قاضی معین اللہ ندوی
دار العلوم ندوۃ العلماء سے 1943ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی طالب علمی کے آغاز سے ہی مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی سے شاگردی کا عزیزانہ تعلق قایم ہو گیا، جو ان کی دعوت و تبلیغی سرگرمیوں میں ان کی رفاقت کا ذریعہ بنا اور پھر طالب علمی سے فراغت کے بعد بھی جاری رہا، اس طرح وہ ان کے تعلیمی و دعوتی کاموں میں تا حیات ان کے دست راست رہے، تعلیم کے بعد مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے مشورہ سے انھوں نے دعوتی مقصد سے حجاز میں دو سال گزارے تھے اور یہ اس زمانہ میں ہوا تھا جب سفر کے وسائل بھی مشکل سے حاصل ہوتے تھے اور سعودیہ میں دولت کا وہ دور بھی نہیں شروع ہوا تھا جو بعد میں ہوا لہذا یہ ایک اخلاص اور جذبہ کا کام تھا، حجاز سے واپسی کے بعد 1952ء میں استاد و نگراں کی حیثیت سے دار العلوم ندوۃ العلماء میں تقرر ہوا پھر جب 1958ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں شعبہ "تعمیر و ترقی" کا قیام عمل میں آیا، تو مولانا قاضی معین اللہ ندوی شعبہ "تعمیر و ترقی" کے ناظر مقرر ہوئے اور مولانا سید محمد عبد السمیع ندوی شعبہ "تعمیر و ترقی" کے نائب ناظر مقرر ہوئے، پھر کئی سال بعد قاضی معین اللہ ندوی صاحب نائب ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء کے عہدہ پر فائز ہوئے[1]، ربانی علما اور بزرگوں میں انھیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ، مولانا محمد یوسف کاندھلوی ، مولانا محمد احمد پرتابگڑھی کی توجہ اور تعلق خصوصیت سے حاصل رہی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری سے بھی استفادہ اور خدمت کا موقع ملا اور ان کی دعا اور توجہات حاصل کیں. [2]
وفات
ترمیم23اگست 1999ء کو انتقال فرما گئے۔ آپ کی یاد میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں ایک ہال آپ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے.
حوالہ جات
ترمیم- ↑ کتاب "وفیات معارف" مرتبہ سہیل شفیق صفحہ 611
- ↑ https://abulhasanalinadwi.org/books/yadon-ke-chirag-by-rabey-hasani/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ abulhasanalinadwi.org (Error: unknown archive URL) صفحہ نمبر 231