قریہ خاویہ (کھنڈر بستی)

قرآن پاک میں مذکور ایک واقعہ

قریہ خاویہ (کھنڈر بستی ) قرآن میں ایک بستی کا ذکر جو اجڑ چکی تھی ۔

خاویہ کے معنی ترمیم

قریہ کے معنی بستی اورخاویہ کے معنی ہیں خراب، گلا، سڑا، کھوکھلا

قرآن میں ذکر ترمیم

  أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ    
  فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ    

واقعہ میں شامل شخص کا نام ترمیم

اکثر مفسرین نے اس سے مراد حضرت عزیر علیہ السلام ہیں جبکہ ارمياء علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام بھی ذکر کیا [1]

بستی کا نام ترمیم

اکثر مفسرین نے اس سے مراد بیت المقدس کی بستی لی ہے بعض نے ایلیاء مراد لی ہے جیسے تفسیر طبری اور تفسیر وجیز واحدی نے بیان کیا ۔

اس بستی سے جڑا واقعہ ترمیم

جب بُخت نصر بادشاہ نے بیتُ المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل و غارَتگَری کرکے تباہ کر ڈالا تو ایک مرتبہ حضرتِ عُزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہاں سے گذر ہوا، آپ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی میں پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں گری ہوئی تھیں، آپ نے تعجب سے کہا ’’اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا‘‘ اللہ تعالیٰ انھیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی سواری کے جانور کو وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور گدھا بھی مرگیا۔ یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے، اس سے ستر برس بعد اللہ تعالیٰ نے ایران کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو غلبہ دیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیتُ المقدس پہنچا، اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ دوبارہ یہاں آکر بیتُ المقدس اور اس کے گرد و نواح میں آباد ہو گئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس پورے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا، جب آپ کی وفات کو سوسال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا ،پہلے آنکھوں میں جان آئی، ابھی تک تمام جسم میں جان نہ آئی تھی۔ بقیہ جسم آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا۔ یہ واقعہ شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: تم یہاں کتنے دن ٹھہرے؟ آپ نے اندازے سے عرض کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت۔ آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم یہاں ایک سو سال ٹھہرے ہو۔ اپنے کھانے اور پانی یعنی کھجور اور انگور کے رس کو دیکھوکہ ویسا ہی صحیح سلامت باقی ہے، اس میں بو تک پیدا نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہے، چنانچہ آپ نے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے، اس کا بدن گل گیا اور اعضاء بکھر گئے ہیں، صرف سفید ہڈیاں چمک رہی تھیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے، اعضاء اپنی اپنی جگہ پر آئے ،ہڈیوں پر گوشت چڑھا ،گوشت پر کھال آئی، بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. جامع البيان فی تأويل القرآن( تفسیر طبری)، مؤلف ابو جعفر الطبری
  2. تفسیر صراط الجنان جلد اول صفحہ 390