مصعب بن عمیر (پیدائش: 27 ق۔ھ/ 596ء— وفات: 15 شوال / 30 مارچ 625ء) غزوہ بدر میں شامل صحابی رسول تھے۔

مصعب بن عمیر
(عربی میں: مصعب بن عمير ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 585  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 625 (39–40 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبل احد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ حمنہ بنت جحش  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ عامریہ  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ واعظ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  غزوہ احد  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترميم

مصعب نام، ابو محمد کنیت، والد کا نام عمیر اور والدہ کا نام حناس بنت مالک تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی القرشی۔[2]

ابتدائی حالات ترميم

حضرت مصعب ؓ مکہ کے ایک نہایت حسین و خوشرو نوجوان تھے، ان کے والدین ان سے نہایت شدید محبت رکھتے تھے، خصوصا ًان کی والدہ حناس بنت مالک نے مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے لخت جگر کو نہایت ناز و نعمت سے پالا تھا، چنانچہ وہ عمدہ سے عمدہ پوشاک اور لطیف سے لطیف خوشبو جو اس زمانہ میں میسر آسکتی تھی استعمال فرماتے تھے،آنحضرت کبھی ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے "مکہ میں مصعب بن عمیر ؓ سے زیادہ کوئی حسین ،خوش پوشاک اور پروردہ نعمت نہیں ہے". [3]

اسلام ترميم

خدائے پاک نے حسن ظاہری، سلامتِ ذوق اورطبع لطیف کے ساتھ آئینہ دل کو بھی نہایت شفاف بنایا تھا، صرف ایک عکس کی دیر تھی کہ توحید کے دلربا خط وخال نے شرک سے متنفر کردیا اور آستانہ ٔنبوت پر حاضر ہوکر اس کے شیدایوں میں داخل ہو گئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ کے مکان میں پناہ گزین تھے اور مسلمانوں پر مکہ کی سر زمین تنگ ہو رہی تھی، اس پر حضرت مصعب ؓ نے ایک عرصہ تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا اور چھپ چھپ کر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے،لیکن ایک روز اتفاقا عثمان بن طلحہ ؓ نے نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کی ماں اور خاندان والوں کو خبر کر دی، انہوں نے سنا تو محبت نفرت سے مبدل ہو گئی اور مجرم توحید کے لیے شرک کی عدالت نے قید تنہائی کا فیصلہ سنایا۔ [4]

ہجرت حبشہ ترميم

حضرت مصعب بن عمیر ؓ ایک عرصہ تک قید کے مصائب برداشت کرتے رہے، لیکن زندان خانہ کی تلخ زندگی نے بالآخر ترک وطن پر مجبور کردیا، اور متلاشیانِ امن وسکون کے ساتھ سر زمین حبش کی راہ لی، اس ناز پروردہ نوجوان کو اب نہ تو نرم و نازک کپڑوں کی حاجت تھی ،نہ نشاط افزا عطریات کا شوق اور نہ دنیاوی عیش و تنعم کی فکر تھی، صرف جلوۂ توحید کے ایک نظارہ نے تمام فانی سازوسامان سے بے نیاز کر دیا، غرض ایک مدت کے بعد حبش سے پھر مکہ واپس آئے ، ہجرت کے مصائب سے رنگ وروپ باقی نہ رہا تھا، توخود ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کی پریشان حالی پر رحم آگیا اور مظالم کے اعادہ سے باز آگئی۔ [5]

تعلیم دین و اشاعتِ اسلام ترميم

اس اثناء میں خورشید اسلام کی ضیا پاش شعاعیں کوہِ فاران کی چوٹیوں سے گذر کر وادیِ یثرب تک پہنچ چکی تھیں اور مدینہ منورہ کے ایک معزز طبقہ نے اسلام قبول کر لیا تھا انہوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے، حضرت سرورِ کائنات کی نگاہِ جوہر شناس نے اس خدمت کے لیے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو منتخب کیا اور چند زریں نصائح کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ فرمایا۔ [6] حضرت مصعب ؓ مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کے مکان پر فروکش ہوئے اور گھر گھر پھر کر تعلیم قرآن واشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دینے لگے، اس طرح رفتہ رفتہ جب کلمہ گویوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی تو نماز وتلاوت قرآن کے لیے کبھی حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کے مکان پر اور کبھی بنی ظفر کے گھر میں چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ عبدالاشہل کے سردار (حضرت) سعد بن معاذ ؓ نے اپنے رفیق ( حضرت ) اُسید بن حضیر ؓ سے کہا اس داعیِ اسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو، جو یہاں آکر ہمارے ضعیف الاعتقاد اشخاص کو گمراہ کرتا ہے، اگر اسعد (میزبان حضرت مصعب ؓ) سے مجھ کو رشتہ داری کا تعلق نہ ہوتا تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا، یہ سنکر حضرت اسید بن حضیر ؓ نے نیزہ اُٹھایا اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ و اسعد بن زرارہ ؓ کے پاس آکر خشم آلود لہجہ میں کہا، تمہیں یہاں کس نے بلایا ہے کہ ضعیف رائے والوں کو گمراہ کرو؟ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ابھی یہاں سے چلے جاؤ، حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے نرمی سے جواب دیا، بیٹھ کر ہماری باتیں سنو، اگر پسند آئے قبول کرو ورنہ ہم خود چلےجائیں گے، حضرت اسید بن حضیر ؓ نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے اور غور سے سننے لگے، حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے چند آیات کریمہ تلاوت کر کے اس خوبی کے ساتھ عقائد و محاسن اسلام بیان فرمائے کہ تھوڑی ہی دیر میں حضرت اسید بن حضیر ؓ کا دل نورِ ایمان سے چمک اُٹھا اور بیتاب ہوکر بولے، کیسا اچھا مذہب ہے کیسی بہتر ہدایت ہے ، اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے، حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے فرمایا پہلے نہا دھو کر پاک کپڑے پہنو، پھر صدق دل سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرو ،انہوں نے فوراً اس ہدایت کی تعمیل کی اور کلمہ پڑھ کر کہا، میرے بعد ایک اور شخص ہے جس کو ایمان پر لانا ہوگا، اگر وہ اس دائرہ میں داخل ہوگیا تو تمام قبیلہ عبدالاشہل اس کی پیروی کرے گا، میں ابھی اس کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ غیظ وغضب کے عوض عشق ومحبت کا سودا خرید کر اپنے قبیلہ میں واپس آئے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ نے دور ہی سے دیکھ کر فرمایا، خدا کی قسم اس شخص کی حالت میں ضرور کچھ انقلاب ہوگیا ہے اورجب قریب آئے تو پوچھا کہو کیا کرآئے؟ بولے، خدا کی قسم وہ دونوں ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوئے، میں نے ان کو منع کیا تو وہ بولے کہ ہم وہی کریں گے جو تم پسند کرو گے، لیکن مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ بنی حارثہ اس وجہ سے اسعد بن زراہ ؓ کو قتل کرنے نکلے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے؛ تاکہ اس طرح تمہاری تذلیل ہو، چونکہ قبیلہ بنی حارثہ اور بنو عبدالاشہل میں دیرینہ عداوت تھی، اس لیے حضرت اسید بن حضیر ؓ کا افسوں کار گر ہو گیا، حضرت سعد بن معاذ ؓ جوشِ غضب سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور تخالف مذہبی کے باوجود اسعد ؓکی مدد کے لیے دوڑے ، لیکن جب یہاں پہنچ کر بالکل سکون و اطمینان دیکھا تو سمجھ گئے کہ اسید نے ان دونوں سے بالمشافہ گفتگو کرنے کے لیے محض اشتعال دلایا ہے، غرض نسبی ترحم فوراً مذہبی تعصب سے مبدل ہوگیا اور خشم گین لہجہ میں بولے ابو امامہ خدا کی قسم اگر رشتہ داری کا پاس نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ پیش آتا تمہیں کیونکر ہمارے محلہ میں علانیہ ایسے عقائد پھیلانے کی ہمت ہوئی جس کو ہم سخت ناپسند کرتے ہیں، حضرت مصعب ؓ نے نرمی سے جواب دیا کہ پہلے ہماری باتیں سنو، اگر پسند آئیں تو قبول کرو ورنہ ہم خود تم سے کنارہ کش ہوجائیں گے، حضرت سعد ؓ نے اس کو منظور کرلیا، تو انہوں نے ان کے سامنے بھی اس خوبی سے اسلام کا نقشہ پیش کیا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا چہر ہ نورِ ایمان سے چمک اُٹھا، اسی وقت مسلمان ہوئے اور جوش میں بھرے ہوئے اپنے قبیلہ والوں کے پاس آئے اور ببانگ بلند سوال کیا، اے بنی اشہل بتاؤ میں تمہارا کون ہوں؟ انہوں نے کہا تم ہمارے سردار اور ہم سب سے زیادہ عاقل اور عالی نسب ہو، بولے خدا کی قسم تمہارے مردوں اور تمہاری عورتوں سے گفتگو کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم خدا اوراس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ۔ اس طرح عبدالاشہل کا تمام قبیلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے اثر سے اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا۔ [7] حضرت مصعب بن عمیر ؓ ایک عرصہ تک حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کے مہمان رہے ؛لیکن جب بنی نجار نے ان پر تشدد شروع کیا تو حضرت سعد بن معاذ ؓ کے مکان پر اُٹھ آئے اور یہیں سے اسلام کی روشنی پھیلاتے رہے، یہاں تک کہ خطمہ، وائل اور واقف کے چند مکانات کے سوا عوالی اور مدینہ کے تمام گھر روشن ہوگئے۔ [8]

مدینہ میں جمعہ قائم کرنا ترميم

مدینہ منورہ میں جب کلمہ گویوں کی ایک معتدبہ جماعت پیدا ہو گئی ،تو حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے دربارِ نبوت سے اجازت حاصل کرکے حضرت سعد بن خثیمہ ؓ کے مکان میں جماعت کے ساتھ نماز جمعہ کی بنا ڈالی، پہلے کھڑے ہو کر ایک نہایت مؤثر خطبہ دیا، پھر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھائی اور بعد نماز حاضرین کی ضیافت کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی،اس طرح وہ شعار اسلامی جو عبادت الہی کے علاوہ ہفتہ میں ایک دفعہ برادرانِ اسلام کو باہم بغل گیر ہونے کا موقع دیتا ہے، خاص حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی تحریک سے قائم کیا گیا۔ [9]

بیعت عقبہ ثانیہ ترميم

عقبہ کی پہلی بیعت میں صرف بارہ انصار شریک تھے؛لیکن حضرت مصعب ؓ نے ایک ہی سال میں تمام اہل یثرب کو اسلام کا فدائی بنا دیا، چنانچہ دوسرے سال تہتر 73 اکابر داعیان کی پر عظمت جماعت اپنی قوم کی طرف سے تجدید بیعت اور رسول اللہ کو مدینہ میں مدعو کرنے کے لیے روانہ ہوئی، ان کے معلم دین حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ساتھ تھے، انہوں نے مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلے آستانہ نبوت پر حاضر ہو کر اپنی حیرت انگیز کامیابی کی مفصل داستان عرض کی، آنحضرت نے نہایت دلچسپی کے ساتھ تمام واقعات سنے اور ان کی محنت و جانفشانی سے بے حد محظوظ ہوئے۔ [10]

حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی ماں نے بیٹے کے آنے کی خبر سنی تو کہلا بھیجا ،اے نافرمان فرزند کیا تو ایسے شہر میں آئے گا جس میں ، "میں" موجود ہوں اور تو پہلے مجھ سے ملنے نہ آئے، انہوں نے جواب دیا، میں رسول خدا ﷺ سے پہلے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گا، حضرت مصعب بن عمیر ؓ جب رسولِ خدا ﷺ سے شرفِ ملاقات حاصل کر چکے تو اپنی ماں کے پاس آئے، اس نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ تو اب تک ہمارے مذہب سے برگشتہ ہے بولے میں رسول اللہ کے دین برحق اور اس اسلام کا پیرو ہوں جس کو خدا نے خود اپنے لیے اور اپنے رسول کے لیے پسند کیا ہے، ماں نے کہا کیا تم اس مصیبت کو بھول گئے جو تم کو ایک دفعہ سرزمین حبش میں برداشت کرنی پڑی اور اب یثرب میں سہنا پڑتی ہے؟ افسوس دونوں دفعہ تم نے غمخواری کا کچھ شکریہ ادا نہ کیا، حضرت مصعب بن عمیر ؓ سمجھ گئے کہ شاید پھر مجھ کو قید کرنے کی فکر میں ہے چلا کر بولے، کیا تو جبراً کسی کو اس کے مذہب سے پھیر سکتی ہے؟ اگر تیرا منشاء ہے کہ پھر مجھ کو قید کردے تو پہلا شخص جو میری طرف بڑھے گا اس کو یقینا ًقتل کر ڈالوں گا، ماں نے یہ تیور دیکھے تو کہا، بس تو میرے سامنے سے چلا جا اور یہ کہہ کر رونے لگی، حضرت مصعب بن عمیر ؓ اس کیفیت سے متاثر ہوئے اور کہنے لگے اے ماں !میں تجھے خیر خواہی ومحبت سے مشورہ دیتا ہوں کہ تو گواہی دے کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول برحق ہیں، اس نے کہا چمکتے ہوئے تاروں کی قسم ! میں اس مذہب میں داخل ہوکر اپنے آپ کو احمق نہ بناؤں گی جا میں تجھ سے اور تیری باتوں سے ہاتھ دھوتی ہوں، اور اپنے مذہب سے وابستہ رہوں گی۔ [11]

ہجرت مدینہ ترميم

حضرت مصعب ؓ نے مکہ آنے کے بعد ذی الحجہ محرم اور صفر کے مہینے آنحضرت ہی کی خدمت میں بسر کیے، اورپہلی ربیع الاول کو سرورِ کائنات ﷺ سے بارہ دن پہلے مستقل طور پر ہجرت کر کے مدینہ کی راہ لی۔ [12]

غزوات ترميم

سے حق و باطل میں خونریز معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا ، حضرت مصعب بن عمیر ؓ میدان فصاحت کی طرح عرصہ وغا میں بھی نمایاں رہے ، غزوۂ بدر میں جماعتِ مہاجرین کا سب سے بڑا علم ان کے ہاتھ میں تھا ، غزوۂ اُحد میں بھی علمبرداری کا تمغائے شرف ان ہی کو ملا۔

شہادت ترميم

اس جنگ میں ایک اتفاقی غلطی نے جب فتح و شکست کا پانسہ پلٹ دیا اور فاتح مسلمان ناگہانی طور سے مغلوب ہو کر منتشر ہو گئے تو اس وقت بھی یہ علمبردار اسلام یکہ و تنہا مشرکین کے نرغہ میں ثابت قدم رہا ، کیونکہ لوائے توحید کو پیچھے کی طرف جنبش دینا اس فدائی ملت کے لیے سخت عار تھا، غرض اسی حالت میں مشرکین کے شہسوار ابن قمیہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا جس سے داہنا ہاتھ شہید ہوگیا،لیکن بائیں ہاتھ نے فوراً علم کو پکڑ لیا، اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [13] اور محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم تھا، لیکن اس دفعہ دونوں بازوؤں نے حلقہ کر کے علم کو سینہ سے چمٹا لیا، اس نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ تاک کر مارا کہ اسکی انی ٹوٹ کر سینہ میں رہ گئی اور اسلام کا سچا فدائی اسی آیت کا اعادہ کرتے ہوئے فرشِ خاک پر دائمی راحت کی نیند سو رہا تھا ، لیکن اسلامی پھر یرا سرنگوں ہونے کے لیے نہیں آیا تھا، ان کے بھائی ابوالروم بن عمیر ؓ نے بڑھ کر اس کو سنبھالا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔ [14]

تجہیز و تکفین ترميم

لڑائی کے خاتمہ پر آنحضرت حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی لاش کے قریب کھڑے ہوئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ [15] مومنین میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا تھا اس کو سچا کر دیکھایا۔ پھر لاش سے مخاطب ہوکر فرمایا "میں نے تم کو مکہ مکرمہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا، لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال اُلجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے" پھر ارشاد ہوا بیشک خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے اس کے بعد غازیانِ دین کو حکم ہوا کشتگانِ راہ خدا کی آخری زیارت کرکے سلام بھیجیں اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔ [16] اس زمانہ میں غربت وافلاس کے باعث شہیدانِ ملت کو کفن تک نصیب نہ ہوا، حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی کہ جس سے سرچھپا یا جاتا تو پاؤں برہنہ ہوجاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتے، بالآخر چادر سے چہر ہ چھپایا گیا، پاؤں پراذخر کی گھاس ڈالی گئی،[17] اور ان کے بھائی حضرت ابوالروم بن عمیر ؓ نے حضرت عامر بن ربیعہ ؓ اور حضرت سویط بن سعد ؓ کی مدد سے سپردِ خاک کیا، انا للہ وانا الیہ راجعون [18]

فضل و کمال ترميم

حضرت مصعب ؓ نہایت ذہین، طباع اور خوش بیان تھے ، یثرب(مدینہ) میں جس سرعت کے ساتھ اسلام پھیلا اس سے ان کے ان اوصاف کا اندازہ ہوسکتا ہے ، قرآن شریف جس قدر نازل ہوچکا تھا۔ اس کے حافظ تھے ، مدینہ میں نماز جمعہ کی ابتداء ان ہی کی تحریک سے ہوئی اور یہی سب سے پہلے امام مقرر ہوئے۔ [19]

اخلاق ترميم

اخلاقی پایہ نہایت بلند تھا، ظلم کے مکتب نے مزاج میں صرف متانت ہی پیدا نہ کی تھی ؛بلکہ مصائب برداشت کرنے کا خوگر بنادیا تھا۔ خصوصا ملک حبش کی صحرانوردیوں نے جفا کشی، استقلال و استقامت کے نہایت زرین اسباق دیئے تھے اور اچھی طرح سکھا دیا تھا کہ دشمنوں میں رہ کر کس طرح اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول خدا نے نو مسلموں کی تعلیم و تربیت اور اشاعتِ اسلام جیسے اہم خدمات پر ان کو مامور فرمایا تھا۔ مزاج قدرۃ نہایت لطافت پسند تھا، اسلام قبول کرنے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پوشاک اور بہتر سے بہتر عطریات استعمال فرماتے،حضرمی جوتا جو اس زمانہ میں صرف امراء کے لیے مخصوص تھا وہ ان کے روز مرہ کے کام میں آتا ، غرض ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش ،زیبائش اور زلفِ مشکیں کے سنوارنے میں بسر ہوتا تھا، لیکن جب اسلام لائے تو شرابِ توحید نے کچھ ایسا مست کر دیا کہ تمام تکلفات بھول گئے ،ایک روز دربارِ نبوت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ جسم پر ستر پوشی کے لیے صرف ایک کھال کا ٹکڑا تھا جس میں جا بجا سے پیوند لگے ہوئے تھے، صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو سب نے عبرت سے گردنیں جھکالیں، آنحضرت نے فرمایا، الحمد للہ اب دنیا اور تمام اہل دنیا کی حالت بدل جانا چاہئے، یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکہ میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خدا اور رسول کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کردیا۔ [20]

حلیہ ترميم

حلیہ یہ تھا ، قدمیانہ ، چہرہ حسین نرم و نازک اور زلفیں نہایت خوبصورت تھیں۔ [21]

اہل و عیال ترميم

حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا۔ جس سے زینب نامی ایک لڑکی یاد گار چھوڑی ۔ [22]

حوالہ جات ترميم

  1. عنوان : Мусаб ибн Умайр
  2. (اسدالغابہ،تذکرہ مصعب بن عمیرؓ)
  3. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:۸۲)
  4. (اسد الغابہ تذکرہ مصعب بن عمیر ؓ)
  5. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: ۸۲)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۳)
  7. (سیرت ابن ہشام جلد ۱ :۱۳۹، وخلاصہ الوفاء :۶۱)
  8. (سیرت ابن ہشام جلد ۱ :۱۳۹، وخلاصہ الوفاء :۶۱)
  9. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۸۳)
  10. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۳)
  11. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۸۳)
  12. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۴)
  13. (آل عمران:۱۴۴)
  14. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۵)
  15. (الاحزاب:۲۳)
  16. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۵)
  17. (بخاری باب غزوۂ احد :۵۷۸)
  18. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۶)
  19. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۸۶)
  20. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۸۲)
  21. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۸۶)
  22. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۸۱)