عبید اللہ احرار
خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار نویں صدی ہجری کے مشائخ نقشبندیہ میں سے تھے۔
عبید اللہ احرار | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | مارچ 1404 توران، تاشقند |
وفات | 21 فروری 1490 (85–86 سال) سمرقند |
عملی زندگی | |
استاذ | یعقوب چرخی |
پیشہ | الٰہیات دان، متصوف |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی[1] |
شعبۂ عمل | تصوف |
درستی - ترمیم ![]() |
ولادتترميم
عبید اللہ احرار کی ولادت ماہ رمضان المبارک 806ھ بمطابق 1404ء میں خواجہ محمود شاشی بن خواجہ شہاب الدین کے گھر تاشقند کے قریب باغستان توران کے مضافات میں ہوئی۔
اسمترميم
آپ کا اسم شریف عبید اللہ، لقب ناصر الدین اور احرار ہے۔ زیادہ مشہور لقب احراربھی آپ کا لقب ہے۔ جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ چونکہ آپ کے اسم گرامی کے معنی میں چھٹائی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے آپ کو خواجہ احرار بالا ضافت لقب دیا گیا۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے۔ کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حرّ (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں جو عبودیت۔ کی حدود کو بدرجہ کمال قائم کرے اور اغیار کی رقیت (غلامی) سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کر کے فقط احرار کہتے ہیں۔
تعلیم و تربیتترميم
ابتدائی تعلیم والد سے پھر مقامی مکتب میں داخل ہوئے جب عمر 22 سال ہوئی تو علمی مرکز سمرقند گئے جہاں مولانا قطب الدین صدر کے مدرسہ سے علوم متداولہ حاصل کیے،
شریعت و طریقتترميم
آپ کا اہل خانہ ایک طرف تو امیر کبیر صاحب دولت و ثروت تھا تو دوسری طرف اہل ذکر صاحب فیض و کمال۔ آپ کے جد امجد شہاب الدین نے جب آخری وقت میں الوداع کہنے کے لیے اپنے پوتوں کو بلایا تو قریب آنے پر کم سن عبید اللہ کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے اور پھر گود میں لیکر فرمایا اس فرزند کے بارے میں مجھے شہادت نبوی ﷺ ملی ہے کہ یہ پیر عالمگیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو بزرگوں کی زیارت و ملاقات کا شوق ذوق رہا۔ بہت سے بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی اور فیض حاصل کیا۔ چنانچہ 22 سے 29 برس کے عمر تک آپ سفر میں رہے۔ ایک مرتبہ آپ ہرات میں تھے کہ ایک سوداگر نے آپ سے خواجہ محمد یعقوب چرخی کے فیض پراثر کی تعریف کی تو اسی وقت بلخ کے راستے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ جاتے ہوئے ان کے مرشد پاک خواجہ علاؤالدین عطار کے مزار پرانوار کی زیارت کی۔
بیعت و خلافتترميم
جب خواجہ یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عبید اللہ احرار نے خود اپنی اس ملاقات کا اس طرح ذکر فرمایا ”جب میں یعقوب چرخی کی خدمت میں پہنچا، آپ بڑی شفقت و عنایت سے پیش آئے، بیعت فرمایا، روحانی تربیت فرمائی اور جلد ہی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا“۔ عبدالرحمٰن جامی جو آپ کے خلفاء میں سے ہیں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ یعقوب چرخی فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں جانا چاہے تو اسے عبید اللہ احرار کی طرح جانا چاہیے کہ چراغ بتی اور تیل سب تیار ہے صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
پاسداری شریعتترميم
آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عامہ عطا فرمائی تھی کہ بعض اوقات فرمایا کرتے تھے اگر میں پیری مریدی کروں تو کسی اور پیر کو مرید میسر نہ آئیں، مگر میرے ذریعے دوسرا کام لگایا گیا ہے اور وہ ہے شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ترویج و اشاعت۔ احرارکے مریدین و معتقدین میں جہاں درویش، فقراء نظر آتے ہیں وہاں بڑی تعداد میں امرا اور ولی بھی باادب کھڑے نظر آتے ہیں۔
وصالترميم
29 ربیع الاول 895ھ کو انتقال فرمایا۔ محلّہ خواجہ کفشیر کوچہ ملایان سمرقند میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔ آپ کی اولاد بزرگوار نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔[2][3]
حوالہ جاتترميم
- ↑ http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14470221c — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ190 تا 207 ناشر مشتاق بک کارنر لاہور
- ↑ جلوہ گاہِ دوست