غلامی، قدیم یونانی تاریخ میں اس وقت موجود دیگر ریاستوں کی طرح ایک عام دستور تھا۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اُس وقت ایتھنز کے  شہریوں کی اکثریت اپنی ملکیت میں کم از کم ایک غلام ضرور رکھتی تھی۔ چنانچہ انہی حالات کے پیش نظر اکثر قدیم مصنفین نے غلامی کو ایک قدرتی اورضروری عنصرسمجھا ہے۔ اس معمے پر سقراطی مکالموں میں خصوصی سوالات اٹھائے گئے تھے؛ نیز سقراط کے پیروکاروں کو تاریخ میں پہلی بار غلامی کی مذمت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ [2]

’’سقراط‘‘ کی بیٹی ’’منیسرہ‘‘ کا تعزیتی کتبہ؛ ایک نوجوان خادمہ (بائیں) اپنی مردہ مالکن کے روبرو کھڑی ہے۔[1] عتیقہ، ق۔م380 . (غلیفٹا تھک، میونخ)

حوالہ جات

ترمیم
  1. A traditional pose in funerary steles, see for instance Felix M. Wassermann, "Serenity and Repose: Life and Death on Attic Tombstones" The Classical Journal, Vol. 64, No. 5, p.198.
  2. J.M.Roberts, The New Penguin History of the World, p.176–177, 223