قبرص کے بینکوں کا بحران، 2012-13ء
قبرص (Cyprus) سنہ 2012ء میں مالیاتی بحران کا شکار ہوا اور مارچ 2013ء میں وہاں کے بینکوں نے حکومت کی رضا مندی سے اپنے بہت سے گاہکوں کی جمع شدہ رقم کا بڑا حصہ ضبط کر لیا۔
قبرص میں کسی بینک اکاونٹ میں جمع کرائی جانے والی رقم اگر ایک لاکھ یورو سے کم ہوتی تھی تو وہ قانون کے مطابق مکمل محفوظ (انشیورنس شدہ) ہوتی تھی۔ مگر بینک میں کھاتہ کھولتے وقت بیشتر گاہک معاہدے کی تفصیلات نہیں پڑھتے اور آنکھ بند کر کے مطلوبہ فارم پر دستخط کر دیتے ہیں۔ قبرص کے بینکوں میں بے شمار گاہک ایسے بھی تھے جن کے اکاونٹ میں ایک لاکھ یورو سے زیادہ رقم جمع تھی اور اسے قانونی تحفظ حاصل نہ تھا۔ بہت سے غیر ملکی لوگوں نے بھی ٹیکس سے بچنے کے لیے قبرص کے بینکوں میں کھاتے کھول رکھے تھے۔ ان غیر ملکیوں میں بیشتر روسی تھے۔
جب قبرص کی حکومت اپنے حکومتی قرضے (Government Bonds) بیچ کر اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہو گئی اور عالمی ادارے بھی مزید قرض دینے پر رضامند نہیں ہوئے تو یہ بحران آیا۔
کب کیا ہوا؟
ترمیم- 25 جون 2012 ء کو قبرص نے یورپیئن یونین کو درخواست کری کہ اسے بیل آوٹ کیا جائے۔
- 24 نومبر 2012 ء کو قبرص نے اعلان کیا کہ یورپیئن یونین سے معاہدہ بہت نزدیک ہے۔ اندازہ تھا کہ قبرص کو ساڑھے سترہ ارب یورو کی ضرورت ہے۔
- 25 فروری 2013 ء کو Nicos Anastasiades نے الیکشن جیتا۔ اس کا حریف عوام کی بہبود کے حکومتی اخراجات میں کٹوتی کا سخت مخالف تھا۔
- 16 مارچ 2013 ء کو بینک بند کر دیے گئے۔ اب عوام اپنا پیسہ نہیں نکال سکتے تھے۔
- 17 مارچ 2013 ء کو پارلیمنٹ کا اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔
- 18 مارچ 2013 ء کو بتایا گیا کہ بینک 21 مارچ تک بند رہیں گے۔
- 19 مارچ 2013 ء کو پارلیمنٹ نے بیل ان کا مسودہ قانون مسترد کر دیا۔
- 20 مارچ 2013 ء کو بتایا گیا کہ بینک 26 مارچ تک بند رہیں گے۔
- 24 مارچ 2013 ء کو بڑے بینکوں سے روزانہ صرف 100 یورو نکالنے کی اجازت دی گئی۔
- 25 مارچ 2013 ء کو حکومت نے بیل ان (bail in) منظور کر لیا۔ بینک آف سائپرس نے اپنے اُن کھاتے داروں کا 40 فیصد سرمائیہ ضبط کر لیا جن کے اکاونٹ میں ایک لاکھ یورو سے زیادہ کی رقم تھی جبکہ سائپرس پاپولر بینک (Laiki Bank) نے 60 فیصد ضبط کیا۔ اس کے باوجود سائپرس پاپولر بینک (Laiki Bank) ڈوب گیا۔
- ایک لاکھ یورو سے کم رقم رکھنے والے کھاتے داروں کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
نتیجہ
ترمیمکچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام میں ایک بہت بڑی تبدیلی لانے اور غربت کو فروغ دینے سے پہلے قبرص کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
قبرص میں کھاتے داروں کا پیسہ ضبط کرنے کے بعد کینیڈا، نیوزی لینڈ، امریکا اور برطانیہ نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو بینکوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے کھاتے داروں کی جمع شدہ رقم منجمد کر دیں اور پھر ضبط کر لیں۔ حال ہی میں جرمنی نے بھی ایسے قوانین منظور کر لیے ہیں۔[1]
- جنوری 2015 میں جے پی مورگن بینک نے اپنے گاہکوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنے بینک لاکر میں کیش نہیں رکھ سکتے۔
- سویئزلینڈ کے بینکوں نے پینشن فنڈ سے بڑی رقوم کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔
- ڈنمارک میں قانون ساز ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں کہ دکان دار کیش وصولی سے انکار کر سکیں۔
- آسٹریلیا نے بینک ڈپازٹ پر ٹیکس عائید کر دیا ہے۔
- فرانس میں بینک سے رقم نکالنے کی حد 3000 یورو سے کم کر کے 1000 یورو کر دی گئی ہے۔[2]
- دنیا بھر کے بینک "بغیر کیش" اکنومی (cashless economy) کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ الیکٹرونک کرنسی انھیں مکمل حکمرانی عطا کرے گی۔ کیش کوئی ذخیرہ کر سکتا ہے لیکن الیکٹرونی کرنسی کو بینک کے علاوہ کوئی ذخیرہ نہیں کر سکتا۔
One solution is to give savers nowhere else to go. ,,,, “We should make it much more expensive to hold cash.”[3]