سید محمد عبد السمیع ندوی

بھارت کے مشہورعالمِ دین

"حکیم سید محمد عبد السمیع حسینی ندوی قاسمی" زیادہ تر اپنا نام "محمد عبد السمیع ندوی" لکھتے تھے۔ ان کی پیدائش سنہ 1920ء میں ہوئ؛ انھوں نے زمانہ طلب علمی میں دار العلوم دیوبند کے ہال میں انگریزوں کے خلاف زبردست تقریر کی جس کی وجہ سے آپ کے خلاف سی آئی ڈی فائل کھل گئی تھی، ان کے والد سید محمد عبدالحی شدھی و ارتداد کے خلاف میدان عمل میں اترنے والی پہلی جماعت جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کے معتمد تبلیغ تھے، جس کی بنیاد 1923 کو انبالہ میں سید غلام بھیک نیرنگ نے رکھی تھی۔

حکیم مولانا سید محمد عبد السمیع حسینی ندوی ؒ[1]

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1920ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 1995
رہائش اتر پردیش، بھارت
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی
عملی زندگی
مادر علمی
استاذ مولانا حیدر حسن خان   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


مولانا بھی میرے مرحوم والد کے شاگرد تھے اور اسی ناطے اس محبت کا تعلق رکھتے تھے جو پرانے وضعدار بزرگوں کا شیوہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ میرے کمرے کے دروازے اور کھڑکی سے وہ نظر آتے تھے اور لگتا تھا کہ سر سید کرسی پر فروکش ہیں، ہر وقت لوگوں سے گھرے ہوئے، چاہے وہ محصل ہوں، چاہے سفراء ہوں، چاہے اساتذہ ہوں، دفتر میں کوئی بھی آئے، مولانا کی وجیہ شخصیت کے سبب سب سے پہلے انھی سے ٹکراتے تھے، مولانا کی آنکھیں بڑی اور سرخی مائل تھیں، جو لوگوں کو مرعوب کر دیتی تھیں، لیکن کسی نو وارد کو کیا معلوم کہ ان کے سینہ میں کتنا گداز دل ہے، لوگ آنکھوں کی سرخی سے مرعوب صرف کام کی بات کرتے تھے۔

مجھے الحمد اللہ پچیس سال کے قریب مرحوم کے پڑوسی ہونے کا شرف حاصل رہا، ان کی سب سے زیادہ اہم خوبی تھی غض نصر، قلت کلام، ہمیشہ نگاہ نیچی کر کے چلتے اور گفتگو بھی بقدر ضرورت کرتے اور دوسری خوبی جو معنوی اعتبار سے اس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ ہے (نماز کی) جماعت کی پابندی۔

خاندان و نسب

ترمیم

ان کی ولادت 1920ء میں ہوئ، یہ نجیب الطرفین تھے، نسب حضرت حسین رضی اللہ عنہ ابن حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر جا ملتا ہے۔ ان کا شجرہ نسب مخدوم قطب الدین سالار بڈھ ؒ(868ھ تا 946ھ) تک درج ذیل ہے: محمد عبد السمیع ندوی ؒ بن سید محمد عبدالحی بن لیاقت حسین ؒ بن جمال علی ؒ بن کرم علی ؒ بن رحمت اللہ ؒ بن شاہ صبغۃ اللہ ؒ بن مخدوم جہانیاں ثالث ؒ بن شاہ محمد فیروز عرف پوجے بن حضرت شاہ جلال ؒ بن شاہ حسین ثانی بن حضرت قطب الدین ثانی ؒ بن شاہ علاء الدین ؒ (عرف شاہ حسین) بن مورث اعلیٰ حضرت مخدوم قطب الدین سالار بندگی بڈھ۔ ہندوستان میں ان کے خاندان کے بہت سے عالم و بزرگ گذرے ہیں، چند مشہور بزرگ و عالم کے نام مندرجہ ذیل ہیں-

اولاد

ترمیم
  1. ڈاکٹر عبد العزیز
  2. مولانا محمد عبدالرشید ندوی
  3. سید محمد عبد الجلیل ندوی
  4. سید محمد عبد الرحمان
  5. سید محمد عبیدالرحمان
  6. سید محمد عبد الحئی ثانی

بیعت و ارادت

ترمیم

مولانا سید محمد عبد السمیع ندوی [2] لکھنؤ سے متصل قصبہ "بجنور" کے بزرگ محمد شفیع بجنوری [3] سے بیعت تھے اور محمد شفیع بجنوری ، محدث مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی سے تربیت یافتہ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت و مجاز تھے.

تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم مدرسہ دارالارشاد قصبہ کوڑہ جہان آباد ، ضلع فتح پور میں حاصل کی، 1930ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے اور 1939ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہو کر اُسی سال مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند چلے گئے، وہاں 1944ء تک تعلیم حاصل کی،

دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث میں انگریزوں کے خلاف تقریر کی جس کی وجہ سے سی آئ ڈی آفس میں فائل گھل گئی، پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو دیوبند سے چل دیے اور مختلف شہر ہوتے ہوئے کانپور پہچے.

  • مولانا محمد رابع حسنی ندوی اپنی کتاب یادوں کے چراغ حصہ اول صفحہ ٣٣٩ میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
مولانا نے ندوہ کے بعد دیوبند میں تعلیمی زمانہ گزارا، غالبا اس زمانے میں مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے پیچھے بار بار نمازیں پڑھی ہونگی چنانچہ انکا لحن ان کے زہن میں رچ بس گیا تھا جس کا اثر ان کی قرات سے ظاہر ہوتا تھا، حتا کہ بعض وقت لوگوں کو شبہ ہو جاتا تھا کہ قاری طیب صاحب نماز پڑھا رہے ہیں.[4]

رفقا

ترمیم

ویسے تو ان کے رفقا کی فہرست بڑی ہے البتہ درج ذیل بلا تکلف رفقا میں شامل ہیں.

اساتذہ

ترمیم

انھوں نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ان میں سے چند مشہور اساتذہ یہ ہیں-

کلکتہ میں طبابت

ترمیم

کلکتہ کے مشہور طبیب حکیم سمیع اللہ میکش انصاری جب سابق مشرقی پاکستان منتقل ہونے لگے تو انھوں نے اپنی موجودگی میں سید محمد عبد السمیع صاحب کو اپنے "دیسی دواخانہ" (واقع بولائ دت اسٹریٹ کلکتہ) کا ذمہ دار بنایا اور مالکانہ حقوق اپنے داماد حکیم محمد عبدالوحید کو دیدئے. سید محمد عبد السمیع صاحب قریب دو سال 1954ء تا 1955ء اس مطب میں طبابت کرتے رہے. کلکتہ کی ہوا راس نہ آئ اس لیے کلکتہ کو خیراباد کہ کر کانپور واپس چلے آئے، آپ کا کلکتہ کا یہ دو سال کا قیام اور وہاں کے لوگوں سے شاسنائ بعد میں ندوہ کے لیے مالیات کی فراہمی کے لیے بڑی کار آمد ثابت ہوئ.

شہرت اور نام و نمود کی خواہش انسان کی ایک ایسی فطری کمزوری ہے جس سے شائد ہی کوئ شخص محفوظ ہو، تا ہم یہ دنیا ایسے افراد سے کبھی خالی نہیں رہی ہے جو دنیا کی حرص و ہوس سے بے نیاز اور کسی صلہ کی خواہش یا ستائش کی تمنا کے بغیر ایسے مشاغل میں لگے رہتے ہیں جو اہل دنیا کی نگاہ میں کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہوتے اور نہ ان کے نزدیک لائق اعتناء و باعث کشش اور لائق تحسین ہوتے ہیں، ایسے لوگ قناعت پسندی کے باوجود بڑی پر سکون زندگی بسر کرتے ہیں، اور ہر کام میں اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ان کا مقصد حیات ہوتا ہے. ایسے ہی لوگوں میں حکیم مولانا محمد عبدالسمیع صاحب ندوی بھی تھے، مولانا ایک اچھے عالم دین ہونے کے ساتھ ہی ایک اچھے حکیم بھی تھے، دارالعلوم سے منسلک ہونے کے بعد اس فن کو بطور پیشہ کبھی نہیں استعمال کیا بلکہ دوست احباب اور ضرورت مندوں کو نسخے بلا معاوضہ کے لکھ کر دیا کرتے تھے.

دار العلوم ندوۃ العلماء میں تقرری

ترمیم

اکتوبر 1956ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے مکتبہ"الجمعیۃ التعاونیہ" میں بحیثیت منیجر تقرر ہوا، چونکہ اس وقت تک ندوہ کے اس مکتبہ کا کام بڑا محدود تھا، اس لیے چند گھنٹے دار العلوم ندوۃ العلماء میں عربی تعلیم دینے کے لیے بھی لگا دئے گئے،[6] جب 1958ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں شعبہ تعمیر وترقی کا قیام عمل میں آیا، تو مولانا قاضی معین اللہ ندوی کو اس کا ناظر اور سید محمد عبد السمیع صاحب کو انکا معاون مقرر کیا گیا، شعبہ کے قیام کا اصل مقصد مالیات کی فراہمی، عمومی رابطہ و تعارف اور تعمیری امور کی نگرانی کرنا تھا، اس لیے آگے چل کر مکتبہ کو بھی شعبہ کے زیر انتظام کر دیا گیا، شعبہ نے عربی پریس بھی لگایا، جس میں ندوہ کے عربی ترجمان ماہنامہ "البعث السلامی" اور پندرہ روزہ الرائد" چھپ کر شائع ہونے لگے، پھر نومبر 1963ء میں عمومی رابطہ کے لیے ایک اردو کا پندرہ روزہ "تعمیر حیات"[7] بھی شعبہ کے زیر نگرانی جاری کیا گیا۔ عبد السمیع صاحب کچھ عرصہ رواق سلیمانی کے نگراں بھی رہے.

تاثرات

ترمیم
  • مولانا محمد رابع حسنی ندوی اپنی کتاب یادوں کے چراغ حصہ اول صفحہ ٣٣٨ و ٣٣٩ میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
مولانا مرحوم نرم خو اور خوش اخلاقی کی صفات کے حامل تھے، سب سے اخلاق و ہمدردی سے پیش آتے، وہ با وقار طبعیت کے آدمی تھے لیکن ان کا وقار دوسروں پر بار نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ برادرانہ دائرہ میں رہتا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت بھی تھی، چنانچہ ندوہ کے انتظامی دائرہ میں بھی بعض کام ان کے سپرد کئے جاتے تھے. خاص طور پر جن کاموں کا مزاج علمی ہوتا، کچھ عرصہ وہ رواق سلیمانی کے نگراں بھی رہے، مجلس انتظامی ندوۃ العلماء کے مشاورتی جلسوں کی تیاری کے موقع کے بعض کام ان کے سپرد کیے جاتے تھے، وہ ندوہ کی نصابی کتابوں کی اشاعت کی فکر کرتے تھے، اور ان کے نئے ایڈیشنوں کی ضرورت محسوس کر کے اشاعت کی تجویز کرنے کا کام بھی انجام دیتے. ندوہ کے لئے حصول تعاون کے لئے جو حضرات بھیجے جاتے ان کے سلسلہ کے امور میں متعلقہ حضرات کے مشوروں، پھر ناظم صاحب کی اجازت پر ان کے پروگرام کو طے کرنے اور بھیجنے کے کاموں میں ان کی ذمہ داری ہوتی.
مولانا سید محمد عبدالسمیع صاحب ندوی ندوہ کے ایک لائق فرزند تھے، ان کی ایک خوش نصیبی یہ بھی تھی کہ ایک طویل عرصہ تک انہیں ندوہ کی خدمت کا موقع ملا، واقف لوگ جانتے ہیں کہ مولانا کی یہ خادمانہ حیثیت محض رسمی اور خانہ پوری کی نہیں تھی بلکہ جذبہ دروں کی تسکین کا سامان تھی، ندوہ کی تحریک کو وقت کی ضرورت سمجھتے تھے اس کی فکر کی نشر و اشاعت اور اور تبلیغ و تدریج کو اہم ترین خدمت سمجھتے تھے جنانچہ وہ اپنے مفوضہ کام کو پوری لگن، تندہی اور ذوق و شوق سے کرتے تھے. دوفتری اوقات کے علاوہ بھی وہ اس کی فکر و تدبیر میں غلطاں رہتے.
  • ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی ناظر معہد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اپنے مضمون میں عبد السمیع صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
بعض لوگوں کے نزدیک نوافل و اذکار کسی کی بڑائ کا معیار ہوتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ جو نوافل کا پابند ہو گا وہ فرائض کا بدرجہ اولی پابند ہو گا، لیکن اس کے خلاف بھی مشاہدہ ہوتا رہا ہے کہ بعض لوگ نوافل کا تو بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن جو ذمہ داری اجرت پر قبول فرماتے ہیں اس میں کوتاہی کرتے ہیں یہ بات بڑے ہی عیب کی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ مولانا میں اس قسم کی کوتاہیاں نہ تھیں، وہ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری فرماتے، ساتھ میں نوافل و تطوعات بھی اپنائے رہتے.

تحریر و تصنیف

ترمیم
  • "تاریخ و شخصیات قصبہ کورا جہان آباد" مطبوعہ ندوی منزل لکھنؤ [8]
  • "عالم برزخ"[9] (ابن قیم الجوزی کی کتاب الروح کے چند ابواب کا خلاصہ) مطبوعہ دارالحسنات سہسوان بدایوں.
  • "بابری مسجد غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں" مطبوعہ جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کانپور.
  • جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کی طرف سے دعوت و تبلیغی مقاصد کے پیش نظر نکلنے والے "ماہنامہ محکمات" کا اجرا آپ ہی نے کرایا تھا اور آپ ہی "ماہنامہ محکمات" کے "ایڈیٹر" تھے.
  • دار العلوم ندوۃ العلماء سے نکلے والے "پندرہ روزہ تعمیر حیات" میں "کوائف دار العلوم" کے نام کا کالم آپ ہی کے ذمہ تھا جس میں آپ دار العلوم ندوۃ العلماء کے تعارف و خدمات کے بارے میں لکھا کرتے تھے.
  • دار العلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے زمانے میں قلمی ماہنامہ "نقاش" کے نام سے نکالتے تھے.

وفات

ترمیم

28 دسمبر 1995ء و ١٤١٦ھ میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے،

مولوی عبدالسمیع صاحب مرحوم شعبہ "تعمیر و ترقی" دار العلوم ندوۃ العلماء کے "نائب ناظر" تھے اور نائب ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء مولوی قاضی معین اللہ صاحب کے خاص معاونین و معتمدین میں تھے، راقم سطور ان کی وفات سے چند ہی گھنٹے پہلے رابطہ کے اجلاس سالانہ میں شرکت کے لیے حجاز روانہ ہو گیا، اس کی روانگی کے بعد ان کی وفات کا حادثہ پیش آیا، اللہ تعالی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے.[10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "About central Jamiat tablig ul islam جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام تعارف و خدمات"۔ 1 اپریل، 2012 – Internet Archive سے 
  2. http://tameerehayat.com/magazine-1996 (December1996page16, September1996page19, January1996page20, February1996page30)
  3. "Haji Mohammad Shafi Bijnori حاجی محمد شفیع بجنوری" – Internet Archive سے 
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 20 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2019 
  5. http://tameerehayat.com/wp-content/uploads/2017/07/Sep-1979-1.pdf صفحہ نمبر 9 اور صفحہ نمبر 10
  6. "عبدالرشید ندوی | ریختہ"۔ Rekhta 
  7. "پندرہ روزہ اسلامی میگزین - تازہ ترین شمارے | تعمیرِ حیات | Tameer E hayat | Tameere hayat | Nadwatul Ulama Lucknow" 
  8. "سید محمد عبدالسمیع ندوی | ریختہ"۔ Rekhta 
  9. "Aalam-e-barzakh water-mark.pdf"۔ Google Docs 
  10. از:مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ماخوز از "کاروان زندگی" صفحہ 211 جلد ششم