نماز عید
اس کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
نماز عیدین (عربی: صلاة العید) دو اسلامی تہواروں (عیدین) کے موقع پر ادا کی جانے والی خصوصی نماز ہے۔
عربی نام | صلاة العید |
---|---|
وقت | یکم شوال اور 10 ذوالحجہ |
دورانیہ | اشراق کے وقت سے زوال کا وقت شروع ہونے تک |
قسم | فرض کفایہ |
عید الفطر کی نماز یکم شوال المکرم کو ادا کی جاتی ہے۔اگر عذر شرعی کی بنا پر یکم شوال کو ادا نہ کر سکا تو دوم شوال المکرم کو ادا کر سکتا ہے-
جب کہ عیدالاضحی کی نماز دس ذوالحجہ کو ادا کی جاتی ہے۔
دونوں مواقع پر یہ خصوصی نمازیں عام طور پر عید گاہ میں ادا کی جاتی ہیں۔۔
فقہی مذاہب میں
ترمیماہل سنت و جماعت
ترمیم- فقہ مالکی[1] اور فقہ شافعی[2] میں یہ سنت مؤکدہ ہے۔
- فقہ حنبلی(امام احمد بن حنبل کی ماننے والے)
- فقہ میں یہ فرض کفایہ ہے۔[3]
- فقہ حنفی میں ہر مسلمان پر واجب ہے،[4] لہذا ہر مرد پر واجب ہے اور بغیر کسی عذر کے ترک کرنے پر گناہ گار ہوگا، اس متعلق احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے، غیر مقلد عالم ابن تیمیہ اور شوکانی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔[5]
اہل تشیع
ترمیم- فقہ جعفری، اثناء عشری کے مطابق نماز عید امام مہدی کے زمان حضور میں اس نماز کا جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے جبکہ عصرِ عَیبَت کبریٰ میں یہ نماز مستحب ہے۔[6]
احکام و آداب
ترمیمبعض علمائے کرام نے عیدین کی نماز کو واجب قرار دیا ہے، جن میں علمائے احناف شامل ہیں اور اہل حدیث کے عالم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے، اس قول کے قائلین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز عیدین پر مواظبت فرمائی ہے اور کبھی ترک نہیں کی یعنی ایک بار بھی تر ک نہیں کی۔
اور انھوں نے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی استدلال کیا ہے فصل لربک و انحر ”لہذا تو اپنے رب کے لیے نماز ادا کر اور قربانی کر۔“
یعنی نماز عید ادا کر کے بعد میں قربانی کر اور یہاں پر امر کا صیغہ ہے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں حاضر ہونے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم بھی دیا اور جس عورت کے پاس پردہ کرنے کے لیے اوڑھنی اور برقع نہ ہو وہ اپنی بہن سے عاریتا حاصل کرلے۔
اور بعض علما کہتے ہیں کہ یہ فرض کفایہ ہے حنابلہ کا مذہب یہی ہے اور ایک تیسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز عیدین سنت مؤکدہ ہے، ان میں مالکیہ اور شافعیہ شامل ہیں، انھوں نے اس اعرابی والی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں پر پانچ نمازیں ہی فرض کیں ہیں۔
لہذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز عیدین میں حاضر ہونے کی خصوصی حرص رکھے اور کوشش کرے اور نماز عیدین کے وجوب کا قول قوی معلوم ہوتا ہے اور یہی کافی ہے کہ نماز عیدین میں حاضر ہونے میں جوخیر وبرکت اوراجر عظیم پایا جاتا ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا اور پیروی بھی ہے۔
وجوب اور صحیح ہونے کی شروط اور وقت
ترمیماہل سنت
ترمیمبعض علما جن مین حنفیہ اور حنابلہ شامل ہیں نے نماز عیدین کے وجوب کے وجہ سے اقامت اور جماعت شرط رکھی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس میں نماز جمعہ والی شروط ہی ہیں صرف خطبہ نہیں، لہذا خطبہ میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔
جمہور علما کہتے ہیں کہ نماز عیدین کا وقت دیکھنے کے اعتبار سے سورج ایک نیزہ اونچا ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے اور زوال کے ابتدا تک وقت رہتا ہے۔[7]
اہل تشیع
ترمیمنماز کا وقت دن طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے اور عید فطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعد کچھ کھایا جائے، فطرہ دیا جائے اور بعد میں دوگانہ عید ادا کیا جائے۔[6]
طریقہ
ترمیماہل سنت
ترمیمعمر بن خطاب کا کہنا ہے کہ نماز عید الفطر اورعید الاضحی دو دو رکعت ہیں یہ قصر نہیں بلکہ مکمل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے جس نے بھی افترا باندھا وہ ذلیل و رسوا ہوا۔
اور ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ عید الفطر اور عید الاضحی عیدگاہ جاتے تو سب سے پہلے نماز ادا کرتے۔[8]
احناف کے ہاں نماز عید کی پہلی رکعت میں تین زائد تکبیریں اور دوسری رکعت میں بھی تین زائد تکبیریں ہیں اور پہلی رکعت میں تکبیروں کے بعد جبکہ دوسری رکعت میں تکبیروں سے پہلے قرات ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔
پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔
اہل تشیع
ترمیماہل تشیع کے ذیلی فرقے اثنا عشریہ میں نماز دو رکعت ہے جس کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان میں ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے کرے اور اٹھ کھڑا ہو اور دوسری رکعت چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان میں قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو ختم کر دے۔[6]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "مواهب الجليل في شرح مختصر الشيخ خليل"۔ مکتبۃ الاسلامیہ۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ "حكم صلاة العيد"۔ موضوع
- ↑ "المبدع في شرح المقنع"۔ مکتبۃ الاسلامیہ۔ 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ "بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"۔ مکتبۃ الاسلامیہ۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ "صفة صلاة العيدين"۔ أرابيكا۔ 20 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2023
- ^ ا ب پ "عید فطر اور عید قربان کی نماز - توضیح المسائل - مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ"
- ↑ "كيفية صلاة العيدين"۔ Islamweb إسلام ويب
- ↑ رواہ البخاري (956)