پاکستان کےعالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست
پیش نظر فہرست منتخب بنائے جانے کے لیے امیدوار ہے۔ منتخب فہرستیں ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں چنانچہ نامزد کردہ فہرست کا ہر لحاظ سے منتخب فہرست کے معیار پر پورا اُترنا ضروری ہے۔ براہ کرم اس فہرست |
یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ایسے مقامات ہیں جو ثقافتی یا قدرتی خاص اہمیت کے حامل ہیں اور انسانیت کے ورثے کے لیے مشترکہ اہم ہیں جیسا کہ 1972ء میں قائم ہونے والے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن میں بیان کیا گیا ہے جس میں یادگاری مجسمے یا نوشتہ جات، عمارتیں (بشمول آثار قدیمہ کے مقامات)، قدرتی خصوصیات (جسمانی اور حیاتیاتی تشکیلات پر مشتمل)، ارضیاتی اور فزیوگرافیکل تشکیلات (بشمول جانوروں اور پودوں کی خطرے سے دوچار انواع کے مسکن) اور قدرتی مقامات جو سائنس، تحفظ یا قدرتی خوبصورتی کے نقطہ نظر سے اہم ہیں کو قدرتی ورثہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 23 جولائی 1976ء کو عالمی ثقافتی ورثہ میں شمولیت اختیار کی اور اپنے مقامات کی فہرست شامل کرنے کا اہل بنا۔ اس وقت پاکستان کے چھ ثقافتی مقامات ہیں۔[1][2][3]
اطلاعات | |
---|---|
ملک | پاکستان |
تاریخ ثبت | 23 جولائی 1976ء |
آثار ثبت شده | 6 |
آزمائشی فہرست | 26 |
ویب سائیٹ | Unesco Pakistan |
مزید 26 عارضی مقامات اس فہرست میں شامل ہیں۔ پہلے تین مقامات 1980ء میں درج کیے گئے تھے جن میں موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ کے کھنڈر، تخت بھائی کے بدھ مت کے کھنڈر، سیری بہلول کے کھنڈر اور ٹیکسلا کی باقیات شامل تھیں۔ 1981ء میں دو مزید مقامات کو درج کیا گیا جن میں لاہور میں قلعہ لاہور اور شالامار باغ اور ٹھٹھہ میں واقع مکلی قبرستان کی تاریخی یادگاریں شامل تھیں۔ اس فہرست میں حالیہ مقامات کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر 1997ء میں روہتاس قلعہ بھی شامل تھا۔ تمام چھ مقامات ثقافتی ہیں۔ 1974ء میں حکومت پاکستان کی درخواست پر، یونیسکو نے موہن جو دڑو کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا جو 1997ء تک جاری رہی اور اس جگہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر تحفظ کے اقدامات کے لیے رکن ممالک سے تقریباً 8 ملین امریکی ڈالر وصول کیے گئے۔ اس جگہ قومی صلاحیت سازی کی سرگرمیوں کے نفاذ اور تحفظ اور نگرانی کے لیے لیبارٹری کی تنصیب کو متحرک کیا گیا۔ تحفظ مہم میں ٹیوب ویلوں کی تنصیب، ساختی باقیات کی حفاظت اور زمین کی تزئین کے ذریعے زیر زمین پانی کو کنٹرول کرنا شامل تھا۔ یہ سرگرمیاں قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے مقامی افراد کی شراکت سے کیں۔ اس مہم کی بدولت دنیا بھر میں تقریباً 150 ملین افراد بشمول طلبہ نے موہن جو دڑو اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جانا۔[4][5][6]
محل وقوع
ترمیمدرج شدہ مقامات
ترمیمیونیسکو نے دس معیارات کے ساتھ سائٹس کی فہرست دی ہے۔ ہر داخلے کو کم از کم ایک معیار پر پورا اترنا چاہیے۔[7][8]
نمبر شمار | نام | تصویر | علاقہ | دور | یونیسکو معلومات | سال پیش | تفصیل |
---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | موئن جو دڑو | سندھ، پاکستان 27°19′45″N 68°8′20″E / 27.32917°N 68.13889°E | چھنیسویں صدی قبل مسیح تا انیسویں صدی قبل مسیح | 138; دوم، سوم (ثقافتی) | 1980 | موئن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موہنجوداڑو بھی) وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔[9] | |
2 | ٹیکسلا | پنجاب، پاکستان 33°46′45″N 72°53′15″E / 33.77917°N 72.88750°E |
پانچویں صدی قبل مسیح تا دوسری صدی | 139; سوم، چہارم (ثقافتی) | 1980 | راولپنڈی سے 22 میل دور، بجانب شمال مغرب، ایک قدیم شہر۔ 326 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا۔ اور یہاں پانچ دن ٹھہرا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کی۔ جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکمرانوں دیمریس نے 190 ق م گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چین سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک سٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے ( جن میں بعض یونانی دور کے ہیں ) زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔[10] | |
3 | تخت بھائی کے بدھ کھنڈر اور قربی شہر سیری بہلول کی باقیات | خیبر پختونخوا، پاکستان 34°19′15″N 71°56′45″E / 34.32083°N 71.94583°E | پہلی صدی | 140; چہارم (ثقافتی) | 1980 | تخت بھائی (تخت بائی یا تخت بہائی) پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جو اندازہً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مردان سے تقریباً 15 پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سرحد میں واقع ہے۔ اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔ تخت اس کو اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس لیے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی تحصیل مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئیی طرح کی فصلیں اُگتی ہیں، جن میں پٹ سن، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیشِ نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ (monastery) کے نزدیک بنائی گئی تھی۔[11] | |
4 | قلعہ لاہور اور شالامار باغ | پنجاب، پاکستان 31°35′25″N 74°18′35″E / 31.59028°N 74.30972°E | 1556 | 171; اول، دوم، سوم (ثقافتی) | 1981 | قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ [1] قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء-1642ء میں تعمیر کرایا۔[12] | |
5 | مکلی کا قبرستان، ٹھٹہ | سندھ، پاکستان 24°46′0″N 67°54′0″E / 24.76667°N 67.90000°E | چودہویں صدی تا اٹھارویں صدی | 143; سوم (ثقافتی) | 1981 | مکلی ٹھٹھہ شہر کا ایک علاقہ ہے۔ یہ 14 ویں اور 18 ویں صدی کے درمیان فعال تھا۔ یادگاریں اور مقبرے اعلی معیار کے پتھر، اینٹ اور چمکدار ٹائلوں سے بنائے گئے ہیں۔ جام نظام الدین دوم اور عیسیٰ خان (تصویر میں) سمیت مشہور بزرگوں اور حکمرانوں کے مقبرے اب بھی محفوظ ہیں اور مقامی طرز تعمیر سے متاثر مغل فن تعمیر کی عمدہ مثالیں ہیں۔[13] | |
6 | قلعہ روہتاس | پنجاب، پاکستان 32°57′45″N 73°35′20″E / 32.96250°N 73.58889°E | 1541 | 586; دوم، چہارم (ثقافتی) | 1997 | شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ یہ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہو گیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج مین نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔[14] |
مجوزہ مقامات
ترمیمعالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل مقامات کے علاوہ، رکن ممالک مجوزہ سائٹس کی فہرست بنا سکتے ہیں جن پر وہ نامزدگی کے لیے غور کرسکتے ہیں۔ عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل امیدواروں کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جائے گا جب سائٹ پہلے ہی عارضی فہرست میں ہو۔ 2021 تک، پاکستان نے اپنی مجوزہ فہرست میں 25 مقامات کو شامل کیا ہے۔ [15][16][17]
نمبر شمار | نام | تصویر | علاقہ | قسم | سال پیش | تفصیل |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | بادشاہی مسجد، لاہور | پنجاب، پاکستان | ثقافتی | 1993 | بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔[18][19] | |
2 | مسجد وزیر خان، لاہور | پنجاب، پاکستان | ثقافتی | 1993 | مسجد وزیر خان شہر لاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔ چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجا دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ۔[20] | |
3 | مقبرہ جہانگیر، آصف خان کا مقبرہ اور اکبری سرائے، لاہور | پنجاب، پاکستان | ثقافتی | 1993 | مقبرہ جہانگیر لاہور کو مغلیہ عہد میں تعمیر کیے گئے مقابر میں ایک بلند مقام حاسل ہے۔ یہ دریائے راوی لاہور کے کنارے باغ دلکشا میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مزارستان میں مغلوں کی سب سے حسین یادگار ہے۔[21] | |
4 | ہرن مینار اور تالاب، شیخوپورہ | پنجاب، پاکستان | ثقافتی | 1993 | ہرن مینار لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ شہنشاہ جہانگیر کے پالتو ہرن کی یاد میں بنوایا گیا تھا۔[22] | |
5 | قلعہ رانی کوٹ، دادو | سندھ، پاکستان | ثقافتی | 1993 | ضلع دادو میں واقع یہ قلعہ انیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعے کی دیواریں 35 میٹر (115 فٹ) لمبی ہیں اور بنجر پہاڑی علاقے کے جغرافیہ کی پیروی کرتی ہیں، جس میں وقفے وقفے سے قلعے واقع ہیں۔ اندر ایک چھوٹا سا قلعہ ہے، جو ممکنہ طور پر شاہی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔[23] | |
6 | جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ | سندھ، پاکستان | ثقافتی | 1993 | جامع مسجد ٹھٹھہ (جسے شاہجہانی مسجد اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔ اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔[24] | |
7 | چوکنڈی آثار قدیمہ، کراچی | سندھ، پاکستان | ثقافتی | 1993 | کراچی کے قریب مقبرے 17 ویں اور 18 ویں صدی میں سلوچ قبیلے کے جنگجوؤں اور خاندانوں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ وہ شکل میں پیرامیڈ ہیں اور آرائشی پتھر کی نقش و نگار سے ڈھکے ہوئے ہیں، جو انسانوں اور آرائشی ڈیزائنوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ مقبرے ہندو طرز کے ہیں۔[25] | |
8 | آثار قدیمہ مہر گڑھ | بلوچستان، پاکستان | ثقافتی; سوم، چہارم | 2004 | مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو آج کل بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی اور جانوروں کو پالنے کے بارے میں پتہ لگتا ہے۔[26] | |
9 | آثار قدیمہ رحمان ڈھیری | خیبر پختونخوا، پاکستان | ثقافتی; اول، دوم | 2004 | رحمان ڈھیری ایک آثار قدیمہ کا مقام ہے جو چوتھی صدی قبل مسیح میں ہڑپہ سے قبل از ہڑپہ دور سے لے کر تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں ابتدائی ہڑپہ دور تک کا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں ابتدائی شہری آباد کاری کی بہترین محفوظ مثالوں میں سے ایک ہے، اس حقیقت کی وجہ سے کہ اس جگہ کو بالغ ہڑپہ دور کے دوران چھوڑ دیا گیا تھا۔ بستی میں گرڈ پلان کی پیروی کرتے ہوئے سڑکیں ہیں، جسے لگاتار مراحل میں دہرایا گیا تھا۔ بھٹیوں اور مٹی کے برتنوں کی باقیات موجود ہیں۔[27] | |
10 | آثار قدیمہ ہڑپہ | پنجاب، پاکستان | ثقافتی; دوم، چہارم | 2004 | ہڑپہ قدیم پاکستان کا ایک شہر جس کے کھنڑرات پنجاب میں ساہیوال سے 35 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف ہیں۔
یہ وادی سندھ کی قدیم تہزیب کا مرکز تھا۔ یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک رہا۔ یہاں چالیس ہزار کے قریب آبادی رہی۔[28] | |
11 | آثار قدیمہ رانی گٹ | خیبر پختونخوا، پاکستان | ثقافتی; دوم، چہارم | 2004 | رانی گاٹ کا آثار قدیمہ گندھارا خطے میں بدھ مت کا سب سے بڑا خانقاہی کمپلیکس ہے، جہاں دوسری صدی قبل مسیح اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیان ہیلینیسٹک، بودھ اور انڈو پارتھیائی روایات کا امتزاج کرنے والی ثقافت پھلی پھولی۔ اس خانقاہ کی بنیاد پہلی صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ 1980 کی دہائی میں کھدائی سے کئیی اسٹوپوں، مزاروں اور سیکولر عمارتوں کی باقیات کے ساتھ ساتھ تانبے کے سکے، مٹی کے برتن اور پتھر کے مجسمے ملے۔[29] | |
12 | شہباز گڑھی سنگی حکم نامے | خیبر پختونخوا، پاکستان | ثقافتی; اول، دوم، چہارم | 2004 | شہباز گڑھی میں اشوک کے احکامات تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں موریہ شہنشاہ اشوک کے دور میں ہیں۔ انھیں کھروستھی رسم الخط میں دو بڑے پتھروں میں تراشا گیا تھا اور دہم یا راستباز قانون کے بارے میں اشوک کے نقطہ نظر کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ یہ احکامات جنوبی ایشیا میں لکھنے کی قدیم ترین ناقابل تردید مثالیں ہیں۔[30] | |
13 | مانسہرا سنگی حکم نامے | خیبر پختونخوا، پاکستان | ثقافتی; اول، دوم، چہارم | 2004 | مانسہرا میں اشوک کے احکامات تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں موریہ شہنشاہ اشوک کے دور میں ہیں۔ انھیں کھروستھی رسم الخط میں تین بڑے پتھروں میں تراشا گیا تھا اور دہم یا راستباز قانون کے بارے میں اشوک کے نقطہ نظر کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ یہ احکامات جنوبی ایشیا میں لکھنے کی قدیم ترین ناقابل تردید مثالیں ہیں۔[31] | |
14 | بلتت قلعہ | گلگت بلتستان، پاکستان | ثقافتی; اول، دوم | 2004 | بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے -[32] | |
15 | مقبرہ بی بی جیوندی، بہا الحلیم مقبرہ اور مسجد سید جلال الدین سرخ پوش بخاری | پنجاب، پاکستان | ثقافتی; دوم، چہارم، ششم | 2004 | اچ یا اچ شریف، پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ بہاولپور سے 75 کلومیٹر دور ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر 500 سال قبل مسیح قائم ہوا۔ محمد بن قاسم نے یہ شہر فتح کیا اور اسلامی حکومت میں یہ شہر اسلامی تعلیم کا مرکز رہا۔ یہاں بہت سے صوفیا کے مزارات ہیں۔[33] | |
16 | مقبرہ رکن عالم | پنجاب، پاکستان | ثقافتی; سوم، چہارم، ششم | 1993, 2004 | یہ مقبرہ 1320ء اور 1324ء کے درمیان ملتان کے قلعے کے اندر تغلق حکمران غیاث الدین تغلق کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ شاید ایک خاندانی مقبرے کے طور پر ارادہ کیا گیا تھا لیکن اس کی بجائے صوفی بزرگ شاہ رکن عالم کا مقبرہ بن گیا۔ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا مقبرہ ہے جس کی اونچائی 35 میٹر (115 فٹ) ہے۔ یہ سرخ اینٹوں سے بنایا گیا ہے اور بیرونی حصے کو چمکتی ہوئی ٹائلوں اور تراشے ہوئے اینٹوں اور لکڑی سے سجایا گیا ہے۔ اندر ایک لکڑی کا محراب اپنی نوعیت کی ابتدائی مثال ہے۔ مقبرہ ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ یہ سائٹ یونیسکو کی عارضی فہرست میں دو بار درج ہے۔[34] | |
17 | بھمبھور | سندھ، پاکستان | ثقافتی; چہارم، پنجم، ششم | 2004 | بنبھور کی بندرگاہ دریائے سندھ کے منہ پر واقع تھی۔ پہلی صدی قبل مسیح میں قائم ہونے والے، اہم دریافتیں 8 ویں اور 13 ویں صدی کے درمیان اسلامی دور سے تعلق رکھتی ہیں، جس میں اس خطے کی ابتدائی مساجد میں سے ایک کی باقیات بھی شامل ہیں، جو 727 کی ہیں۔ مسجد میں پچھلے ہندو ڈھانچے کے کچھ دوبارہ استعمال شدہ پتھر شامل ہیں۔ بندرگاہ سیرامکس اور دھاتی سامان کی تجارت میں اہم تھی اور اس میں ٹیکسٹائل، شیشے، گلیز اور دھات کاری سے متعلق ورکشاپس کے ساتھ ایک صنعتی علاقہ تھا۔ 11 ویں صدی میں جیسے جیسے دریا کا رخ تبدیل ہوا، کھاڑی میں مٹی بھر گئی، جس کی وجہ سے بندرگاہ کو آہستہ آہستہ ترک کرنا پڑا۔[35] | |
18 | قلعہ دراوڑ | پنجاب، پاکستان | ثقافتی; سوم، چہارم | 2016 | یہ مقام صحرائے چولستان میں دس قلعوں پر مشتمل ہے جو اس علاقے سے گزرنے والے قافلے، تجارتی اور زیارت کے راستوں کی حفاظت کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ سب سے بہتر محفوظ قلعہ دراور قلعہ ہے (تصویر میں) جو 9 ویں صدی میں راجپوت بھاٹی قبیلے کے رائے ججا بھاٹی نے تعمیر کیا تھا۔ 18 ویں صدی میں، اس پر بہاولپور نے قبضہ کر لیا اور 1970 کی دہائی تک نواب کی رہائش گاہ رہا، مسلسل قبضے نے اس کے تحفظ میں حصہ لیا۔ اس بڑے قلعے میں 40 گول قلعے ہیں جو 30 میٹر (98 فٹ) بلند ہیں۔[36] | |
19 | ہنگلاج ماتا | بلوچستان، پاکستان | ثقافتی; سوم، چہارم | 2016 | ہنگلاج ماتا مندر ہنگول نیشنل پارک میں واقع ایک قدیم ہندو غار مندر ہے۔ یہ شکتیور ستی کو وقف ہے۔ ہر سال، یہ ہزاروں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جو کھائی کو عبور کرتے ہیں اور غار سے گزرتے ہیں، مذہبی رسومات کے لیے تاریخی مقامات پر رکتے ہیں۔ زائرین اس علاقے میں مٹی کے کئیی آتش فشاں کا بھی دورہ کرتے ہیں (چندر گوپ تصویر میں)۔[37] | |
20 | کاریز سسٹم کلچرل لینڈ اسکیپ | بلوچستان، پاکستان | ثقافتی; دوم، چہارم، پنجم | 2016 | کاریزز یا قنات ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے زیر زمین آبی نالی کے ذریعے پانی کو ایک آبی ذخیرے یا کنویں سے سطح تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی غالباً پہلی ہزار قبل مسیح میں فارس میں تیار ہوئی اور پھر چین، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور اسپین کے خشک اور نیم خشک علاقوں میں پھیل گئی۔ زیر زمین پانی کے ذرائع سے استفادہ کرنے سے ان علاقوں میں آبادکاری اور زراعت کی اجازت ملی جو بصورت دیگر ناقابل استعمال ہوں گے۔ پاکستان میں اب بھی ایک ہزار سے زائد ایسے نظام کام کر رہے ہیں جن میں سے چار نامزدگی میں شامل ہیں۔[38] | |
21 | نگر پارکر جین مندر | سندھ، پاکستان | ثقافتی; سوم، چہارم | 2016 | ثقافتی منظر نامہ صحرائے تھر کی سرحد پر نگرپارکر میں واقع ہے۔ یہ ایک پھلتی پھولتی جین برادری کا مرکز تھا جو سمندری تجارت میں سرگرم تھا، کیونکہ یہ علاقہ 15 ویں صدی کے آخر میں بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع تھا۔ کئیی جین یادگاریں 12 ویں اور 15 ویں صدی کے درمیان کے دور سے موجود ہیں، بشمول گوری مندر (تصویر میں)۔ دریائے سندھ کے نظام کی وجہ سے ساحلی پٹی میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے، برادری کی تعداد میں کمی واقع ہوئی، جس کے آخری ارکان 1947 میں تقسیم ہند کے بعد چلے گئے۔[39] | |
22 | وسطی قراقرم نیشنل پارک | گلگت بلتستان، پاکستان | قدرتی; نہم، دہم | 2016 | نیشنل پارک وسطی قراقرم پہاڑی سلسلے کے بڑے حصے پر محیط ہے۔ پارک میں 8،000 میٹر (26،000 فٹ) سے زیادہ کی چار چوٹیاں واقع ہیں، ساتھ ہی ساتھ متعدد گلیشیئر (بلٹورو گلیشیئر کی تصویر) بھی ہیں۔ یہ علاقہ ہمالیائی اوروجینی کے نتیجے میں ایک انتہائی فعال ٹیکٹونک زون ہے۔ یہ علاقہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لیے بھی ایک اہم اسٹاپ اوور ہے اور خطرے سے دوچار ممالیہ جانوروں کی اقسام کا گھر ہے، جن میں مارخور، مسک ہرن، برفانی چیتا، یوریل اور مارکو پولو بھیڑیں شامل ہیں۔[40] | |
23 | دیوسائی نیشنل پارک | گلگت بلتستان، پاکستان | قدرتی; نہم، دہم | 2016 | دیوسائی نیشنل پارک ایک الپائن سطح مرتفع ہے جس کی اونچائی 3،500 سے 5،200 میٹر (11،500 سے 17،100 فٹ) کے درمیان ہے۔ لینڈ اسکیپ زیادہ تر ہموار پہاڑیوں کے ساتھ ہموار ہے۔ ہمالیہ اور قراقرم پامیر کے اجلاس میں اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقہ حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہے۔ یہاں رہنے والی کچھ اقسام میں ہمالیائی بھورا ریچھ، تبتی بھیڑیا، ہمالیائی آئی بیکس اور گولڈن مارموٹ شامل ہیں۔ 4،250 میٹر (13،940 فٹ) کی اونچائی پر شیوسر جھیل (تصویر میں) ایک انوکھی قسم کی الپائن ویٹ لینڈ کی نمائندگی کرتی ہے۔[41] | |
24 | زیارت جونیپر جنگل | بلوچستان، پاکستان | قدرتی; دہم | 2016 | زیارت شہر کے ارد گرد جونیپر (جونیپرس ایکسلسا پولی کارپوس) جنگلات پانچ نباتاتی علاقوں کے ملاپ کے مقام پر واقع ہیں۔ یہ بڑا جنگل درختوں کا گھر ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہزاروں سال پرانے ہیں، لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے پیش نظر ماحولیاتی نظام کمزور ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان کے سیاہ ریچھ، ہمالیائی بھورے ریچھ، مارخور، پرندوں کی متعدد اقسام اور ادویاتی خصوصیات کے حامل پودوں کی متعدد اقسام کا گھر ہے جو مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں۔[42] | |
25 | سلسلہ کوہ نمک اور کھیوڑہ نمک کی کان | پنجاب، پاکستان | مخلوط;ششم، ہفتم | 2016 | سالٹ رینج کی ارضیاتی تشکیل 800 ملین سال قبل ایک گہرے سمندر کے بخارات کے ساتھ تشکیل پائی تھی، جس کے نتیجے میں چٹانی نمک کے موٹے ذخائر پیدا ہوئے تھے۔ پودوں کے احاطہ کی کمی کی وجہ سے، یہ علاقہ کیمبرین سے لے کر پالیوجین تک ارضیاتی تہوں کا مطالعہ کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے، جس میں متعدد پرتوں میں فوسل موجود ہیں۔ کھیوڑہ میں نمک کے ذخائر کم از کم چوتھی صدی قبل مسیح سے مشہور ہیں جب سکندر اعظم نے اس علاقے کو عبور کیا تھا، جبکہ نمک کی کان (تصویر میں) ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہے۔[43] |
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Pakistan"۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 ستمبر 2012
- ↑ "UNESCO World Heritage Centre – The World Heritage Convention"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 27 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2015
- ↑ "The World Heritage Convention"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 27 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2019
- ↑ "Pakistan- International Campaign for the Safeguarding of Moenjodaro"
- ↑ "Convention Concerning the Protection of the World Cultural and Natural Heritage"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 1 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 فروری 2021
- ↑ "Pakistan"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 4 جولائی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2022
- ↑ "UNESCO World Heritage Centre – The Criteria for Selection"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 12 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2018
- ↑ "Pakistan's 6 UNESCO world heritage sites"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2015-12-02۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2023
- ↑ "Archaeological Ruins at Moenjodaro"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Taxila"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Buddhist Ruins of Takht-i-Bahi and Neighbouring City Remains at Sahr-i-Bahlol"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Fort and Shalamar Gardens in Lahore"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Historical Monuments at Makli, Thatta"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Rohtas Fort"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2012
- ↑ "Tentative Lists"۔ UNESCO۔ 24 سپتامبر 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اکتوبر 7, 2010
- ↑ "Properties submitted on the Tentative List"۔ UNESCO۔ 4 ژوئیه 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2021
- ↑ "UNESCO to add eight more Pakistani sites to World Heritage list"۔ www.geo.tv (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2023
- ↑ "Badshahi Mosque, Lahore"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Badshahi Mosque"۔ Oriental Architecture۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Wazir Khan's Mosque, Lahore, Lahore"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Tombs of Jahangir, Asif Khan and Akbari Sarai, Lahore"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Hiran Minar and Tank, Sheikhupura"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Rani Kot Fort, Dadu"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Shah Jahan Mosque, Thatta"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Chaukhandi Tombs, Karachi"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Archaeological Site of Mehrgarh"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Archaeological Site of Rehman Dheri"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Archaeological Site of Harappa"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Archaeological Site of Ranigat"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Shahbazgarhi Rock Edicts"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Mansehra Rock Edicts"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Baltit Fort"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Tomb of Bibi Jawindi, Baha'al-Halim and Ustead and the Tomb and Mosque of Jalaluddin Bukhari"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Tomb of Hazrat Rukn-e-Alam, Multan"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Port of Banbhore"۔ World Heritage Sites۔ UNESCO۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2012
- ↑ "Derawar and the Desert Forts of Cholistan"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Hingol Cultural Landscape"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Karez System Cultural Landscape"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Nagarparkar Cultural Landscape"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 7 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Central Karakorum National Park"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Deosai National Park"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "Ziarat Juniper Forest"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
- ↑ "The Salt Range and Khewra Salt Mine"۔ UNESCO World Heritage Centre۔ 26 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016
ویکی ذخائر پر پاکستان کےعالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |