کی خبر لے کر آیا لیکن خالد نے اس کو مخفی رکھا۔ پھر امرا لشکر روم سے جرجہ نکل کر میدان میں آیا اور خالد کو بلا کر اسلام کی حقیقت دریافت کی۔ خالد نے اس کو خوب سمجھایا اور اچھی طرح سے اس کے ذہین نشین کروا دیا جس مذہب پر وہ ہے وہ باطل ہے اور اسلام ایک سچا، پاک اور صاف مذہب ہے اور نجات ابدی اس کے قبول کرنے سے ملتی ہے۔ اللہ تعالی نے جرجہ کی چشم بصیرت کھول دی اور وہ نہایت سچائی سے مسلمان ہو کر اسلام میں آ ملا۔ رومیوں کو اس واقعہ سے بے حد صدمہ ہوا۔

رومیوں کی شکست

دوسرے دن خالد بن ولید نے لشکر اسلام کی ایک جماعت لے کر حملہ کیا جس میں جرجہ بھی تھے۔ لڑائی کا آغاز نہایت خطرناک تھا رومیوں کی لاش پر لاش گرتی جاتی تھی اور وہ لڑائی سے منہ پھیرنے نظر نہ آتے تھے۔ دوپہر تک یہی کیفیت رہی مسلمانوں نے اشارہ سے ظہر ادا کی اور خالد بن ولید نے اللہ اکبر کہہ کر حملہ کر دیا۔ رومی اس دفعۃً حملہ سے گھبرا کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ اس لڑائی میں جرجہ، عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے لڑکے عمرو و سلمہ بن ہشام و عمر و ایان پسران سعید و ہشام بن ابی العاص و ہبار بن سفیان و طفیل بن عمرو وغیرہ (م) نامی گرامی امرا لشکر اسلام کے علاوہ تین ہزار مسلمان شہید ہو گئے۔ ابو سفیان کی ایک آنکھ تیر لگنے سے جاتی رہی۔[167]

ذاتی حالات زندگی

حُلیَہ مبارک

ابو بکر صدیق موزوں قد کے دبلے پتلے آدمی تھے۔ رنگ گندمی (بروایت دیگر گورا چٹا) تھا۔ رخساروں پر بہت کم گوشت تھا اور چہرے کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ پیشانی بلند اور کشادہ تھی جو عرق آلود رہتی تھی۔ آنکھیں اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھیں۔ انگلیوں کے جوڑوں پر گوشت نہیں تھا۔ پنڈلیوں اور رانوں پر بھی بہت کم گوشت تھا۔ کمر میں ذرا خم تھا (قدرے جھک کر چلتے تھے)۔ تہمد کمر پر نہیں رکتا تھا اور نیچے کھسک جاتا تھا۔ بالوں میں مہندی اور کسم (کثم) کا خضاب لگاتے تھے۔ خادم رسول ﷺ انس بن مالک نے ہجرت کے وقت ان کی کفیت بیان کی ہے:

انہوں (ابو بکر صدیق) نے ڈاڑھی کو مہندی اور نیل سے رنگ لیا تھا اور وہ نہایت سرخ ہو گئی تھی۔

بقول امام زہری بال گھنگرالے تھے۔ آواز پرسوز تھی اور بہت کم گو تھے۔ انداز گفتگو بہت سنجیدہ اور متعین تھا جس میں محویت کی شان ہوتی تھی۔ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بہت بوڑھے معلوم ہوتے تھے۔ سرور عالم ﷺ نے حجتہ الوداع سے واپس آکر جو آخری خطبہ دیا ابو بکر صدیق اس کو سن کر رونے لگے۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے انھیں روتا دیکھا تو اپنے دل میں کہا، یہ بوڑھے آدمی کیوں رو رہے ہیں۔

ایک دفعہ رافع طائی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:

آپ سن رسیدہ بزرگ ہیں ہمیں کوئی نصیحت فرمایئے۔

لباس و غذا

لباس نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا۔ غذا بھی بہت سادہ تھی۔ بہت مرفہ الحال تھے لیکن جو کچھ کماتے بے دریغ راہ حق میں خرچ کر ڈالتے تھے۔ اس لیے ہجرت کے بعد کبھی کبھار فاقہ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ خلافت کے بعد ابو بکر صدیق کی سادگی میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ بعض اوقات دوگیردا چادریں زیب تن ہوتی تھیں ایک باندھے ہوئے ایک اوڑھے ہوئے۔ وفات سے قبل ام المومنین عائشہ صدیقہ سے فرمایا:

جب سے خلافت کا بوجھ میرے کندھوں پر پڑا ہے میں نہایت معمولی غذا اور موٹے جھوٹے کپڑے پر قانع رہا ہوں، اس وقت میرے پاس ایک حبشی غلام، ایک اونٹ اور ایک پرانی چادر کے سوا بیت المال کی کوئی چیز نہیں۔ میرے بعد یہ چیزیں عمر بن خطاب کے حوالے کر دینا۔

انگوٹھی

ابو بکر صدیق ایک سادہ انگوٹھی پہنتے تھے اس پر یہ عبارت کندہ تھی نعم القادر اللہ مکتوبات، فرامین اور معاہدات پر مہر کرنے کے لیے یہ انگوٹھی استعمال نہیں فرماتے تھے۔

ذریعہ معاش

ابو بکر صدیق شروع سے ہی کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔ آپ ایک کامیاب اور خوش حال تاجر تھے۔ اس سلسلے میں اندرون ملک اور بیرون ملک (شام، یمن وغیرہ) سفر کرتے رہتے تھے۔ اپنی خوش معاملگی اور دیانت داری کی وجہ سے قریش کے تمام تاجروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ سنن ابن ماجہ میں خود آپ سے روایت ہے:

میں قریش میں سب سے بڑا اور مال دار تاجر تھا

قبول اسلام کے بعد بھی تجارت ہی ان کا ذریعہ معاش رہی۔ اپنے تجارتی اسفار کی بدولت وہ عرب میں خاصے مشہور ہو گئے تھے۔ وہ خوب کماتے تھے اور راہ حق میں بھی خوب خرچ کرتے تھے۔ ہجرت مدینہ ان کی مالی حالت قدرے کمزور ہو گئی تھی لیکن جلد ہی اللہ تعالی نے انھیں مرفہ الحال کر دیا۔ سرکار دو عالم ﷺ کے وصال سے ایک سال پہلے آپ تجارت کے غرض سے سرحد شام کے شہر بصری تشریف لے گئے تھے۔

جاگیر

رسول اکرم ﷺ نے ابو بکر صدیق کو خیبر اور بحرین میں ایک ایک جاگیر عطا فرمائی۔ انھوں نے بحرین کی جاگیر عائشہ کو دے دی تھی لیکن اپنی وفات کے وقت ان سے واپس لے لی تا کہ سب بہن بھائیوں کو شرعی حصہ مل سکے۔ تین ہجری میں یہود بنی نضیر مدینہ سے جلا وطن کیے گئے تو نبی کریم نے ان کے اموال سے ابو بکر صدیق کو بئر حجر عنایت فرمایا۔ آپ نے اس کی ملحقہ زمین میں کھجور کا باغ لگایا اور پھر یہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کو دے دیا۔ صدیق اکبر کو جاگیروں سے جو آمدنی حاصل ہوتی تھی اس کو بھی راہ خدا میں صرف کر دیتے تھے۔

وظیفہ خلافت

ابو بکر صدیق خلیفہ بننے کے بعد دوسرے دن کندھے پر کپڑوں کے تھان ڈال کر بیچنے کے لیے بازار کی طرف چلے۔ راستے میں عمرفاروق مل گئے۔ عمرفاروق: کدھر؟ ابو بکر: بازار کپڑے بیچنے جا رہا ہوں۔ عمر: آپ اب مسلمانوں کے معاملات دیکھیں گے یا تجارت کریں گے؟ ابو بکر: یہ کام نہ کروں گا تو خود کیا کھاؤں گا اور بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟ عمر: اب آپ پر مسلمانوں کی سرداری کا بوجھ آ پڑا ہے۔ خلافت اور تجارت کے کام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چلئے ابو عبیدہ (ناظم بیت المال) سے مل کر بات کرتے ہیں۔ چنانچہ عمر انھیں ابو عبیدہ بن الجراح کے پاس لے گئے اور کفیت بیان کی۔ انھوں نے اس مقدار میں وظیفہ مقرر کیا جو ایک اوسط درجہ مہاجر کی ضروریات زندگی کو کفایت کر سکے۔[168]

عہد خلافت کے چند متفرق واقعات

بدکار عورتوں کو سزا

آن ﷺ کے وصال کی خبر پھیلتے ہوئے کندہ اور حضرموت تک پہنچی تو وہاں کے فاسقوں اور منافقوں نے جشن منایا اور سانپ (کفار) اپنی بلوں سے نکل آئے اور کچھ عورتیں نمودار ہوئیں جو خوشی کا اظہار کر رہی تھیں، ان عورتوں نے اپنے ہاتھ مہندی سے رنگے اور دف بجاتی ہوئیں باہر نکل آئیں۔ یہ حالت دیکھ کر ایک غیرت مند مسلمان کھڑا ہوا اور اس نے اس منافقانہ سرکشی کے خلاف اقدام اٹھاتے ہوئے ابو بکر صدیق کو مدینہ منورہ ایک پیغام بھیجا جس میں اس نے یہ اشعار لکھے:

ابو بکر کے پاس پہنچ کر یہ پیغام پہنچاؤ کہ یہاں بدکار عورتوں نے تہمتیں لگائی ہیں ان عورتوں نے حضور ﷺ کی وفات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ مہندی سے رنگے ہیں خدا تعالی آپ کو توفیق دے، آپ ان کے ہاتھ تیز تلوار سے کاٹ دے۔ جیسے بجلی آسمان پر چمکتی ہے

یہ پیغام ابو بکر صدیق پر بجلی بن کر گرا۔ ابو بکر جیسا متوضع انسان آتش فشاں پہاڑ بن گیا اور اس فتنہ کی سرکوبی کے شمشیر بے نیام بن گیا، آپ نے فوراً اپنے گورنر کو یہ حکم بھیجا کہ وہ جا کر اللہ اور اس کے رسول کے لیے انتقام لیں۔ چنانچہ انھوں نے ان بدکار عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ہاتھ کاٹ دیے۔[169]

شاتم شیخین کا انجام

کچھ لوگ سفر پر نکلے تو ان میں ایک آدمی ابو بکر اور عمر کو برا بھلا کہنے لگا۔ لوگوں کو اس پر غصہ آیا اور اس کو تنبیہ کی کہ باز آؤ! کیا تم محمد کے دو وزیروں کو برا بھلا کہتے ہو؟ لییکن وہ شخص باز نہ آیا اور گالیاں دیتا رہا اور حضرات شیخین کی شان میں نامناسب الفاظ بولتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد اس شخص کو بیت الخلا میں جانے کی ضرورت پیش آئی، جب وہ بیت الخلا میں پہنچا تو شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کے جھنڈ نے اس پر حملہ کر دیا، وہ اس کو ڈسنے لگیں اور کاٹنے لگیں۔ وہ چیختا ہوا فریاد کرنے لگا۔ لوگ بھاگتے ہوئے گئے تا کہ اس کی کچھ مدد کریں لیکن جو بھی اس کے قریب ہوتا وہ بھڑیں اور شہد کی مکھیاں اس پر حملہ آور ہو جاتیں۔ چنانچہ لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا اور دور دور سے اس کو دیکھتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہد کی مکھیوں اور بھڑوں نے اس کا جسم چھلنی چھلنی کر دیا۔ اللہ تعالی اپنے دوستوں کا اس طرح دفاع کرتا ہے۔[170]

عبد اللہ بن ابی بکر کی شہادت

غزوہ طائف میں ابو بکر صدیق کے سب سے بڑے بیٹے عبد اللہ بن ابی بکر کو تیر لگا جس سے آپ کو زخم لگا تب وہ زخم بھر گیا لیکن پھر پھٹ پڑا تھا جس کی وجہ سے آپ کی شہادت اپنے والد ماجد کے عہد خلافت میں ہوئی۔ ابو بکر صدیق ام المومنین عائشہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے بیٹی! عبد اللہ کی شہادت میرے نزدیک بکری کے کان کی مانند ہے جو گھر سے نکال دی گئی ہو (آپ کا مقصد اس مصیبت کو کم جتانا تھا)۔ ام المومنین فرمانے لگیں، اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو صبر کرنے کی طاقت دی اور ہدایت پر آپ کی مدد فرمائی۔ اس کے بعد ابو بکر صدیق باہر گئے پھر گھر تشریف لائے اور فرمایا: اے بیٹی! شاید کہ تم نے عبد اللہ کو دفن کر دیا ہو، جبکہ وہ زندہ ہے؟ عائشہ نے پڑھا، انا للہ و انا علیہ راجعون۔ اے ابا جان! ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ ابو بکر صدیق نے غمژدہ ہو کر کہا کہ میں اللہ تعالی کی جو سمیع و علیم ہے پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود کی حرکتوں سے۔ پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اے بیٹی! کوئی شخص ایسا نہیں جس کے لیے اثر نہ ہو، ایک تو فرشتہ کا اثر اور دوسرا شیطان کا اثر (وسوسہ)۔ کچھ عرصہ کے بعد جب بنو ثقیف کا وفد ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہ تیر جو آپ نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا، ان کو دکھایا اور پوچھا تم میں سے کوئی اس تیر کو پہنچانتا ہے؟ بنو عجلان کے آدمی سعد بن عبید بولے: ہاں، اس تیر کو میں نے تراشا تھا اور اس پر پر لگایا اور اس کو تانت سے باندھ اور میں نے ہی اس کو چلایا۔ ابو بکر نے فرمایا: اسی تیر نے میرے بیٹے کو شہید کیا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیرے ہاتھ اس کو عزت دی اور شہید ہوا اور تم کفر کی حالت میں مرو گے، کیونکہ وہ بہت خود دار ہے۔[171]

والی کا اجتہاد

جب بیعت خلافت ہو گئی تو ابو بکر صدیق رنج و غم کی حالت میں اپنے گھر جا کر بیٹھ گئے۔ عمر فاروق ان کے پاس آئے تو ابو بکر ان کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے ہی مجھے اس بلا میں پھنسایا، پھر فرمایا کہ لوگوں میں فیصلہ کرنا بہت دشوار ہے۔ عمر فاروق نے تسلی دی اور کہا کہ کیا آپ کو محمد کا یہ ارشاد معلوم نہیں کہ والی اور حاکم اگر اجتہاد کرے اور صواب کو پہنچے تو اس کے لیے اس فیصلہ میں دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا واقع ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔

زبان کو ادب سکھانا

ایک دن عمر فاروق ابو بکر صدیق کے پاس تشریف لے گئے، جب گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ابو بکر صدیق ایک دیوار کے نیچے بیٹھے تھے اور اپنی زبان کا کنارہ پکڑے ہوئے تھے گویا اس زبان کو ادب سکھا رہے ہوں۔ عمر فاروق کو ابو بکر صدیق کے اس عمل پر بہت تعجب ہوا اور پوچھنے لگے: اے خلیفتہ الرسول ﷺ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اپنی زبان کو کیوں سزا دے رہے ہیں؟ ابو بکر صدیق نے استغفار کرتے ہوئے فرمایا: اسی زبان نے تو مجھے تباہی کی جگہوں پر پہنچایا ہے۔[172]

امت کی نجات کا ذریعہ

ابن سعد سے مروی ہے کہ عمر فاروق ابو بکر صدیق کے پاس تشریف لائے اور کہا : اے خلیفہ رسول! کیا آپ کو اس پر تعجب نہیں کہ میرا گذر عثمان غنی کے پاس سے ہوا اور میں نے انھیں اسلام کیا لیکن انھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ ابو بکر صدیق نے عمر کا ہاتھ پکڑا اور عثمان کے پاس لے گئے۔ ابو بکر نے عثمان سے دریافت کیا کہ تمھارے پاس تمھارے بھائی عمر آئے اور تم نے انھیں ان کے سلام کا جواب نہیں دیا، تمھیں ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے؟ عثمان نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول میں نے ایسا نہیں کیا۔ عمر نے کہا: قسم ہے اللہ عزوجل کی تم نے ایسا ہی کیا ہے اور تم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ عثمان نے کہا: مجھے آپ کے گزرنے کی ہرگز خبر نہ ہوئی اور نہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ آپ نے مجھے سلام کیا۔ ابو بکر صدیق نے فرمایا: اللہ عزوجل کی قسم! تمھارے متعلق میرا یہ خیال تھا کہ تم کسی سوچ میں گم تھے جس کی وجہ سے تم نے عمر کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ عثمان نے کہا: آپ نے درست فرمایا خلیفہ رسول، میں حضور نبی کریم کے وصال کی وجہ سے پریشان ہوں اور اس سوچ میں گم تھا کہ میں امت کی نجات کے بارے میں حضور سے کچھ نہ پوچھ سکا؟ اور یہی بات سوچ رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے عمر فاروق کے گزرنے اور ان کے سلام کرنے کے متعلق کچھ خبر نہ ہوئی۔ ابو بکر صدیق نے فرمایا: میں حضور سے اس بارے میں دریافت کر چکا ہوں کہ ان کی امت کی نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ حضور نے مجھ سے فرمایا تھا : جس نے مجھ سے وہ کلمہ قبول کر لیا جو کلمہ میں نے اپنے چچا کو پیش کیا تو انھوں نے اسے رد کر دیا پس وہی کلمہ میری امت کی نجات کا ذریعہ ہے۔ عثمان نے دریافت کیا کہ وہ کلمہ کون سا ہے؟ ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ

  • گواہی دینا اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضور نبی کریم اللہ عزوجل کے رسول اور بندے ہیں۔[173]

نواسہ رسول ﷺ سے محبت

حضور نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد کا واقعہ ہے کہ ابو بکر صدیق عصر کی نماز سے فارغ ہو کر چلے آ رہے تھے، آپ کی ایک جانب علی بن ابی طالب تھے۔ اس اثناء میں ان کا گذر حسن بن علی کے پاس سے ہوا جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ابو بکر صدیق نے جلدی سے انھیں اٹھایا اور اپنے کندھے پر سوار کر لیا اور بار بار یہ جملہ ارشاد فرمانے لگے:

میرا باپ فدا ہو، یہ حسن نبی ﷺ کے مشابہ ہے، علی کے مشابہ نہیں ہے

علی مسکرا رہے تھے۔[174]

تین چاند

ایک روز ام المومنین عائشہ صدیقہ ا محو خواب تھیں تو انھوں نے خواب میں دیکھا جیسے ان کے حجرہ میں تین چاند آ کر گرے ہیں۔ انھوں نے اپنے والد ماجد ابو بکر صدیق سے اس خواب کا تذکرہ کیا تو ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو تمھارے اس حجرہ میں تین چاند مدفون ہوں گے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کا وصال مبارک ہوا اور حجرہ عائشہ میں جسم اطہر کا مدفن ہوا تو ابو بکر صدیق نے فرمایا: اے عائشہ لو! تمھارے حجرہ میں ایک بہترین چاند مدفون ہو گیا۔[175]

کاش میں پرندہ ہوتا

موسم خوشگوار تھا ابو بکر صدیق آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک پرندہ پر پڑی جو ایک درخت پر بیٹھا تھا۔ میٹھی میٹھی آواز میں چہچہا رہا تھا۔ (یہ منظر دیکھ کر) آپ کہنے لگے، اے پرندہ! تو اچھا ہے، خدا کی قسم! کاش! میں تیری طرح (کا ایک پرندہ) ہوتا، درختوں پر بیٹھتا، پھل کھاتا اور اڑتا پھرتا، نہ کسی حساب کا ڈر ہوتا اور نہ عذاب کا۔ خدا کی قسم! کاش! میں سر راہ ایک درخت ہوتا۔ اونٹ میرے پاس سے گزرتے اور مجھے اپنے منہ کا نوالہ بناتے، مجھے چباتے، کھاتے اور نگل جاتے، پھر مجھے مینگنیوں کی صورت نکالتے، میں کوئی بشر نہ ہوتا۔[176]

مجھ سے بدلہ لے لو

ابو بکر صدیق نے اعلان کیا کہ زکوة کے اونٹ لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں۔ جب اونٹ لائے گئے تو فرمایا کہ کوئی شخص بغیر اجازت کے میرے پاس نہ آئے۔ ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ لگام لو، ممکن ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ایک اونٹ عطا کر دیں۔ وہ آدمی ابو بکر کے پاس گیا، اس نے دیکھا کہ ابو بکر اور عمر فاروق اونٹوں کے باڑے کے اندر گئے ہیں تو یہ بھی ان کے ساتھ اندر چلا گیا۔ ابو بکر نے مڑ کر دیکھا تو ایک آدمی اپنے پاس موجود پایا جس کے ہاتھ میں لگام بھی ہے، اس کو فرمایا تم ہمارے پاس کس لیے آئے ہو؟ آپ نے اس سے وہ لگام پکڑی اور اس لگام سے اس کو مارا۔ جب ابو بکر صدیق اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہو گئے تو اس شخص کو بلایا اور اس کو اس کی لگام واپس دے دی اور فرمایا کہ تم مجھ سے بدلہ لے لو، عمر فرمانے لگے، خدا کی قسم! نہ یہ شخص آپ سے بدلہ لے گا اور نہ اس عمل کو آپ سنت کا درجہ دیں گے۔ ابو بکر نے فرمایا: پھر مجھے بتاؤ کہ قیامت کے دن اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا؟ عمر نے فرمایا کہ اس کو راضی کر لو۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نے اس شخص کے لیے سواری کا ایک اونٹ، کجاوہ چادر سمیت دینے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ پانچ دینار بھی دیے اور اس کے ذریعہ اس کو راضی کر لیا۔ وہ آدمی راضی خوشی گھر واپس آیا اور وہ پھولے نہ سما رہا تھا۔[177]

اہل بدر کی شان

ابو بکر صدیق کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے لوگوں میں وہ مال برابر تقسیم کر دیا۔ عمر نے کہا کہ اے خلیفتہ الرسول ﷺ! آپ اہل بدر اور دوسرے لوگوں کے درمیان میں برابر کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ دنیا تو مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس میں زیادہ وسعت بہتر ہے۔ پھر ایک دن ابو بکر صدیق مختلف وفود روانہ فرما رہے تھے اور مختلف مہمات میں امرا کو مقرر کر رہے تھے کہ ایک آدمی یہ دیکھ کر کہ آپ نے کسی بدری صحابی کو نہیں بھیجا، آپ سے کہنے لگے کہ اے خلیفتہ الرسول آپ اہل بدر کو عامل کیوں نہیں مقرر کرتے؟ سیدنا ابو بکر نے فرمایا کہ مجھے ان کے مقام کا علم ہے، لیکن میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ ان کو دنیا میں آلود کروں۔[178]

خبر گیری

ابن عساکر نے ابو صالح سے روایت بیان کی ہے کہ عمر فاروق ایک نابینا عجوزہ کا جو مدینہ کے قریب و جوار میں رہتی تھی رات کو پانی بھر دیا کرتے تھے اور دوسرے تمام کام کر دیا کرتے تھے اور اس کی پوری پوری خبر گیری کرتے تھے، ایک روز جب آپ اس کے یہاں تشریف لے گئے تو اس کے روز مرہ کے تمام کام نپٹے ہوئے پائے اور اور پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا کہ آپ کے پہنچنے سے پہلے اس کے تمام کام کوئی شخص کر جاتا تھا، اس بات سے آپ کو بہت حیرت ہوئی۔ آپ اس کے ٹوہ میں لگ گئے ایک دن دیکھ لیا کہ وہ ابو بکر صدیق ہیں اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آپ خلیفتہ الرسول تھے، آپ کو دیکھ کر عمر فاروق نے کہا اپنی جان کی قسم یہ آپ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔

نواسہ رسول

ابو نعیم وغیرہ نے عبد الرحمن اصبہانی سے روایت کی ہے کہ ایک روز ابو بکر صدیق منبر پر تشریف رکھتے تھے اتنے میں امام حسن (جو ابھی صغیر سن تھے) آگئے اور کہنے لگے میرے بابا جان کے منبر سے اتر آئیے۔ ابو بکر صدیق نے فرمایا تم سچ کہتے ہو یہ تمھارے بابا جان ہی کا منبر ہے یہ کہہ کر آپ نے انھیں گود میں اٹھایا اور اشکبار ہو گئے۔ علی بھی وہاں موجود تھے انھوں نے کہا خدا کی قسم میں نے ان سے کچھ نہیں کہا تھا۔ آپ نے فرمایا نہیں آپ سچ کہتے ہیں۔ میں آپ کو الزام نہیں دیتا۔[179]

بچہ نانی کو دے دو

عمر فاروق نے ایک انصاریہ خاتون سے شادی کی ان سے ایک بچہ ہوا جس کا نام عاصم رکھا گیا۔ بعد میں عمر فاروق نے عورت کو طلاق دے دی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک دن عمر قبا تشریف لے گئے، وہاں ان کی نظر اپنے فرزند عاصم پر پڑی جو مسجد کے صحن میں کھیل رہے تھے۔ ان کی شفقت پدری نے جوش مارا اور انھوں نے بچے کو اٹھا کر سواری پر بیٹھا لیا۔ اتنے میں عاصم کی نانی آ گئیں اور وہ اپنے نواسے کو عمر سے چھیننا چاہتی لیکن عمر اپنے ساتھ لے جانے پر مصر تھے۔ آخر دونوں اس جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابو بکر صدیق نے دونوں کے بیانات سن کر فیصلہ دیا کہ عمر کو بچہ نانی کے حوالے کرنا ہو گا۔ اس پر عمر نے بچہ نانی کے حوالے کر دیا۔ (موطا امام مالک)[180]

سردار کا کٹا ہوا سر

عمرو بن العاص اور شرجیل بن حسنہ نے شامیوں کے کے خلاف معرکہ میں فتح پائی اور شامیوں کے سردار کا سر کاٹ کر بارگاہ خلافت میں روانہ کیا۔ ابو بکر صدیق کو عمرو اور شرجیل کا یہ کام پسند نہیں آیا اور آپ نے فرمایا:

یہ کوئی اچھا کام نہیں

سر لانے والے قاصد نے عرض کیا:

اے خلیفہ رسول اللہ یہ ظالم بھی تو ہمارے شہیدوں کے سر کاٹ لیتے ہیں۔

صدیق اکبر نے فرمایا:

عمرو بن العاص اور شرجیل دونوں نے اہل فارس و روم کی پیروی کی ہے۔ آئندہ کسی کا سر کاٹ کر ہمارے پاس روانہ نہ کیا جائے۔ اور ہم سب کو قرآن کریم اور احادیث نبوی کی پیروی کرنی چاہیے۔

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ابو بکر صدیق نے اپنا یہ فیصلہ ایک فرمان کی صورت میں تمام سرداران فوج کو بھیجا جس میں سختی سے تاکید کی کہ دشمنوں کے سر کاٹ کر مجھے ہر گز نہ بھیجو۔[181]

علالت اور وصال

سیف و حاکم نے ابن عمر سے بیان کیا ہے کہ ابو بکر کی موت کی اصل سبب محمد کا وصال فرمانا تھا اس صدمہ میں آپ کا جسم گھلنے لگا اور یہی آپ کی وفات کا باعث ہوا۔ ابن سعد و حاکم نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ (آپ کی موت کا ظاہر سبب یہ تھا کہ) آپ کے پاس کسنی نے تحفتہً خزیرہ (قیمہ جس میں دلیہ پڑا ہو) بھیجا تھا، آپ اور حارث بن کلدہ دونوں کھانے میں شریک تھے (کھانا کھا رہے تھے) حارث نے کہا کہ اے خلیفہ رسول اللہ ہاتھ روک لیجئے (اسے نہ کھایئے) کہ اس میں زہر ہے اور یہ وہ زہر ہے جس کا اثر ایک سال میں نمایاں ہوتا ہے، آپ دیکھ لیجئے گا کہ ایک سال کے اندر اندر میں اور آپ ایک ہی دن مر جائیں گے۔ یہ سن کر آپ نے ہاتھ کھینچ لیا لیکن زہر اپنا کام کر چکا تھا اور یہ دونوں اسی دن سے بیمار رہنے لگے اور ایک سال گزرنے کے بعد (اسی زہر کے اثر سے) ایک ہی دن میں انتقال کر گئے۔ حاکم کی یہ روایت شعبی سے ہے کہ انھوں نے کہا اس دنیائے دوں سے ہم بھلا کیا توقع رکھیں کہ رسول خدا کو بھی زہر دیا گیا اور ابو بکر صدیق کو بھی۔ واقدی اور حاکم نے بروایت عائشہ صدیقہ بیان کیا ہے کہ والد علالت کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ آپ نے سات جمادی الآخر بروز دو شنبہ کو غسل فرمایا اس روز سردی تھی پس آپ کو بخار ہو گیا اور پندرہ روز تک آپ علیل رہے اس عرصہ میں آپ نماز کے لیے بھی باہر تشریف نہ لا سکے آخر کار اسی بخار کے باعث 63 سال کی عمر میں شب شنبہ 22 جمادی الآخر 13 ہجری آپ نے انتقال فرمایا۔ ابن سعد اور ابن ابی الدنیا ابی السفر سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی علالت کے زمانے سے لوگ آپ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول اللہ اجازت ہو تو ہم آپ کے لیے طبیب کو لائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے طبیب نے دیکھا ہے، عرض کیا کہ طبیب نے کیا کہا آپ نے فرمایا کہتا ہے انی فعال لما یرید (میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں)۔

عمر فاروق کی نامزدگی

واقدی نے دوسری روایت سے بیان کیا ہے کہ جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو آپ نے عبد الرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا کہ تم عمر (فاروق) کو کیا سمجھتے ہو، انھوں نے کہا آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا پھر بھی تمھاری ان کے بارے میں کیا رائے ہے انھوں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں جتنا آپ ان کے بارے میں خیال فرماتے ہیں۔ پھر آپ نے عثمان کو بلا کر یہی بات دریافت فرمائی۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ آپ ان کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، ابو بکر صدیق نے فرمایا کچھ تو بتلاؤ عثمان نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے ہم لوگوں میں ان کا مثل موجود نہیں۔ پھر آپ نے اسید بن حضیر، سعید بن زید اور دوسرے انصار و مہاجرین سے بھی مشورہ کیا اور ان کی رائے معلوم کی۔ اسید نے کہا اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ آپ کے بعد عمر ہی وہ شخص ہے جو اللہ کی رضا کو اپنی رضا سمجھتے ہیں اور اللہ تعالی جس سے نا خوش ہو وہ اس سے خوش ہوں، ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی اچھا ہے اور کار خلافت کے لیے ان سے زیادہ قوی اور مستعد شخص کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد اور صحابہ کرام تشریف لائے ان میں سے ایک نے عرض کیا کہ عمر کی سخت مزاجی سے آگاہی کے با وجود اگر آپ نے ان کو خلیفہ نامزد کر دیا تو اللہ تعالی کو کیا جواب دیجیے گا، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تم نے تو مجھے بخدا خوف زدہ کر دیا لیکن بارگاہ الہی میں عرض کروں گا کہ اے اللہ الہ العالمین! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین شخص کو خلیفہ منتخب کیا ہے اور جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اس سے بالاتر ہیں اور یہ جو کچھ میں نے کہا تم دوسروں تک بھی پہنچا دینا۔ اس کے بعد آپ نے عثمان سے فرمایا، آپ کہیے: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وصیت نامہ ہے جو ابو بکر بن ابی قحافہ نے اپنے آخر عہد میں دنیا سے جاتے وقت اور عہد آخرت کے آغاز میں عالم بالا میں داخل ہوتے وقت لکھایا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب کہ ایک کافر بھی ایمان لے آتا ہے اور ایک کاذب بھی سچ بولتا ہے اور ایک فاجر و فاسق بھی نور یقین حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ لوگو! میں نے اپنے بعد تمھارے اوپر عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کیا ہے، ان کے احکام کو سننا اور ان کی تعمیل کرنا۔ میں حتی المقدور خدا اور اس کے رسول اور دین اسلام، اپنے نفس کی اور تمھاری خدمت کی ہے اور جہاں تک ممکن تھا تمھاری بھلائی اور بہتری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا! مجھے یقین ہے کہ وہ ( عمر) انصاف سے کام لیں گے اگر ایسا ہوا تو میرے ظن و خیال کے مطابق ہو گا اور اگر وہ بدل جائیں تو ہر شخص اپنے کیے کا جواب دہ ہو گا! البتہ میں نے تمھارے لیے نیکی اور بھلائی کا قصد کیا ہے۔ مجھے غیب کا علم نہیں ہے۔ ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ پھر آپ نے اس وصیت کو سر بمہر کرا کے عثمان کے حوالے کر دیا اور عثمان اس کو لے کر چلے اور لوگوں نے برضا و رغبت عمر سے بیعت کر لی، اس کے بعد آپ نے عمر کو خلوت میں بلا کر جو کچھ وصیتیں کرنا تھیں وہ کہیں اس کے بعد عمر جب چلے گئے تو ابو بکر صدیق نے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا الہی یہ جو کچھ میں نے کیا ہے اس سے میرا مقصود مسلمانوں کی فلاح و بہبود ہے، تو اس امر سے واقف ہے کہ میں نے فتنہ و فساد کے انسداد کے لیے یہ کام کیا ہے میں نے اس سلسلہ میں اپنی رائے کے اجتہاد سے کام لیا ہے، میں نے ان میں جو سب سے بہتر تھا اس کو ان کا والی بنایا ہے۔ اور ان میں جو سب سے زیادہ قوی اور نیکی پر حریص ہے الہی میں تیرے حکم سے تیرے حضور ہو رہا ہوں! الہی تو ہی اپنے بندوں کا مالک و مختار ہے اور ان کی باگ دوڑ تیرے ہی ہاتھ میں، ان (حاکموں میں) صلاحیت و درستی پیدا کرنا اور عمر کو خلفاء راشدین میں شامل کرنا۔ عوام اور رعیت کو صالح زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔ ابن عساکر نے بروایت یسار بن حمزہ بیان کیا ہے کہ ابو بکر صدیق نے اشتداد علالت میں دریچہ سے سر باہر نکال کر لوگوں سے اس طرح خطاب فرمایا اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر (خلیفہ) مقرر کیا ہے کیا تم اس انتخاب سے راضی ہوں، لوگوں نے باتفاق کہا یا خلیفہ رسول اللہ ہم بالکل راضی ہیں۔ علی یہ سن کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ وہ شخص اگر عمر نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں، آپ نے فرمایا بے شک وہ عمر ہی ہیں۔

وصیتیں

امام مالک نے ام المومنین عائشہ صدیقہ سے روایت کی ہے کہ والد نے کھجور کا ایک درخت جس سے 200 وثق )1200 صاع) کھجوریں سالانہ اترتی تھیں مجھے ہبہ فرما دیا تھا، انتقال سے قبل مجھ سے فرمایا کہ اے بیٹی! میں تم کو تمام لوگوں میں سے زیادہ آسود حال دیکھنا پسند کرتا تھا اور مجھے کسی طرح پسند نہیں کہ میرے بعد تم تنگ دست ہو جاؤ، میں نے جو تم کو نخل دیا تھا اب تک تم نے اس سے نفع اٹھایا اور وہ تمھارا تھا اور میرے مرنے کے بعد وہ مروکہ ہو جائے گا اور وہ از روئے حکم قرآن تمھاری بہنوں اور تمھارے بھائیوں پر تقسیم ہو گا۔ میں نے عرض کیا ابا جان ایسا ہی ہو گا مگر آپ نے میری بہن صرف ایک اسماء چھوڑی ہے اور تو کوئی بہن نہیں آپ فرماتے ہیں بہنوں (اور بھائیوں) میں تقسیم ہو گا وہ دوسری بہن کون سی ہے۔ آپ نے فرمایا تمھاری سوتیلی ماں حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ایک لڑکی ہے (مجھے یہ القا ہوا ہے)۔ اس روایت کو ابن سعد نے بھی بیان کیا ہے مگر اس اضافہ کے ساتھ کہ آپ نے عائشہ سے فرمایا کہ بنت خارجہ حاملہ ہے اور مجھے القا ہوا ہے کہ ان کے بطن میں لڑکی ہے۔ پس تم کو اس کی بھی وصیت کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد ام کلثوم بنت ابی بکر ام حبیبہ بنت خارجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔

انتقال

ابن سعد وغیرہ کہتے ہیں کہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب بابا جان کو مرض میں زیادہ تکلیف ہوئی تو میں نے یہ شعر پڑھا

اپنی عمر کی قسم جب ہچکی لگ جاتی ہے اور سینہ تنگ ہو جاتا ہے تو پھر مال کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

یہ شعر سن کر آپ نے چادر اپنے منہ سے ہٹائی اور مجھ سے فرمایا نہیں بلکہ ایسا کہو کہ

موت کے وقت سکرات ہوتی ہے اور اس سے کسی کو چٹکارا نہیں ہے۔

پھر فرمایا میرے یہ دو کپڑے ہیں مجھے غسل دے کر انھیں دونوں (مستعملہ) کپڑوں میں کفنا دینا کیونکہ مردے کے مقابلے میں زندہ کو نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ابو یعلی عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب میں ابو بکر صدیق کی خدمت میں گئی تو آپ نزع کی حالت میں تھے پس بیساختہ میری زبان سے نکلا

آج آپ کو سخت مرض لا حق ہو گیا ہے اللہ آپ کی روح کو توفیق بخشے (اللہ آپ پر رحم فرمائے)

یہ سن کر آپ نے فرمایا! یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ سکرات موت آنا ضروری ہے، یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا، پھر آپ نے فرمایا کہ محمد کی وفات کس روز ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا دو شنبہ کے دن! آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے میں آج رات ہی انتقال کروں گا۔ چنانچہ آپ پیر اور منگل کے درمیانی شب میں انتقال فرما گئے تھے اور صبح ہونے سے قبل آپ کو دفن کر دیا گیا۔ احمد نے عائشہ ا سے روایت کی ہے جس روز ابو بکر صدیق نے وفات پائی اس روز آپ نے دریافت کیا آج کون سا دن ہے لوگوں نے عرض کیا دو شنبہ ہے۔ آپ نے فرمایا میں اگر آج رات تک مر جاؤں تو میرے دفن میں کل تک تاخیر نہ کی جائے کیونکہ محمد کے پاس میں جتنی جلد پہنچ جاؤں اتنا ہی اچھا ہے۔

غسل میت اور کفن

ابن ابی الدنیا نے ابن ابی ملکیہ سے روایت کی ہے کہ ابو بکر صدیق نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کو ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس غسل دیں۔ اور عبد الرحمن بن ابی بکر ان کا ہاتھ بٹائیں (غسل میں مدد دیں)۔ عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں عبادہ بن قیس سے روایت کی ہے کہ ابو بکر نے اپنے آخری وقت میں عائشہ سے فرمایا کہ اے بیٹی! میرے ان دونوں مستعملہ کپڑوں کو دھو کر مجھے ان میں کفنا دینا تمھارا باپ کچھ انوکھا شخص نہیں ہے اچھا یا خراب کفن دینے سے عزت و ذلت وابستہ نہیں ہے۔

نماز جنازہ اور تدفین

ابن سعید بن منسیب سے ابن سعد نے روایت کی ہے کہ ابو بکر صدیق کی نماز جنازہ عمر فاروق نے ان کی قبر انور اور منبر کے درمیان میں پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں۔ عروہ اور قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ابو بکر صدیق نے ام المومنین عائشہ صدیقہ کو وصیت کی تھی کہ انھیں محمد کے پہلو مبارک میں دفن کیا جائے چنانچہ جب آپ نے انتقال فرمایا تو آپ کے لیے (وصیت کے بموجب رسول اکرم کے پہلو مبارک میں) قبر کھودی گئی اور رسول اللہ کے شانہ مبارک کے متوازی آپ کا سر رکھا گیا اور آپ کی قبر کی لمبائی روضہ اطہر کے برابر رکھی گئی۔ ابن عمر سے مروی ہے کہ عمر، طلحہ، عثمان اور عبد الرحمن بن ابی بکر (م) نے آپ کو قبر میں اتارا اور متعدد روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ کو رات (شب انتقال) ہی میں دفن کر دیا گیا تھا۔

مرثیہ

ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ابو بکر صدیق کے وصال پر خفاف بن ندبہ السلمی نے یہ مرثیہ پڑھا۔

لیس لجی فالمنہ بقا

و کل دنیا امر ھا للفنا

میں اچھی طرح جان گیا کہ زندگی کو بقا نہیں اور دنیا فنا ہونے والی ہے۔

والملک فی الا قوامہ ستودع

عاریتہ فا لشرط فیہ الا دا

تمام اقوام میں (ملم ہے کہ یہ) ملک مستعار ہے، اس میں یہ شرط ادا کرنا ہی ہو گی۔

والمرء یسعی ولہ راصد

تند بدالعین وثا رالصدا

انسان سعی کرتا ہے مگر اس کے لیے امید ہے، آنکھیں روتی ہیں اور طائر برانگیختہ ہوتا ہے۔

یھرم ا ویقتل ا ویقھرہ

یشکوہ سقم لیس فیہ شفا

بوڑھا ہو کر مرے یا قتل ہو یا مرض سے، موت آئے گی مگر سب مرض ہی کی شکایت کرتے ہیں۔

ان ابا بکر ھوا نعیث ا ن

لم تزرع الجوزاء بقلا بما

ابو بکر (صدیق) ابر رحمت تھے، جو سوکھی کھیتیوں پر سدا برستے تھے۔

تا للہ لا یدرک ا یا مہ

ذو مئزر نا ش ولا زور دا

خدا کی قسم نیک اعمال میں کوئی ان کی ہمسری نہیں کر سکتا، خواہ وہ کیسا ہی شان والا شخص ہو۔

من یسع کی یدرک ایا مہ

مجتھدا ا شدبا رض فضا

جس نے ابو بکر صدیق کے عہد کو پانے کی سعی بلیغ کی وہ ان کی طرح نیک اعمال بجا لاتا ہے۔[182]

علی کا تعزیتی خطبہ

جس وقت ابو بکر صدیق کی وفات کی خبر مدینہ منورہ میں پھیلی تمام شہر میں کہرم مچ گیا اور محمد کے وصال مبارک کے دن کا نقشہ دوبارہ لوگوں کی نگاہوں میں پھرنے لگا۔ علی نے اس خبر کو سنا تو رو پڑے اور روتے ہوئے آپ کے مکان پر آئے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر فرمانے لگے:

اے ابو بکر اللہ تم پر رحم کرے واللہ! تم تمام امت میں سب سے پہلے ایمان لائے اور ایمان کو اپنا خلق بنایا۔ تم سب سے زیادہ صاحب ایقان، سب سے غنی اور سب سے زیادہ آن کی حفاظت و نگہداشت کرتے، سب سے زیادہ اسلام کے حامی اور خیر خواہ مخلوق تھے۔ تم خلق، فضل، ہدایت میں آن سے قریب تر تھے۔ اللہ تعالی تم کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین جزا دے۔ تم نے آپ (ﷺ) کی تصدیق کی، جب دوسروں نے تکذیب کی اور اس وقت رسول اللہ کی غم خواری کی، جب دوسروں نے بخل کیا۔ جب لوگ نصرت و حمایت سے رکے ہوئے تھے، تم نے کھڑے ہو کر رسول کی مدد کی۔ اللہ نے تم کو اپنی کتاب میں صدیق کہا (والذی جاء بالصدق و صدق) تم اسلام کی پشت و پناہ اور کافروں کو بھگانے والے تھے۔ نہ تمہاری حجت بے راہ ہوئی اور نہ تمہاری بصیرت ناتواں ہوئی۔ تمہارے نفس نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی۔ تم پہاڑ کے مانند مستقل مزاج تھے۔ تند ہوائیں نہ تم کو اکھاڑ سکیں، نہ ہلا سکیں۔ تمہاری نسبت آن نے فرمایا کہ ضعیف البدن، قوی الایمان، منکسر المزاج۔ اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ، زمین پر بزرگ، مومنوں میں بڑے ہیں۔ نہ تمہارے سامنے کسی کو طمع ہو سکتی ہے نہ خواہش۔ کمزور تمہارے نزدیک قوی اور قوی کمزور تھا۔ یہاں تک کہ کمزور کا حق دلا دو اور زور آور سے حق لے لو۔[183]

ازواج و اولاد

ازواج

مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر صدیق نے اپنی زندگی میں پانچ شادیاں کیں۔

ام بکر

قبیلہ بنو کلب سے تھیں۔ چونکہ انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے ابو بکر صدیق نے نے ہجرت سے پہلے ان کو طلاق دے دی تھی۔

قتیلہ بن عبد العزی

جب ابو بکر صدیق نے اسلام قبول کیا تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا اس لیے ابو بکر نے ان کو بھی طلاق دے دی تھی۔ ابو بکر صدیق کے بڑے صاحزادے عبد اللہ اور بڑی صاحبزادی اسما ان کے بطن سے پیدا ہوئے۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ فتح مکہ تک زندہ رہیں شاید اسلام قبول کر لیا ہو۔[184]

آپ کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھا۔ اہل سیر میں سے کسی نے آپ کا اصل نام نہیں لکھا اس لیے آپ اپنی کنیت ام رومان سے مشہور ہیں۔ آپ کا پہلا نکاح (زمانہ جاہلیت) عبد اللہ بن حارث بن سنجرہ سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹا طفیل بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ پہلے شوہر کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق نے ان سے خود نکاح کر لیا۔ ابو بکر کی صلب سے ام رومان کے ہاں عائشہ صدیقہ اور عبد الرحمن بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب ابو بکر صدیق نے اسلام قبول کیا تو انھوں نے بھی بلا تامل ان کی تقلید کی اور یوں آپ سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شامل ہو گئیں۔[185] آپ کی وفات میں اختلاف ہے کسی نے چار ہجری، کسی نے پانچ اور کسی نے چھ اور کسی نے نو ہجری بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں قوی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آپ کی وفات نو ہجری سے پہلت نہیں ہوئی آپ کی تدفین کے وقت نبی کریم خود قبر میں اترے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔[186]

آپ کے والد کا نام عمیس تھا اور والدہ کا نام ہند بنت زہیر تھا۔ آپ کی ماں کی مختلف شوہروں سے نو بیٹیاں تھیں جو مختلف قریش اور بنو ہاشم کی بیویاں تھیں جن میں سلمی بنت عمیس حمزہ بن عبد المطلب کی زوجہ آپ کی حقیقی بہن تھیں اور اس کے علاوہ آپ کی ماں شریک بہنوں میں ام المومنین میمونہ اور لبابہ بنت حارث زوجہ عباس بن عبد المطلب وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آپ کا پہلا نکاح جعفر طیار سے ہوا جس سے تین بیٹے عبد اللہ عون اور محمد پیدا ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کا دوسرا نکاح ابو نکر صدیق سے ہوا جس سے ایک بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ ابو بکر کی وفات کے بعد آپ نے علی المرتضی سے نکاح کیا جس سے ایک بیٹا یحیی پیدا ہوئے۔ آپ نے دو ہجرتیں کی تھیں۔ پہلی جعفر طیار کے ساتھ ملک حبشہ پھر ادھر سے مدینہ منورہ کی طرف۔ آپ کی وفات علی کی شہادت کے بعد 40 ہجری میں ہوئی۔[187] آپ سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں ان کے راویوں میں عمر فاروق، عبد اللہ بن عباس اور ابو موسی اشعری جسیے جلیل القدر صحابہ اور اعلیٰ درجے کے تابیعین شامل ہیں۔[188]

حبیبہ بن خارجہ

آپ ابو بکر صدیق کے مواخاتی بھائی خارجہ انصاری کی بیٹی تھیں۔ ان سے نکاح کرنے کے بعد ابو بکر صدیق سخ میں انہی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے بطن سے ابو بکر صدیق کی بیٹی ام کلثوم ابو بکر کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد آپ نے اساف بن عتبہ بن عمرو سے نکاح کر لیا تھا۔[189]

اولاد

ابو بکر صدیق کی اولادیں چھ تھیں جن میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں شامل تھیں۔

آپ سیدنا ابو بکر صدیق کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ آپ قتیلہ بن عبد العزی کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرے اسماء کے حقیقی بھائی تھے۔ ابو بکر صدیق نے جب اسلام قبول کیا تو آپ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت اپنے والد ماجد اور نبی کریم کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ کے سپرد یہ کام تھا کہ دن بھر کی قریش کی جو خبریں ہوتی تھی وہ شام کو غار ثور میں پہنچا دیں۔ آپ نے ام رومان، عائشہ اور اسما کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت اس وقت فرمائی جب نبی کریم بخیر و عافیت مدینہ پہنچ گئے۔ آپ فتح مکہ اور غزوہ حنین و غزوہ طائف میں شریک رہے۔ غزوہ طائف میں آپ کو ایک تیر لگا تھا جس سے شدید زخم پہنچا جو علاج معالجہ کے بعد مندمل ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم کے وصال چالیس روز بعد پھر پھوٹ پڑا جس سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔[190] آپ کے والد ماجد نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ نے عاتکہ سے نکاح کیا تھا جس سے ایک بیٹا اسماعیل پیدا ہوا جو کم سنی ہی میں وفات پا گیا اور آپ کی نسل آگے نہیں چلی۔[191]

آپ ابو بکر صدیق کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپ ام رومان کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں مشرکین کے ساتھ تھے۔ آپ نے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں اسلام قبول کیا اور نبی کریم نے آپ کا نام عبد الکعبہ سے بدل کر عبد الرحمن رکھ دیا۔ آپ ایک ماہر تیر انداز تھے، زمانہ جہالیت اور قبول اسلام کے بعد بھی بے شمار معرکوں میں اپنے جوہر دکھائے۔ آپ کے ہاں تین بچے محمد، عبد اللہ اور حفصہ تولد ہوئے۔[192] آپ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض آپ کا سنہ وفات 53 ہجری بعض 56 ہجری 58 ہجری بیان کرتے ہیں۔ آپ کے بیٹے ابو عتیق محمد کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔[193]

آپ ابو بکر صدیق کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ آپ کی والدہ اسماء بنت عمیس ہیں۔ آپ کی پیدائش دس ہجری ذیقعدہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر ہوئی۔ جب اسماء نے ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد علی سے نکاح کیا تو آپ بھی ان کی سایہ عاطفت میں آ گئے اور آغوش مرتضوی میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ علی نے آپ کو اپنے عہد خلافت میں مصر کا گورنر بنایا۔ مصر پر جب عمرو بن العاص نے حملہ کیا تو آپ نے ان کا پر زور مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور گرفتار ہو گئے۔ معاویہ بن خدیج نے آپ کو قتل کر دیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ کو آپ کی شہادت کی خبر ہوئی تو انھیں سخت دکھ کر اظہار کیا اور آپ کے بیٹے قاسم کو اپنی آغوش شفقت میں لے لیا۔ یہ عائشہ کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ قاسم اپنے دور کے بہت بڑے فقہیہ بن گئے اور فقہائے سبعہ میں شمار ہونے لگا۔[194]

آپ ابو بکر صدیق کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ آپ ہجرت مدینہ سے ستائیس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا نکاح عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی رسول زبیر بن عوام سے ہوا جن سے عبد اللہ بن زبیر تولد ہوئے۔ عبد اللہ بن زبیر کو پیدائش کے بعد نبی کریم کی بارگاہ میں لایا گیا۔ حضور نے ایک کھجور منگوا کر اسے چبایا اور پھر اسے عبد اللہ کے منہ میں ڈال دی۔ عبد اللہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کے یہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے ہیں۔ اسما کا وصال اپنے بیٹے عبد اللہ کی شہادت کے بیس روز بعد ہوا۔ آپ کے ہاں عبد اللہ کے علاوہ عروہ، منزر، عاصم، مہاجر، خدیجہ ام الحسن اور عائشہ تولد ہوئے۔

ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر

آپ ابو بکر صدیق کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ آپ کی پیدائش بعث نبوی کے پانچ سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام ام رومان ہے۔ ام المومنین خدیجہ بنت خویلد کے وصال کے بعد آپ حضور نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ نکاح کے وقت آپ کی عمر مبارک چھ سال اور رخصتی نو سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ آپ کا شمار رسول اللہ کی لاڈلی بیویوں میں ہوتا تھا۔ حضور نبی کریم کے وصال مبارک بھی آپ کی گود مبارک میں ہوا اور پھر آپ کے حجرہ مبارک میں نبی کریم کا مدفون ہوا۔ نبی کریم کے وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک صرف اٹھارہ برس تھی۔ آپ نے سترہ رمضان المبارک 59 ہجری میں اس جہان فانی سے کوچ فرمایا اور جنت البقیع میں مدفن ہوئیں۔

آپ ابو بکر صدیق کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں اور آپ کی پیدائش اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد ہوئی۔ ابو بکر صدیق کی اولاد میں صرف آپ کا شمار تابیعین میں ہوتا ہے۔ آپ حبیبہ بن خارجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ آپ کی پرورش ام المومنین عائشہ کے زیر سایہ ہوئی۔ آپ کا پہلا نکاح طلحہ بن عبید اللہ سے ہوا۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کا دوسرا نکاح عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ربیعہ سے ہوا۔[195]

صدیق اکبر کے خطبات

ابو بکر صدیق بلند پایہ کے خطیب اور عالم دین تھے۔ اللہ عزوجل نے آپ کو تقریر کے فن سے نوارا تھا۔

نبی کریم کے وصال کے موقع پر خطبہ

جس وقت حضور نبی کریم ﷺ کا وصال مبارک ہوا اس وقت تمام صحابہ کرام کی کفیت عجیب تھی۔ ابو بکر صدیق نے تمام صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا:

اما بعد! گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ قرآن اسی طرح ہے جس طرح نازل ہوا اور دین وہی ہے جو اللہ نے مقرر فرمایا۔ حق بات وہی ہے جو رسول اللہ نے بیان فرمائی اور اللہ ہی حق ہے۔ اے لوگو! جو شخص محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ محمد (ﷺ) وصال فرما گئے ہیں اور جو شخص اللہ عزوجل کی عبادت ہے وہ یقین رکھے اللہ عزوجل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کے لیے موت نہیں۔ دیکھو اللہ نے اپنا فیصلہ فرما دیا اب تم اس میں رد و بدل نہ کرو جو کچھ تمھارے پاس ہے اس پر اللہ نے اپنے نبی کے لیے اس چیز کو ترجیح دی ہے جو اس کے پاس ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب کو اپنی بارگاہ میں واپس بلا لیا ہے اور تمھارے لیے اپنی کتاب اور اپنے محبوب کی سنت کو چھوڑ دیا ہے۔ پس جو شخص ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے تھام لے گا وہ فلاح پائے گا اور جو ان کا منکر ہو گا وہ تفرقہ پیدا کرنے والا ہو گا۔

اے لوگو! عدل قائم کرنے والے بنو، دیکھو شیطان ابلیس کہیں تمھارے نبی کے وصال پر تمھارے لیے فتنہ بنا کر تمھیں دین سے باغی نہ کرے، شیطان کا مقابلہ ان ہتھیاروں سے کرو جن کے ذریعے تم اسے بے بس کرتے رہے ہو اور تم اسے ہرگز موقع نہ دو کہ وہ تم پر سوار ہو جائے۔

خلیفہ وقت کا پہلا خطاب

ابو بکر صدیق نے خلیفہ بننے کے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

امابعد! اے لوگو! مجھے تمہارا حاکم مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پر پاؤ گے تو میرے ساتھ تعاون کرنا اور اگر مجھے باطل پاؤ تو میری اصلاح کرنا۔ جب تک میں اللہ عزوجل کی اطاعت کرتا رہوں گا تو میری اطاعت کرتے رہنا اور جس دن میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کروں گا تم پر میری اطاعت واجب نہیں رہے گی۔ یاد رکھو! میرے نزدیک تم میں قوی شخص ضعیف ہے جب تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں اور ضعیف شخص اس وقت تک قوی ہے جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں۔ میں اللہ سے سب کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں

امام حسن سے مروی ہے کہ اس کے بعد ابو بکر صدیق منبر پر اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں نبی کریم کھڑے ہوتے تھے پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

لوگو! میں ایک بوڑھا آدمی ہوں اس لیے تم مجھ سے زیادہ صحت مند اور طاقتور آدمی کے سپرد یہ معاملہ کر دو

آپ کی بات سن کر لوگوں نے کہا: آپ ہر قسم کے معاملے میں نبی کریم کے ساتھ رہے ہیں اس لیے اس معاملے کے آپ زیادہ حقدار ہیں۔

یہ سن کر ابو بکر صدیق نے فرمایا:

دیکھو اگر تمہارا اصرار ہے کہ میں اس امر کا زیادہ حقدار ہوں تو پھر میرے ساتھ تعاون کرنے میں بخل سے کام مت لینا اور یہ یاد رکھنا کہ میں بھی انسان ہوں اور میرے ساتھ بھی شیطان لگا ہوا ہے۔ اگر تم مجھے کبھی غصے کی حالت میں دیکھو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور جب تک میں سیدھا رہوں میری اطاعت کرتے رہو اور جب میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو تم مجھے سیدھا کر دو۔

ترک جہاد پر خطبہ

محمد کے وصال مبارک کے بعد منکرین زکوة کے خلاف چند صحابہ کرام نے ابو بکر صدیق کو ترک جہاد کا مشورہ دیا کہ فی الحال یہ وقت جہاد کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ابو بکر صدیق نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

لوگو! اگر تمھاری تعداد کم اور دشمن کی تعداد زیادہ ہے تو کیا شیطان تمھیں اس راستے پر لے چلے گا؟ اللہ کی قسم! اللہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کر کے رہے گا اگرچہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالی فرماتا ہے: ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو وہ اسے پیس کر رکھ دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے باطل مٹ جاتا ہے۔

ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے: کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ ایک چھوٹا گروہ اللہ کے اذان سے بڑے گروہ پر غالب آ گیا۔ لوگو! اگر میں تنہا رہ جاؤ تو بھی میں ان کے مقابلے میں اللہ عزوجل کی خاطر جہاد کا حق اس طرح ادا کروں گا کہ یا میں قتل ہو جاؤں یا میرا عذر قبول ہو جائے۔ لوگو! خدا گواہ ہے کہ اگر یہ لوگ زکوة کے مال میں سے اونٹ کی ایک نکیل بھی دینے سے انکار کریں تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔

فتنہ ارتداد کے موقع پر خطاب

ابو بکر صدیق نے مجمع عام میں منکرین زکوة کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اللہ عزوجل کی حمد و ثناء اور محمد پر بے حد درود و سلام! سب تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہی ہیں جس نے ہدایت کا انتظام فرمایا اور جو اپنی ساری مخلوق کے لیے کافی ہے اور جس نے ہر ضرورت کا سامان مہیا فرمایا۔ اللہ نے حضور نبی کریم کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا اور جس وقت رسول اللہ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اس وقت دین اسلام اجنبی تھا اور لوگ اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اہل کتاب گمراہ ہو چکے تھے اور اللہ ان گمراہیوں اور بداعمالیوں پر غضبناک تھا۔ انھوں نے اللہ کی کتابوں میں تحریف کی اور بہت سوں کو معبود بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی۔ وہ تنگدست بھی تھے اور گمراہ بھی۔ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں رسول اللہ کے ذریعے متحد کر کے بہترین امت بنایا اور دوسروں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی۔ پھر نبی کریم وصال فرما گئے اور شیطان ان پر سوار ہو گیا حالانکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ کے بارے میں ارشاد فرما دیا تھا: اور محمد (ﷺ) تو اللہ کے رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی کئی رسول گذر چکے ہیں تو کیا آپ وصال پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔

لوگو! تمھارے ارد گرد جو عرب قبائل ہیں انھوں نے بھیڑ بکریاں اور اونٹ (یعنی زکوة کا مال) دینے سے انکار کر دیا ہے اور اگرچہ تمھارے نبی کی برکت اٹھالی گئی ہے لیکن جتنے اپنے دین میں آج تم قوی ہو اس سے پہلے کبھی اتنے قوی نہ تھے۔ تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے ہو اور اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے تمھیں اس سے نجات دی ہے۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کے دین کے معاملے میں قتال جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ اپنا وعدہ پورا نہ فرما دے اور ہم شہید ہو کر جنت میں نہ چلے جائیں۔ یہ سعادت وہ حاصل کرے گا جو زمین پر اللہ کا خلیفہ اور اس کے دین کا وارث بن کر رہے گا۔ اللہ تعالی کے فیصلے اٹل ہیں اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے : تم میں سے جو ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے ہیں ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ زمین کی خلافت عطا فرمائے گا۔

انصار سے خطاب

بحرین سے جب مال غنیمت آیا اور ابو بکر صدیق نے وہ مال برابر لوگوں میں تقسیم کیا تو انصار ناراض ہو گئے اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں ترجیح دی جائے۔ اس موقع پر ابو بکر صدیق نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا:

تمہارا مطالبہ درست ہے لیکن اگر میں تمہیں زیادہ حصہ دوں گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے دنیا کی خاطر یہ سب کچھ کیا تھا اور اگر تم صبر کرو گے تو تمہارا سارا عمل اللہ عزوجل کی خاطر ہو گا۔

انصار نے کہا: اللہ گواہ ہے ہم نے سب کچھ اللہ کے لیے کیا ہے۔

پھر انصار اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئے۔ پھر ابوبکر صدیق نے فرمایا:

اللہ عزوجل کی حمد و ثناء اور محمد پر بے شمار درود و سلام! انصار کی جماعت! اگر تم کہو کہ ہم نے تمہیں اپنے سائے میں پناہ دی اور اپنے مال میں حصہ دار بنایا اور اپنی جانوں کے ذریعے ہماری مدد کی تو تم حق بجانب ہو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تمہارا مقام و مرتبہ بلند ہے اور اس مقام تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

حکمران طبقے کے بارے میں خطاب

ابو بکر صدیق نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ پر بے حد درود و سلام! دنیا اور آخرت میں حکمران سب سے زیادہ بد نصیب ہیں۔ لوگو! تم سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو اور جلد بازی میں فیصلے کرتے ہو۔ کیا تم حکمرانوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اپنے مال سے زیادہ دوسروں کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ان کے دلوں پر ہر وقت خوف طاری رہتا ہے، ان کو حسد اور غیظ و غضب کی بیماری لگ جاتی ہے، وہ راحت و مسرت سے محروم ہوتے ہیں، وہ عبرت حاصل نہیں کرتے، ان کو اعتماد اور سکون میسر نہیں آتا، وہ کھوٹے سکے اور فریب و سراب کی مانند ہوتے ہیں، دیکھنے میں تو وہ بظاہر بارعب نظر آتے ہیں لیکن اندر سے وہ غمگین ہوتے ہیں اور جب ان کی عمر ختم ہو جاتی ہے اور وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں تو اللہ تعالی ان سے سخت حساب لیتا ہے اور انہیں کم معاف کرتا ہے اور ان کے مقابلے میں مفلوک الحال شخص خوش نصیب ہوتے ہیں۔ بہترین حکمران وہ ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ میرے بعد وہ دور بھی عنقریب آنے والا ہے جب اس امت میں انتشار پیدا ہو جائے گا اور ناحق خون بہایا جانے لگے گا پھر اہل حق کو اقتدار حاصل بھی ہوا کرے گا تو اس کی مدت نہایت ہی مختصر ہو گی اور ان کی حکومت کے اثرات بہت کم ہوں گے۔ لوگ سنت نبوی کو چھوڑ دیں گے۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں ان حالات میں مساجد سے علیحدہ نہ ہونا اور قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کرتے رہنا۔

ملک شام میں جہاد کے بارے میں خطاب

ابو بکر صدیق نے لوگوں کو ملک شام کے جہاد پر ابھارنے کے لیے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

اللہ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ پر درود و سلام! یاد رکھو! ہر کام کا ایک مقصد ہوتا ہے جو اس مقصد کو پا لیتا ہے وہ بامراد ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ کی رضا کے لیے عمل کرتا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہوتا ہے۔ تم پر پہیم جدوجہد لازم ہے کیونکہ آدمی منزل تک استقامات ہی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ جان لو جس کا ایمان نہیں اس کا دین بھی نہیں اور جو شخص اللہ عزوجل سے ثواب کی امید نہیں رکھتا اس کے لیے کوئی اجر نہیں اور جس کی نیت درست نہیں اس کا عمل بھی مقبول نہیں۔ دیکھو اللہ کی کتاب میں جہاد فی سبیل اللہ کا بہت اجر بیان کیا گیا ہے جس کو پڑھ کر مسلمان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر دے۔ جہاد وہ تجارت ہے جس کی نشاندہی خود اللہ عزوجل نے فرمائی اور جو شخص جہاد کرتا ہے اللہ تعالی اسے ذلت و رسوائی سے بچاتا ہے اور دنیا و آخرت میں اسے عزت و توقیر سے نوازتا ہے۔

وعظ و تلقین پر خطبات

ایک موقع پر ابو بکر صدیق نے لوگوں کو وعظ و تلقین فرماتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا:

سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور میں اسی کی حمد و ثناء بیان کرتا ہوں اور اسی سے مدد کا درخواست گزار ہوں اور اسی سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور اسی سے ہدایت چاہتا ہوں اور اسی کی پناہ میں آتا ہوں۔ بے شک اللہ عزوجل جسے چاہے ہدایت نصیب فرمائے اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور بے شمار درود و سلام رسول اللہ کی ذات بابرکت پر۔ بے شک اللہ ہی کی حمد و ثناء بڑی ہے اور وہ حیُّ و قیوم ہے اور اس کے لیے موت نہیں۔ وہی زندگی و موت دینے والا ہے اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اللہ عزوجل نے رسول اللہ کو نبی برحق بنا مبعوث فرمایا تا کہ آپ اللہ کے دین کو تمام باطل ادیان پر غالب کریں۔ نبی کریم تمام انسانوں کے لیے رحمت اور حجت بنا کر بھیجے گئے اور اللہ نے جب آپ کو مبعوث فرمایا اس وقت لوگ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کے ادیان خرافات کا مجموعہ تھے۔ اللہ نے حضور نبی کریم کو دین حق کے ذریعے بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ آپ نے تمام انسانوں کو مساوات کا درس دیا اور انسانوں میں ہر قسم کی تفریق کو مٹا دیا۔ پس تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم فلاح پاؤ اور اللہ کا فرمان ہے جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری اطاعت کی۔

لوگو! میں تمھیں ہر حال میں تقوی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور ہر قسم کے حالات میں حق کا ساتھ دینے کی نصیحت کرتا ہوں۔ جس بات میں کوئی سچائی نہیں اس میں کسی قسم کی خیر بھی نہیں۔ جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے والا شخص ہلاک ہو جاتا ہے۔ دیکھو! فخر سے بچتے رہنا، اس شخص کے فخر کی کیا حثیت جو مٹی سے پیدا ہوا ہو اور مٹی میں ہی جا ملتا ہو۔ جو آج زندہ ہے اس نے کل مرنا بھی ہے اور جب تم اس دنیا سے جانے لگو تو تمھارا نامہ اعمال نیک ہو اور خود کو دنیا سے جانے والا سمجھو۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: قیامت کا دن ایسا ہو گا جس نے دنیا میں کوئی بھلائی کی ہو گی وہ اسے اس روز اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں کی ہوں گی وہ چاہے گا کہ اس کے اور اس کی برائیوں کے درمیان میں طویل مسافت حائل ہوتی۔ لوگو! اللہ سے ڈرو اور تم سے جو پہلے گذر چکے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اس حقیقت کو جان لو کہ عنقریب تم اپنے رب سے ملنے والے ہو اور تمھیں تمھارے اعمال کا حساب دینا ہے۔ ہاں! اگر اللہ کسی سے درگزر فرما دے اور وہ غفور و رحیم ہے۔ پس اپنے آپ کو بچاؤ اور اللہ سے ہی مدد مانگتے رہو کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر بے شمار رحمتیں نازل فرما اور ان پر درود و سلام کے ذریعے ہمارا بھی تزکیہ فرما۔ قیامت کے دن ہمیں ان کے ساتھ اٹھانا اور آپ کے حوض سے ہمیں بھی سیراب فرمانا۔ اے اللہ! ہمیں اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرما اور دشمن کے مقابلے میں ہماری حوصلہ افزائی فرما۔ آمین

ایک اور موقع پر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے ابو بکر صدیق نے یوں خطبہ ارشاد فرمایا:

اللہ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ پر بے شمار درود و سلام! وہ خوبرو کہاں گئے جنہیں اپنی جوانیوں پر ناز تھا؟ وہ بادشاہ کہاں گئے جنھوں نے بڑے بڑے محلات تعمیر کروائے؟ وہ سورما کہاں گئے جو میدان جنگ میں داد شجاعت پاتے تھے؟ جان لو! وہ قبر کی تاریکیوں میں ہیں اس لیے تم بھی اپنی نجات کی فکر کرو۔

لوگو! اللہ سے حیا کیا کرو جس کے قبضے میں میری جان ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب میں رفع حاجت کے لیے بھی جاتا ہوں تو اپنے رب سے حیا کی وجہ سے خود کو زیادہ سے زیادہ کپڑے میں لپیٹ کر رکھتا ہوں۔ لوگو! اللہ سے عافیت کی درخواست کیا کرو کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور کفر کے بعد شک سے بڑی کوئی مصیبت نہیں۔ ہمیشہ سچائی کا دامن تھامے رکھو کہ وہ نیکی کی طرف لے جاتی ہے جس سے جنت ملتی ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فنور آدمی کو دوزخ میں لے جاتا ہے۔

ایک اور موقع پر ابو بکر صدیق نے لوگوں کو وعظ و تلقین کرتے ہوئے یوں خطبہ ارشاد فرمایا:

اللہ کی حمد و ثناء کہ وہی حمد و ثناء کے لائق ہے اور میں بھی اسی کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس سے ہی مدد کا طالب ہوں۔ میرا اور تمھارا وقت نزدیک ہے اور میری اللہ سے التجا ہے کہ وہ موت کے بعد ہمیں اپنے ہاں عزت عطا فرمائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اللہ نے آپ کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا تا کہ آپ غافلوں کو متنبہ کریں اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنائیں۔ اللہ نے آپ کو روشنی پھیلانے والا بنا کر مبعوث فرمایا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور ہدایت یافتہ ہے اور جو ان کی نافرمانی کرے وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔

لوگو! میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر تقوی پیدا کرو اور اللہ کے احکامات پر مضبوطی سے کاربند رہو۔ کلمہ طیبہ کے بعد اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی تم میں سے جسے تمھارا ذمہ دار بنائے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو کیونکہ جو شخص اللہ کی اور صاحب امر لوگوں کی اطاعت کرتا ہے وہ اپنے اوپر واجب حق کو ادا کرتا ہے اور کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔ جو شخص خواہشات نقس کی پیروی سے خود کو محفوظ رکھتا ہے وہ فلاح پاتا ہے۔ جو آج زندہ ہے اس نے کل مرنا ہے اور مظلوم کی بدعا سے بچتے رہو اور اپنے آپ کو مرنے والوں میں شمار کرتے رہو۔ لوگو! صبر و استقامت سے کام لیتے رہو۔ احتیاط کی روش اختیار کرو کہ احتیاط مفید ہے۔ اچھا عمل کرو کہ وہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی رحمت کے طالب رہو جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے۔ عقل و فکر طہارت و تقوی سے کام لو اور اس بات پر نظر رکھو کہ تم سے پہلے لوگ کیوں ہلاک ہوئے اور نجات پانے والوں نے کیا اعمال کیے؟ اللہ سے مدد مانگتے رہا کرو کیونکہ تمام قوتوں کا مالک وہی ہے۔ لوگو! میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور اس کے شایان شان حمد و ثناء بیان کیا کرو۔ اللہ سے مغفرت کے طلب گار رہو کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ یہ جان لو کہ جو اعمال اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے کرو گے وہ اللہ کی اطاعت میں شمار ہوں گے اور جو اعمال تم اپنے نفس کی اطاعت میں کرو گے وہ گناہ شمار ہوں گے۔ اپنے سے پہلے لوگوں کے بارے میں سوچو کہ وہ کل کہاں تھے اور آج کہاں ہیں؟ وہ بادشاہ اور حکمران کہاں گئے جنھوں نے اس زمین پر فتوحات کے جھنڈے گاڑے ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ ان کو بھلا دیا گیا اور ان کا ذکر بھی باقی نہیں رہا جن کے ظلم سے بستیاں اجڑ گئیں اور وہ خود قبروں میں پہنچ گئے۔ تم اپنے جن بھائیوں دوستوں کو جانتے تھے وہ کہاں گئے؟ تم بھی جانے والے ہو اور جو اعمال تم کرو گے اس کا خمیازہ بھگت لو گے۔ تمھارے نیک اعمال تمھاری خوش بختی کی علامت ہیں اور تمھارے برے اعمال تمھارے لیے بدبختی کی علامت ہیں۔ جان لو کہ اللہ عزوجل کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کا ہم نسب ہے کہ وہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرے۔ میں تمھارے لیے اور اپنے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں کیونکہ وہ رحم فرمانے والا مہربان ہے۔[196]

صحابہ کرام کو نصیحتیں

بلال کو نصیحت

حضور ﷺ کے وصال کے بعد بلال نے ابو بکر صدیق سے کہا کہ آپ نے مجھے آزاد فرمایا اور اب آپ ہی مجھے اجازت دیجیے کہ میں اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کروں کیونکہ مجھے اب مدینہ منورہ میں قیام سے زیادہ جہاد محبوب ہے۔ ابو بکر صدیق نے فرمایا: ”اے بلال اللہ گواہ ہے کہ میں نے تمھیں صرف اللہ کے لیے آزاد کیا اور مجھے تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ درکار نہیں۔ اللہ کی زمین وسیع ہے تم جہاں جانا چاہو جا سکتے ہو“۔ بلال نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول مجھے لگتا ہے کہ آپ نے میری بات کا برا منایا ہے۔ ابو بکر صدیق نے فرمایا: ” نہیں بلال! اللہ کی قسم! میں نے برا نہیں منایا بلکہ میری خواہش ہے کہ تم اپنی خواہش کو میری خواہش پر قربان کیونکہ میں تمھاری جدائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہوں حالانکہ ایک دن یہ ہونا ہی ہے اور جدائی کی وہ گھڑی عنقریب آنے والی ہے اور ہماری ملاقات پھر روز محشر ہو گی اور اگر تم جہاد پر جانا چاہتے ہو تو میں تمھیں نہیں روکوں گا۔ بلال! میں تمھیں بھلائی کی کاموں کی نصیحت کرتا ہوں، وہ کام جو تمھیں اللہ عزوجل کی یاد دلاتے رہیں اور جب تم اس دنیا سے رخصت ہو تو تمھیں ان کا بہترین اجر ملے“۔

عمرو بن العاص کو نصیحت

عبد اللہ بن ابی بکر روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق نے ملک شام کی طرف لشکر اسلام کو بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ نے عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ ابلہ سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچیں۔ جب لشکر اسلام مدینہ منورہ سے روانہ ہوا تو آپ لشکر کے ساتھ مدینہ کی سرحد تک گئے اور عمرو بن العاص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:” اے عمرو بن العاص! اپنی خلوت و جلوت میں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنا اور اس سے حیا کرنا کیونکہ وہ تمھارے نیک اور بد تمام اعمال کو جانتا ہے اور تم نے دیکھ لیا کہ جو حضرات تم سے آگے نیک اعمال کر کے گئے ان کا اللہ کے ہاں کیا مقام ہے۔ تم بھی آخرت کے لیے عمل کرنے والے بن جاؤ اور تمھارا مقصد صرف رضائے الہی ہو اور تم لوگوں کے چھپے ہوئے بھید ہرگز جاننے کی کوشش نہ کرنا۔ دشمن سے جب بھی مقابلہ کرنا سچائی کے ساتھ کرنا اور دوران میں جنگ بزدلی نہ دکھانا۔ میں تمھیں امانت میں خیانت نہ کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اگر تم اپنی اصلاح کرو گے تو تمھاری رعایا خود بخود تمھارے لیے بھلی ہو جائے گی“۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ ابو بکر صدیق نے عمرو بن العاص کو شام کے محاذ پر نصیحت کرتے ہوئے خط لکھا: ”میں نے خالد بن ولید کو خط بھیج دیا ہے اور وہ عنقریب تمھارے پاس پہنچ جائیں گے جب وہ تمھارے پاس پہنچے تو ان سے حسن سلوک سے پیش آنا اور ان سے مشورہ کرنا اور ان کی مخالفت نہ کرنا۔ میں نے تمھیں اس کام کا عامل بنایا ہے کہ جن لوگوں پر تمھارا گذر ہو یعنی مسلمان قبائل تو انھیں جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت دو۔ پس جو ان میں سے تمھارے ساتھ ہو اس کے لیے سواری کا انتظام کرو اور لشکر میں اتفاق و اتحاد برقرار رکھو“۔

شرجیل بن حسنہ کو نصیحت

محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی فرماتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق نے خالد بن سعید کو معزول کر دیا تو ان کے بارے میں شرجیل بن حسنہ کو یوں وصیت فرمائی : ”خالد بن سعید کے پاس جاؤ اور جو کچھ ان کا حق تمھارے اوپر ہے اس کا لحاظ رکھنا جیسا کہ تمھیں اس زمانہ میں یہ بات پسند تھی کہ یہ والی ہو کر تمھارے پاس آتے اور جو تمھارا حق ان کے اوپر ہے اسے پہچانتے۔ تم نے ان کا مرتبہ اسلام میں جان رکھا ہے اور حضور نبی کریم کا وصال ہوا تو یہ آپ کی طرف سے والی تھے اور میں نے بھی انھیں والی بنا رکھا تھا۔ اب میں نے مناسب خیال کیا کہ انھیں معزول کر دوں اور قریب ہے کہ ان کے لیے معزولی ان کے دین کے بارے میں بہتر ثابت ہو اور مجھے کسی کی امارت سے حسد نہیں اور میں نے لشکروں کی امارت کے بارے میں خالد کو اختیار دیا تھا جس کو چاہیں منتخب کر لیں انھوں نے تمھارے غیر کو چھوڑ کر تمھارا چناؤ کیا اور اپنے چچیرے بھائی کے مقابلے میں تم کو ترجیح دی۔ جب تمھیں کوئی امر درپیش ہو جس کے لیے تمھیں کسی کی نصیحت کی ضرورت ہو تو تم ابو عبید بن جراح، معاذ بن جبل اور خالد بن سعید کے پاس نصیحت اور بھلائی پاؤ گے“۔

یزید بن ابی سفیان کو نصیحت

یزید بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ جب ابو بکر صدیق نے مجھے ملک شام کی جانب روانہ کیا تو فرمایا : ”اے یزید تمھاریاں رشتہ داریاں بہت ہیں اور ممکن ہے کہ تم ان رشتہ داریوں کو امارت میں ترجیح دو اور اس کا مجھے تمھاری جانب سے بڑا خطرہ ہے۔ بے شک حضور نبی کریم نے فرمایا کہ وہ جو مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا والی ہو اور وہ مسلمانوں پر کسی کو ناحق تخصیص کی بنا پر امیر بنا دے ایسے امیر بنانے والے پر اللہ کی لعنت، اللہ پاک ہے ایسے امیر بنانے والے کسی خرچہ اور کسی کوشش کو قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کر دے گا اور جس نے اپنے بھائی کے مال میں سے کسی کی کچھ مدد کی اس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔ لوگوں کو اس بات کی دعوت دو کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں“۔ حارث بن فضیل فرماتے ہیں کہ ابو بکر صدیق نے یزید بن ابی سفیان کو شام کا حاکم بنانے کے بعد فرمایا: ”اے یزید تم جوان ہو تمھارا تذکرہ ان بھلائیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جو تم سے دیکھی گئیں اور میں نے یہ اتنی بات جو تم سے تنہائی میں بلا کر کی ایک کام کے لیے کی ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تم سے ایک کام لوں اور تم کو تمھارے گھر سے باہر نکالوں تا کہ مجھے پتا چلے کہ تم اور تمھاری امارت کیسی رہتی ہے؟ اور میں تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ اگر تم نے حسن و خوبی سے فرائض انجام دیے تو میں تمھارے منصب میں ترقی کروں گا اور اگر تم نے اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام نہ دیے تو میں تم کو معزول کر دوں گا اور میں نے تمھیں خالد بن سعید کے عمل کا والی بنایا ہے۔ میں تمھیں ابو عبیدہ بن جراح سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ تمھیں معلوم ہے کہ ان کا اسلام میں کیا مرتبہ ہے۔ میں تمھیں معاذ بن جبل کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کی عزت و توقیر میں کوئی کمی نہ رہنے دینا اور تم کوئی بات ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور خالد بن سعید کے مشورہ کے بغیر نہ کرنا“۔

عکرمہ کو نصیحت

عکرمہ بن ابی جہل کو عمان بھیجتے وقت ابو بکر صدیق نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ عزوجل کے بھروسے پر سفر کرنا، امن چاہنے والوں سے لڑائی نہ کرنا، کسی مسلمان کا حق نہ مارنا، جو بات کہو حق کہو اور حق بات پر عمل کرنا، کسی کے ڈرانے سے خوفزدہ نہ ہونا، اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنا اور دشمن سے جب بھی مقابلہ ہو استقامت سے لڑنا یہاں تک کہ تم شہید ہو جاؤ“۔

سلمان فارسی کو نصیحت

سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے نصیحت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا: ”سلمان تقوی اختیار کیے رکھنا اور دیکھو فتوحات کا زمانہ آنے والا ہے تم مال غنیمت میں سے اتنا ہی لینا جتنی تمھیں حاجت ہو۔ یہ بات یاد رکھو کہ جو شخص پانچوں وقت کی نمازیں ادا کرتا ہے وہ اللہ کی پناہ میں آ جاتا ہے اور وہ اللہ عزوجل کے غضب سے دور ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے غضب کا شکار ہو گا وہ منہ کے بل آگ میں جھونکا جائے گا“۔

عائشہ صدیقہ کو نصیحت

جب ابو بکر صدیق مرض الموت میں گرفتار ہو گئے تو آپ کی عیادت کے لیے آپ کی بیٹی ام المومنین عائشہ صدیقہ تشریف لائیں۔ ام المومنین بہت مغموم تھیں انھوں نے اپنے والد ماجد سے نصیحت کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا: ”بیٹی وہ وقت آ گیا ہے جب تمام پردے ہٹا دیے جاتے ہیں اور میں اپنا انجام دیکھ رہا ہوں۔ اب اگر مجھے کوئی خوشی ہے تو وہ دائمی خوشی ہے اور اگر کوئی پریشانی ہے تو وہ بھی دائمی پریشانی ہے۔ میں نے خلافت کا بوجھ اس وقت اٹھایا جب حالات ناسارگار تھے اور اگر میں اس وقت یہ ذمہ داری قبول نہیں کرتا تو امت کا شیرازہ بکھر جاتا۔ میرا اللہ گواہ ہے کہ میں نے اسی وجہ سے یہ بوجھ اٹھایا کہ اس کے بعد میرے اندر غرور پیدا نہ ہوا اور نہ میں نے کبھی اپنے اس عہدے پر فخر کیا۔ میں نے کبھی بیت المال سے اپنی ضرورت سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور بس اتنا ہی لیا جتنی مجھے حاجت تھی۔ جب میرا وصال ہو جائے تو میری یہ چکی اور غلام، میری چادر اور میرا بستر یہ سب بیت المال میں واپس کر دینا“۔[197]

عادات و خصائل

عشق رسول ﷺ

سرور عالم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو صدیق اکبر نے سب سے آگے بڑھ کر اس پر لبیک کہا۔ جب نبوت کے چوتھے سال دعوت عام کا حکم خداوندی نازل ہوا تو مشرکین کے قہر و غضب کا آتش فشاں پوری شدت سے پھٹ پڑا۔ مشرکین نے اہل حق کو لزرہ خیز مظالم کا نشانہ بنایا جن میں ابو بکر صدیق بھی شامل تھے۔ سرور عالم نے شب معراج کی صبح کو کفار کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انھوں نے ٹھٹھا لگایا۔ صدیق اکبر کہیں باہر تھے۔ بعض کفار نے ان سے جا کر کہا کہ تمھارے صاحب اس قسم کی ناقابل یقین باتیں کہتے ہیں۔ ابو بکر نے بلا تامل جواب دیا:

آپ ﷺ نے سچ فرمایا اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔

سفر ہجرت میں آپ کو اپنے آقا و مولا کی رفاقت کا وہ مہتم بالشان شرف حاصل ہوا کہ بارگاہ الہی کی طرف سے ثانی الثنین کے لازوال اور بے مثال لقب سے نوازہ گیا۔ اس موقع پر حضور اکرم کی رفاقت کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ اپنی جان پر کھیلنا تھا اور ابو بکر صدیق خوشی سے اپنی جان پر کھیل گئے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے سفیر عروہ بن مسعود نے نبی کریم سے مخاطب ہو کر کہا کہ محمد (ﷺ) یہ جو تمھارے ارد گرد بھیڑ ہے اگر تم پر کوئی نازک وقت آیا تو تمھاری حمایت کا دم بھرنے والے آناً فاناً چھوڑ کر بھاگ جائے گے۔ پاس ابو بکر کھڑے تھے سراپہ جلال ہو کر کہا کہ ہم اور رسول اللہ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ جا اپنا کام کر اور اپنے معبود لات کی ---- نبی کریم کے وصال فرمانے کے بعد اسامہ بن زید کی مہم کا مسئلہ بنا کیونکہ تب تمام عرب میں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہو گیا تھا۔ تب کچھ صحابہ چاہتے تھے اس مہم کی روانگی ملتوی کر دی جائے تو ابو بکر صدیق نے فرمایا:

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابو بکر کی جان ہے، اگر مجھے جنگل کے درندے اٹھا کر لے جائیں تب بھی میں جیش اسامہ کو روانہ کر کے رہوں گا کہ اسے خود محمد نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ اگر مدینہ میں میرے سوا کوئی بھی متنفس باقی نہ رہے تو بھی حضور کے حکم کی تعمیل ہو کر رہے گی۔

یہ چند مثالیں تھیں ورنہ آپ کی تمام زندگی عشق رسول سے بھری پڑی ہے۔

ادب و احترام نبوی ﷺ

ابو بکر نبی کریم سے بے پناہ محبت اور عقیدت کے بنا پر جس قدر ادب و احترام کرتے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ہمیشہ دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے اور بات بات میں کہتے تھے

اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں

سفر میں حضور کے ہمرکاب ہوتے تو آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھتے اور آپ استراحت فرما ہوتے تو آپ کو سوتے سے جگاتے نہ تھے جب تک کہ آپ خود نہ اٹھ بیٹھیں۔

سفر ہجرت میں ایک مقام پر حضور کو سوتا چھوڑ کر دودھ کی تلاش میں نکلے جب واپس ہوئے تو خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو جگانا مکروہ سمجھا۔ ہجرت کے واقعہ میں قباء سے باہر قیام کیا۔ جب حضور پر دھوپ پڑنے لگی تو آپ کو دھوپ سے بچانے کے لیے چادر تان کر کھڑے ہو گئے۔ ایک دفعہ رسول اکرم عائشہ سے مصروف کلام تھے۔ کسی خانگی اور نجی مسئلے پر گفتگو تھی۔ عائشہ کی آواز بلند ہو گئی، اتنے میں ابو بکر ادھر آ نکلے۔ اپنی لخت جگر کو بلند (اور قدرے تلخ) لہجے میں گفتگوکرتے دیکھا تو طیش میں آ گئے اور گرج کر کہا:

ہائیں تو رسول اللہ کے سامنے آواز اونچی کرتی ہے۔

پھر ان کو طمانچہ مارنے کے لیے ہاتھ بھی بلند کر دیا لیکن حضور آڑے آگئے۔

جس روز نبی کریم نے وصال فرمایا صبح کے وقت حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر نماز کی کفیت ملاحظہ فرمانی چاہی۔ ابو بکر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو چکے تھے انھوں نے سمجھا کہ حضور تشریف لانا چاہتے ہیں فوراً پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا لیکن آپ ﷺ نے اشارہ سے منع فرمایا اور پردہ گرا دیا۔

ماں باپ کا ادب

ابو بکر صدیق اپنے والدین کا بہت احترام کرتے تھے۔ تمام عمر دل و جان سے ان کی خدمت کرتے رہے۔ جس روز آپ کو کفار نے بہت مار ماری اور آپ موت کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جب ہوش آیا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کی خواہش ظاہر کی آپ کی والدہ ام الخیر سلمی بنت صخر اور فاطمہ بنت خطاب کے سہارے حضور کی بارگاہ میں پہنچے اور حضور سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ میری والدہ کے لیے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی انھیں ہدایت نصیب فرمائے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ حضور کی دعا سے آپ کی والدہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔ آپ کے والد ابو قحافہ نے فتح مکہ تک اسلام قبول نہیں کیا۔ فتح مکہ کے دن آپ اپنے والد ماجد کو حضور کی خدمت میں لائے۔ حضور نے انھیں اسلام کی تلقین کی اور وہ اسی وقت شرف اسلام سے بہرور ہو گئے۔

بیویوں سے حسن سلوک

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں کوئی شخص کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک اپنی بیوی (بیویوں) سے اچھا سلوک نہ کرے۔ ابو بکر صدیق اپنی بیویوں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے اور آپ کی خانگی زندگی بہت خوشگوار تھی۔ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر تمام بیویوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتے تھے اور ان کے حقوق پورا کرنے میں عدل کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے۔

مریضوں کی عیادت

مریضوں کی عیادت کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ ابو بکر صدیق کبھی محمد کے ساتھ اور کبھی تنہا مریضوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور ان کی دلجوئی کرتے تھے۔ صحیح بخاری ہے میں ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری بیمار ہوئے تو ابو بکر رسول اللہ کے ساتھ پیادہ بنو سلمہ کے محلے گئے اور جابر کی گھر جا کر ان کی عیادت کی۔

تعزیت

انتقال کرنے والوں کے اعزہ و اقارب کے پاس جا کر ان کو صبر کی تلقین کرنا اور تسلی دینا سنت نبوی ہے۔ ابو بکر صدیق اکثر غمژدہ خاندانوں میں تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ حضور کے وصال نے ان کو سخت غمژدہ کر دیا تھا لیکن پھر بھی ام ایمن کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لے گئے جو بچپن میں حضور کو کھلائی تھیں اور آپ ان کو امی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ مشہور صحابی عبد اللہ بن سہیل جنگ یمامہ میں شہید ہو گئے۔ جب ابو بکر مکہ گئے تو ان کے والد سہیل بن عمرو کے پاس جا کر ان کی تعزیت کی۔

بخل سے نفرت

ایک مرتبہ بحرین سے مال آیا۔ ابو بکر صدیق نے اسے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کیا تو جابر بن عبد اللہ انصاری اپنے حصے سے مطمن نہیں ہوئے اور ان کے منہ سے نکل گیا: آپ مجھے مال دینے میں بخل کرتے ہیں۔ ابو بکر نے ان کی بات سن کر تین مرتبہ فرمایا: تم کہتے ہو کہ میں بخل کرتا ہوں؟ بھلا بخل سے زیادہ برا کوئی مرض ہو سکتا ہے۔ جب جابر نے بتایا کہ مجھ کو محمد نے وفات سے پہلے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تمھیں مال کے تین آبخورے بھر کر دوں گا تو ابو بکر نے انھیں تین آبخورے بھر کر دیے ان میں پندرہ سو سکے آئے۔

خوش طبعی

باہمہ متانت و وقار ابو بکر صدیق میں خوش طبعی اور مزاج کی حس بھی موجود تھی۔ ایک مرتبہ ابو بکر صدیق عصر کی نماز مسجد نبوی میں پڑھ کر چلے آ رہے تھے، آپ کی ایک جانب علی بن ابی طالب تھے۔ اس اثناء میں ان کا گذر حسن بن علی کے پاس سے ہوا جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ابو بکر صدیق نے جلدی سے انھیں اٹھایا اور اپنے کندھے پر سوار کر لیا اور بار بار یہ جملہ ارشاد فرمانے لگے:

میرا باپ فدا ہو، یہ حسن نبی ﷺ کے مشابہ ہے، علی کے مشابہ نہیں ہے

علی مسکرا رہے تھے۔

پریشان حال رہنا پسند نہیں

ابو بکر صدیق اگرچہ راہ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے تھے اور آپ کی بود و باش، لباس اور غذا بھی بہت سادہ تھی لیکن آپ کو تقشف پسند نہیں تھا۔ تجارت سے خوب کماتے تھے اور جو آمدنی ہوتی تھی راہ خدا میں دینے کے علاوہ اس کو اپنی ضروریات زندگی پر بھی صرف کرتے تھے۔ گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادم اور ایک روایت کے مطابق خادمہ بھی تھی۔ باہر سے کوئی وزنی چیز لانی ہوتی تو کسی سے اٹھوا کر لاتے۔ ایک دفعہ عازب انصاری سے اونٹ کا پلان خریدا تو ان سے کہا، اپنے لڑکے کو میرے ساتھ کر دو وہ اس کو اٹھا کر میرے ہاں چھوڑ آئے۔ آپ سواری کے جانور بھی رکھتے تھے۔ دو مکان تھے، ایک مسجد نبوی سے متصل اور دوسرا مدینہ منورہ کے نواحی محلہ سخ میں واقع تھا جو دو منزلہ مکان تھا۔

خود داری

سیدنا ابو بکر صدیق انتہا درجے کے خود دار تھے۔ آپ اگرچہ دوسروں کے معمولی سے معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر دیتے تھے لیکن اپنا کام کسی دوسرے سے لینے سے اجتناب کرتے تھے اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ اپنا ہر کام خود کریں۔ اگر اونٹ پر سوار ہو کر کہیں جا رہے ہوتے اور اونٹ کی نکیل ہاتھ سے گر پڑتی تو خود اتر کر نکیل اٹھاتے۔ ایک دفعہ لوگوں نے عرض کی: آپ خود کیوں اتنی زحمت اٹھاتے ہیں ہم سے اس معمولی کام کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ فرمایا:

میرے حبیب ﷺ کا مجھ کو حکم ہے کہ میں لوگوں سے کسی شے کا سوال نہ کروں

سفر میں کسی سے کوئی کھانے پینے کی چیز لینے کی ضرورت پڑ جاتی تو اس کا معاوضہ دیتے۔

نظافت

مزاج میں بے حد نظافت تھی۔ صفائی اور طہارت کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہجرت کے سفر میں ایک چٹان کے سایہ میں کچھ دیر کے لیے قیام کیا تو انھوں نے پہلے اپنے ہاتھ سے زمین ہموار کی پھر اس پر پوستین بچھا کر حضور سے عرض سے کی: یا رسول اللہ آپ آرام فرمائیں میں آس پاس کی زمین صاف کیے دیتا ہوں۔ حضور سو گئے اور آپ زمین صاف کرنے لگے۔ اتنے میں ایک چرواہا بکریوں کا گلہ لیے وہاں آ گیا۔ ابو بکر نے اس سے دودھ کی فرمائش کی۔ جب وہ دوہنے لگا تو آپ نے چرواہے سے کہا پہلے بکری کے تھن گرد سے صاف کر لو۔ جب اس نے کر لیے تو پھر فرمایا اب اپنے ہاتھ صاف کرو۔ جب اس نے ہاتھ صاف کر لیے تو تب اس کو دوہنے کی اجازت دی۔ دودھ، پانی وغیرہ ڈالنے کے لیے آپ نے جو برتن ساتھ لیا تھا اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا تھا تا کہ برتن کے اندر گرد و ریت وغیرہ نہ جائے۔

بے تعصبی

سیدنا صدیق اکبر کی طبیعت میں کسی قسم کے تعصب یا قومی عصبیت کا شائبہ تک نہ تھا۔ غزوہ حنین میں ایک کافر کو ابو قتادہ انصاری نے قتل کیا تھا لیکن اس کے سامان پر ایک قریشی نے قبضہ کر لیا تھا۔ جب ابو قتادہ نے سامان کا مطالبہ کیا تو ابو بکر صدیق نے اس کی حمایت کی اور فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کا شیر مال سے محروم رہے اور قریش کی ایک چڑیا مفت میں مزے اڑائے۔ حضور نے فرمایا، ابو بکر نے سچ کہا اور مقتول کافر کا سامان ابو قتادہ کو مل گیا۔ شام پر لشکر کشی ہوئی تو مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادات کے لیے وقف کر رکھا ہے ان سے کوئی تعرص نہ کرنا۔ دشمن کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا اور کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا۔ وفات سے قبل اپنا جانشین نامزد کرنے لگے تو اپنے قبیلے بنو تمیم کو بالکل نظر انداز کر کے عمر فاروق کو نامزد کیا۔ (عمر فاروق بنو عدی سے تھے)

اولاد سے محبت

صدیق اکبر کو اپنی اولاد سے بے حد محبت تھی اور آپ اپنے قول و عمل سے اکثر اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ آپ کے بیٹے عبد الرحمن بن ابی بکر الگ مکان رکھتے تھے لیکن ان کے گھر کا خرچ آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی اسماء بنت ابی بکر کی شادی زبیر ابن عوام سے ہوئی تھی۔ زبیر شروع شروع میں بہت تنگ دست تھے، گھر میں کوئی خادم یا خادمہ کی مقدرت نہ تھی اس لیے اسماء کو بہت کام کرنا پڑتا تھا پانی بھرتی، ڈول سیتی تھیں اور کافی فاصلے سے کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لاتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کو چارہ بھی کھلاتی تھیں۔ ابو بکر صدیق کو ان کے حالات کا علم ہوا تو انھوں نے ایک خادم بھیج دیا، جو گھوڑے کو چارہ کھلاتا اور اس کو دیکھ بھال کرتا تھا۔ اسماء کہتی ہیں کہ خادم بھیج کر گویا ابا جان نے مجھ کو آزاد کر دیا۔ ہجرت کے شروع میں مہاجرین کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور آپ بھی بخار میں مبتلا ہو گئے اور عائشہ کو بھی بخار آنے لگا۔ براء بن غازب انصاری سے روایت ہے کہ اسی زمانے میں ابو بکر نے میرے والد سے اونٹ کا کجادہ خریدا اور میں اس کو اٹھا کر ابو بکر کے گھر لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ عائشہ کو بخار ہے اور وہ بستر پر ہیں۔ ابو بکر ان کے پاس گئے۔ جھک کر ان کے رخسار کو چوما اور پوچھا: بیٹی تمھارا کیا حال ہے؟ عائشہ کے نام نواح مدینہ میں ایک جاگیر ہبہ کر دی تھی لیکن وفات سے پہلے خیال آیا کہ اس سے دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہو گی۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ سے فرمایا: بیٹی تونگری اور غریبی دونوں حالتوں میں تم مجھ کو بہت محبوب رہی ہو میں چاہتا ہوں کہ جو جاگیر نے تمھیں دی ہے اس میں اپنے بہن بھائیوں کو بھی شریک کر لو۔ سعادت مند بیٹی نے کہا: بسر و چشم۔ چنانچہ پدر گرامی کی وفات کے بعد انھوں نے حسب وصیت وہ جاگیر تقسیم کر دی۔ عبد اللہ بن ابی بکر کو اپنی بیوی عاتکہ سے نہایت محبت تھی اور ان کی وجہ سے انھوں نے جہاد پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ ابو بکر صدیق یہ برداشت نہ کر سکے تھے۔ انھوں نے عبد اللہ کو حکم دیا کہ بیوی کو طلاق دے دو۔ انھوں نے حکم کی تعمیل تو کر دی لیکن عاتکہ کے فراق میں بڑے پردرد اشعار کہے۔ ابو بکر کے کانوں تک یہ اشعار پہنچے ان کا دل پسیج گیا اور انھوں نے عبد اللہ کو رجعت کرنے کی اجازت دے دی۔

بچوں سے پیار

جس طرح سرور عالم ﷺ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اس طرح ابو بکر صدیق بھی بچوں پر بہت شفیق تھے اور اس میں آپ اپنے اور بیگانے کی کوئی تمیز نہ تھی۔ بچے بھی آپ سے اس قدر مانوس ہو گئے تھے کہ جب آپ محلے میں داخل ہوتے تو بچے بابا بابا کہہ کر دوڑتے آتے اور آپ سے لپٹ جاتے۔ ابو بکر صدیق ہر ایک سے پیار کرتے، کسی کو گود میں اٹھاتے، کسی کو کندھے پر بٹھاتے اور کسی کا منہ اور سر چومتے۔ مجاہدین کو جہاد پر روانہ کرنے لگتے تو ان کو سخت تاکید کرتے خبردار کسی بچے کو نہ مارنا۔ غزوہ احد کے بعد ایک صحابی ابو بکر صدیق سے ملنے گئے تو دیکھا کہ آپ لیٹے ہوئے ہیں اور ایک ننھی بچی کو سینے پر بیٹھا رکھا ہے اور نہایت محبت سے بار بار اس کو چوم رہے تھے او پیار کر رہے تھے۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: اے ابو بکر یہ بچی کون ہے؟ فرمایا: یہ سعد بن ربیع انصاری کی بیٹی ہے جسے خدا تعالی نے بہت بلند مرتبہ عطا کیا، اس نے (غزوہ احد میں) رسول اللہ پر اپنی جان قربان کر دی اور قیامت کے دن وہ حضور کے نقیبوں میں شمار کیے جائے گا۔ یہی بچی ابو بکر صدیق کے اوائل خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے ازراہ محبت چادر بچھا دی اور بڑی شفقت سے ان کو اس پر بٹھایا۔[198]

خاندان نبوت سے محبت

یزید بن حبان فرماتے ہیں کہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمرو بن مسلم زید بن الارقم کے پاس گئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔ حصین بن سبرہ نے زید بن الارقم سے عرض کیا: اے زید آپ نے بہت کچھ بھلائیاں دیکھی ہیں اور حضور نبی کریم کی زیارت باسعادت سے مشرف ہوئے ہیں۔ آپ ہم سے حضور نبی کی کوئی حدیث بیان کریں۔ زید نے فرمایا کہ ایک روز نبی کریم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

اے لوگو! میں بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد بلانے کے لیے آئے اور میں اس کا کہا مان لو اور میں تم لوگوں میں دو بھاری بھر کم چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ان میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں تم لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اگر تم اللہ عزوجل کی اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو تم فلاح پا جاؤ گے اور دوسری چیز میرے گھر والے ہیں میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔

حصین نے پوچھا کہ زید حضور کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات اہل بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید نے فرمایا: نبی کریم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں اور اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام کر دیا گیا۔ حصین نے پوچھا کہ وہ کون ہیں جن پر صدقہ کا مال حرام ہے۔ زید نے فرمایا وہ علی بن ابی طالب، عقیل بن ابی طالب، جعفر بن ابی طالب، عباس بن عبد المطلب اور ان کی اولادیں ان سب پر صدقہ کا مال لینا حرام ہے۔

  • بخاری شریف میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ ابو بکر کو میرے اہل بیت میں خیال کرو۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے اور آپ کے پہلو میں عمر فاروق اور ابو بکر صدیق موجود تھے۔ اس دوران میں حضور کے چچا جان عباس محفل میں تشریف لائے۔ ابو بکر نے ان کے لیے اپنی جگہ خالی کر دی اور سیدنا عباس ابو بکر صدیق اور نبی کریم کے درمیان میں بیٹھ گئے۔ حضور نے ابو بکر صدیق کے اس فعل کے متعلق ارشاد فرمایا:اہل فضل کی فضیلت اہل فضل ہی جانتا ہے۔ پھر حضور اپنے چچا جان کی جانب متوجہ ہو گئے اور اس دوران میں آپ کی آواز نہایت پست ہو گئی۔ ابو بکر نے عمر سے فرمایا کہ حضور کو کیا کچھ تکلیف ہو گئی ہے جو آپ کی آواز نہایت پست ہو گئی۔ عمر نے نفی میں سر ہلا دیا۔ جب سیدنا عباس چلے گئے تو حضور نے فرمایا:ابو بکر! جس طرح تم لوگوں کو میرے سامنے آوازیں پست کرنے کا حکم ہے اس طرح مجھے عباس کے سامنے اپنی آواز پست کرنے کا حکم ہے۔[199] سیدنا صدیق اکبر سرور عالم ﷺ کے عزیز و اقارب سے بہت محبت کرتے تھے اور حضور سے تعلق کی بنا پر ان کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے۔ وہ ان اصحاب رسول میں سے تھے جنھوں نے علی المرتضی کو رسول اللہ سے سیدہ فاطمہ کا رشتہ مانگنے کی ترغیب دی۔ جب راستے میں علی و فاطمہ کے بچے مل جاتے تو آپ انھیں گود میں اٹھا لیتے تھے۔ ایک مرتبہ خالد بن ولید نے عراق سے مال غنیمت بھیجا۔ اس میں ایک قیمتی طیلسان بھی تھا جو آپ کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا تھا۔ ابو بکر نے وہ طیلسان سیدنا حسین بن علی کو تحفہ کے طور پر دے دیا۔ جب فاطمہ بیمار ہو گئیں تو آپ ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس کو فاطمہ کی تیمارداری کی ہدایت کی۔ چنانچہ فاطمہ کے آخری دنوں میں انھوں نے تیمارداری کی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اہل بیت کے بارے میں ابو بکر صدیق کا یہ طرز عمل تھا:

اہل بیت کے متعلق محمد ﷺ کا لحاظ کرو

وہ خود بھی اس پر عمل کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔ چونکہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں سیدنا صدیق اکبر ان کا بھی بہت احترام اور لحاظ کرتے تھے یہاں تک کے اپنی صاحبزادی عائشہ صدیقہ کو بھی ام المومنین کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

خشیت الہی

خشیت الہی جو تمام عبادات و اعمال کی روح ہے اس کا غلبہ ابو بکر صدیق پر اس قدر تھا کہ آپ ہر وقت محاسبہ آخرت کے خوف سے لزراں و ترساں رہتے تھے۔ بات بات پر سرد آہیں بھرتے تھے اس لیے آپ کا لقب اواہ منیب یعنی بہت آہیں بھرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا پڑھ گیا تھا۔ کبھی کسی سر سبز درخت کی طرف دیکھتے تو فرماتے: کاش میں درخت ہوتا تا کہ محاسبہ آخرت سے نجات پا جاتا۔[200]

سلام کرنے میں پہل

ابو بکر صدیق کی عادت تھی کہ جب باہر نکلتے تو جہاں تک ہو سکتا تھا لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کے سلام کا جواب اضافہ کر کے دیتا تو آپ دوبارہ اس میں مزید اضافہ کر کے دوبارہ اسلام کرتے تھے۔ عمر فاروق سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اور ابو بکر صدیق سواری پر بیٹھ کر کہیں جا رہے تھے۔ ہمیں راستے میں کچھ لوگ ملے۔ ابو بکر صدیق نے کہا: اسلام علیکم۔ ان لوگوں نے جواب دیا: اسلام علیکم ورحمتہ اللہ پھر ابو بکر صدیق نے کہا: اسلام علیکم ورحمتہ اللہ ان لوگوں نے جواب دیا: اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ابو بکر صدیق نے فرمایا: آج یہ لوگ ہم سے بڑھ گئے۔

توکل علی اللہ

یہ وصف قوت ایمان کا عکاس ہوتا ہے اور ابو بکر صدیق میں یہ وصف کامل درجہ موجود تھا۔ آپ ابن دغنہ کی پناہ میں تھے اور اس شرط پر کہ آپ اندر مکان میں اپنی عبادت کریں گے لیکن جب آپ نے اپنے صحن میں مسجد بنا لی تو قریش مکہ نے ابن دغنہ سے شکایت کی جس پر ابن دغنہ نے کہا کہ ابو بکر شرط پر عمل کرو نہیں تو میں پناہ واپس لیتا ہو۔ ابو بکر صدیق نے بے دھڑک جواب دیا کہ تم کو اپنی پناہ مبارک ہو میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ آپ کی زندگی ایسی مشالوں سے بھری پڑی ہے جب حالات فیصلے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن آپ نے اللہ پر توکل کر کے وہ فیصلے کیے جس نے آپ کا اللہ پر توکل کا اظہار ظاہر کرتا ہے۔ ان میں جیش اسامہ کی روانگی اور فتنہ ارتداد اس کی مثالیں ہیں۔[201]

مہمان نوازی

مہمان کو خوش دلی اور مسرت سے خوش آمدید کہنا اور اس کی خدمت کرنا ایک نہایت اعلیٰ اخلاقی وصف ہے۔ ابو بکر صدیق میں یہ وصف کمال درجہ تک پہنچا ہوا تھا۔ آپ نہ صرف اصحاب صفہ کو وقتاً فوقتاً اپنا مہمان بناتے رہتے تھے بلکہ اور بھی جو مہمان آپ کے گھر آ جاتا اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ ابو زر غفاری جب پہلے پہل اپنے وطن سے مکہ مکرمہ آئے اور سرور دو عالم ﷺ کا شرف نیاز حاصل کیا تو بارگاہ رسالت میں ابو بکر بھی موجود تھے۔ آپ نے حضور سے درخواست کی کہ آج کی رات مجھے ابو زر کو اپنا مہمان بنانے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ حضور نے اسے منظور فرما لیا اور رات کو خود ابو زر کو ساتھ لے کر ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے۔ ابو بکر نے مہمانان عزیز کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ کھانے کے علاوہ طائف کے منقے بھی پیش کیے۔

انکسار اور تواضع

سیدنا ابو بکر صدیق نہایت منکسر المزاج اور متواضع تھے۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ اپنی بکریاں خود چرا لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر اہل محلہ کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے۔ اگرچہ محمد کی جگہ پر آپ کے سوا کوئی امامت کے لیے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا لیکن ہجرت کے بعد قیام قباء کے دوران میں سالم موالی ابو حذیفہ کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو محلہ کہ ایک لڑکی کے منہ سے نکل گیا کہ آپ اب ہماری بکریاں کیوں دوھنے لگے؟ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ضرور دوہوں گا مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ خلافت میرے ذاتی معمالات میں فرق نہ ڈالے گی۔ خلافت کے بعد جب آپ پہلی مرتبہ عمرہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ سب کو علاحدہ کر دیا اور فرمایا اپنی اپنی راہ چلو۔

ایثار

ایثار ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے۔ اس کا درجہ سخاوت سے بڑھ کر ہے۔ سخاوت یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد مال یا وقت دوسروں کے لیے صرف کیا جائے مگر ایثار یہ ہے کہ جو مال اپنی ضرورت کے لیے ہو اس مال کو دوسروں کی ضرورت کے لیے اپنے آپ پر دوسرے کو ترجیح دی جائے۔ ابو بکر صدیق مجسمہ ایثار تھے۔ آپ خواہ کسی حال میں ہوتے دوسروں کی حاجتیں پوری کرنے سے کھی دریغ نہ کرتے۔ ایثار کا دوسرا نام بے نفسی ہے۔ آپ کے ایثار کی سب سے بڑی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جب سقیفہ بنو ساعدہ میں مسئلہ استخلاف پر تقریر کی تو خلافت کے لیے عمر فاروق اور ابو عبیدہ ابن جراح کا نام پیش کر دیا اور اپنے آپ کو خلافت سے بالکل الگ کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے آپ کو ہی بار خلافت اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

انفاق فی سبیل اللہ

اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے اور قرآن حکیم میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ابو بکر صدیق نے اپنا تمام مال راہ حق میں وقف کر دیا تھا۔ آپ نے انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی مثالیں قائم کی کہ کوئی دوسرا آپ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ قبول اسلام کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم نقد موجود تھے۔ آپ نے یہ تمام مال راہ حق میں صرف کر دیا جس سے آپ نے کتنے ہی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو ان کے مشرک آقاؤں کے پنجہ ستم سے چھڑایا۔ کئی بار خطیر رقم دینی اور رسول اللہ کی ذاتی ضروریات کے لیے حضور کی خدمت اقدس میں پیش کیں۔ اس کا اعتراف حضور نے ان الفاظ میں فرمایا:

ابو بکر کے مال سے زیادہ کسی کے مال نے مجھے نفع نہیں پہنچایا

اس سلسلے میں حضور کا یہ ارشاد بھی نقل ہوا ہے

جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابو بکر سے زیادہ کسی کا احسان نہیں

ابو بکر صدیق مختلف صورتوں میں اپنا مال راہ حق میں لٹاتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں غریبوں، یتیموں، متحاجوں اور قرابت داروں کی مدد بھی کرتے تھے۔ آپ کے انفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ زندگی کے آخری لمحوں تک جاری رہا۔[202]

عزم و ہمت

جسمانی لحاظ سے سیدنا ابو بکر صدیق دیکھنے میں بہت کمزور معلوم ہوتے تھے۔ منحنی جسم، کمر میں قدرے خم، چہرے کی ہڈیاں نمایاں، پنڈلیوں اور رانوں پر بہت کم گوشت ---- لیکن آپ کے سینے میں فولاد کا دل تھا قوت ایمانی نے آپ کو عرب کا مضبوط ترین انسان بنا دیا تھا۔ آپ بے مثال عزم و ہمت کے مالک تھے جس کی بلندی کے سامنے سر بفلک پہاڑوں کی بلندی منہ چھپاتی تھی۔ یہ آپ کی ہمت بلند ہی تھی کہ آپ نے ایسے وقت میں آگے بڑھ کر لوائے توحید کو تھاما جب ایسا کرنا ہولناک خطرات کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ آپ سفر ہجرت کے پر خطر سفر میں رسول اکرم ﷺ کے رفیق بنے۔ غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور حضور نے صحابہ سے مشورہ کیا تو صدیق اکبر نے سب سے پہلے کھڑے ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں راہ حق میں قربان کر دیں گے۔ لڑائی کے آغاز سے پہلے تن تنہا حضور کی حفاظت کے لیے شمشیر بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم کے وصال کے بعد سارا عرب فتنہ ارتداد میں مبتلا ہو گیا اور عمر فاروق سمیت تمام صحابہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے صدیق اکبر کو مرتدین سے نرمی کا برتاؤ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن صدیق اکبر کوہ استقامت بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ مشورہ رد کر کے پوری قوت سے مشرکین کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس فتنہ کو کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ غرض صدیق اکبر کی کتاب زندگی کا ایک ایک صفحہ آپ کے بے مثال عزم و ہمت کا آئینہ دار ہے۔

ہمت او کِشت ملت را چوں ابر

ثانی اسلام و غار و بدر و قبر (علامہ محمد اقبال)

مردم شناسی

مردم شناسی ایک اعلیٰ درجے کا وصف ہے جو ابو بکر صدیق میں درجہ اتم موجود تھا۔ رب العزت نے آپ کو کمال درجے کی بصیرت اور نگاہ حقیقت شناسی آپ کو عطا کی تھی۔ جس طرح آپ کو علم الانساب کے ماہر تھے اسی طرح ہر شخص کی قابلیت اور صلاحیتوں کو چانچنے کا ملکہ بھی رکھتے تھے۔ آپ نے ملکی نظم و نسق کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے جن اصحاب کا انتخاب کیا وہ اپنے متعلقہ شعبے کی ذمہ داریاں اٹھانے کے ہر لحاظ سے اہل تھے۔ مرکز خلافت میں آپ نے عمر فاروق کو اپنا مشیر خاص اور قاضی حکومت بنایا تھا۔ عمر سے بہتر انتخاب ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ عمر فاروق تدبر و فراست، حکمت و دانش، ذہانت و فطانت اور فضل و کمال کے اعتبار سے اپنا جواب آپ تھے۔ مہتمم خزانہ ابو عبیدہ ابن جراح تھے جن کو بارگاہ رسالت سے امین الامت کا لقب مرحمت ہوا تھا۔ کُتاب اور ارباب افتاء میں عثمان ذوالنورین، علی کرم اللہ وجہہ، عبد اللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل اور زید بن ثابت جیسے باصلاحیت صحابہ شامل تھے۔ مختلف صوبوں کے عمال بھی بڑے بیدار مغز اور ذہین اصحاب تھے۔ ان میں سعد بن ابی وقاص، ابو موسی اشعری، زیاد بن لبید، معاذ بن جبل، عیاض بن غنم اور حذیفہ بن محصن جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ خلیفتہ الرسول نے جس طرح انتظامیہ میں بہترین آدمیوں کا تقرر کیا تھا اسی طرح فوج کے لیے بھی بہترین افراد سپہ سلار منتخب کیے تھے جیسے خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ، ہاشم بن عتبہ، مثنی بن حارث، عدی بن حاتم، ضرار بن الازور اور قباث بن اشیم وغیرہ مختصر یہ کہ مختلف انتظامی اور فوجی عہدوں کے لیے صدیق اکبر کا حسن انتخاب ان کی مردم شناسی کا بین ثبوت تھا۔[203]

فضائل و مناقب

قرآن مجید میں

سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق تمام صحابہ سے افضل ہیں اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ابو بکر بوجہ کثرت صلوة و صیام تم سے افضل نہیں بلکہ اس طبعی محبت کی وجہ سے افضل ہیں جو ان کے قلب مبارک میں میرے لیے ہے۔ سورہ توبہ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بے شک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرمانے لگے غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے

اللہ عزوجل کے اس ارشاد میں واضح طور پر ابو بکر صدیق کے بارے میں ذکر ہے کیونکہ یار غار اور نبی کریم کے ساتھ ہجرت کے سفر میں رفیق آپ ہی تھے۔

سورہ اللیل میں اللہ عزوجل نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

اس پر کسی کا احسان نہ تھا کہ بدلہ چکایا جا رہا ہو یہ فعل تو بس اللہ کی خوشنودی کے لیے ہے اور وہ عنقریب راضی ہو جائے گا

حسن بصری اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق نے بلال کو خرید کر آزاد فرمایا تو مشرکین نے کہا کہ ضرور بلال کا کوئی احسان ابو بکر پر ہو گا جس کا بدلہ ابو بکر نے بلال کو آزاد کر کے چکایا ہے۔ اللہ تعالی نے سیدنا ابو بکر شان میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ انھوں نے بغیر کسی احسان کے صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے سیدنا بلال کو خرید کر آزاد فرمایا تھا۔

اللہ تعالی نے سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا:

اللہ نے اس پر طمانیت نازل فرمائی

عبد اللہ بن عباس اس آیت کے بارے میں بتایا ہے کہ اللہ کی جانب سے جو طمانیت نازل فرمائی گئی وہ سیدنا ابو بکر صدیق کے لیے تھی کیونکہ نبی کریم پر تو اللہ تعالی کی طمانیت ہمیشہ سے تھی۔[204]

حدیث شریف میں

حذیفہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اطراف و اکناف میں لوگوں کے فرائض و سنن کی تعلیم دینے کی غرض سے اپنے آدمی بھیجوں جیسا کہ عیسی اپنے حواریوں کو بھیجا کرتے تھے۔ کسی نے عرض کیا: آپ ابو بکر اور عمر کو کیوں نہیں بھیجتے۔ ارشاد فرمایا: میں ان دونوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا یہ دین کے کان اور آنکھیں ہیں۔[205]

آن ﷺ اپنے رفقا کے درمیان میں پروقار اور باعظمت طریقہ سے تشریف فرما تھے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی ابو بکر پر رحم فرمائے، انھوں نے اپنی بیٹی سے میری شادی کی، دارہجرت میرے ہمراہ گئے اور بلال کو غلامی سے آزادی دلائی اور اللہ تعالی عمر پر رحم فرمائے، وہ حق بات کہتا ہے، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو اور ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالی عثمان پر رحم فرمائے، جن سے فرشتے حیا کرتے ہیں اور اللہ تعالی علی پر رحم فرمائے، اے اللہ! جہاں یہ جائیں، حق کو ان کے ساتھ ہی پھیر دے۔[206]

سیدنا علی المرتضی سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ابو بکر اور عمر سے زیادہ افضل، متقی اور عدل و انصاف والا کوئی شخص نہیں ہے۔

ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ محمد نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جہاں سے میری امت جنت میں داخل ہو گی۔ جب حضور نے یہ بیان فرمایا تو سیدنا ابو بکر نے فرمایا کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا اور وہ دروازہ دیکھتا۔ نبی کریم نے ابو بکر کی بات سن کر فرمایا: ابو بکر! میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں جاؤ گے۔

سیدنا علی المرتضی سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا: اگر سیدنا ابو بکر صدیق نہ ہوتے تو اسلام جاتا رہتا۔

امام احمد نے مسند احمد میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جنت کے پرندے ---؟ سیدنا ابو بکر نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا جنت کے پرندے نرم و نازک ہوں گے؟ رسول اکرم نے فرمایا: بے شک وہ کھانے اور ذائقے میں اس سے بھی نرم و نازک ہوں گے اور مجھے قوی امید ہے کہ ان کو کھانے والوں میں تم بھی شامل ہو گے۔

ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کرے گا اسے جنت کے دروازوں سے آواز دی جاتی ہے۔ جو شخص نمازی ہوتا ہے اسے نماز والے دروازے سے پکارا جاتا ہے، جو مجاہد ہوتا ہے اسے جہاد والے دروازے سے پکارا جاتا ہے، جو روزہ دار ہوتا ہے اسے باب الصیام سے پکارا جاتا ہے، جو صدقات و خیرات کرتا ہے اسے باب الصدقات سے پکارا جاتا ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے نبی پاک سے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا کوئی ایسا شخص بھی ہو گا جسے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا؟ حضور اکرم نے فرمایا: ابو بکر! مجھے یقین ہے وہ شخص تم ہو جسے تم دروازوں سے پکارا جائے گا۔

مسند امام احمد میں اسناد کے ساتھ منقول ہے کہ علی المرتضی نے فرمایا کہ رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے بعد کسے امیر بنایا جائے؟ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: ابو بکر کو، تم اسے زمین میں امین اور زاہد اور آخرت کی جانب رغبت کرنے والا پاؤ گے۔

سلمہ بن اکوع روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا: انبیا کو مستشنی کر کے دوسرے انسانوں میں سب سے بہترین ابو بکر ہیں۔

جابر بن عبد اللہ سے منقول ہے کہ کچھ مہاجرین و انصار نبی کریم کے حجرہ مبارک کے دروازے پر کھڑے ایک دوسرے کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے۔ حضور ان کی آوازیں سن کر باہر آئے اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم فضائل کا ذکر کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر ابو بکر پر کسی کو ترجیح نہ دینا کیونکہ دنیا و آخرت میں وہ تم سے بہترین ہیں۔

ابو لدرداء سے مروی ہے کہ محمد نے مجھ سے فرمایا: اے ابو لدرداء! تم اس شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے انبیا و رسل کو چھوڑ کر ابو بکر سے بہتر کسی آدمی پر سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب۔

سالم بن عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا: میں نے خواب دیکھا ہے کہ دودھ جلد اور گوشت کے درمیان میری رگوں میں جاری ہے پھر اس میں سے کچھ دودھ بچ گیا جو میں نے ابو بکر کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے حضور کی بات سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ علم ہے جو آپ کو اللہ نے عطا کیا اور جب آپ علم سے سیر ہو گئے تو آپ نے باقی بچا ہوا ابو بکر صدیق کو دے دیا۔ نبی کریم نے صحابہ کی بات سن کر فرمایا: تم نے درست کہا۔

عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ایک مرد جنت میں داخل ہو گا اور جتنے بھی بالا خانے اور گھروں میں رہنے والے ہیں اے مرحبا مرحبا کہہ کر خوش آمدید کہیں گے اور اسے اپنی طرف بلائیں گے۔ ابو بکر صدیق نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس روز اس شخص پر کوئی نقصان نہ ہو گا؟ نبی کریم نے فرمایا: ہاں ابو بکر اور وہ تم ہو گے۔

عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: ابو بکر غار میں بھی میرے ساتھی تھے اور حوض کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوں گے۔

جیش بن خالد روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ابو بکر، عمر، عثمان و عائشہ اللہ عزوجل کی آل ہیں اور علی، حسن، حسین و فاطمہ میری آل ہیں۔ عنقریب روز محشر اللہ میری اور اپنی آل کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ پر جمع فرمائے گا۔

عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ عزوجل نے مجھے اپنے نور سے پیدا فرمایا اور ابو بکر صدیق کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور عمر فاروق کو ابو بکر صدیق کے نور سے پیدا فرمایا اور عمر فاروق کے نور سے کل کائنات کے مومنین پیدا فرمائے۔

معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ عزوجل آسمان پر اس چیز کو ناپسندیدہ سمجھتا ہے کہ ابو بکر کوئی خطا کریں۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: پہلے آسمان پر اسی ہزار فرشتے ہیں جو اس شخص کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ابو بکر صدیق اور عمر فاروق سے محبت رکھتا ہے دوسرے آسمان پر اسی ہزار فرشتے ایسے ہیں جو اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو ابو بکر صدیق اور عمر فاروق سے بغض رکھتا ہے۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: عنقریب روز محشر ہر شخص کے اعمال کا حساب لیا جائے گا سوائے ابو بکر کے۔

علی المرتضی سے روایت ہے کہ میں حضور نبی کریم کے پاس تشریف فرما تھا کہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق آ حاضر ہوئے۔ حضور نبی کریم نے دونوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں اہل جنت کے بوڑھوں اور جوانوں کے سردار ہیں سوائے انبیا علیہ اسلام کے۔

ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا: میں معراج کی رات فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی گذرا میں نے فرشتوں کے پاس اپنے نام کے ساتھ سیدنا ابو بکر صدیق کے نام کو لکھا دیکھا۔

ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا: ان قوموں کا کیا ہو گا جنھوں نے میرے عہد کو چھوڑ دیا اور میری سیدنا ابو بکر صدیق کے بارے میں وصیت کو ضائع کر دیا حالانکہ وہ میرے نائب اور میرے غار کے ساتھی ہیں۔ اللہ عزوجل ایسی قوم کو میری شفاعت نصیب نہیں فرمائے گا۔

صحابہ کرام کی نظر میں

ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ علی نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمھیں نبی کریم کے بعد سب سے افضل شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: بتایئے۔ علی نے فرمایا: نبی کریم کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا: سیدنا ابو بکر کے بعد سیدنا عمر فاروق سب سے افضل ہیں۔

حسن بصری سے روایت ہے کہ علی نے ارشاد فرمایا: سرور دو عالم نے اپنی علالت کے دوران میں ابو بکر صدیق کو امامت کے لیے بلایا حالانکہ اس وقت میں بالکل تندرست تھا اور وہاں موجود تھا۔ حضور کے اس فیصلے سے ہم تمام صحابہ کرام سمجھ گئے کہ نبی کریم نے ابو بکر صدیق کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔

جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ چند لوگوں نے عمر فاروق سے کہا کہ آپ سب سے زیادہ انصاف پسند اور حق بات کہنے والے اور منافقین کے لیے سب سے زیادہ سخت ہیں۔ ہم نے محمد کے علاوہ کسی کو آپ کی طرح نہیں دیکھا۔ عوف بن مالک جو اس محفل میں موجود تھے ان لوگوں کی یہ بات سن کر کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ بلاشبہ ابو بکر صدیق رسول اللہ کے صحیح جانشین اور اس امت کے بہترین شخص تھے۔ عمر نے جب عوف بن مالک کا کلام سنا تو فرمایا: بے شک! یہ درست ہے۔ اللہ کی قسم! ابو بکر صدیق مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ مہکدار تھے۔

حسن سے مروی ہے کہ عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں کچھ لوگ خفیہ طور پر مقرر کر رکھے تھے جو لوگوں میں گھومتے اور عمر کو اطلاع پہنچاتے۔ ایک مرتبہ ان لوگوں نے سیدنا عمر کو بتایا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ سیدنا ابو بکر سے افضل ہیں۔ آپ ان کی بات سن کر جلال میں آ گئے اور ان لوگوں کو بلا بھیجا۔ جب وہ لوگ حاضر تو آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: اے شریر لوگو! تم مسلمانوں میں فساد پھیلانا چاہتے ہو اور میرے اور ابو بکر صدیق کے درمیان میں تفریق پیدا کرتے ہو۔ جان لو اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے! میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ میرے لیے جنت میں وہ مقام ہوتا جہاں سے میں ابو بکر صدیق کو دیکھتا کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت میں سب سے بہتر شخص ابو بکر ہے۔

ام موسی سے مروی ہے کہ علی المرتضی کو معلوم ہوا کہ ابن سبا ان کو ابو بکر صدیق اور عمر فاروق پر فوقیت دیتا ہے تو آپ نے اس کے قتل کا ارادہ کیا۔ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ اس کو قتل کیوں کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: اس کو قتل کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک ایسی بات کہتا ہے جس سے امت میں فساد کا خطرہ ہے اور ابو بکر صدیق اور عمر فاروق مجھ سے بہتر ہے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے ابن سبا کو شہر بدر کر دیا۔

زیاد بن علاقہ سے روایت ہے کہ عمر فاروق نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ عمر فاروق امت محمدیہ میں حضور نبی کریم کے صحیح جانشین اور سب سے بہتر ہیں۔ عمر فاروق نے اس شخص کو کوڑے سے مارنا شروع کر دیا اور فرمایا: تو جھوٹ کہتا ہے ابو بکر صدیق مجھ سے اور میرے باپ سے، تجھ سے اور تیرے باپ سے بہتر ہیں۔

ابو زناد سے مروی ہے کہ علی المرتضی سے پوچھا گیا کہ مہاجرین و انصار کو کیا ہوا جو انھوں نے ابو بکر صدیق کو آپ پر فوقیت دی اور ان کے دست حق پر بیعت کی۔ علی نے فرمایا: اگر تو قریشی ہے تو اللہ سے معافی مانگ اور اگر مومن اللہ کی پناہ میں نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔ ابو بکر صدیق کو مجھ پر چار باتوں کی وجہ سے فوقیت حاصل تھی۔ اول وہ امام بننے میں مجھ پر سبقت لے گئے، دوم ہجرت کے وقت غار یار بنائے گئے، سوم اسلام کی اشاعت انہی کی وجہ سے ہوئی اور چہارم اللہ عزوجل نے سوائے ابو بکر صدیق کے تمام انسانوں کی مذمت فرمائی۔

سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ابو بکر صدیق اور عمر فاروق کی تنقیص کر رہی تھی۔ میں علی المرتضی کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام ماجرا ان کے گوش گزار کیا۔ علی نے میری بات سن کر فرمایا: اللہ عزوجل کی ان پر لعنت ہو، ابو بکر صدیق اور عمر فاروق، حضور نبی کریم ﷺ کے بھائی اور آپ کے وزیر تھے۔ اس کے بعد علی منبر پر تشریف لے گئے اور ایک نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا:

لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو والدوں کے بارے میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں میرا دامن ملوث نہیں اور جو کچھ لوگ کہتے ہیں میں اس سے بری ہوں۔ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں میں ان پر سزا نافذ کروں گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے بیج پھاڑا اور نفوس پیدا کیے، ان دونوں حضرات کو سوائے مومن پرہیز گار کے اور کوئی دوست نہیں رکھے گا اور ان دونوں حضرات سے سوائے فاجر ناکارہ کے اور کوئی عدوات نہیں برتے گا۔ یہ دونوں حضرات نبی کریم ﷺ کے ساتھ سچائی اور وفاداری کے ساتھ رہے، امر بالمعروف کا حکم دیتے رہے اور نہی عن المنکر بھی کرتے رہے اور ان دونوں نے کھی بھی حضور نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے اخلاق و اطوار کی بناء پر ان کو اپنا دوست رکھا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں ابو بکر صدیق کو امام بنایا اور نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد تمام مسلمانوں نے ان کی ولایت تسلیم کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں حضرات کے بارے میں فرمایا کہ جو ان سے بغض رکھے گا وہ اللہ اور اس کے رسول سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بھی بغض رکھا اور یہ جان لو کہ نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے بہتر ابو بکر صدیق اور پھر عمر فاروق ہیں۔ میں ان الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتا ہوں اللہ عزوجل تمہاری مغفرت فرمائے۔

[207]

روایت حدیث

امام نودی نے شرح تہذیب میں فرمایا ہے کہ ابو بکر صدیق نے رسول اکرم ﷺ سے ایک سو بیالیس حدیث روایت کی ہیں۔ اس قلت روایت کا سبب باوجود اس کے کہ آپ کو صحبت نبوی میں تقدم کا شرف حاصل ہے یہ ہے کہ آپ رسول اللہ کے بعد بہت کم مدت تک بقید حیات رہے، دوسرا یہ کہ اس وقت تک احادیث کا زیادہ چرچا نہیں تھا، احادیث کی سماعت، ان کا حفظ اور ان کو دوسروں سے حاصل کرنے کا کام تابعین کے عہد مسعود میں بہت زیادہ کوششوں کے ساتھ جاری و ساری ہوا۔

آپ سے احادیث روایت کرنے والے

عمر، عثمان، علی، عبد الرحمن بن عوف، ابن مسعود، حذیفہ، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عمرو، ابن عباس، انس، براء، ابن عاذب، ابو ہریرہ، عقبہ بن الحارث، عبد الرحمن بن ابو بکر، زید بن ابو بکر، عبد اللہ بن مغفل، عقبہ بن عامر الجہمی، عمران بن حصین، ابو برذہ بن سلمی، ابو سعید خدری، ابو موسیٰ اشعری، ابو طفیل اللیشی، جابر بن عبد اللہ اور بلال وہ صحابہ کرام ہیں جنھوں نے ابو بکر صدیق سے احادیث روایت کیں ہیں اور ان میں آپ کی صاحبزادیاں اسماء اور ام المومنین عائشہ صدیقہ بھی شامل ہیں۔ تابیعن کرام میں سے جہنوں نے آپ سے احادیث روایت کی ان میں عمر کے غلام اسلم اور واسط الجبلی شامل ہیں۔

احادیث شریف

ابو بکر صدیق سے مروی کچھ احادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں۔

  1. دریا کا پانی پاک ہے اور اس کا حلال جانور مرنے کے بعد بھی حلال ہے (دار قطنی)
  2. مسواک منہ کو پاک کرتی ہے اور اللہ کی خشنودی کا موجب ہے (امام احمد)
  3. رسول اکرم ﷺ نے بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا پھر وضو نہیں فرمایا اور نماز ادا فرمائی (ابزار و ابو یعلی)
  4. محمد نے نمازی کو مارنے سے منع فرمایا ہے (ابو یعلی و ابزار)
  5. محمد نے جب میرے پیچھے آخری نماز ادا فرمائی تو آپ کے جسم مبارک پر ایک ہی کپڑا تھا (ابو یعلی)
  6. جو شخص نزول قرآن کی اصل صورت میں قرآن پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ وہ ابن ام عبد کی قرات اختیار کرے (امام احمد)
  7. میں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایسی دعا بتا دیجئے جس کو میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا تم یہ دعا پڑھا کرو

اللہم انی طلمت نفسی ظلماً کثیراً ولا یغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرة عندک ولرحمنی انک انت الغفور الرحیم (بخاری و مسلم)

  1. جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں آ گیا تم خدا کے اس معائدہ میں دست اندازی مت کرو جو اس نمازی کو قتل کرے گا تو اللہ اس قاتل کو اوندھے منہ دوزخ میں ڈالے گا۔ (ابن ماجہ)
  2. ہر نبی اپنی امت کے کسی فرد کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد ہی انتقال کرتا ہے۔ (البراز)
  3. گنہگار اگر گناہ کرنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لے تو خداوند تعالی سے مغفرت کا طالب ہو تو خداوند تعالی اس کا گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ (وابن حیان)
  4. اللہ تعالی نبی کی روح اس جگہ قبض فرماتا ہے جہاں اس کو دفن ہونا پسند ہوتا ہے۔ (ترمذی)
  5. اللہ تعالی نے یہود و نصاری پر لعنت فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا (ابو یعلی)
  6. میت پر اس کے پسماندگان کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔ (ابو یعلی)
  7. دوزخ سے پچنے کے لیے کھجور کے ٹکڑے ہی کے برابر خیرات کرو کیونکہ یہ خیرات ٹیڑھے کو سیدھا کرتی ہے، مردے کو عذاب سے بچاتی ہے اور بھوکے کو سیر کرتی ہے۔ (ابو یعلی)
  8. اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ سے کوڑا نیچے گر جاتا اور آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہوتے تو صدیق اونٹنی کو نیچے بیٹھاتے اور نیچے آتے اور کوڑے کو اٹھا لیتے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ہم سے اٹھانے کو کیوں نہیں فرماتے آپ نے جواب دیا کہ میرے محبوب محمد محمد نے مجھے لوگوں سے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (امام محمد)
  9. جب اسماء بنت عمیس سے محمد بن ابو بکر پیدا ہوئے تو محمد نے ان کو حکم دیا کہ حالت نفاس میں غسل کر کے حج و عمرہ میں تکبیر کہیں۔ (البراز و الطبرانی)
  10. رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسا حج افضل ہے تو آپ نے فرمایا جس میں زیادہ تلبیہ کیا جائے اور قربانی کی جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
  11. ابو بکر صدیق نے جب حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا کہ اگر میں رسول اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (درا قطنی)
  12. رسول اکرم ﷺ نے سورہ براة (کے احکام) بھیج کر اہل مکہ کو حکم دیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ برہنہ ہو کر کوئی کعبہ کا طواف کرے۔ (احمد)
  13. میرے مکان اور میرے منبر کے درمیان میں کی زمین کا ٹکڑا جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر جنت کے ایک ٹکڑے پر واقع ہے۔ (ابو یعلی)
  14. چاندی سونا مثل بمثل ہیں اگر کوئی زیادہ لے تو وہ دوزخی ہے (سونے اور چاندی کے لین دین میں برابری ہے، جتنا دے اتنا لے) (ابو یعلی)
  15. مسلمان کو تکلیف دینے والا اور مسلمان کے ساتھ فریب کرنے والا ملعون ہے۔ (ترمذی)
  16. بخیل، بدخواہ، خائن اور ظالم بادشاہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور پہلا شخص جو جنت میں داخل ہو گا وہ غلام ہو گا جس نے اللہ کی اور اپنے آقا کی اطاعت کی (احمد)
  17. غلام کی وراثت (ترکہ) کا حق دار وہ ہے جو اسے آزاد کر دے (ضیا المقدسی)
  18. ہم صدقے کے وارث نہیں ہوتے۔ (بخاری)
  19. نبی کے متروکے کا وہی شخص جائز قابض ہے جو اسی قوم سے اس کا خلیفہ و جانشین بنایا جائے (ابو داؤد)
  20. اپنے نسب میں ذرا سی تبدیلی کرنے والا بھی اللہ تعالی سے کفر کرتا ہے (البراز)
  21. تم اور تمھاری دولت سب کچھ تمھارے والد کا (مال) ہے (حدیث) ابو بکر نے فرمایا کہ اس سے مراد نفقہ ہے (بہیقی)
  22. جس نے اللہ کے راستے میں (جہاد) اپنے قدموں کو غبار آلود کیا اس پر آتش دوزخ حرام ہے (البراز)
  23. مجھے کفاروں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے (بخاری و مسلم وغیر ہما)
  24. اللہ کا بہترین بندہ خاندانی بھائی خالد بن ولید ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، اللہ تعالی نے جسے کافروں اور منافقوں پر شمشیر براں بنا دیا۔ (احمد)
  25. عمر سے بہتر کسی شخص پر آفتاب طلوع نہیں ہوا۔ (ترمذی)
  26. جو مسلمانوں پر والی بنایا گیا وہ اگر کسی ایسے شخص کو لوگوں پر حاکم مقرر کرے جو رعایا کے حقوق کی حفاظت نہ کرے تو ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ تعالی اس کے فرض کو اور عدل کو قبول نہیں فرمائے گا اور اللہ اس کو دوزخ میں ڈال دے گا اور جس نے اللہ کے لیے کسی کی حمایت کی اور پھر بلا سبب وہ اس حمایت سے دستبردار ہو گیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ (احمد)
  27. دو آدمیوں کی موجودگی میں تیسرا اللہ تعالی ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
  28. میری امت میں شرک کا داخلہ چیونٹی کی رفتار سے بھی کم ہو گا۔ (ابو یعلی)
  29. لا الہ الا اللہ اور استغفار ہمیشہ پڑھتے رہا کرو کیونکہ شیطان کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں میں پھنسا کر برباد کر دیا اور لوگ لا الہ الا اللہ اور استغفار کا ورد کر کے مجھے برباد کرتے ہیں۔ اس صورت مِیں مَیں لوگوں کو خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہوں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر گامزن ہیں۔ (ابو یعلی)
  30. جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ لگایا میرے حکم کی تردید کی تو ایسے شخص کا گھر دوزخ ہے۔ (ابو یعلی)
  31. میری امت کے دو گروہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ مرجیہ اور قدریہ (الدار قطنی علل میں)
  32. اللہ تعالی سے اپنی عافیت کی دعا کیا کرو۔ (احمد، نسائئ، ابن ماجہ وغیر ہم)
  33. کسی کام کے آغاز سے پہلے آن ﷺ اس طرح دعا فرماتے، الہی اس کام کو میرے لیے پسند فرما (ترمذی)
  34. وہ جسم جس کی پرورش حرام (مال) سے ہوئی ہے وہ دوزخی ہے۔ اور دوسری حدیث یوں ہے۔ "جس نے حرام غذا کھائی وہ جنت میں نہیں جائے گا"۔ (ابو یعلی)
  35. جسم کا ہر حصہ تیری زبان سے شکایت کرے گا۔ (ابو یعلی)
  36. اللہ تعالی نصف شعبان کی شب میں ہر شخص کی سوائے کافر اور کینہ جو انسان کے، مغفرت فرما دیتا ہے (ابو یعلی)
  37. دجال مشرق میں خراسان سے خروج کرے گا اور اس کے ساتھ دوسری ایسی قومیں ہوں گی جن کا منہ ڈھالوں کی طرح ہو گا۔ (ڈھال جیسا چہرہ رکھنے والے اس کے پیرو ہوں گے) (ترمذی، ابن ماجہ)
  38. ستر ہزار لوگوں کو میں جنت میں داخل کراؤں گا (احمد)
  39. اگر لوگ ایک طرف جائیں اور انصار دوسری طرف جائیں تو میں انصار کے ساتھ رہوں گا۔ (احمد)
  40. قریش اس امت کے امیر ہیں ان کے نیک نیکوں کے اور فاجر فاجروں کے تابع ہیں۔ (احمد)
  41. حضور ﷺ نے انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ ان کے اچھے لوگوں کو قبول کرو اور ان کے بروں سے درگزر کرو! (البراز و طبرانی)
  42. حضور ﷺ نے ارض عمان کی نسبت فرمایا کہ وہاں سمندر کے کنارے عربوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جب میرا ایلچی وہاں گیا تو ان لوگوں نے نہ اس کے تیر مارے اور نہ پتھر (احمد، ابو یعلی)
  43. ایک دن ابو بکر صدیق حسن کے پاس گذرے وہ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، پس آپ نے ان کو اٹھا کر گردن پر بیٹھا لیا اور ابی شیبہ سے فرمایا کہ یہ رسول خدا ﷺ سے زیادہ ملتے جلتے ہیں بہ نسبت اپنے باپ کے (اپنے باپ سے اتنے مشابہ نہیں ہیں جتنے حضور ﷺ سے مشابہ ہیں) (بخاری)

(ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے)۔

  1. حضور نبی اکرم ﷺ اکثر ام ایمن کی زیارت کو تشریف لیجایا کرتے تھے۔ (مسلم)
  2. پانچویں بار اگر چور چوری کرے تو اس کو قتل کر دینا چاہیے۔ (ابو یعلی و دیلمی)
  3. ہم محمد کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضور ﷺ کو ہم نے کسی چیز کو دست مبارک سے ہٹاتے ہوئے پایا لیکن ہم کو وہ چیز دکھائی نہیں دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کس چیز کو ہٹا رہے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا کو ہٹا رہا تھا اور اس کی دراز دستیوں کو۔ (البراز و ابن کثیر)

(دوسری حدیث اسی کا تکملہ ہے جس کا ذکر امام نودی نے کیا ہے)

  1. اہل قرد کو اس وقت تک قتل کرو جب تک ان میں سے کوئی بھی باقی ہے۔ (طبرانی)
  2. گھر بنانے سے پہلے وہاں کی آبادی، ہمسایہ اور وہاں کے راستوں کو دیکھ لو! (دیلمی)
  3. مجھ پر بے حد و بے شمار درود بھیجا کرو کیونکہ میرے مرقد پر اللہ تعالی نے ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے جب میری امت کا کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو مجھ سے وہ فرشتہ کہتا ہے کہ اس وقت فلاں ابن فلاں نے آپ ﷺ پر درود بھیجا ہے۔ (دیلمی)
  4. ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہے اور جمعہ کے دن غسل بھی کفارہ ہے (عقیلی)
  5. جہنم کی گرمی میری امت پر حمام کی گرمی کی طرح ہے (طبرانی)
  6. خود کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ جھوٹ ایمان سے دور کرنے والا ہے (ابن لال) مکارم اخلاق
  7. جنگ بدر میں جو شخص حاضر ہوا (شریک ہوا) اس کو جنت کی بشارت دے دو (دار قطنی)
  8. دین خداوند عالم کا ایک عظیم الشان علم ہے لیکن اس کو اٹھانے کی ایک شخص میں بھی طاقت ہے (دیلمی)
  9. سلطان عادل جو متواضع بھی ہو زمین پر اللہ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے، اس کو رات دن میں ستر صدیقوں کا ثواب عطا ہوتا ہے (عقیلی و ابن حبان)
  10. موسٰی علیہ اسلام نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ الہی اس شخص کو کیا جزا ملے گی جو مصیبت زدہ عورت کی غمخورای کرتا ہے، اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا کہ میں اسے اپنے سایہ میں رکھوں گا۔ (ابن شاہین و دیلمی)
  11. الہی اسلام کو عمر بن خطاب سے تقویت عطا فرما۔ (طبرانی)
  12. جانور جو شکار ہوتے ہیں اور خاردار درخت اور دوسرے درختوں کی قطع و برید صرف اس لیے ہوتی ہے کہ تسبیح الہی میں کمی کرتے ہیں (تسبیح الہی میں قلت اس کا سبب ہے) (ابن راہویہ)
  13. اگر میں تم میں نبی ہو کر نہ آتا تو عمر نبی ہوتے۔ (دیلمی)
  14. اگر اہل جنت کسی چیز کی تجارت کرتے (ان کو اجازت ہوتی) تو کپڑے کی تجارت ہوتی۔ (ابو یعلی)
  15. اپنے امام (خلیفہ وقت) کی موجودگی میں جو شخص اپنے لیے یا دوسروں کے لیے خروج کرے اس پر خدا کی اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کو قتل کر ڈالو۔ (دیلمی)
  16. جو شخص مجھ سے اکتساب علم کرے یا مجھ سے حدیث لکھے تو جب تک وہ علم یا حدیث اس کے پاس محفوظ ہے اس وقت تک اس کا ثواب اس کو ملتا رہے گا۔ (حاکم تاریخ)
  17. خداوند تعالی کے راستے میں جو شخص برہنہ پا نکلے گا۔ خداوند تعالی قیامت کے روز اس سے فرائض کے بارے میں سوال نہیں فرمائے گا۔ (طبرانی)
  18. دوزخ کے عذاب سے رستگاری کے طلبگار اور سایہ الہی کے آرزو مند کو چاہیے کہ مسلمانوں پر سختی نہ کریں بلکہ ان پر مہربانیاں کرے (تو اسے یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی)۔ (ابو الشیخ و ابن حبان)
  19. جو شخص محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی کی حاجت روائی کرے اگرچہ اس روز اس سے کوئی گناہ بھی سرزد ہو (تب بھی اللہ تعالی اس کو اس روز اجر ضرور عطا کرے گا)۔ (دیلمی)
  20. جس قوم نے جہاد ترک کر دیا وہ قوم عذاب میں مبتلا ہو گئی (طبرانی)
  21. افتراپرداز جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (دیلمی)
  22. کسی مسلمان کی ہرگز تحقیر نہ کرو، کیونکہ ادنٰی درجہ کا مسلمان بھی اللہ کے یہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے (ابوالشیخ)
  23. حدیث کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر تم میری رحمت کے خواستگار ہو تو میری مخلوق پر رحم کرو (ابو الشیخ)
  24. میں نے پاجامہ (ازار) کے بارے میں حضور ﷺ سے دریافت کیا تو حضور ﷺ نے پنڈلی کا اوپری کا حصہ پکڑا، دوبارہ دریافت کرنے پر پنڈلی کے عضلہ کا نچلا حصہ پکڑا پھر تیسری بار دریافت کرنے پر فرمایا کہ اس سے زیادہ نیچا پائجامہ پہننا کوئی بھلائی کی بات نہیں، یہ سن کر میں نے عرص کیا کہ اس صورت میں تو یا رسول اللہ میں ہلاک ہو گیا، حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو بکر تم اس سے مستشنی ہو اور تم نجات یافتہ ہو۔ (ابو نعیم)
  25. میرا اور علی کا پلہ عدل و انصاف میں برابر ہے۔ (دیلمی)
  26. شیطان سے پناہ مانگنے میں غفلت نہ کرو بے شک تم اس کو نہیں دیکھتے لیکن وہ تم سے غافل نہیں ہے۔ (دیلمی)
  27. جس نے اللہ کے لیے مسجد تعمیر کی تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کر دے گا۔ (طبرانی اوسط)
  28. جو اس غبیث ترکاری (پیاز یا لہسن) کو کھائے وہ ہرگز ہماری مسجد میں نہ آئے۔ (طبرانی اوسط)
  29. محمد نے ہدیتہ ابو جہل کو اونٹ دیا (اسماعیل معجم)
  30. علی کی طرف سے دیکھنا عبادت ہے (ابن عساکر تاریخ)[208]

ارشادات صدیق اکبر

مختلف روایتوں میں سیدنا صدیق اکبر کے بے شمار ارشادات و اقوال نقل کیے گئے ہیں جو بالعموم آپ کے خطبات سے اخذ کیے گئے ہیں ان میں سے پچاس ارشادات یہاں بیان کیے جاتے ہیں۔

  1. عقل مند کی پہچان کم گوئی ہے۔
  2. جس پر نصیحت اثر نہ کرے اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔
  3. مصیبت کی جڑ انسان کی گفتگو ہے۔
  4. شریف جب علم پڑھتا ہے متواضع ہو جاتا ہے۔
  5. گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے مگر گناہ سے بچنا واجب تر۔
  6. صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لیے باعث شرم ہے۔
  7. فقیر (مسکین) کے سامنے عاجزی اور ادب سے صدقہ پیش کر کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔
  8. بوڑھا توبہ کرے تو خوب ہے اور اگر جوان توبہ کرے تو خوب تر ہے۔
  9. جوان کا گناہ بھی اگرچہ برا ہے لیکن بوڑھے کا گناہ بدتر ہے۔
  10. تو دنیا کا سامان جمع کرنے میں مشغول ہے اور دنیا تجھ کو اپنے سے جدا کرنے میں سرگرم ہے۔
  11. ہر چیز کا ثواب ایک اندازہ ہے لیکن صبر کا ثواب بے اندازہ ہے۔
  12. جو شخص دعوت توحید کی ابتدا میں فوت ہو گیا وہ بہت خوش نصیب تھا۔
  13. امیروں کا تکبر کرنا برا ہے لیکن غریبوں اور متحاجوں کا تکبر کرنا بدتر ہے۔
  14. عام لوگ عبادت میں سستی کرے تو بری بات ہے لیکن اگر علما اور طلبہ عبادت میں سستی کرے تو یہ اور بھی زیادہ برا ہے۔
  15. دولت آرزو کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔
  16. بالوں کو خصاب لگا کر جوانی حاصل نہیں ہوتی۔
  17. دوائیں کھا کر صحت مند نہیں بنا جا سکتا۔
  18. مردوں کا شرم کرنا اچھا ہے لیکن عورتوں کا شرم کرنا بہت اچھا ہے۔
  19. غریب اگر تواضع کرے تو اچھا ہے لیکن امیروں کا تواضع کرنا بہت اچھا ہے۔
  20. زبان کو شکوہ شکایت سے روکو، خوشی کی زندگانی عطا ہو گی۔
  21. اللہ کے خوف سے روؤ اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو۔
  22. اللہ سے ڈرو اور اس کی ایسی تعریف کرو جس کا وہ سزاوار ہے۔
  23. امید اور خوف دونوں کو مخلوط رکھو اور الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرو۔
  24. دنیا میں حاکم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ قیامت کے دن اس سے سختی سے حساب لیا جائے گا اور اس کا اعمال نامہ بہت لمبا ہو جائے گا۔
  25. اگر میرا ایک پاؤں جنت میں ہو اور دوسرا پاؤں باہر تو بھی میں اپنے آپ کو اللہ کے غضب سے محفوظ تصور نہیں کرتا۔
  26. اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں اور نہ اس کی روشنی کبھی ماند پڑے گی۔
  27. (نیک عمل کرنے سے) اپنی رفتار تیز سے تیز کر دو کیونکہ تمھارے پیچھے ایک ایسا تعاقب کرنے والا لگا ہوا ہے جو بڑا ہی تیز رفتار ہے۔
  28. ہر عمل کا اس کے وقت کے ساتھ بجالانا ضروری ہے۔ اللہ تعالی اس وقت تک نفل قبول نہیں کرتا جب تک تم فرض ادا نہ کرو۔
  29. اس دن پر رو جو تیری عمر سے گذر گیا اور اس میں نیکی نہیں کی۔
  30. ہر کام کرتے وقت اللہ تعالی کو حاضر ناظر جانو۔ اس سے ڈرو اور شرم کرو۔
  31. کفار سے جہاد کرنا جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے۔
  32. نماز کو سجدہ سہو، روزہ کو صدقہ فطر، حج کو فدیہ اور ایمان کو جہاد پورا کرتا ہے۔
  33. اخلاص یہ ہے کہ اعمال کا عوض نہ چاہے۔ دنیا کو آخرت کے لیے اور آخرت کو اللہ کے لیے چھوڑ دے۔
  34. جو امر پیش آتا ہے وہ نزدیک ہے لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔
  35. مومن کو اتنا کافی ہے کہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے۔
  36. میں نیک کام کروں تو میری اعانت کرو۔
  37. میں برا کام کروں تو مجھے درست کرو۔
  38. سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔
  39. عمل بغیر علم کے سقیم و بیمار اور علم بغیر عمل کے عقیم (بے کار) ہے۔
  40. بروں کی ہم نشینی سے تنہائی بدر جہا بہتر ہے۔
  41. جاہ و عزت سے بھاگو، عزت تمھارے پیچھے پھرے گی۔
  42. کسی مسلمان کو حقیر نہ جانو۔
  43. چھوٹا سا مسلمان بھی خدا کے نزدیک بڑا ہے۔
  44. موت پر دلیر رہو تم کو زندگی بخشی جائے گی۔
  45. ہم نے بزرگی تقوی میں، بے نیازی یقین میں اور عزت تواضع میں دیکھی۔
  46. جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل کر ڈالتا ہے۔
  47. مظلوم کی دعا سے بچو کیونکہ قبولیت اور اس کے درمیان میں کوئی چیز حائل نہیں ہے۔
  48. جس قوم میں بری باتیں عام ہو جاتی ہیں اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
  49. باہم قطع تعلق مت کرو، بغض نہ کرو، حسد نہ کرو۔
  50. آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ جیسا کہ تم کو حکم ہے۔[209]

تصوف یا طریقت

تصوف یا طریقت کی اصطلاح عہد رسالت اور عہد صحابہ میں موجود نہیں تھی لیکن بعد میں جن اوصاف پر طریقت یا تصوف کی اساس رکھی گئی وہ سب صحابہ کرام میں موجود تھے کسی میں زیادہ اور کسی میں کم۔ تصوف کے ان اجزاء میں کچھ یہ ہیں۔ خشیت الہی، زہد و تقوی، توکل علی اللہ، پابندی شریعت، تواضع، عبرت پذیری، عجز و انکسار، رقت قلب، فقر و استفنا، صبر و تحمل، شفقت علی الخلق، کف لسان، رضا، حب رسول۔ سب سے پہلے تصفیہ و تزکیہ باطن کے لیے کلمہ طیبہ کا طریقہ ذکر ابو بکر صدیق نے تلقین کیا۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ توحید میں احسن کلام ابو بکر صدیق کا یہ قول ہے:

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوق کے لیے سوا عجز کے کوئی راستہ نہیں بنایا

ابو بکر واسطی کا قول ہے کہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے تصوف کا راز ابو بکر صدیق نے اشارةً فاش کیا جس سے اہل فہم نے لطائف خدا کیے اور وہ راز یہ تھا کہ جب آپ اپنی تمام مملوکات سے دست بردار ہوئے تو محمد نے فرمایا کہ اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑا؟ تو آپ نے پہلے خدا کا نام لیا پھر رسول کا اور حقائق تفرید میں اہل توحید کے لیے یہ ایک عظیم الشان اشارہ ہے۔ صوفیہ کے نزدیک تصوف کے اکثر سلسلے علی المرتضی سے منسوب ہیں لیکن ایک سلسلہ نقشبندیہ سلمان فارسی کے واسطے سے ابو بکر صدیق سے منسوب ہے۔[210]

نظام خلافت

ابو بکر صدیق کی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اس قلیل مدت میں آپ نے وہ عظیم الشان کارنامے سر انجام دیے کہ ان کو پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے۔ آپ کے دور خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر قابو پانے میں صرف ہوا لیکن اس کے باوجود آپ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے۔ آپ نے اپنی قوت ایمانی، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا جس پر آپ کے اولوالعزم جانشین عمر فاروق نے ایک شاندار عمارت تعمیر کر دی۔

مجلس شورٰی

قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی یہ خصوصیت بتائی ہے:

ان کے تمام کام باہمی مشورے سے چلتے ہیں

ابو بکر صدیق کا عہد خلافت اس آیت کی عملی تفسیر تھا۔ آپ نے کوئی باقاعدہ تو مجلس شوری قائم نہیں کی تھی لیکن جب کوئی اہم مسئلہ پیش آتا تو آپ اکابر انصار و مہاجرین سے مشورہ کرتے تھے جن میں چند ممتاز اصحاب میں عمر، علی، عثمان، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل انصاری، ابی بن کعب انصاری اور زید بن ثابت انصاری شامل تھے۔ یہ حضرات ابو بکر کے عہد میں فتوی بھی دیتے تھے۔

سنن الدارمی میں میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ابو بکر کے پاس کوئی معاملہ پیش ہوتا تو آپ پہلے یہ دیکھتے کہ اس معاملے میں قرآن میں کیا حکم ہے۔ اگر وہاں کوئی حکم نہ ملتا تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ محمد نے اس بارے میں کیا فیصلہ فرمایا۔ اگر سنت رسول میں بھی کوئی حکم نہ ملتا تو آپ قوم کے نیک اور سرکردہ اصحاب کو جمع کرتے اور ان کے مشورے کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔

ملکی نظم و نسق

ملکی نظم و نسق کو صحیح طریقے سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف عہدوں پر موزوں، مناسب اور قابل آدمیوں کا تقرر کیا جائے۔ ابو بکر صدیق نے پوری مملکت کو متعدد صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کر دیا تھا جن میں مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، حضر موت، خولان، زبید جند، بحرین، نجران، دومتہ الجندل، عراق عرب، جرش، حمص، اردن، دمشق، فلسطین۔ ابو بکر صدیق نے صیغہ مال کو صیغہ فوج سے الگ کر دیا تھا۔ ہر ایک کے لیے الگ الگ امیر مقرر فرمائے تھے جو امیر الثغور امیر الخراج کے لقب سے ممتاز تھے۔ صوبے یا ضلعے کے حاکم کو عامل کہا جاتا تھا۔ شروع شروع میں وہ ہر قسم کے فرائض انجام دیتا تھا البتہ جب فتوحات میں وسعت ہوئی اور کام پھیل گیا تو پھر فرائض اور ذمہ داریوں کو مختلف عہد داروں میں تقسیم کر دیا۔ ابو بکر صدیق نے عمال کے تقرر کے لیے حسب ذیل اصول پیش نظر رکھے۔

  1. جو اصحاب عہد رسالت میں عامل مقرر ہوئے تھے انھیں اپنے عہدوں پر بحال رکھا۔
  2. ان کے علاوہ جو عمال یا امرء مقرر کیے اس میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہیں لیا اور جس کسی کو ذمہ داری کے عہدے پر مقرر فرمایا اس کو اقرباء پروری سے اجتناب، خوف خدا اور سلامت روی کی تلقین فرمائی۔
  3. کسی بدری صحابی کو عامل نہیں بناتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں اصحاب بدر اپنے بہترین اعمال کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوں کیونکہ اللہ تعالی ان کے اور صلحاء ذریعے سے امتوں کی مصیبت اور عذاب کو اس سے زیادہ دفع کرتا ہے جتنی ان سے (امور حکومت) میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
  4. عمال و حکام کی معمولی اور اجتہادی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے تھے لیکن کسی سنگین غلطی کو معاف نہیں کرتے تھے اور سخت باز پرس کرتے تھے۔
  5. جو لوگ فتنہ ارتداد میں ملوث ہو گئے تھے اور بعد میں تائب ہو گئے ان کو کوئی ذمہ داری کا کام سونپنا پسند نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو فوج میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے البتہ بعد میں اس اصول میں لچک پیدا کر لی اور امرائے فوج کو اجازت دے دی کہ توبہ کرنے والے جس شخص کے خلوص اور ایمان کی پختگی کا ان کو یقین آ جائے اس کو فوج میں شامل کر لیں۔

عمال (گورنروں) کو جو امور سونپے ان کی تفصیل یہ ہے: اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنا، لوگوں کی اخلاقی حالت سدھارنا، لوگوں کو نماز پڑھانا اور جمعہ کا خطبہ دینا، محصولات کو جمع کرنا، حدود کو نافذ کرنا، حج پر جانے والے قافلوں کی حفاظت کرنا، کسانوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا اور زراعت کو ترقی دینا، فوج کی نگرانی کرنا، اس میں مال غنیمت تقسیم کرنا اور مال غنیمت کا خمس (پانچواں حصہ) مرکز کو بھیجنا۔

عمائد حکومت

تاریخ اور مختلف سیرت کی کتابوں میں عہد صدیقی کے عمائد حکومت کے جو نام ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

  • مرکز خلافت: مدینہ منورہ مشیر خاص اور قاضی القضاة (چیف جسٹس) عمر فاروق، مہتمم خزانہ ابوعبیدہ ابن جراح، خط کتابت عثمان غنی اور زید بن ثابت لیکن کبھی کبھی علی بھی خط کتابت کا کام کر لیتے، ارباب افتاء علی، عبد اللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابی بن کعب انصاری اور زید بن ثابت انصاری --- یہ حضرات فتوی بھی دیتے اور قضا کا کام بھی کرتے تھے۔

مختلف صوبوں اور علاقوں کے عمال میں عتاب بن اسید مکہ معظمہ میں، عثمان بن ابی العاص ثقفی طائف میں، مہاجر بن امیہ صنعا (یمن) میں، زیاد بن لبید انصاری حضر موت (یمن) میں، یعلی بن منیہ خولان (یمن) میں، ابو موسی اشعری زبید و رمع (یمن) میں، معاذ بن جبل انصاری جند (یمن) میں، علا حضرمی بحرین میں، جریر بن عبداللہ البجلی نجران میں، حذیفہ بن محصن عمان میں، عبد اللہ بن ثور جرش میں، عیاض بن غنم دو متہ الجندل میں، مثنی بن حارثہ عراق عرب میں اور سعد بن ابی وقاص نجد (قبائل ہوازن) میں خلیفتہ الرسول ابو بکر صدیق کی طرف سے مقرر تھے۔

افسران فوج

فوج کے سپہ سلاروں میں خالد بن ولید، جریر بن عبد اللہ البجلی، عیاض بن غنم، مثنی بن حارثہ، سویہ بن قطبہ عجلی، ابو عبیدہ بن جراح، یزید بن ابی سفیان، شرجیل بن حسنہ، عمرو بن العاص، ثابت بن قیس انصاری، معاویہ بن ابی سفیان، عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ، ولید بن عقبہ، ہاشم بن عتبہ، سعید بن عامر، قیس بن مکثوح مرادی، عدی بن حاتم طائی، معن بن یزید سلیمی، حمزہ بن مالک ہمدانی، حبیب بن مسلمہ، ضحاک بن قیس، ابو سفیان بن حرب اور عبد اللہ بن مسعود ہذیلی وغیرہ شامل تھے۔

تعزیرات و حدود

ابو بکر صدیق نے پولیس و احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں کیا تھا البتہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت اور برائیوں کے انسداد کا ہمیشہ خیال رکھا۔ اس سلسلے میں آپ نے عبد اللہ بن مسعود کو نگران عام مقرر فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کر دیں۔ عہد رسالت میں شارب خمر (شراب نوش) کے لیے کوئی خاص سزا متعین نہیں تھی بلکہ حسب ضرورت شرابی کو (ہاتھوں اور جوتوں سے) پٹوا دیتے تھے تا کہ وہ نادم ہو کر آئندہ کے لیے توبہ کر لے اور کجھی چالیس کوڑے لگوا دیتے تھے۔ ابو بکر نے اپنے عہد خلافت میں شرابی کے لیے چالیس کوڑوں کی سزا لازمی کر دی۔ سرقہ کی سزا قرآن حکیم میں منصوص ہے اس لیے اس کی نسبت کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا البتہ سرقہ کی بعض صورتیں پیش آ سکتی ہیں جن کی قرآن مجید میں تجصیص نہیں کی گئی ایسی صورتوں میں ابو بکر صدیق نے سنت نبوی کی روشنی میں فیصلہ کرتے تھے اور اگر ایسی مثال نہ ملتی تو اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ اگر چور نابالغ ہوتا تو اس پر حد جاری نہیں کرتے۔ سنگین قسم کے قومی جرائم پر ابو بکر نہایت سخت سزا دیتے تھے۔ الفجاءة ایاس بن عبد یالیل سلمی نے ارتداد سے توبہ کرنے کے بعد بد عہدی کی اور رہزنی اختیار کر لی اور بے گناہ مسلمانوں کو بے دریغ لوٹا اور قتل کیا۔ ابو بکر کو اطلاع ملی تو آپ نے طریقہ بن حاجز کو حکم بھیجا کہ ایاس کو گرفتار کر کے آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔ ایک مرتبہ خالد بن ولید ابو بکر کو لکھا کہ نواح مدینہ کا ایک شخص علت اُبنہ میں مبتلا ہے۔ اہل عرب کے لیے یہ ایک انوکھا فعل قبیح تھا جس کی قرآن و حدیث میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی تھی۔ ابو بکر تمام صحابہ سے مشورہ کیا۔ علی نے جلانے کی رائے دی اور تمام صحابہ نے اس پر اتفاق کیا۔

اشاعت اسلام

اپنے عہد خلافت میں ابو بکر صدئق نے اشاعت اسلام پر بھرپور توجہ دی۔ مثنی بن حارثہ مدینہ آئے تو ان کو ہدایت کی کہ اپنے قبیلے (بنو شیبان) کے کافروں کو اسلام کی دعوت دیں اور اپنے پڑوسی قبائل کے بت پرستوں اور مسیح برادری میں بھی اسلام کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ مثنی کی تبلیغ و ترغیب کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلے میں جو فوجیں روانہ کیں انھیں ہدایت کی کہ سب سے پہلے فریق مخالف کو اسلام کی دعوت دیں۔ اس کے علاوہ جو عرب قبائل عراق و شام کی سرحدوں کے ارد گرد آباد ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کے لیے پوری کوشش کریں چنانچہ خالد بن ولید کی تبلیغی مساعی کی بدولت عراق عرب اور حدود شام کے بہت سے عرب قبائل مسلمان ہو گئے۔

رسوم جاہلیت کا انسداد

محمد نے عہد جاہلیت کے جن عفائد و اعمال کو مٹا دیا تھا اگر کبھی وہ صحابہ کرام کے سامنے رونما ہوتے تو وہ نہایت سختی سے ان کی ممانعت کرتے تھے۔ ابو بکر صدیق کا بھی یہی معمول تھا۔ ایک دفعہ حج کے موقع پر آپ کو بتایا گیا کہ قبیلہ احمس کی فلاں عورت کسی سے گفتگو نہیں کرتی۔ آپ نے اس کی وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتایا اس نے خاموش حج کا ارادہ کیا ہے۔ یہ سن کر آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: یہ جاہلیت کا طریقہ ہے اسلام میں جائز نہیں تم اس سے باز آؤ اور بات چیت کرو۔

ذمی رعایا کے حقوق

کسی اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلم اگر اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لیں اور جزیہ (ٹیکس) دینے کی ہامی بھر لیں تو وہ ذمی کہلاتے ہیں۔ پھر اسلامی حکومت ان کی جان، مال، زمین اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہو گی اور ساتھ ان کی مذہبی آزادی کی ضامن ہو گی۔ اس بارے میں اسلام کا واضح حکم ہے کہ ذمی کے وہی بنیادی حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہوں گے یعنی جان و مال، عزت و آبرو، نجی زندگی کا تحفظ، عقیدہ کی آزادی، مذہبی دلآزاری سے تحفظ اور حاجت مندوں، مسکینوں اور معزوروں کے لیے وسائل ریاست سے متمتع ہونے کا حق وغیرہ۔ غیر مسلم قوموں کے ساتھ سیاسی اور تمدنی تعلقات کی ابتدا عہد رسالت ہی میں ہو گئی تھی۔ خیبر فتح ہوا تو حضور نے یہود خیبر سے ایک معاہدہ صلح کیا جس کے آخری الفاظ یہ تھے:

اس معاہدہ کی رو سے ان کے مال، جان، زمین، مذہب، حاضر، غائب، قبیلہ اور گرجوں کی حفاظت کی جائے گی نیز ہر اس تھوڑی بہت چیز کی حفاظت کی جائے گی جو ان کے قبضہ میں ہے۔ کسی پادری، کسی راہب اور کسی کاہن کو اس کے عہدے سے الگ نہیں کیا جائے گا۔

ابو بکر صدیق نے اپنے عہد خلافت میں اس معاہدے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے دستخط و مہر سے اس کی توثیق و تجدید فرمائی۔ اس طرح ابو بکر کے عہد خلافت میں جو علاقے فتح ہوئے وہاں کی ذمی رعایا کو تقریباً وہی حقوق دیے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ عہد صدیقی میں خالد بن ولید نے حیرہ فتح کیا تو وہاں کے مسیحیوں سے ایک معاہدہ کیا جس کی قابل لحاظ شرطیں یہ تھیں:

ان کی خانقاہیں اور گرجے نہ گرائے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا قصر گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں اور وہ رات دن میں بجز اوقات نماز کے ہر وقت ناقوس بجا سکیں گے اور اپنے تہوار کے دن صلیب نکال سکیں گے۔ جو بوڑھا شخص بیکار ہو جائے گا یا اس کا جسم ماؤف ہو جائے گا یا کوئی متمتول شخص اس قدر محتاج ہو جائے گا کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ دینے لگیں تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا اور اس کی اور اس کے عیال کی کفالت بیت المال سے کی جائے گی۔

رسول اکرم ﷺ کے وعدوں کی تکمیل

ابو بکر صدیق اپنے آپ کو رسول اللہ کا خلیفہ کہتے تھے اس لیے وہ ہر ایسے کام کی تکمیل اپنا فرض سمجھتے تھے جو حضور کی رحلت کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا۔ حضور نے جیش اسامہ کو روانہ ہونے کا حکم دیا تھا لیکن وہ آپ کی وفات کی وجہ سے روانہ نہیں ہو سکا تھا۔ ابو بکر صدیق نے سر برآرائے خلافت ہو کر سب پہلے یہ کام کیا کہ جیش اسامہ کو مدینہ منورہ سے اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا۔ حضور نے اپنی حیات طیبہ میں بعض اصحاب سے (کچھ مال دینے کے) وعدے کیے تھے لیکن ابھی وعدوں کی تکمیل کی نوبت نہ آئی تھی کہ آپ کا وصال مبارک ہو گیا۔ عہد صدیقی میں بحرین سے مال غنیمت آیا تو ابو بکر صدیق نے اعلان عام کر دیا کہ اگر رسول اللہ نے کسی سے کوئی (مال دینے کا) وعدہ کیا ہو یا حضور کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو وہ میرے پاس آئے۔ اس اعلان پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے حاضر ہو کر عرض کیا:

محمد نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب فلاں جگہ سے مال آیا تو میں تمہیں تین دفعہ دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر دوں گا۔

ابو بکر نے ان کو اسی طرح تین دفعہ دونوں ہاتھوں سے عطا فرمایا۔

ابو بشیر مازنی حاضر ہو کر بیان کیا کہ حضور نے مجھے اتنا مال دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ ابو بکر نے انھیں چودہ سو درہم عطا فرمائے۔

مالی نظام

عہد رسالت میں صیغہ مال کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا تاہم رسول اکرم ﷺ نے آمدنی اور خرچ کا ایک سادہ سا نظام وضع فرمایا تھا اور ابو بکر صدیق نے اسی نظام کو برقرار رکھا۔ عہد صدیقی میں آمدنی کے بڑے بڑے ذرائع اور مصارف کی تفصیل یہ ہے:

زکوة صرف صاحب نصاب مسلمانوں پر فرض تھی اور وہ نقد روپیہ، پھل اور پیداوار اسباب تجارت اور مویشی (بجز گھوڑا) کی صورت میں وصول کی جاتی تھی۔ دو سو درہم چاندی، بیس مثقال سونے، پانچ اونٹ اور پانچ وسق پیداوار سے کم پر زکوة نہیں تھی۔ سونے اور چاندی چالیسواں حصہ وصول کیا جاتا تھا۔ رسول اکرم نے مویشوں کی شرح زکوة مختلف جنس کی مختلف تعداد پر الگ الگ مقرر فرمائی تھی۔ ابو بکر صدیق اسی کے مطابق عمل کرتے تھے۔

مسلمانوں کی مملوکہ زمینوں کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) مقرر تھا۔ جن زمینوں کے جوتنے بونے میں کاشتکاروں کو کم محنت کرنی پڑتی تھی اور جن کی سیرابی ندی نالوں کے پانی سے ہوتی تھی یا جن سے موسمی خصوصیات کے باعث کاشتکاروں کو زیادہ مشقت کیے بغیر پیداوار حاصل ہوتی تھی ان زمینوں کی پیداوار کا دسواں حصہ اور دوسری قسم کی اراضی (جس کی سیرابی کے لیے پانی کا خاص انتظام کرنا پڑتا تھا اور زیادہ محنت کرنا پڑتی) کی پیداوار پر بیسواں حصہ مقرر تھا۔ یہ روپیہ یا جنس کی صورت میں دیا جا سکتا تھا۔ سبزی پر کوئی عشر نہیں تھا۔

خراج

غیر مسلم کاشتکاروں سے حق مالکانہ کے معاوضہ میں زمیں کی پیداوار کا جو حصہ باہمی مصالحت سے معین ہو جاتا تھا اس کو خراج کہا جاتا تھا۔ عہد رسالت میں خیبر اور فدک کی زمینیوں کو اس شرط پر مالکوں کے پاس رہنے دیا گیا کہ وہ پیداوار کا نصف حصہ حضور کی خدمت میں بھیجا کریں گے۔ بٹائی کے اس طریقے کو ابو بکر صدیق نے بھی قائم رکھا۔ البتہ جب عراق اور شام کے بعض علاقے فتح ہوئے تو آپ نے ان پر سرسری طور کچھ رقم بطور خراج مقرر کر دی۔

غیر مسلم رعایا سے ان کی حفاظت اور ذمہ داری کے معاوضہ میں لیا جاتا تھا۔ اس کی شرح متعین نہیں تھی بلکہ سہولت کے ساتھ جو شخص جتنا دے سکتا تھا اس سے اتنا ہی لیا جاتا تھا۔ عہد صدیقی میں حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے لوگوں سے دس درہم فی کس جزیہ وصول کیا گیا۔ جو لوگ اپاہج اور بیکار ہو جاتے تھے ان کا جزیہ معاف کر کے حکومت کی طرف سے اسے وظیفہ ملتا تھا۔

فے اور غنیمت

فے اس مال کو کہتے ہیں جو فریق محارب سے جنگ و جدال کے بغیر حاصل ہوتا تھا اور جنگ میں قتال کی صورت میں جو مال و اسباب حاصل ہوتا تھا وہ غنیمت کہلاتا تھا۔ اس مال کے پانچ حصے کیے جاتے تھے جس میں چار حصے شریک مجاہدین میں تقسیم کر دیے جاتے اور پانچواں حصہ بارگاہ خلافت میں بھیجا جاتا تھا۔

معادن پر ٹیکس

ابن سعد کا بیان ہے کہ عہد صدیقی میں بنو سلَیم کے علاقے میں واقع ایک معدن (کان) فتح ہوئی تو اس کی آمدنی بیت المال میں داخل کی گئی اس طرح بعض اور معدنوں (کانوں) سے بھی کثیر مال آتا تھا۔ گویا کانیں بھی حکومت کی آمدنی کا ایک ذریعہ تھیں۔ عہد صدیقی میں کانوں کی پوری آمدنی بیت المال میں داخل کی جاتی تھی یا اس کا کچھ حصہ؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

مصارف

عہد صدیقی میں آمدنی کے بڑے بڑے مصارف یہ تھے:

  1. عمال صدقات و زکوة کا روزینہ (یہ انہی کے جمع کیے ہوئے مال سے دیا جاتا تھا۔)
  2. خلیفہ اور دوسرے کار پردازان حکومت کا روزینہ۔
  3. فوج کے لیے ہتھیار اور رسد سامان وغیرہ کی فراہمی۔
  4. رفاہ عامہ کے کام۔
  5. مختلف سماجی، معاشرتی اور دینی امور مثلاً اپاہجوں، کمزوروں، بوڑھوں اور مسکینوں کی مدد۔ اپاہج اور بیکار ذمیوں کے وظائف۔
  6. محمد کے وعدوں کی تکمیل
  7. ضروری مصارف کے بعد جو رقم بچ جاتی تھی ابو بکر صدیق اس کو سب لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتے تھے۔ ان میں چھوٹے بڑے، آزاد غلام اور مرد و عورت سب شامل تھے۔
  8. مال غنیمت کے خمس کی تقسیم کا الگ ہی طریقہ تھا۔ اس کا ایک حصہ جسے قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، فوجی مصارف کے لیے رکھ لیا جاتا تھا۔ دوسرا حصہ خاندان نبوت کے لیے مخصوص کر دیا جاتا تھا اور باقی حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کیے جاتے تھے۔

ابو بکر صدیق نے اپنے عہد خلافت کے اواخر میں ایک بیت المال تعمیر کروایا لیکن اس میں بڑی رقم جمع نہ ہونے دی اس لیے اس کی حفاظت کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ آپ کوئی محافظ کیوں نہیں مقرر کرتے تو فرمایا: اس کی حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے۔ صدیق اکبر کی وفات کے بعد عمر فاروق نے چند اکابر صحابہ کو ساتھ لے کر بیت المال کا جائزہ لیا تو صرف ایک دینار (بروایت دیگر ایک درہم) برآمد ہوا۔ ان اصحاب کی زبان سے بے اختیار نکلا

اللہ ابو بکر پر رحمت نازل کرے۔

پھر انھوں نے بیت المال کے خرانچی کو کو بلا کر پوچھا کہ ابو بکر صدیق کی وفات تک بیت المال میں کل کس قدر مال آیا ہو گا۔ اس نے کہا: دو لاکھ دینار لیکن جو مال آتا ابو بکر اس کو ضروری مدوں پر فوراً خرچ کر دیتے یا لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔

عسکری نظام

عرب میں مستقل فوج کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور نہ لوگوں کو فوجی تربیت دینے کے لیے کوئی فوجی مدرسہ یا ادارہ تھا لیکن عرب فطری طور پر ایک جنگ جو قوم تھے۔ وہ ہر دور میں نیزہ بازی، شہسواری، شمشیرزنی، تیر اندازی اور سخت کوشی میں مشہور تھے۔ وہ حد نگاہ تک پھیلے ہوئے صحراؤں، میدانوں اور گھاٹیوں میں اپنے قبیلے کے بڑے بوڑھوں سے فوجی تربیت حاصل کرتے تھے یہاں تک کہ قبیلے کا ہر فرد سپاہی بن جاتا تھا۔ ان مضطرب فطرت ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی اور اپنی جنگی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑ لڑ کر ضائع کرتے تھے۔ سرکار دو عالم ﷺ مبعوث ہوئے اور عرب دین حق کے دامن رحمت سے وابستہ ہوئے تو اسلام نے انھیں ایک نیا تخیل عطا کیا۔ جب اسلام کو ضرورت پڑتی تو صحابہ کرام بڑے ذوق و شوق سے پرچم جہاد کے نیچے رضا کارانہ طور پر جمع ہو جاتے اور باطل کے خلاف اپنی جانوں کی بازی لگا دیتے۔ ہادی برحق ﷺ نے ان کی اخلاقی تربیت فرمائی اور ان کو نظم و ضبط کے ساتھ لڑنا سکھایا۔ حضور نے موقع اور محل کے مطابق چھاپہ مار یا گریزپا طریقہ جنگ سے بھی کام لیا اور مجاہدین کی صف بند کر کے بھی (صف بند) دشمن کے خلاف جنگ کی۔ ابو بکر صدیق کے دور میں بھی یہی صورت حال رہی لیکن آپ نے مستقل طور پر اس طرز عمل کو اپنایا جو حضور نے فتح مکہ کے موقع پر اختیار فرمایا تھا یعنی اسلامی لشکر کو بہت سے دستوں میں تقسیم کر دیا تھا اور ہر دستے کو الگ الگ پرچم عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ ابو بکر صدیق بھی جب کوئی لشکر کسی مہم پر روانہ فرماتے تو اس کو مختلف دستوں میں تقسیم فرما کر الگ الگ افسر مقرر فرما دیتے۔

  • اخلاقی تربیت :

محمد نے جہاد میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے لیے چند اخلاقی ضابطے اور اصول مقرر فرما دیے تھے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا تھا مثلاً عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، راہبوں اور مذہبی پیشواؤں سے کوئی تعرص نہ کرنا، کلیساؤں (گرجوں) کو نہ چھیڑنا، لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، اسیران جنگ سے اچھا سلوک کرنا وغیرہ۔

ابو بکر صدیق نے بھی فوج کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دی۔ آپ نے امرائے فوج کو روانہ کرتے ہوئے زبانی ہدایات کے علاوہ تحریری ہدایات بھی بھیجتے رہتے تھے جن میں ان کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تاکید ہوتی تھی۔

  • اسلحہ جنگ:

فوج میں سوار اور پیادہ دو قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ ان کے پاس بالعموم یہ ہتھیار ہوتے تھے۔ تلوار، نیزہ، چھوٹا نیزہ، تیر کمان۔ دشمن کے قلعوں پر حملہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو منجنیقوں، دبابوں اور صنبوروں کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ منجنیقوں کے ذریعے قلعوں کے دیواروں پر پتھر پھینکے جاتے تھے۔ دبابوں اور صنبوروں کے اندر مجاہدین کی ایک جماعت بیٹھ جاتی تھی اور ان کو دھکیل کر قلعے کی دیوار کے نیچے لے جاتے تھے۔ دبابوں صنبوروں میں مجاہدین اس طرح محفوظ ہوتے تھے کہ دشمن کے تیروں سے ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا تھا۔

  • سامان جنگ کی فراہمی:

سامان جنگ میں ہتھیار، خوراک (رسد)، خیمے، سواریاں (گھوڑے اونٹ خچر گدھے) وغیرہ سب شامل ہیں۔ زیادہ تر مجاہدین اپنا اپنا اسلحہ لے کر آتے تھے لیکن جو خود انتظام نہیں کر سکتے تھے ان کا انتظام حکومت کرتی تھی۔ ابو بکر صدیق سامان جنگ کی فراہمی پر خاص توجہ دیتے تھے اور مختلف ذرائع سے جو آمدنی حاصل ہوتی تھی اس کا ایک معقول حصہ اسلحہ اور سامان بار برداری وغیرہ پر صرف فرماتے تھے۔ مال غنیمت کا جو حصہ قرآن مجید میں اللہ اور رسول کا قرار دیا گیا ہے ابو بکر صدیق نے اس کو کلیتہً فوجی مصارف کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ آپ نے جنگی گھوڑوں اور اونٹوں وغیرہ کی پرورش کا بھی خاص انتظام کیا اور اس مقصد کے لیے کچھ چراگاہیں مخصوص کر دی تھیں۔

  • فوجی مراکز کا معائنہ:

جو مجاہدین عرب کے مختلف حصوں سے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے کی خاطر مدینہ منورہ پہنچتے تھے۔ ابو بکر صدیق ان کو بالعموم خود ضروری ہدایت دے کر مدینہ منورہ سے رخصت کیا کرتے تھے۔ ان مجاہدین کے پڑاؤ کے لیے جرف اور ذو القصہ سے متصل میدان مخصوص کر دیے گئے تھے۔ ابو بکر صدیق وقتاً فوقتاً ان فوجی مراکز کے معائنے کے لیے تشریف لے جاتے اور اگر انتظامات یا مجاہدین کی مادی اور روحانی حالت میں کوئی خامی دیکھتے تو اس کی اصطلاح فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ فوجوں کے معائنے کے لیے جرف تشریف لے گئے اور گھوم پھر کر مختلف امور کا جائزہ لینے لگے۔ بنی فزارہ کے پڑاؤ میں پہنچے تو انھوں نے پرتباک استقبال کیا۔ ابو بکر نے بھی ان کو اہلاً و سہلاً و مرحبا کہا۔ ان لوگوں نے عرض کیا: یا خلیفتہ ال محمد ہم لوگ گھوڑوں کی سواری میں خوب مہارت رکھتے ہیں اس لیے اپنے گھوڑے ساتھ لائے ہیں آپ لشکر کا بڑا پرچم ہمیں عنایت فرمائیے۔ ابو بکر صدیق نے ان کو دعائے خیر و برکت دے کر فرمایا: بڑا جھنڈا تم کو نہیں مل سکتا کیونکہ وہ بنو عبس کو دیا جا چکا ہے۔ ایک فزاری نے کھڑے ہو کر کہا: ہم لوگ عبس سے اچھے ہیں۔ ابو بکر صدیق نے خفا ہو کر فرمایا: چپ بیوقوف تجھ سے ہر ایک عبسی اچھا ہے۔ ایک عبسی نے بھی اٹھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن ابو بکر صدیق نے اسے بھی ڈانٹ کر خاموش کر دیا اور فرمایا: میں جو کچھ کہے چکا ہوں وہ تمھاری طرف سے کافی ہے۔ غرض اس طرح آپ فوجی مراکز میں جا کر مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتے اور ان کو مفید نصیحتیں فرماتے اور ان کو باہمی اخوت اور محبت کا سبق دیتے تھے۔[211]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. تاریخ مشائخ نقشبندیہ از پروفیسر صاحبزادہ محمد عبد الرسول للہی جلد 1 صفحہ 111
  2. ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 26
  3. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 37
  4. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 12
  5. ^ ا ب تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 237
  6. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 34
  7. اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ مصنف عزالدین بن الاثیر ابی الحسن بن محمد الجرزی اردو ترجمہ مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی جلد دوم حصہ پنجم صفحہ 300
  8. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 11
  9. ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 27 اور 28
  10. مرآۃ المناجیح اردو ترجمہ و شرح مشکوٰۃ المصابیح از مفتی احمد یار خان نعیمی جلد 8 صفحہ 318
  11. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 9 اور 10
  12. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 10 اور 11
  13. (الاصابہ جلد4:221)
  14. (اصابہ ج 4 ص 222)
  15. (الاصابہ جلد8 229)
  16. (ایضاً بحوالہ طبرانی)
  17. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 37 اور 38
  18. ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 28
  19. تاریخ مشائخ نقشبندیہ از پروفیسر صاحبزادہ محمد عبد الرسول للہی جلد اول صفحہ 121 اور 122
  20. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 41 تا 43
  21. ^ ا ب تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 238
  22. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 18
  23. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 229 تا 234
  24. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 21 اور 22
  25. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 44 اور 45
  26. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 234 تا 237
  27. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 46 تا 49
  28. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 51 اور 52
  29. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 49 اور 50
  30. صحابہ کرام کی عظیم مائیں تالیف شیخ محمد عظیم حاصل پوری صفحہ 5 تا 9
  31. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 291
  32. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 53
  33. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 54
  34. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 262
  35. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 130 تا 132
  36. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 305 306
  37. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 341 اور 342
  38. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 39
  39. عجائب القرآن مع غرائب القرآن از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 148 اور 149
  40. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 57 تا 59
  41. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 60 تا 63
  42. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 538 تا 540
  43. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 149
  44. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 409 410
  45. ^ ا ب معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 1
  46. سیرہ الصحابہ جلد اول از مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 23
  47. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 1 اور 2
  48. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 156 تا 158
  49. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 158 تا 160
  50. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 5
  51. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 160 تا 162
  52. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 4
  53. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 162
  54. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 6
  55. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 163
  56. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 7 تا 9
  57. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 165
  58. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 166 167
  59. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 167
  60. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 19 تا 21
  61. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 169
  62. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 82
  63. تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 125 تا 127
  64. تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 127 اور 128
  65. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 29
  66. سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 87
  67. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 181
  68. سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 41 ل
  69. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 181 182
  70. ^ ا ب معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 31
  71. ^ ا ب پ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 85
  72. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 182 اور 183
  73. گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 158 اور 159
  74. ^ ا ب معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 34
  75. تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 130
  76. سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 186 تا 188
  77. سیرت النیﷺ اب