لباس میں سادگی اور اسلامی روایات

دینی اور دنیاوی ہر دو پہلوں میں ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے کامل راہنمائی ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے۔ اور حسبِ ضرورت اس میں پیوند وغیرہ لگا کر پہننے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیا قمیص پہن کر نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز اس کے نقش و نگا ر پر ایک نظر فرمائی۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا یہ قمیص ابوجہم کو واپس کر دو اور میرے لیے ابنجان کی بنی ہوئی سادہ سی چادر منگوا دو۔[1] آپ نے فراخی اور بادشاہی کا زمانہ بھی دیکھا مگر اپنی سادگی میں کوئی تغیر نہ آیا۔ کوئی بارگاہ نہیں بنوائی۔ کوئی شاہانہ لباس تیار نہ کروایا اور اسی حال میں خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ایک دفعہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھدر کی موٹی چادر اور تہ بند نکال کر دکھائی اور بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات یہ کپڑے پہن رکھے تھے۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی گواہی بھی یہی ہے۔ فرماتے تھے: میں تو ایک سادہ سا انسان ہوں۔ عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ اسی طرح اپنے صحابہ کو بھی یہ تلقین فرماتے تھے کہ ہمیشہ اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور سنکر ادا کر سکو۔[2] صحابہ کرام دنیاوی عیش و عشرت سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔ اور اپنے اوڑھنے بچھونے میں ایسا طرف محل اپنا چکے تھے کہ دنیا کی محبت ان پر ٹھنڈی ہو چکی تھی اور وہ آخرت کی راہوں کو سنوار رہے تھے۔ اور یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریق پر سادہ لباس کو اپنائیں اور فاخرانہ لباس سے کنارہ کشی اختیار کریں حضرت مصعب بن عمیر ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی تھی۔ اعلیٰ قسم کا لباس زیب تن فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین، خوش پوش اور نازونعم میں پَلا ہوانہیں۔ لیکن جب اسلام قبول کیا تو ایسا ابتلا آیا کہ ہر طرح کی آسائش اور کشائش جاتی رہی اور تکلفات سے بے بہر ہو گئے۔ یہاں تک ایک بار جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جسم بھی پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں تھا۔ اور صرف کھال کا ایک ٹکڑا زیب تن تھا۔ جس پر بھی کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت مصعب پر نظر پڑی تو فرمانے لگے الحمد للہ ان سب دنیا والوں کی حالت بدل جانی چاہیے۔[3] یہ وہ جوان ہے جس سے زیادہ ناز و نعم میں پلا ہوا مکہ میں کوئی نہ تھا لیکن خدا اور رسول کی محبت نے اُسے ظاہری تکلفات سے بے نیاز کر کررکھا ہے۔ حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر تھے مگر طرزِ معاشرت اور ظاہری لباس اس قدر سادہ تھا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے بازار سے گھاس خریدا تو انھیں مزودر سمجھ کر گانٹھ ان کے سر پر رکھدی۔ جب کسی جاننے والے نے دیکھا تو کہا کہ یہ تو ہمارے امیر اور صحابی رسول ؐ ہیں۔ تو اس پر وہ شخص سخت نادم ہوا اور معذرت چاہتے ہوئے گانٹھ اتارنے کے لیے لپکا تو حضرت سلمانؓ نے فرمایا نہیں اب تو تمھارے مکان پر پہنچ کر ہی اتاروں گا۔[4] نماز عید کے لیے باہر جانے کی جب اجازت ہوئی تو بعض عورتوں کو چادر میسر نہ تھی۔ جن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار ہوا تو فرمایا کہ ایسی عورتوں کو دوسری عورتیں اپنی چادر اوڑھا دیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی خروج النساء فی العیدین) شادی بیاہ کا موقع ایسا موقع ہے کہ جب ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے اچھے اور خوبصورت کپڑے ہوں مگر صحابیاتؓ کو دیکھیں کہ جب وہ دلہن بنتی ہیں تو مستعار جوڑا لیتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس گاڑھے رنگ کی ایک کُرتی تھی شادی بیاہ میں جب کوئی عورت تیار کی جاتی تو وہ مجھ سے عاریتہ منگوا لیتی تھی۔[5] سادہ معاشرت جب کسی معاشرے میں رواج پا جائے تو پھر چاہے کتنی ہی سادگی کیوں نہ ہو معیوب نہیں سمجھی جاتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شادیوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ ایک صحابی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ جب مہر کی بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے پاس صرف ایک تہبند ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ مہر میں دے دیں تو ستر پوشی کس طرح کرو گے۔ پھر فرمایا کہ کچھ اور تلاش کرو اور اگر کچھ نہیں تو کم ازکم لوہے کی ایک انگوٹھی ہی دے دو۔ مگر اس پر بھی صحابی کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ آپ نے قرآن مجید کی چند سورتیں سکھانا حق مہر مقرر کر کے نکاح پڑھا دیا۔[6] کیا آج کے معاشرے میں ہمیں یہ سادگی نظر آتی ہے؟ آج کل تو لوگ فیشن میں اور شادی بیاہ کے موقع پر اسراف میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ٹھان رہے ہیں۔ یہ خیال کہ چونکہ غربت تھی اس لیے صحابہ کی یہ حالت تھی ہر گز درست نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ ایسے تھے جن پر خداتعالیٰ کا خاص فضل تھا اور ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال تھے۔ حضرت ابو بکرصدیق ایک متمول اور امیر آدمی تھے لیکن طرز معاشرت بہت سادہ تھی۔ معمولی لباس زیب تن فرماتے اور سادہ غذا کھاتے تھے۔[7] حضرت عمر جیسی عالیٰ مرتبت ہستی کو دیکھیں کہ رات کو حاجت مند کی حاجت روائی کے لیے چکر لگاتے ہیں اور اپنا حال یہ ہے کہ رات کو چکر کے دوران ایک صحابی کے پاس جاتے ہیں اور پیوند شدہ قمیص اتار کر دیتے ہیں کہ اسے دھو کر اس کے پیوندوں کو ٹھیک کر دو۔ وہ صحابی نہ صرف اس قمیص کو دھو کر اس کے پیوند ٹھیک کرتے ہیں بلکہ ساتھ ایک قبطی قمیص سلائی کر کے دیتے ہیں لیکن جب حضرت عمر اس قبطی قمیص کو چھوتے ہیں تو نرم محسوس کرتے ہیں۔ اس پر فرماتے ہیں۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میری قمیص اس قبطی قمیص کی نسبت زیادہ پسینہ کو جذب کرنے والی ہے۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب (بخاری)
  2. (احمد بن حنبل)
  3. (الاصابہ فی تفسیر الصحابہ فی ذخر مصعب بن عمیر)
  4. (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ذکر سلمان فارسی)
  5. (بخاری کتاب الھبۃ)
  6. (ابوداؤد کتاب النکاح)
  7. (کنز العمال کتاب الفضائل فضائل الصدیق)
  8. (کنز العمال کتاب الفضائل فضائل فاروق)