رنی کوٹ قلعہ (Ranikot Fort) ضلع جامشورو، سندھ، پاکستان میں ایک تاریخی قلعہ ہے۔[1] اسے عظیم دیوارسندھ (The Great Wall of Sindh) بھی کہا جاتا ہے۔ [2] 1993ء سے یہ یونیسکو کی مجوزہ عالمی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل ہے۔[3] یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے، اس کا دائرہ تقریبا 32 کلومیٹر (20 میل) ہے۔ [4][5][6]

قلعہ رانی کوٹ
Ranikot Fort
رني ڪوٽ (سندھی میں)
قلعہ رانی کوٹ
رانی کوٹ is located in پاکستان
رانی کوٹ
اندرون پاکستان
مقامجامشورو ضلع، سندھ، پاکستان
قسمقلعہ بندی

تاریخ

ترمیم

اس قلعے کی تعمیر کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں ہیں۔ مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ قلعہ رنی کوٹ کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی اور کس دشمن سے بچنے کے لیے رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لیے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے۔ کہ یہ دو ہزار سال سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، مگر حیرانی کی بات یہ ہے۔ کہ اس قلعے کا ذکر تاریخ میں صرف اس وقت سے ملتا ہے۔ جب میرپورخاص کے میر شیر محمد تالپور نے اٹھارویں صدی میں اس قلعے کی مرمت کروائی اور اس قلعے میں ایک اور چھوٹے قلعے 'میری' میں رہائش اختیار کی

قلعہ رانی کوٹ کے کھنڈر پر نظر پڑتے ہی انسان حیرت میں کھو جاتا ہے ۔ پہاڑوں کے درمیان واقع یہ قلعہ بالکل دیوار ِچین کی مانند تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چونے کے پتھر سے تعمیر ہونے والے اس قلعہ پر کتنی لاگت آئی ہوگی؟ کھنڈر ات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت خاصی عظیم رہی ہوگی ۔ یہ قلعہ سندھ کے ریلوے اسٹیشن سان سے کوٹری دادو روڈ پر 32میل کے فاصلے پر کوہستان کیرتھر کے مقام پر واقع ہے۔ اس قلعہ کے بے شمار دروازے تھے ۔ مشرقی دروازہ سان گیٹ کہلاتا تھا ۔ اس کے سامنے دریائے رانی واقع ہے جو سال کا بیش تر حصہ خشک ہی رہتا ہے اور صرف برسات میں بہتا ہے ۔ اس پر کبھی کسی زمانے میں ایک مضبوط پل ہوا کرتا تھا جسے پانی کا ریلا بہا کر لے گیا تھا ۔ عظیم یونانی تاریخ نویس کیورٹس رفس نے اپنی کتاب میں اِس قلعے کا ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کی تفصیل بھی بیان کی ہے جب سکندر اعظم نے قلعے کا سہ روزہ محاصرہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ مقامی بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ اس قلعہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا ۔ سکندر اعظم قلعہ کو توڑتے ہوئے اور قتل عام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا ۔ قلعے میں واقع بچی کھچی دیواروں پر قدیم لکھائی کے آثار ہیں ۔ کھنڈر کی حالت دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے میٹریل کہیں اور سے لایا گیا تھا ۔ قلعہ کے اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے سٹوپا نما برج ہے جو مقامی طرز تعمیر کی غمازی کرتا ہے ۔ تھوڑا سا آگے بڑھیں تودائیں حصے میں ایک مسجد کے آثار ہیں۔ اس کے میناروں اور گنبد کے بعض حصے شہید ہو چکے ہیں ۔ قلعے کی شکل چوکورنما ہے اوریہ 45مربع میل کے علاقے پر پھیلا ہواہے ۔ قلعے کے وسط میں ایک چھوٹا سا قلعہ نما کمرہ تھا جو اُونچی جگہ پر واقع تھا اور اُس کو میری کہا جاتا تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری ، میر سے بنا ہے ۔ میر ، سندھ کے حکمرانوں کا خطاب تھا۔ اس قلعے کو 1784/1843ء میں تالپور کے میروں نے از سر نو تعمیر کروایا تھا ۔ قلعے کے مغرب کی جانب والا گیٹ موہن گیٹ کہلاتا ہے۔ اس کے بالکل سامنے ایک وسیع میدان ہے ۔ امری گیٹ ، رانی کوٹ قلعے کی آخری حد کہلاتا ہے ۔ اس گیٹ سے داخل ہو کر اہل علاقہ قلعہ بند ہو جایا کرتے تھے ۔ قلعے سے 40کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرقی جانب سندھ کا ایک پرانا گائوں امری ہے جو اب بھی ایک چھوٹے سے گائوں کی شکل میں آباد ہے ۔ قلعے کے اندر چھوٹا قلعہ سحر گاہ واقع ہے جہاں علاقے کے حکمران پناہ لیتے تھے وہاں تک دشمن کا پہنچنا بہت دُشوار ہوتا تھا ۔ قلعے کے اندر پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ایک وسیع و عریض تالاب تھا جو امتداد زمانہ کے باعث ٹوٹ پھوٹ چکا ہے تا ہم بارشوں کا پانی اب بھی اچھی خاصی مقدار میں اس کے اندر جمع رہتا ہے ۔ ایک وہ وقت تھا جب قلعہ فوجیوں کے بھاری بوٹوں کی آوازوں سے مانوس تھا مگر اب وہاں شا ذو نادر ہی کوئی شخص جاتا ہے اور یہ بالکل ویران حالت میں پڑا ہے۔کبھی اِس کی راتیں جاگتی تھیں، اب دن کے وقت بھی راتوں کی طرح اندھیرا بسا رہتا ہے۔ قدیم پہاڑوں کے درمیان واقع قلعہ رانی کوٹ تاریخ کا ایک خاموش گواہ ہے۔ اگر اس کی خاموشی کسی طور ٹوٹ جائے تو یہ لازماً ماضی کی ان گنت شان و شوکت کی داستانیں بیان کرے ۔ یہ اُن بہادروں کے کارناموں کو ضرور اُجاگر کرے گا جنھوں نے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جان ، جانِ آفرین کے سپرد کر دی تھی ۔ معلوم ہوتا ہے مختلف ادوار میں اس کی تعمیر و تزئین کی جاتی رہی ہے ۔ اس قلعے کے متعلق بے شمار کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ بعض کے مطابق کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں یہ جنوں کا مسکن رہا ہے ۔ یہ بات شبہ سے بالا تر ہے کہ قلعہ رانی کوٹ 1784ء میں حیدرآباد کے تالپور میر خاندان کے زیر نگیں رہا ہے ۔ اس خاندان نے اِس قلعے کی ازسر نو تعمیر کے لیے بڑی کاوشیں کی ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے انھیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کا اندازہ ہو چکا تھا تا ہم قسمت نے تالپور خاندان کا ساتھ نہ دیا اور 17فروری 1843ء کو انگریزوں کے ساتھ آتش و آہن کی جنگ کے بعد انھیں پسپا ہونا پڑا اور ان کی طاقت بالکل ختم ہو کر رہ گئی اور قلعہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا ۔

تصاویر

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ranikot Fort آرکائیو شدہ 2014-06-15 بذریعہ archive.today Tourism Pakistan Retrieved 14 June 2014
  2. Christopher Ondaatje (May 1996)۔ Sindh revisited: a journey in the footsteps of Captain Sir Richard Burton : 1842-1849, the India years۔ HarperCollins Publishers۔ صفحہ: 265۔ ISBN 978-0-00-255436-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2015 
  3. "Ranikot Fort"۔ UNESCO۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2013 
  4. Farooq Soomro (10 April 2015)۔ "Mysterious Ranikot: 'The world's largest fort'"۔ The Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2016 
  5. Raza 1984, p. 75.
  6. Michigan 2004, p. 65.