قوم پرستی
قوم پرستی (nationalism) سے مراد اپنے خاندان، قبیلے، نسل یا ملک کو خود پر افضل اور برتر سمجھنا اور ہر حال میں اپنی قوم کی حمایت و طرفداری کرنا اور اپنی قوم کا پاس رکھنا ہے ۔[1]
قوم پرستی کے لغوی معنوں کے لئے ویکی لغت میں دیکھیے۔ |
قوم پرستی کی ابتدا
ترمیمقوم پرستی کی ابتدا قدیم دور یا قدیم جاہلیت کے دور سے ہی ہوئی ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان کے جذبات قوم کی جگہ نسل یا قبیلہ سے وابستہ تھے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے اس دور میں قوم پرستی کی بجائے نسل پرستی کا دور تھا۔ اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے فلسفی بھی مبتلا تھے۔
ارسطو کا نظریہ
ترمیمارسطو اپنی کتاب " السیاست" میں نسل پرستی کے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے۔
- "فطرت نے وحشی قوموں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کر رہیں"
اسی کتاب میں ارسطو مزید لکھتا ہے کہ
- "نوعِ انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنہیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے"
ارسطو کے اس نظریے کو اس وقت مزید واضع طور پر سمجھا جا سکتا ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ یونانیوں کے نزدیک وحشی کے معنی غیر یونانی قوم تھے۔ یونانی قوم کا یہ بھی تصور تھا کہ یونانی قوم کے اخلاق اور انسانی حقوق دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔
قوم پرستی کی تاریخ
ترمیمیہ قوم پرستی کی ابتدا تھی جس نے بعد میں یورپ میں ترقی کی منازل طے کیں۔ قوم پرستی کے جراثیم کی نشو و نما کو ایک طویل عرصہ تک مسیحیت کی طاقت نے روکے رکھا۔ جو اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ ایک نبی کی تعلیم اگرچہ وہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں موجود ہووہ بہرحال قوم پرستی اور نسل پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطہ نظر رکھتی ہے۔
قوم پرستی کی روک تھام میں رومن ایمپائر (رومی سلطنت) کی قوت نے بھی کردار ادا کیا اور بہت سے چھوٹی قوموں کو ایک مشترکہ اقتدار کا مطیع و فرماں بردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدت کو کم کیا۔
پوپ کے روحانی اور شہنشاہ کے سیاسی اقتدار نے مل جل کر صدیوں تک عالم مسیحی کو ایک رشتے میں باندھے رکھا۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مددگار تھیں جبکہ اقتدار اور مالی فوائد کی تقسیم میں مخالف اور حریف۔
ان مذہبی و شہنشاہی طاقتوں کی آپس کی چپقلش اور کش مکش اور ان کی بداعمالیوں اور ان کے ظلم و ستم اور جدید علمی بیداری نے سولہیوں صدی میں وہ سیاسی و مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک اصلاح یعنی (پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا) کہا جاتا ہے۔ اس تحریک نے جہاں مغرب کو چرچ اور شہنشاہی مظالم سے نجات دلائی وہاں اس کا یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں آپس میں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔
تحریک اصلاح یعنی Reformation اُس روحانی تعلق کا بدل فراہم کرنے میں ناکام رہی جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خود مختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہر قوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی۔ لہٰذا ہر قوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیت کا ایک نیا تصور پیدا ہوا جس نے عصبیت کے قدیم جاہلی تصور کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت Competition کا سلسلہ شروع ہوا۔
لڑائیاں ہوئیں ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کیے گئے۔ جن کی وجہ سے قومیت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ قومیت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کرکے قوم پرستی میں تبدیل ہو گیا۔
یورپ میں قوم پرستی
ترمیممغربی اقوام میں قوم پرستی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مسابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے اس میں چار عناصر پائے جاتے ہیں۔
جذبہِ افتخار
ترمیماپنی قوم پر فخر یا افتخار کا جذبہ اپنی قوم کی روایات اور خصوصیات کی محبت کو پرستش کی حد تک لے جاتا ہے اور اپنی قوم کے اوصاف میں مبالغہ آرائی کرنے لگتا ہے یعنی دیگر تمام قوموں کے مقابلے میں انسان اپنی قوم کو بالاتر اور برتر سمجھتا ہے۔ پھر ہر طرح کے اصلی اور جعلی تفاخر انسان اپنی قوم کے لیے مخصوص کرتا ہے جیسا کہ مصطفٰی کمال پاشا کے دور میں ترکی میں بچوں کو ابتدائی تعلیم کے نصاب میں بچوں کو سکھایا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام ترک تھے۔ [حوالہ درکار]
جذبہِ حمیت
ترمیمچاہے انسان پر حق ہو یا ناحق پر مگر قوم پرستی اسے اپنی قوم کی طرفداری پر مائل کرتی ہے۔ قومی حمیت یا غیرت کا جذبہ انسان کو ہر حال میں اپنی قوم کی حما یت اور اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ آدمی حق و انصاف کے سوال کر نظر انداز کرکے صرف اپنی قوم کی طرفداری کرتا ہے۔
جذبۂ قومی تحفظ
ترمیمقومی تحفظ کا جذبہ قوم کے حقیقی اور غیر حقیقی و خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے قوموں کو ایسے اقدامات و تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو مدافعت سے شروع ہوکر دوسری قوموں پر حملہ پر ختم ہوتی ہیں۔
طاقتور بننے کا جنون
ترمیماستیلا و استکبار یعنی aggrandizement کا جذبہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی دولت اور خرچ پر اپنی خوش حالی بڑھائیں۔ اسی کے باعث وہ پسماندہ اقوام میں اپنی تہذیب پھیلانے، ان پر غالب ہونے اور ان کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اسی جذبہ کے تحت مغربی ممالک "امریکا خدا کا اپنا ملک ہے"، "جرمنی سب سے اوپر"، " اٹلی ہی مذہب ہے“ اور "حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے“ جیسے نظریات رکھتے ہیں۔ ہر قوم پرست ملک یہ سمجھتا ہے کہ "سب سے پہلے میرا وطن“ چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر۔
مفکرینِ مغرب
ترمیمفرانسس کوکر قوم پرستی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "بعض قوم پرست اہل قلم دعوٰی کرتے ہیں کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں جو اس کا مستحق ہے کہ دنیا میں باقی رکھا جائے اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سر انجام دے، بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے کہ اپنے دائرہ کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاََ پسماندہ ہیں۔ خواہ اس کے لیے قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالمگیر منصب رکھتی ہے“۔
فرانسس کوکر مزید لکھتا ہے کہ " یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ وہ اپنے ہونے والے براہ راست حملہ کی مدافعت کرے، اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے، اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے بلکہ وہ اس کو مزید آگے بڑھنا چاہیے، پھیلنا چاہیے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے، اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہیے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہوکر رہ جائے گا۔
- جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے اور جنگ میں فتح یاب ہونا قوم کے اصلح Fittest ہونے کی دلیل ہے“۔
- ڈاکٹر بیچ ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی جو قوموں کو بناتی ہے۔
- ارنسٹ ہیکل جو جرمنی میں ڈارونیت کا پہلا اور سب سے بااثر پیغمبر گذرا ہے، خود پرستی اور خود غرضی کو عالمگیر قانون حیات قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت جاری ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں زمین ان تمام نسلی گروہوں کے لیے کافی سامانِ زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا کمزور گروہ فنا ہوجاتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائلِ زندگی سے سے فائدہ اٹھانے کے لیے جو تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوں کا کامیاب مقابلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرا اس لیے کہ زیادہ طاقتور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بَل ان میں نہیں ہوتا۔
قرآن کی روشنی میں
ترمیمقدیم یونانی مفکروں سے لے کر زمانہ جدید کے ”ترقی پسند“ مغربی سکالرز اور ان سے متاثرہ تمام لوگ قوم پرستی کے بارے میں انتہا پسندانہ سوچ کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ان کے زمانہ اقتدار یا نظامِ دنیا (World Order) میں جنگ و جدل اور خون خرابا کا منظر پیش کرتی رہی چاہے وہ رومی سلطنت ہو جس میں نہ صرف ایک مخصوص مذہب(عیسائیت) کے لوگوں کو دوسرے مذاہب پر امتیاز حاصل تھا بلکہ عیسائیت کے اندر مختلف فرقے بھی انکوزیشن(محکمہ عدل) کے نام پر بالادست فرقے(کیتھولک) کے ظلم وستم کا شکار رہے , یا موجودہ امریکہ،انسانی حقوق کا نام نہاد چیمپئن ، جس کے قیام کے لیے لاکھوں آرواک قبائل کو انگریز دیوتا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اب بھی نیگروز کا خون پانی سے ارزاں ہے۔قرآن مجید انسانی مساوات اور اخوت کا درس دیتا ہے اور نسل و قومیت کی تمام دیواریں گرادینا کا حکم دیتا ہے۔قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قبائل اور اقوام کو صرف پہچان کے لیے بنایا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
” اے لوگو! ہم نے تمھیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمھیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔“