قومی شہری رجسٹر، بھارت

قومی شہری رجسٹر، بھارت (انگریزی: National Register of Citizens of India) (این آر سی) میں بھارت کے صوبہ آسام کے شہریوں کے نام مندرج ہوتے ہیں۔ (این آر سی) کو بھارتی مردم شماری 1951 کے بعد اسی سال تیار کیا گیا تھا۔[1][2][3] این آر سی میں بھارت کے اصلی باشندوں کے نام شامل ہیں جسے 1951ء کی مردم شماری کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ [4][5]

این آر سی کا مقصد ترمیم

این آر سی کا مقصد آسام کے باشندوں کی پہچان کرنا تاکہ غیر قانونی پناہ گزینوں کی شناخت میں آسانی ہو۔ 24 مارچ 1971ء کی نصف شب کے بعد آنے والوں کو اپنی شناخت ثابت کرنا ضروری ہو گا تاکہ ان کا نام این آر سی میں اپڈیٹ کیا جا سکے۔

پس منظر ترمیم

19ویں اور 20ویں صدی میں آسام کولونیل (1826ء تا 1947ء) میں برطانوی ہند کے کئی علاقوں سے پناہ گزین آکر آباد ہوئے۔ 24 فروری 1826ء کو ینڈابو کے معاہدہ کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوا۔ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے بھی کافی تعداد میں پناہ گزین آئے۔ اس وقت آسام کولونیل پناہ گزینوں کے تئیں نرم رویہ رکھتا تھا لہذا پناہ گزینوں کو آسام میں آ کر بسنا آسان ہو گیا۔

این آر سی کو 2014–2016 میں پورے آسام میں اپڈیٹ کیا گیا، اس میں ان لوگوں کے نام اور ان کے بچوں کے نام شامل ہیں جو این آر سی 1951ء میں بھی مندرج تھے یا 24 مارچ 1971ء تک کسی بھی انتخابی رول میں ان کا نام موجود تھا یا 24 مارچ 1971ء تک کسی بھی قابل قبول دستاویز میں موجود تھا و، جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ 24 مارچ 1971ء سے قبل وہ آسام میں موجود تھا۔ [6][7] این آر سی اور 24 مارچ 1971ء تک کے انتخابی رول کو مجموعی طور پر لیگیسی ڈاٹاکہا جاتا ہے۔ [8] 30 جولائی 2018ء کو این آر سی کا حتمی ڈرافٹ جاری کیا گیا۔ [9][10] اس میں اب بھی 40 ہزار لوگوں کے نام شامل ہونے باقی ہیں۔ [11]

این آر سی اپڈیٹ ترمیم

این آر سی اپڈیٹ میں شمولیت کے لیے دو شرائط ہیں- لیگیسی ڈاٹا میں اس شخص کا نام ہو یا کسی بھی قابل قبول دستاویز میں نام ہو اور وہ 24 مارچ 1971ء تک جاری کیا گیا ہو۔ این آر سی اپڈیٹ میں نام شامل کرنے کے لیے بلحاظ خاندان ایک فارم بھرنا پڑتا ہے۔ پھر اس فارم کی تصدیق کی جاتی ہے اور تصدیق ہونے کے بعد این آر سی اپڈیٹ میں نام شامل کیا جاتا ہے۔ حتمی نسخہ شائع ہونے سے قبل ایک مسودہ شائع کیا جاتا ہے تاکہ کسی طرح کی غلطی کی اصلاح کی جا سکے۔ این آر سی میں اپنا نام تلاش کرنے کے لیے ویب گاہ http://nrcassam.nic.in ہے۔ یہ ویب گاہ وپرو کے زیر انتظام ہے۔ اور وپرو ہی این آر سی کو اپڈیٹ کرتی ہے۔ [12] اس کے لیے وپرو کمپنی ملازمین رکھتی ہے جو این آر سی میں ڈاٹا اڈیٹ کرتے ہیں۔ [13][14]

ہدایات ترمیم

این آرسی کو اپڈیٹ کرنے کے لیے فنڈ مہیا کروانا، ہدایات دینا اور پالیسی بنانا مرکزی حکومت ہند کا کام ہے جبکہ ان کا نفاذ رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے تحت صوبائی حکومت کرتی ہے۔ [15] جسٹرار جنرل آف انڈیا 2003ء شہریت قانون کے دفعہ 15 (2009 اور 2010 میں ترمیم کی گئی) کے تحت بحیثیت رجسٹرار جنرل آف سٹیزن رجسٹریشن کام کرتا ہے۔ این آرسی کو اپڈیٹ کرنے کے طریقہ عمل کو مشترکہ طور پر حکومت ہند اور حکومت آسام کے تیار کیا ہے۔

این آر سی میں شمولیت کی اہلیت ترمیم

  • 1951ء کی مردم شماری میں شامل ہوئے تمام شہری۔[16]
  • 24 مارچ 1974ء تک انتخابی ورل میں شامل تمام شہری۔ [17]
  • وہ شہری جو 1 جنوری 1966ء کو یا اس کے بعد 25 مارچ 1971ء سے قبل آسام آیا ہو اور اپنے آپ کو حکومت ہند کے فورینر رجسٹریشن ریجنل آفیسر (ایف آر آر او) کے ساتھ بنائے ہوئے قانون کے تحت رجسٹر کروایا ہو۔ اور وہ تمام شہری جن کو انتظامیہ نے مہاجر یا غیر قانونی شہری ثابت نہ کیا ہو۔
  • ’ڈی‘ رائے دہندگان خود کو شامل کروانے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اگر کوئی مناسب فورینر ٹریبیونل ان کو یہ ثابت کر دے کہ وہ غیر ملکی نہیں ہیں۔
  • وہ شہری جو کوئی ایک بھی ایسا قابل قبول دستاویز دکھادے جس میں یہ واضح ہو کہ 24 مارچ 1971ء کی نصف رات تک ان کا نام اس میں موجود ہو ۔

این آر سی اپڈیٹ کے مراحل ترمیم

لیگیسی ڈاٹا کی اشاعت ترمیم

  • این آر سی 1951ء اور 1971ء تک کے انتخابی رول کے تمام نسخے، جنکو لیگیسی ڈاٹا کہا جاتا ہے، تصدیق و تحقیق کے لیے این آر سی سیوا کیندروں اور پولنگ بوتھوں پر موجود ہیں۔
  • اپنا یا والدین میں کے سے کسی ایک کا یا پرکھوں میں سے کسی کا نام بتانا ضروری ہے جو دستاویز میں موجود ہو۔
  • درخواست دہندگان کو اپنا/والدین یا پرکھوں میں سے کسی کا نام این ایس کے اور پولنگ بوتھ میں بتانا ضروری ہے۔
  • عارضی طور پر انہی لوگوں کے نام لیگیسی ڈاٹا میں موجود رہیں گے جو 1971 میں 21 سال کے تھے۔

درخواست فارم کی تقسیم ترمیم

حکومت نے گھر گھر درخواست فارم تقسیم کیے ہیں اور یہ این آر سی سیوا کیندروں اور پولنگ اسٹیشنوں پر بھی مہیا ہیں اور این آر سی کی ویب گاہ پر بھی مل سکتا ہے۔ ایک گھر میں ایک ایپلیکیشن فارم دیا گیا جس میں 6 افراد کی تفصیل دی جا سکتی ہے۔

تصدیق ترمیم

دو مرحلوں میں تصدیق ہوتی ہے:

  • دفتری تصدیق: ثبوت کے طور پر پیش کیے جانے والے دستاویز کی توثیق کی جاتی ہے ۔
  • میدانی تصدیق:جمع کی گئی معلومات کی عملی طور پر تصدیق کی جاتی ہے اور اپیل کنندہ کی لگیسی ڈاٹا کے حوالے سے فردا فردا شناخت بھی کی جاتی ہے۔ شہریت ایکٹ، 1955 کے تحت تمام ملوث افسران معمولی قانونی انداز میں توثیق و تصدیق کا عمل انجام دیتے ہیں۔ تصدیق کا عمل درخواست دہندگان کی شناخت اور اس کی اہلیت کی تصدیق کے لیے ہوتا ہے۔ تاکہ اس کو این آر سی میں شامل کیا جا سکے۔

این آر سی ڈرافٹ کی اشاعت ترمیم

حکومت تمام گاؤں اور وارڈ میں ڈرافٹ شائع کرتی ہے جہاں فارم جمع کیے گئے تھے۔ یہ ڈرافٹ www.nrcassam.nic.in پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

دعوے، اعتراضات اور اصلاح ترمیم

ڈرافٹ میں اگر کسی کا نام نہیں آیا ہو تو وہ این ایس کے سے فارم حاصل کر کے ایک متعین مدت کے اندر جمع کرا سکتا ہے۔ غلیوں کی اصلاح کا دعوی کرنے والے تمام شہریوں کو اپنا دعوی ثابت کونے کا نوٹس دیا جاتا ہے۔ پھر رجسٹریشن آفس میں ثبوت جمع کیا جاتا ہے۔ جسے تجسٹریشن آفسر دیکھتا ہے۔ این ایس کے کا آفیسر انچارج جو لوکل رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن ہوتا ہے، [18] کو دعوی کو مسترد کونے کا اختیار ہوتا ہے اور پھر مزید سنوائی کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔

حتمی ڈرافٹ کی اشاعت ترمیم

تمام دعووں اور اعتراضوں کی تکمیل و تصحیح کے بعد درخواست کو کئی درجوں پر مکمل کیا جاتا ہے۔ کیسے لوکل رجسٹرار آف سٹیزن (ایل آر سی)، سرکل رجسٹر آف سٹیزن (سی آر سی) اور ڈسٹرکٹ رجسٹر آف سٹیزن (ڈی آر سی)۔ پھر یہ سب حتمی ایس آر سی کو شائع کردیتے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "National Register of Citizens in Assam: Issue of illegal foreigners continues to be a major political one"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2018 
  2. "Assam: Overhaul of National Register of Citizens sparks controversy"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2018 
  3. "National Register of Citizens in Assam: Issue of illegal foreigners continues to be a major political one – The Economic Times"۔ Economictimes.indiatimes.com۔ 2015-06-14۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015 
  4. "National Register of Citizens in Assam: Issue of illegal foreigners continues to be a major political one" 
  5. "Assam: Overhaul of National Register of Citizens sparks controversy"  after
  6. "Election Commission of India"۔ Eci.nic.in۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015 
  7. Sandeep Bhardwaj (2014-04-13)۔ "1971 India-Pakistan War: Genocide"۔ Revisiting India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015 
  8. "Office of the State Coordinator of National Registration (NRC)، Assam"۔ Nrcassam.nic.in۔ 1971-03-24۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015 
  9. "Final Draft of NRC to be Released Today Amid Security"۔ News18۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2018 
  10. National Bureau (2018-07-31)۔ "The citizenry test: Assam NRC explained"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2018 
  11. "40 lakh in Assam labelled 'illegals' after massive SC-monitored drill – Times of India"۔ The Times of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2018 
  12. "Born Assamese, always Indian, dumped by NRC: What it takes for ordinary citizens to prove their nationality"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2018 
  13. "Wipro rejects NGO's charge"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2018 
  14. "No salaries for three months for people engaged by Wipro for NRC"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2018 
  15. "Census of India Website : Office of the Registrar General & Census Commissioner, India"۔ Censusindia.gov.in۔ 2011-02-09۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015 
  16. https://sobbanglay.com/sob/national-register-of-citizens-of-india/
  17. https://sobbanglay.com/sob/national-register-of-citizens-of-india/
  18. "Office of the State Coordinator of National Registration (NRC)، Assam"۔ Nrcassam.nic.in۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2015