آتش فشاں سے سست رفتاری سے نکلنے والے گدازه کی وجہ سے بننے والا گول ابھار گدازه‌ئی گنبد کہلاتا ہے۔ کیمیائی اعتبار سے یہ ابھار مختلف اجزاء سے مل کر بنے ہوتے ہیں جن سیلیکا سے بننے والے گنبد سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ گنبد کی شکل کی سب سے بڑی وجہ گدازه کا کثیف ہونا ہے جس کی وجہ سے گدازه زیادہ دور تک نہیں جاتا۔ اس کثافت کی دو عام وجوہات ہیں جو گدازه میں سیلیکا کی بہت بڑی مقدار ہونا اور میگما سے گیسوں کا اخراج ہیں۔

گنبد کی ساخت

ترمیم

گدازه‌ئی گنبد یا لاوائی گنبد ساکت اجسام نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بڑھتے، ٹوٹتے، جمع ہوتے اور کٹاؤ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

گنبد کے حجم میں اضافہ دو طرح سے ہو سکتا ہے جو اندرونی اور بیرونی اضافہ کہلاتے ہیں۔ اندرونی اضافے میں گنبد اندر سے پھیلتا جاتا ہے اور میں نیا گدازه جمع ہوتا جاتا ہے۔ بیرونی اضافے میں گدازه گنبد سے نکل کر اس کی بیرونی سطح پر جمع ہوتا جاتا ہے۔ لاوے کی کثافت کی وجہ سے یہ زیادہ دور تک نہیں بہتا بلکہ آس پاس ہی جمع ہو کر ٹھنڈا ہونے لگ جاتا ہے۔ اس طرح کے گنبد کی اونچائی کئی سو میٹر تک پہنچ جاتی ہے اور ان کے بننے میں عموماً کئی ماہ، کئی سال یا کئی صدیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ اندر جمع ہونی والی گیس کی وجہ سے کئی بار یہ گنبد پھٹ بھی سکتے ہیں۔ اگر گدازه‌ئی گنبد اس وقت پھٹے جب یہ مائع شکل میں ہو تو اسے پائروکلاسٹک بہاؤ کہتے ہیں جو آتش فشانی عمل کی بھیانک ترین شکل ہے۔ دیگر نقصانات میں جائداد کو پہنچنے والا نقصان، جنگلاتی آگ اور لہار ہوتے ہیں جو پائروکلاسٹک بہاؤ کے نزدیک موجود کیچڑ اور برف کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔ گدازه‌ئی گنبد میں موجود سیلیکا کی بڑی مقدار انھیں مزید تباہ کن بنا دیتی ہے۔

گدازه‌ئی گنبد میں عموماً طویل عرصے تک خاموشی رہتی ہے اور پھر اچانک مختصر عرصے کے لیے متحرک ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے گنبدوں کی شکل مخروطی، لمبے عرصے تک ان کی بڑھوتری، اچانک پھٹنا وغیرہ اہم خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ گدازه‌ئی گنبد کی بڑھوتری کی رفتار سے اس میں جمع ہونے والے میگما کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تاہم اس کے پھٹنے کے بارے کوئی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم