کینیڈا
کینیڈا Canada شمالی امریکہ کا ایک ملک ہے۔ اس کے دس صوبے اور تین علاقے بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل اور شمال کی طرف بحر منجمد شمالی تک پھیلے ہوئے ہیں، جس سے یہ دنیا کے سب سے طویل ساحل کے ساتھ کل رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بنتا ہے۔ اس کا کل رقبہ 9,984,670 مربع کلومیٹر (3,855,100 مربع میل) ہے۔ کینیڈا کی زمینی سرحدیں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ جنوب اور شمال مغرب کی طرف سے ملتی ہیں۔ ریاستہائے متحدہ کے ساتھ اس کی سرحد دنیا کی سب سے طویل بین الاقوامی زمینی سرحد ہے۔ ملک موسمیاتی اور ارضیاتی دونوں خطوں کی ایک وسیع رینج سے متصف ہے۔ یہ چار کروڑ لوگوں کا ایک کم آباد ملک ہے، جس کی اکثریت شہری علاقوں میں 55 متوازی کے جنوب میں رہتی ہے۔ کینیڈا کا دار الحکومت اوٹاوا ہے اور اس کے تین بڑے میٹرو پولیٹن علاقے ٹورنٹو، مونٹریال اور وینکوور ہیں۔
کینیڈا | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(لاطینی میں: A mari usque ad mare) | |
ترانہ: او کینیڈا [1] | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 56°N 109°W / 56°N 109°W [2] |
بلند مقام | کوہ لوگن (5959 میٹر ) |
پست مقام | بحر منجمد شمالی (0 میٹر ) |
رقبہ | 9984670 مربع کلومیٹر |
سطح سمندر سے بلندی |
487 میٹر |
دارالحکومت | اوٹاوا [3] |
سرکاری زبان | انگریزی [4][5]، فرانسیسی [4][5] |
آبادی | 36991981 (2021)[6] |
|
18688790 (2019)[7] 18896073 (2020)[7] 19002171 (2021)[7] 19351209 (2022)[7] سانچہ:مسافة |
|
18929706 (2019)[7] 19132565 (2020)[7] 19237693 (2021)[7] 19587848 (2022)[7] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | آئینی بادشاہت ، وفاق ، پارلیمانی نظام |
اعلی ترین منصب | چارلس سوم (8 ستمبر 2022–)[8] |
سربراہ حکومت | جسٹن ٹروڈو (4 نومبر 2015–)[9][10] |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 1 جولائی 1867 |
عمر کی حدبندیاں | |
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) | 6 سال |
شرح بے روزگاری | 7 فیصد (2014)[11] |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | کینیڈی ڈالر |
ہنگامی فوننمبر | |
ٹریفک سمت | دائیں |
ڈومین نیم | ca. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | CA |
بین الاقوامی فون کوڈ | +1 |
درستی - ترمیم |
کینیڈا وفاقی آئینی شاہی اور پارلیمانی جمہوریت کا مجموعہ ہے اور دس صوبہ جات اور تین ریاستوں پر مشتمل ہے۔ کینیڈا کو سرکاری طور پر دو زبانوں والا یعنی کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی قوم کہتے ہیں۔ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ کینیڈا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور صنعتی قوم ہے۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کے قدرتی وسائل اور تجارت بالخصوص ریاستہائے متحدہ امریکا کے ساتھ تجارت پر ہے جس کے ساتھ کینیڈا کی طویل المدتی شراکت ہے۔
ابتدا اور اس کے نام کا تاریخی پس منظر
ترمیمکینیڈا کے نام کا مطلب گاؤں یا تصفیہ شدہ جگہ کا ہے۔ 1535ء میں اس علاقے کے لوگوں، جو آج کل کیوبیک سٹی کہلاتا ہے، نے جیکوئیس کارٹیئر کو اس جگہ سے سٹاڈاکونا کا گاؤں کہ کر متعارف کرایا۔ کارٹیئر نے اس لفظ کینیڈا کا استعمال صرف اس جگہ تک محدود نہ رکھا بلکہ ڈونا کونا یعنی جو سٹاڈاکونا کا حاکم تھا، کے زیرِ انتظام پورے علاقے کو یہی نام دے دیا۔ 1547ء تک نقشوں وغیرہ میں اس جگہ اور اس کے ملحقہ علاقوں کو کینیڈا کا نام پڑ گیا تھا۔
کینیڈا کی فرانسیسی کالونی، نیو فرانس دریائے سینٹ لارنس کے ساتھ بسائی گئی۔ بعد ازاں اس کو تقسیم کرکے دو برطانوی کالونیاں بنا دیا گیا جن کے نام اپر کینیڈا اور لوئر کینیڈا تھے۔ بعد میں انھیں ملا کر کینیڈا کا برطانوی صوبہ کہا گیا۔ 1867ء الحاق کے کے بعد کینیڈا کو ایک نئی ڈومینن کا درجہ دے دیا گیا۔ 1950ء تک اس کا نام ڈومینن آف کینیڈا رہا۔ جوں جوں کینیڈا کو برطانیہ سے مرحلہ وار سیاسی اختیارات اور آزادی ملتی گئی، وفاقی حکومت نے اپنے سرکاری کاغذات میں اور معاہدہ جات میں صرف کینیڈا کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں کینیڈا ایکٹ کے مطابق صرف کینیڈا کا نام استعمال کیا جانے لگا اور اب تک یہی واحد نام قانونی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اسی طرح 1982ء میں قومی دن کے نام کو یوم ڈومین سے بدل کر یوم کینیڈا رکھ دیا گیا۔
تاریخ
ترمیممقامی طور پر اولین باشندوں کی روایات یہ کہتی ہیں کہ وہ یہاں کے اولین باشندے تھے۔ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق شمالی علاقے یوکون میں انسانی موجودگی 26,000 سال پہلے تھی اور جنوبی علاقے اونٹاریو میں 9,500 سال پہلے انسانی آبدی کے آثار ملے ہیں۔ جب وائکنگ یعنی بحری قزاق یہاں کرکا کے مقام پر 1000عیسوی میں باقاعدہ آباد ہوئے تو یورپی اقوام یہاں پہلی بار آئیں۔ اس کے بعد آنے والے یورپی یہاں کینیڈا کے ساحل جو بحر اوقیانوس کے کنارے واقع تھے، کی مہم جوئی کی غرض سے آئے۔ ان میں جان کابوت جو 1497 میں اور مارٹن فروبشر 1576 میں برطانیہ کی طرف سے آئے۔ فرانس کی طرف سے جیکوئس کارٹیئر 1534 میں اور ڈی چیمپلیئن 1603 میں آئے۔ پہلی باقاعدہ یورپی آبادکاری کا آغاز فرانسیسیوں نے پورٹ رائل میں1605 میں اور کیوبیک سٹی میں 1608 میں کیا۔ برطانوی آبادکاری کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں 1610 میں ہوا۔
سترہویں صدی کا بیشتر حصہ برطانوی اور فرانسیسی کالونیوں نے ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر گزارا۔ فرانسیسی کالونی مکمل طور پر دریائے سینٹ لارنس کی وادی میں محدود رہے اور برطانوی تیرہ کالونیوں سے لے کر جنوب تک آباد رہے۔ تاہم جوں جوں علاقے، سمندری حدود، سمور اور مچھلیوں کی کمی ہوتی گئی، فرانسیسیوں، برطانیوں اور ساحلی قبائل کے درمیان میں جنگیں چھڑتی گئیں۔ 1689 سے 1763کے دوران میں چار جنگیں لڑئی گئیں۔ یہ جنگیں فرانسیسی اور مقامی انڈینز کے مابین تھیں۔ 1763کے معاہدہ فرانس کی شرائط کے تحت فرانس کے وہ سارے علاقے جو شمالی امریکا میں دریائے مسیسیپی کے مشرقی علاقے برطانیہ کے قبضے میں آ گئے، ماسوائے دور افتادہ جزائر جو سینٹ پیئرے اور میکوائلین کہلاتے تھے۔
جنگ کے بعد برطانیوں نے محسوس کیا کہ اب وہ زیادہ تر فرانسیسی بولنے والے رومن کیتھولک علاقے میں گھر گئے ہیں جہاں کے باشندے حال ہی میں برطانوی راج کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے 1774 میں ایک نیا ایکٹ منظور کیا جسے کیوبیک ایکٹ کانام دیا گیا۔ اس نئے ایکٹ کے تحت کیوبیک کے مقبوضہ علاقے میں فرانسیسی زبان، کیتھولک عقائد اور فرانسیسی شہری قوانین کو نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے برطانیہ کے لیے بہت سے غیر متوقع اور ناپسندیدہ نتائج سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو تیرہ کالونیوں کے آباد کار بہت ناراض ہوئے، جس سے امریکی انقلاب کو مدد پہنچی۔ دوسرا ریاستہائے متحدہ کی آزادی کے بعد برطانوی سلطنت کے تقریباً پچاس ہزار وفادار کیوبیک، نووا سکوشیا، پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ اور نیو فاؤنڈ لینڈ میں منتقل ہو گئے۔ ان کی آمد کو نووا سکوشیا میں اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا اور نیو برونزوک کو اس کالونی سے 1784 میں باہر نکال دیا گیا۔ اب آئینی ایکٹ کے تحت انگریزی بولنے والے وفاداروں کو کیوبک میں بسانے کے لیے صوبے کو دو حصوں یعنی فرانکوفون یعنی فرانسیسی بولنے والے زیریں کینیڈا اور اینگلوفون یعنی انگریزی بولنے والے بالائی کینیڈا میں 1791 میں تقسیم کر دیا گیا۔
کینیڈا امریکا اور برطانوی راج کے درمیان میں ہونے والی جنگ میں شامل تھا اور اس کے کامیابی نے کینیڈا پر طویل المدتی اثرات مرتب کیے جن میں قومی اتحاد و یگانگت اور برطانوی نژاد شمالی امریکیوں کا جذبہ قومیت پرستی شامل ہے۔ برطانیہ اور آئر لینڈ سے 1815 میں کینیڈا میں بڑے پیمانے پر امیگریشن ہوئی۔ کئی معاہدوں کے نتیجے میں امریکا اور کینیڈا کے درمیان میں طویل المدتی امن قائم ہوا۔
جنگ بغاوت کی ناکامی کے بعد کالونیوں کے افسروں نے سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا اور 1839 میں ڈرہم رپورٹ جاری کی۔ ایک وجہ، جو اینگلو فون یعنی انگریزی بولنے والوں اور فران کو فون یعنی فرانسیسی بولنے والے لوگوں کے لیے 1837 میں بغاوت کا سبب بنی، فرانسیسی کینیڈینز کا برطانوی کلچر میں انضمام تھا۔ دونوں کینیڈا کو ملا کر ایک وفاقی کالونی بنا دی گئی اور اسے متحدہ صوبہ ہائے کینیڈا کا نام دیا گیا۔ برطانیہ اور امریکا کے درمیان میں 1846 میں طے پانے والی اوریگان معاہدہ کا انجام اوریگان سرحدی تنازع کی صورت میں ہوا۔ اس کی وجہ سے مغربی سرحد کو 49th parallel تک پھیلا دیا گیا اور اوریگان کنٹری/کولمبیا ڈسٹرکٹ پر مشترکہ قبضہ ختم ہو گیا۔ اسی کی وجہ سے وینکوور جزیرے کی کالونی 1849میں وجود میں آئی اور فریزر کھائیوں میں سونے کی تلاش کے لیے دوڑ لگ گئی۔ برٹش کولمبیا کی کالونی میں یہ کام 1858میں شروع ہوا، اگرچہ یہ دونوں کینیڈا کے متحدہ صوبے سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ 1850 کے اواخر تک کینیڈا کے رہنماؤں نے بہت سی تحقیقی مہمات اس نیت سے بنائیں کہ اس سے رُپرٹس لینڈ اور ارکٹک ک علاقے کا قبضہ لیا جا سکے۔ بلند شرح پیدائش کی وجہ سے کینیڈا کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا، یورپی امیگریشن اسی دوران میں امریکا منتقل ہونا شروع ہو گئی، خصوصا فرانسیسی کینڈینز نیو انگلینڈ کی طرف منتقل ہوئے۔
عظیم اتحادکے فورا بعد چارلیٹ ٹاؤن کانفرنس اور پھر کیوبیک کانفرنس 1864میں اور پھر 1866کی لندن کانفرنس کے بعد تین کالونیوں کینیڈا، نووا سکوٹیا اور نیو برنزوک نے اس کنفیڈریشن کا انتظام سنبھال لیا۔ برطانوی شمالی امریکا ایکٹ نے کینیڈا کے نام سے ایک ڈومینن بنا دی جس میں چار صوبے اونٹاریو، کیوبیک، نووا سکوٹیا اور نیو برنزوک شامل تھے۔ جب کینیڈا نے رپرٹس لینڈ اور شمال مغربی علاقے کا انتظام سنبھالا جو 1870 میں ملا کر شمال مغربی علاقہ بنتے تھے تو ان کی توجہ میٹس سے ہٹ گئی اور اس کے نتیجے میں سرخ دریائی بغاوت نے جنم لیا اور بالآخر مینیٹوبہ کا صوبہ تشکیل پایا اور جولائی 1870 میں کنفیڈریشن میں شامل ہوا۔ برٹش کولمبیا اور جزائر وینکوور (جو 1866میں متحد ہو گئے) اور جزائر پرنس ایڈورڈ کی کالونی کنفیڈریشن کو بالترتیب 1871 اور 1873 میں شامل ہوئے۔ یونین کو آپس میں ملانے اور مغربی صوبوں پر اپنا انتظام برقرار رکھنے کے لیے کینیڈا نے پورے براعظم کو ملانے والی ٹرین کی تین پٹریاں بچھائیں جن میں سب سے اہم کینیڈین پیسیفک ریلوے تھی۔ اس کی مدد سے ڈومینن لینڈز ایکٹ کے تحت امیگرینٹس کی چراگاہوں کی طرف منتقل ہونے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کی وجہ سے نارتھ ویسٹ ماؤنٹڈ پولیس کو قائم کیا گیا۔ ان علاقوں میں آباد اصل باشندوں کو علاقہ مخصوصیہ منتقل کیا گیا۔[13] جوں جوں آباد کار چراگاہوں کی طرف ٹرینوں کی مدد سے منتقل ہوئے تو آبادی بڑھتی چلی گئی، شمال مغربی علاقوں کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا جس سے البرٹا اور ساسکاچیوان 1905میں بنے۔
1914 میں جب برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں شمولیت کا اعلان کیا تو کینیڈا خود بخود جنگ میں شریک ہو گیا۔ اس نے رضاکاروں پر مبنی ڈویژنز بھیجیں تاکہ مغری محاذ پر قومی ذمہ داری کا دفاع کیا جاسکے۔ ہلاکتیں اتنی بڑھ گئیں کہ وزیر اعظم رابرٹ بورڈن کو 1917 میں عام لام بندی یعنی جبری فوجی بھرتی کا حکم دینا پڑا جس کی کیوبیک میں شدت سے غیر مقبولیت پیدا ہوئی اور اس کی کنزرویٹو پارٹی نے اپنی حمایت کھودی۔ اگرچہ آزادی پسند جبری بھرتی کی وجہ سے بہت منقسم تھے لیکن پھر بھی وہ ایک نمایاں سیاسی پارٹی بن کر ظاہر ہوئے۔
1919 میں کینیڈا نے لیگ آف نیشنز میں اپنی مرضی سے شمولیت اختیار کی اور 1931 میں ویسٹ منسٹر کے دفتر نے تصدیق کی کہ اس کی مرضی کے بغیر برطانوی پارلیمان کینیڈا پر کوئی بات نہیں کر سکتی۔ اسی دوران میں عظیم معاشی بحران جو 1929 میں ہوا، نے کینیڈا کو ہر طرح سے متائثر کیا۔ البرٹا اور سسکیچوان میں جنم لینے والی باہمی دولت مشترکہ فیڈریشن نے ٹومی ڈوگلس کی فلاحی ریاست والی بات کا اشارہ دیا جس کی 1940سے 1950 میں داغ بیل پڑی۔ 1930 کے اواخر میں جرمنی سے تسلی بخش جواب ملنے کے بعد لبرل وزیر اعظم ولیم لوئن میکنزی کنگ نے پارلیمنٹ کے فیصلے کی توثیق کردی کہ کینیڈا 1939 میں دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوں اور انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے قبل متحرک کیا۔ جنگ کے دوران میں کینیڈا کی معیشت نے بہت تیزی سے ترقی کی جس کی بڑی وجہ کینیڈا، برطانیہ، چین اور روس کے لیے جنگی ہتھیاروں کی تیاری تھی۔ جنگ کے اختتام پر کینیڈا کی فوجی طاقت کا شمار دینا کی بڑی فوجی طاقتوں میں ہوا۔ 1949 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن نے کنفیڈریشن میں شمولیت اختیار کی اور کینیڈا کا دسواں صوبہ بنا۔
کینیڈا کے سو سال مکمل ہونے پر 1967 میں جنگ کے بعد مختلف یورپی ممالک سے امیگریشن کا تانتا بندھ گیا۔ اس سے کینیڈا کی جمہوری شکل تبدیل ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ویت نام کی جنگ کے دوران میں امریکا سے جنگ کے باغی بھی کینیڈا کے مختلف حصوں میں آکر آباد ہوئے۔ بڑھتی ہوئی امیگریشن، شرح پیدائش میں اضافہ اور مضبوط معیشت کی وجہ سے 1960کے عشرے کے دوران میں کینیڈا کا شمار امریکا کے برابر ہونے لگا۔ اس کے رد عمل کے طور پر کیوبیک میں خاموش انقلاب برپا ہوا اور ایک نئے قوم پرست جذبے کی ابتدا ہوئی۔
نومبر 1981کے دوران میں ہونے والی وزرا کی میٹنگ میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے یہ طے کیا کہ آئین سے رجوع کیا جائے تاکہ اس میں ترمیم کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ اگرچہ کیوبیک کی حکومت نے اس کی مخالفت کی، پھر بھی 17 اپریل 1982کو کینیڈا نے ملکہ الزبتھ دوم کی منظوری سے اپنے آئین کو برطانوی آئین سے علاحدہ کر لیا اور اپنے آپ کو ایک آزاد مملکت کا درجہ دے دیا اگرچہ دونوں ممالک اب بھی مشترکہ علامتی بادشاہت کے ماتحت تھے۔
آزادی کے بعد 1960کے خاموش انقلاب کے دوران میں کیوبیک بہت سی سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے گذرا۔ کچھ کیوبیک کے رہائشی زیادہ صوبائی خود مختاری یا کینیڈا سے جزوی یا مکمل آزادی پر زور دینے لگے۔ انگریزی اور فرانسیسی بولنے والوں کا اختلاف بہت بڑھ گیا۔ 1980کے دوران میں ہونے والے ریفرنڈم میں کثرت سے اور 1995 میں ہونے والے دوسرے ریفرنڈم میں لوگوں نے 50.6% کی نسبت 49.4% کے معمولی سے فرق سے کینیڈا سے آزادی کو مسترد کر دیا۔ اسی دوران میں 1997 میں سپریم کورٹ نے اس بات کو اگرچہ مسترد کر دیا لیکن دریں خانہ آزادی کی تحریک چلتی رہی۔
امریکا کے ساتھ معاشی اتحاد دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بڑھنے لگا۔1987 کے امریکا-کینیڈا آزادانہ تجارت کے معاہدے سے یہ بات مزید واضح ہوئی۔ موجودہ دہائیوں میں کینیڈا کے لوگ اپنی ثقافتی خود مختاری کے لیے بہت پریشان ہیں کیونکہ ٹی وی شوز، فلمیں اور کمپنیاں بہت زیادہ عام ہو گئی ہیں۔ تاہم کینیڈا کو اپنے عالمگیری نظام صحت پر اور کثیر الثقافی ملک ہونے پر فخر ہے۔
حکومت
ترمیمکینیڈا میں ملکہ الزبتھ کے ساتھ آئینی بادشاہت کا نظام قائم ہے جو کینیڈا کے سربراہ مملکت کا کام سر انجام دیتی ہیں اور وفاقی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کا نظام بھی ہے اور اس کی سیاسی روایات بہت مضبوط ہیں۔
کینیڈا کا آئین ملک کے قانونی ڈھانچے کی روح ہے اور یہ تحاریر اور غیر تحریری روایات اور رسموں پر مشتمل ہے۔ آئین میں کینیڈا کا آزادی اور حقوق کا چارٹر شامل ہے جو کینیڈا کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادی دیتا ہے اور اس کو کوئی بھی حکومت کسی بھی قانون کے تحت ختم نہیں کر سکتی۔ تاہم اس میں ایک ایسی ناقابل قبول شق شامل ہے جس سے وفاقی پارلیمان اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس چارٹر کے کچھ حصوں کو عارضی طور پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کے لیے ختم کر سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم کی حیثیت کینیڈا کے حکومت سربراہ کی ہے اور یہ عموما حکمران سیاسی پارٹی کا رہنما ہوتا ہے جو اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو۔ وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو گورنر جنرل، جو ملکہ کا نمائندہ ہوتا ہے، کی طرف سے باقاعدہ مقرر کیا جاتا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کابینہ کو خود سے منتخب کرتا ہے اور روایات کے مطابق گورنر جنرل کو وزیر اعظم کے انتخاب کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ عموماً کابینہ وزیر اعظم کی اپنی جماعت ہوتی ہے جو دونوں ایوانوں سے منتخب ہوتی ہے۔ یہ لوگ حکومت کے سب سے با اختیار ارکان ہوتے ہیں اور ان کا باقاعدہ پریوی کونسل کے سامنے حلف لیا جاتا ہے اور وہ تاج کے ماتحت وزرا کہلاتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے اختیارات کو سیاسی اور حکومتی معاملات میں استعمال کرتا ہے اور حکومتی و شہری اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کرتا ہے۔ مچل جین نے 25 ستمبر 2005 کو گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور سٹیفن ہارپر جو قدامت پرست جماعت کے رہنما ہیں، 6 فروری 2006 سے وزیر اعظم چلے آ رہے ہیں۔
وفاقی پارلیمان ایک ملکہ اور دوایوانوں پر مشتمل ہے: ایک ایوان نمائندگان جو براہ راست منتخب ہو کر آتے ہیں اور دوسرے نامزد کردہ ارکان سینیٹ۔ ہر ممبر برائے ایوان نمائندگان کا انتخاب ہر حلقے سے سادہ اکثریت سے ہوتا ہے اور عام انتخابات کا اعلان گورنر جنرل وزیر اعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ پارلیمینٹ کی کوئی کم از کم مدت مقرر نہیں ہے، لیکن اگلے انتخابات پہلے والے انتخابات سے پانچ سال کے اندر اندر ہونے لازمی ہیں۔ سینیٹ کی نسشتیں جو علاقائی حوالے سے منقسم نشستوں پر ہوتی ہے، پر ارکان کا انتخاب وزیر اعظم کرتا ہے اور اس کی رسمی منظوری گورنر جنرل دیتاہے۔ سینیٹ کے کل 75 ارکان ہوتے ہیں۔
کینیڈا کی چار بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ قدامت پرست پارٹی، لبرل پارٹی، نئی جمہوری پارٹی یعنی این ڈی پی، بلاک کیبوبیکوئس۔ موجود حکومت قدامت پرست پارٹی کی ہے۔ جبکہ گرین پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی اس وقت پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے، تاریخی اعتبار سے سیاسی پارٹیوں کی طویل فہرست موجود ہے۔
قانون
ترمیمویکیپیڈیا سے
کینیڈا کی عدلیہ قانون کی توجیہ اور وضاحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور آئین سے متصادم قوانین کو ختم کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ آف کینیڈا یہاں کی سب سے بڑی عدالت اور آخری فیصلہ کن اتھارٹی ہے۔ اس کی سربراہی جنابہ میڈم چیف جسٹس بیورلے میک لاچلین، پی سی ہیں۔ اس عدالت کے کل نو ارکان ہوتے ہیں جن کا تقرر گورنر جنرل وزیر اعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ اسی طرح تمام اعلیٰ اور اپیل کی عدالتوں کے ججوں کا تقرر وزیر اعظم اور وزیر انصاف اور دیگر غیر حکومتی قانون سے متعلقہ اداروں کے مشورے سے ہوتا ہے۔ وفاقی کابینہ صوبائی اور ریاستی لیول پر اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کرتی ہے۔ ماتحت عدالتوں کی تقرری صوبائی اور ریاستی حکومتیں خود سے کرتی ہیں۔
کامن لا ما سوائے کیوبیک، ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ کیوبیک میں سول لا کی حکمرانی ہے۔ کرمنل لا مکمل طور پر وفاقی ذمہ داری ہے اور پورے کینیڈا میں یکساں لاگو ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول کریمنل کورٹس صوبائی ذمہ داری ہوتے ہیں لیکن اکثر صوبوں میں یہ وفاقی شاہی کینیڈا کی پولیس سے مستعار لیے جاتے ہیں۔
خارجہ تعلقات اور فوج
ترمیمویکیپیڈیا سے
کینیڈا کے امریکا سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ دونوں کے بیچ دنیا کی سب سے بڑے مشترکہ سرحد ہے جس کی نگرانی نہیں کی جاتی، بعض اوقات فوجی مشقوں اور مہموں میں تعاون کیا جاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی حلیف ہیں۔ اسی طرح کینیڈا برطانیہ اور فرانس سے پرانے اور تاریخی تعلقات رکھتا ہے اور یہی دو ممالک اس کی بنیاد کا سبب بنے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ اور فرانس کے دوسرے سابقہ مقبوضہ علاقوں سے بھی کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات دولت مشترکہ اور لا فرانکوفونی کی ممبرشپ سے بنے ہیں۔
ساٹھ سال کے دوران میں کینیڈا نے اپنی شناخت بطور کثیر الجہت کے حامی کے طور پر کرائی ہے اور اس سلسلے میں عالمی تنازع جات کے حل میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سوئز بحران کے دوران یہ کردار بہت نمایاں رہا جب لیسٹر بی پیرسن نے بحالی امن کے کام کو آسان بنایا اور اقوام متحدہ کے فوجی دستہ برائے امن کی تعیناتی کو ممکن بنایا۔ اس حوالے سے کینیڈا نے اقوام متحدہ کے فوجی کارروائی برائے امن کی رہبری کی اور اقوام متحدہ کی امن کوششوں کو تقویت دی۔ کینیڈا اب تک 50 امن مشنوں میں حصہ لے چکا ہے جس میں 1989 سے اب تک کے تمام بحالی امن کے مشن شامل ہیں۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ کینیڈا نے امن کی بحالی کے لیے اکیسویں صدی میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
نیٹو کے بانی رکن کی حیثیت سے کینیڈا آج کل تقریباً 62٫000 باقاعدہ اور 26٫000 ریزرو فوجی بھرتی کرچکا ہے۔ کینیڈا کی افواج بری، بحری اور فضائی فوجوں سے مل کر بنی ہے۔ اس فوج کے پاس کل 1٫400 جنگی گاڑیاں ہیں اور 34 بحری جنگی جہاز ہیں اور کل 861 لڑاکا ہوائی جہاز ہیں۔
دوسری بوئر جنگ، پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور کورین جنگ میں شمولیت کے علاوہ کینیڈا نے بین الاقوامی مشنز میں اقوام متحدہ اور نیٹو کے لیے بھی اپنی فوجی قوت کو 1950 سے برقرار رکھا ہوا ہے جن میں امن مشن، یوگو سلاویہ میں ہونے والے مختلف مشنز اور پہلی خلیجی جنگ میں اتحادی افواج میں شرکت شامل ہے۔ 2001 سے اب تک کینیڈا کے فوجی دستے افغانستان میں امریکی افواج برائے استحکام اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی، نیٹو کی زیر نگرانی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹینس فورس میں بھی کم کر رہے ہیں۔ کینیڈا کی ڈیزاسٹر اسسٹینس ریسپانس ٹیم نے گذشتہ دو سال میں تین بڑے آپریشن کیے ہیں جن میں ستمبر 2005 کے کترینا ہری کین طوفان، اکتوبر 2005 میں کشمیر کے زلزلے اور دسمبر 2004 میں جنوبی ایشیا کے سونامی شامل ہیں۔
انتظامی تقسیم
ترمیمویکیپیڈیا سے
کینیڈا دس صوبوں اور تین ریاستوں کا مجموعہ ہے۔ صوبہ جات کے نام البرٹا، برٹش کولمبیا، مینی ٹوبہ، نیو برنزوک، نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبریڈار، نووا سکوشیا، اونٹاریو، پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ، کیوبیک اور ساسکچیوان ہیں۔ ریاستوں میں نارتھ ویسٹ ریاست، نُناوُت اور یوکون ریاست شامل ہیں۔ صوبوں کو وفاق کی جانب سے بہت زیادہ خود مختاری حاصل ہے اور ریاستوں کو کچھ کم آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح ہر ایک کی اپنے صوبائی اور ریاستی علامات ہیں۔
صوبہ جات کی ذمہ داریوں میں کینیڈا کے سماجی پروگرام شامل ہیں مثلا ہیلتھ کیئر، تعلیم اور فلاح و بہبود وغیرہ اور یہ سب صوبے مل کر وفاق کے لیے رقم جمع کرتے ہیں۔ کینیڈا کا یہ ڈھانچہ دنیا میں واحد اور اپنی طرز کا انوکھا نظام ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں میں قومی پالیسیاں بنا سکتی ہے مثلاً کینیڈا کا ہیلتھ ایکٹ، جن میں سے صوبہ جات اپنی مرضی کی پالیسی منتخب کر سکتے ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ برابری کے پروگرام یعنی ایکویلائزیشن پے منٹس کے نظام کے تحت وفاق ہر صوبے کو برابر رقوم دیتا ہے تاکہ غریب اور امیر، ہر صوبے کو ہر پروگرام کے لیے یکساں رقم ملے۔
تمام صوبہ جات کی اپنی صرف ایک اسمبلی یا مقننہ ہوتا ہے۔ تمام ارکان مل کر اپنے پریمئر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہی طریقہ کار وزیر اعظم کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر صوبے میں گورنر کا نائب لیفٹیننٹ گورنر بھی ہوتا ہے جو ملکہ کی نمائندگی کرتا ہے جس کا انتخاب صوبوں کی مشاورت سے وزیر اعظم خود کرتا ہے۔ آج کل نائب گورنر کے انتخاب میں صوبوں کا بہت عمل دخل ہو گیا ہے۔
جغرافیہ اور آب و ہوا
ترمیمویکیپیڈیا سے
کینیڈا بر اعظم شمالی امریکا کے شمالی بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ جنوب میں اس کی سرحد امریکا سے ملتی ہے اور شمال مغرب میں امریکی ریاست الاسکا واقع ہے۔ مشرق میں بحر منجمد شمالی سے لے کر مغرب میں بحرالکاہل تک کینیڈا پھیلا ہوا ہے۔ اس کے شمال میں بحر منجمد شمالی موجود ہے۔ 1925 سے لے کر اب تک قطب شمالی کا 60 ڈگری سے لے کر 141 ڈگری طول بلد کی ملکیت کا یک طرفہ دعوٰی کینیڈا کرتا ہے اگرچہ اسے عالمی طور پر مانا نہیں جاتا۔ روس کے بعد کینیڈا دنیا کا رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔
کینیڈا کی آبادی کی اوسط تین اعشاریہ پانچ افراد فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا بھر میں سب سے کم گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ کیوبیک سے لے کر ونڈسر کی پٹی تک (جو گریٹ لیک کے کنارے اور دریائے سینٹ لارنس تک ہے) کینیڈا کے گنجان آباد علاقے شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا میں جتنی جھیلیں اور دریا ہیں، وہ دنیا بھر کے کسی اور ملک کے پاس نہیں ہیں۔ اسی طرح کینیڈا کے پاس میٹھے پانی کے ذخائر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔
شمالی کینیڈا کی نباتات کونیفیریس جنگلات پر مشتمل ہیں جو قطب شمالی کے بنجر میدانوں تک پھیلے ہیں۔
کینیڈا میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم اوسط درجہ حرارت جگہ کے لحاظ سے بہت فرق ہیں۔ ملک کے بعض علاقوں جیسے پرنس ایڈورڈ آئیلینڈ صوبے میں روزانہ کا اوسط درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے اور کم سے کم درجہ حرارت سخت تیز ہوا اور شدید برفانی ٹھنڈ کے باعث منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر ساحلی برٹش کولمبیا ایک استثنٰی ہے۔ یہاں ہلکی سردی اور بارشیں موسم کو خوشگوار بناتی ہیں۔
اسی طرح گرمیوں کے بلند درجہ حرارت بھی جگہ کے لحاظ سے بہت فرق ہو سکتے ہیں۔ مشرق اور مغرب کے سواحل میں درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ ہو سکتا ہے جبکہ درمیانی علاقہ عموما پچیس سے تیس اور کبھی کبھار چالیس ڈگری سینٹی گریڈ بھی ہو سکتا ہے۔
کینیڈا کے شہروں کے د رجہ حرارت
ترمیماس جدول میں کینیڈا کے شہروں کے اوسط درجہ حرارت دیے گئے ہیں۔ تمام درجہ حرارت ڈگری سینٹی گریڈ میں ہیں۔ کسی بھی کالم پر کلک کر کے آپ اس کی ترتیب کو بدل سکتے ہیں:
شہر | جنوری (کم سے کم اوسط) |
جنوری (زیادہ سے زیادہ اوسط) |
جولائی (کم سے کم اوسط) |
جولائی (زیادہ سے زیادہ اوسط) |
---|---|---|---|---|
ونی پگ، MB | -22.8 °C | -12.7 °C | 13.3 °C | 25.8 °C |
ساسکاٹون، SK | -22.3 °C | -11.8 °C | 11.4 °C | 24.9 °C |
ریجائنا، SK | -21.6 °C | -10.7 °C | 11.8 °C | 25.7 °C |
کیوبیک سٹی، QC | -17.6 °C | -07.9 °C | 13.4 °C | 25 °C |
ایڈمنٹن، AB | -16 °C | -07.3 °C | 12.1 °C | 22.8 °C |
اوٹاوا، ON | -15.3 °C | -06.1 °C | 15.4 °C | 26.5 °C |
کیلگری، AB | -15.1 °C | -02.8 °C | 09.4 °C | 22.9 °C |
مانٹریال، QC | -14.7 °C | -05.7 °C | 15.6 °C | 26.2 °C |
ہیلی فیکس، NS | -10.7 °C | -01.2 °C | 13.5 °C | 23.6 °C |
سینٹ جونز، NL | -08.6 °C | -0.9 °C | 10.5 °C | 20.3 °C |
ٹورانٹو، ON | -07.3 °C | -01.1 °C | 17.9 °C | 26.4 °C |
وینکوور، BC | +0.5 °C | +06.1 °C | 13.2 °C | 21.7 °C |
ذریعہ:کینیڈا کا ماحول http://www.climate.weatheroffice.ec.gc.ca/climate_normals/index_e.htmlآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ climate.weatheroffice.ec.gc.ca (Error: unknown archive URL)
معیشت
ترمیمویکیپیڈیا سے
کینیڈا اس وقت دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ایک ہے۔ کینیڈا آرگنائزیشن فار اکنامک کواپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ OECD اور گروپ آف ایٹ G-8 کا رکن ہے۔ کینیڈا فری مارکیٹ اکانومی ہے اور اس کی حکومت کا امریکا کی نسبت تھوڑا سا زیادہ عمل دخل ہے لیکن یورپی یونین کی نسبت بہت کم دخل دیتی ہے۔ کینیڈا کی فی کس جی ڈی پی امریکا سے نسبتا کم ہے لیکن اکثر مغربی یورپی ممالک سے زیادہ ہے۔ گذشتہ دہائی میں بحران کے بعد کینیڈا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور بے روزگاری کی شرح کم ہوتی جا رہی ہے اور حکومت کا سرپلس وفاقی سطح پر بڑھتا جا رہا ہے۔ آج کا کینیڈا معاشی حوالے سے امریکا سے بہت ملتا جلتا ہے۔ جولائی 2006 میں کینیڈا کی شرح بے روز گاری چھ اعشاریہ چار فیصد (6.4%) تھی جو سابقہ تیس سالوں میں کم ترین ہے، صوبائی بے روزگاری کی شرح البرٹا میں تین اعشاریہ چھ (3.6%) سے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبریڈار میں چودہ اعشاریہ چھ (14.6%) تک فرق ہے۔
گذشتہ صدی میں تیزی سے ہونے والی مینوفیکچرنگ، کان کنی اور خدمات کے شعبے میں ترقی نے اس قوم کو شہری اور صنعتی قوم بنا دیا ہے۔ دنیا کی دوسری ترقی یافتہ اقوام کی مانند، کینیڈا کی معیشت کا بڑا حصہ خدمات سے متعلق ہے اور کینیڈا کے تین چوتھائی باشندے اس سے متعلق ہیں۔ تاہم کینیڈا اس لحاظ سے فرق ہے کہ کینیڈا کی معیشت میں لکڑی اور تیل کی صنعتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
کینیڈا ان چند ترقی یافتہ ممالک سے ایک ہے جو توانائی برآمد کرتے ہیں۔ کینیڈا میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر مشرقی ساحل پر موجود ہیں اور تیل اور مزید گیس البرٹا، برٹش کولمبیا اور ساسکچیوان میں موجود ہیں۔ اسی طرح اتھابسکا ٹار سینڈز کینیڈا کو تیل کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بناتے ہیں۔ کیوبیک، برٹش کولمبیا، نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار، اونٹاریو اور مینیٹوبا میں پن بجلی سستے اور ماحول دوست طریقے سے پیدا ہوتی ہے۔
کینیڈا زرعی پیداوار کے حوالے سے بھی دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ کینیڈا کی چراگاہیں گندم اور دیگر غلہ جات پیدا کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ کینیڈا جست اور یورینیم کے علاوہ دیگر معدنیات جیسا کہ سونا، کانسی، المونیم اور سیسہ کے لیے بھی بہت مشہور ہے۔ اونٹاریو کے جنوب میں واقع صنعتی علاقہ خاص طو رپر گاڑیوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔
کینیڈا کی تجارت کا بنیادی دارومدار بین الاقوامی تجارت بالخصوص امریکا کے ساتھ ہے۔ 1989میں اور 1994میں کینیڈا نے امریکا کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کیا جس سے دونوں کی تجارت میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ 2001 سے اب تک کینیڈا نے کامیابی سے معاشی بحرانوں کا سامنا کیا ہے اور جی آٹھ G-8 میں اپنی معاشی حالت برقرار رکھی ہے۔
آبادی
ترمیمویکیپیڈیا سے
2001کی مردم شماری سے پتہ چلا ہے کہ اس وقت کینیڈا میں کوئی تین کروڑ سات ہزار اور چورانوے (30,007,094) لوگ آباد ہیں۔ موجودہ اندازہ بتیس اعشاریہ پانچ ملین (32.5) نفوس ہے۔ آبادی میں اضافے کی بنیادی وجہ امیگریشن ہے اور کسی حد تک قدرتی شرح پیدائش بھی اس کا سبب ہے۔ اس وقت کینیڈا کی تین چوتھائی آبادی امریکا کے ساتھ سرحد کے ایک سو ساٹھ (160) کلومیٹر کے اندر اندر رہ رہی ہے۔ اسی طرح آبادی کا بڑا حصہ شہری علاقوں میں بالخصوص کیوبیک شہر ونڈسر کی پٹی، برٹش کولمبیا کے لوئر مین لینڈ اور کیلگری-ایڈمنٹن کی پٹی میں رہ رہا ہے۔
نسلی یا قومیت کے اعتبار سے کینیڈا بہت ملی جلی قوم ہے۔ 2001 کی مردم شماری سے پتہ چلا ہے کہ کینیڈا میں کل 34 قومیتیں ایسی ہیں جن کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہے۔ کینیڈا کے اپنے باشندے سب سے زیادہ یعنی 39.4% ہیں۔ اس کے بعد انگریزوں کی تعداد 20.2% ہے۔ اس کے بعد فرانسیسی، سکاٹش، آئرش، جرمن، اطالوی، چینی، یوکرائنین اور جنوبی امریکا کے ریڈ انڈین آتے ہیں۔ کینیڈا کے اصلی باشندوں کی تعداد میں دیگر آبادی کی نسبت دگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2001 میں آبادی کا 13.4% حصہ قابل ذکر اقلیتوں کا تھا۔
کینیڈا کی آبادی کا 77.1% حصہ مسیحی ہے جس میں سے کل آبادی کا 43.6% حصہ کیتھولک ہیں اور باقی پروٹسٹنٹ ہیں۔ 17% نے کسی مذہب سے تعلق ظاہر نہیں کیا۔ باقی 6.3% میں سے اکثریت مسلم ہیں۔
کینیڈا کے صوبے اور ریاستیں تعلیم کے ذمہ دار ہیں یعنی قومی سطح پر کوئی ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس طرح یہاں تیرہ تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں۔ ہر نظام اپنی علاقائی تاریخ، جغرافیہ اور مقامی ثقافت کے علاوہ یکساں تعلیم دیتا ہے۔ لازمی طور پراسکول جانے کی عمر علاقے پر منحصر ہے اور پانچ سال سے لے کر سات سال تک داخلہ اور سولہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر میں فراغت ہو سکتی ہے۔ اس وقت کینیڈا کی 99% آبادی خواندہ ہے۔ ثانوی تعلیم بھی صوبائی اور ریاستی حکومت کی ذمہ داری اور ان کی رقوم سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وفاق اضافی رقوم بھی مہیا کرتا ہے۔ 2002 میں 25 سے 64 تک کی عمر کے 43% کینیڈینز ثانوی درجے تک تعلیم یافتہ تھے۔
زبان
ترمیمویکیپیڈیا سے
انگریزی اور فرانسیسی کینیڈا کی دو سرکاری زبانیں ہیں۔ انگریزی 59.7% آبادی کی مادری زبان ہے جبکہ فرانسیسی 23.2%کی مادری زبان ہے۔ 7جولائی 1969 کو آفیشل لینگوئج کے تحت وفاقی حکومت میں فرانسیسی کو انگریزی کے برابر درجہ دے دیا گیا۔ اس سے کینیڈا کے دو زبانی ملک ہونے کا عمل شروع ہوا۔
انگریزی اور فرانسیسی کو وفاقی عدالتوں، پارلیمان اور تمام وفاقی اداروں میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ عوام کو حق حاصل ہے کہ جہاں اکثریتی علاقہ ہو، وہ انگریزی یا فرانسیسی میں خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا کا باشندہ ہونے کے لیے انگریزی یا فرانسیسی میں سے کم از کم ایک زبان کا جاننا لازمی ہے۔ 98.5%آبادی کم از کم انگریزی یا فرانسیسی یا دونوں بولنے کے قابل ہے۔
فرانسیسی بولنے والوں کی اکثریت کیوبیک میں رہتی ہے لیکن قابل ذکر تعداد نیو برنزوک کے شمال، مشرقی اور شمالی اونٹاریو اور جنوبی مینی ٹوبہ میں بھی موجود ہے۔ کیوبیک کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔ 85% افراد کی زبان فرانسیسی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی اور بھی قدیم زبانیں علاقائی طور پر سرکاری درجہ رکھتی ہیں۔
غیر سرکاری زبانیں بھی اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے بولنے والے پانچ ملین (5,202,245) سے زائد ہیں۔ ان میں چینی، اطالوی، جرمن اور پنجابی زبانیں شامل ہیں۔[14]
ثقافت
ترمیم
کینیڈا کی ثقافت تاریخی اعتبار سے انگریزی، فرانسیسی، آئرش، سکاٹش اور مقامی ثقافتوں سے بہت متائثر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ امریکی ثقافت بھی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ بہت سے امریکی ثقافتی اشیا مختلف اندازسے اپنے قدم جما رہے ہیں اور اسی طرح کینیڈا کی ثقافت اپنے قدم امریکا اور دیگر ممالک میں جما رہی ہے۔
کینیڈا کی الگ تھلگ اور محفوظ رہنے والی ثقافت اب وفاقی اداروں کی مداخلت سے متائثر ہو رہی ہے جن میں کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، نیشنل فلم بورڈ آف کینیڈا اور کینیڈین ریڈیو-ٹیلی ویژن اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کمیشن شامل ہیں۔
کینیڈا جغرافیائی اعتبار سے وسیع اور نسلی اعتبار سے مخلوط ملک ہے اور صوبوں اور ریاستوں میں یہ بہت فرق پایا جاتا ہے۔ کینیڈا کی اپنی ثقافت نئے امیگرینٹ لوگوں کی وجہ سے بہت متائثر ہوئی ہے۔
قومی نشانات قدرت، تاریخ اور پہلے آنے والی قوموں سے متائثر ہیں۔ میپل کا پتہ جو اب کینیڈا کی شناخت بن چکا ہے، اٹھارہویں صدی کے اوائل سے جھنڈے، پینی (سب سے چھوٹی مالیت کا سکہ) اور سرکاری علامت کا درجہ رکھتا ہے۔ دوسرے اہم نشانات میں اودبلاؤ، کینیڈا گوز یعنی بطخ، مرغابی، تاج اور آر سی ایم پی شامل ہیں۔
کینیڈا کا سرکاری کھیل آئس ہاکی ہے۔ ہاکی قومی مشغلہ ہے اور اس وقت کوئی ڈیڑھ ملین (1.65) سے زائد افراد اس کے باقاعدہ رکن ہیں۔ کینیڈا کے چھ میٹروپولیٹن علاقے یعنی ٹورنٹو، مانٹریال، وینکوور، اوٹاوا، کیلگری اور ایڈمنٹن نے اپنی اپنی قومی ہاکی لیگیں بنائی ہوئی ہیں اور اس میں کینیڈا کے مقامی کھلاڑیوں کی تعداد دنیا میں دیگر تمام آئس ہاکی کے کھلاڑیوں سے زیادہ ہے۔ ہاکی کے بعد دوسری مشہور کھیل کینیڈین فٹ بال اور کرلنگ ہے۔ کینیڈا کی فٹ بال کی لیگ ملک کی دوسری سب سے زیادہ مشہور ہے اور کینیڈا کی شناخت کا باعث بھی ہے۔ گولف، بیس بال، سکیینگ، سوکر، والی بال اور باسکٹ بال بھی بڑے پیمانے پر کھیلی جاتی ہیں۔ کینیڈا 2007 کے فیفا انڈر 20 ورلڈ کپ کا میزبان ہے اور 2010 کے سرمائی اولمپک بھی وینکوور اور وسلر میں ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی درجہ بندی
ترمیمفہرست متعلقہ مضامین کینیڈا
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://canlii.ca/t/hzrg
- ↑ "صفحہ کینیڈا في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2024ء
- ↑ باب: 16 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://laws-lois.justice.gc.ca/eng/Const/Index.html
- ↑ عنوان : Loi sur les langues officielles — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://lois.justice.gc.ca/fra/lois/O-3.01/index.html
- ↑ باب: 16(1) — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://canlii.ca/t/ldsx
- ↑ 2021 Census of Population key indicators by geography: Canada
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ King Charles officially proclaimed as Canada's new monarch — اخذ شدہ بتاریخ: 10 ستمبر 2022
- ↑ http://www.cbc.ca/news/politics/canada-election-2015-voting-results-polls-1.3278537
- ↑ http://www.cbc.ca/news/politics/canada-trudeau-liberal-cabinet-ministers-1.3302743
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ مدیر: عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد — International Numbering Resources Database — اخذ شدہ بتاریخ: 3 جولائی 2016
- ↑ جیمز داشوک (19 جولائی 2013ء)۔ "When Canada used hunger to clear the West"۔ گلوب اور میل۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ استشهاد فارغ (معاونت)