قلندر
قلندر :آزاد درویشوں کی ایک قسم جو روحانیت کی طرف مائل ہو۔ صوفیانہ فلسفہ کا ایک گروہ۔ قلندریہ ایک ایسا گروہ ہے جو تارک الدنیا اور دنیا سے لاپرواہ ہو۔ ۔[1]
- وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دنیوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلیفات رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا گیا ہو، عشق حقیقی میں مست فقیر۔[2]
- اصطلاح میں قلندر وہ شخص ہے جو دونوں جہان سے پاک اور آزاد رہے اگر ذرا بھی اسے کونین سے لگاو ہو تو وہ مذہب قلندر سے دور اور صاحبان غرور میں شامل ہے کیونکہ قلندر اس ذات سے عبارت ہے کہ نفوس و اشکال عادتی بلکہ آمال بے سعادتی سے بالکل متجردو بے تعلق ہو جاءے اور روح کے مرتبہ تک ترقی کرکے تکلیفات رسمی کی قیود و تعریفات اسمی سے چھٹکارا پانے میں اپنے دامن وجود کو تمام دنیا سے سمیٹ لے اور دست خواہش کو تمام خلائق سے کھینچ لے یہاں تک کہ بدل وجان سب سے قطع تعلق کر کے جمال و جلال کا طالب اور اس کی درگاہ کا واصل ہو جائے۔ قلندر ملامتی اور صوفی میں یہ فرق ہے کہ قلندر نہایت آزاد اور مجرد عن العلائق ہوتا ہے اور جہاں تک بنتا ہے عادت و عبادت کی تخریب میں کوشش کرتا ہے ملامتی عبادت کے چھپانے میں نہایت ساعی رہتا ہے یعنی کوئی نیکی ظاہر نہیں کرتا اور کوئی بدی چھپا کر نہیں رکھتا ہے[3]
- قلندر اور صوفی ہم معنی ہالفاظ ہیں۔ قلندر وہ ہے جو حالات اور مقامات و کرامات سے تجاوز کر جائے خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ موانعات سے مجرد ہو کر اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام قلندری ہے۔ شاہ نعمت اللہ ولی فرماتے ہیں کہ صوفی منتہی جب اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے قلندر ہو جاتا ہے۔[4]
- ان بندوں میں سے جو بندے قلندر ہوتے ہیں وہ زمان و مکان (Time and space) کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں اور سارے ذی روح اس کے ماتحت کیے جاتے ہیں کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع فرماں ہوتا ہے لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انھیں اسی کام کے لیے مقرر کیا ہے۔[5]
- قلندر، وہ ہوتا ہے جو کائنات کو مسخر کیے ہوتا ہے، جو ہمہ وقت ایک فاتح سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ قلندر کے لیے کائنات مثلِ غبارِ راہ ہے اُس میں مزید کی خواہش جنم نہیں لیتی، وہ دولتِ دنیا لُٹا دینا چاہتا ہے۔ قلندر اپنے آپ میں ایک واصل ہوتا ہے قلندر کے در پر سکندر سوالی ہوتا ہے، وہ حصول ِ دنیا میں تا وقتِ قضا ایڑیاں رگڑتا ہے، سسکتا ہے اور خواہش کے کشکول میں حکومت کی بھیک مانگتا ہے۔ قلندر دونوں ہاتھوں سے سب لُٹا کے بے نیاز ہوتا ہے، وہ دمِ رقص ہوتا ہے ..اس کے چہرے کی مسکان اس کی پروان کا پتا دیتی ہے ..قلندر قبولیت کا نام ہے، جبکہ سکندر مقبولیت کا! قلندر درِ عطا پہ جڑا مہرِوفا ہے …وہ سراپائے حق نما ہے ..قلندر، حیدریم مستم ہے۔۔[6]
- علامہ اقبال کا کلام ہے
- نہ تخت و تاج نے لشکر و سپاہ میں ہے
- جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
- تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
- کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
- مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
- ايام کا مرکب نہيں، راکب ہے قلندر
تُو نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دھول اُڑتی ہے
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "اردو_لغت"۔ 12 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2014
- ↑ "اردو لغت - Urdu Lughat - صفہ نمبر ١ - فہر ستِ الفاظ"۔ 06 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2014
- ↑ فرہنگ آصفیہ از سعید احمد دہلوی اسلامیہ پریس لاہور
- ↑ سر دلبراں از حضرت شاہ سید محمد ذوقی صفحہ19محفل ذوقیہ کراچی
- ↑ قلندر شُعور از خواجہ شمس الدین عظیمی صفحہ 3 طبع مکتبہ روحانی ڈائجسٹ کراچی
- ↑ سکندر و قلندر – (Piya dais) پیا دیس