لوہانی پشتونوں کا عہد رفتہ کا ایک مشہور اور معروف قبیلہ تھا۔ جس نے لودھی پشتونوں کی سلطنت میں خوب نام کمایا. مگر آج کل اس کی شاخیں جداگانہ شناخت رکھتی ہیں جو لوہانی سے زیادہ معروف ہیں۔ بہرحال پھر بھی ہندوستان جانے والے اور ایک انتہائی محدود تعداد جو افغانستان میں موجود ہے جو ابھی تک خود کو لوہانی /لوانڑی کے نام سے شناخت کراتے ہیں۔دولت خان لونڑای مشہور شاعر گذرا ہے۔ شجرہ کے مطابق لودی کے تین بیٹے تھے نیازی، سیانڑی اور دوتانی. سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوئے ایک پڑنگی جس سے بہلول لودی بادشاہ کا خاندان اور پنیالہ کے بلچ پٹھان ہیں۔ جبکہ دوسرا بیٹا اسمعیل تھا۔ اس اسمعیل کے آگے تین بیٹے ہوئے ایک سور جس سے شیر شاہ سور کا قبیلہ نکلا جبکہ دوسرا لوہانی اور تیسرا مہیپال. لوہانی کی زوجہ اول مسمات شیری سے مروت قبیلہ پیدا ہوا اس گروہ کو سپین لوہانی کہا جاتا ہے جبکہ زوجہ دوم مسمات توری سے مما خیل، میاں خیل، دولت خیل (بشمول کٹی خیل نواب ٹانک) اور تتور قبائل نکلے. جنھیں تور لوہانی کہا جاتا ہے۔ سولہویں صدی تک مروت، میاں خیل، دولت خیل، تتور اور مما خیل وغیرہ سارے اپنی شناخت لوہانی سے کراتے تھے۔ لوہانی کو افغانستان میں لوانڑی بھی کہتے ہیں جبکہ ہندوستان میں لوہانی کو نوحانی بھی لکھا جاتا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ مروتوں کا اصل وطن غزنی کا علاقہ کٹہ واز تھا.. جہاں پر یہ گرمیاں گزارتے تھے۔ جبکہ سردیوں میں مویشی چرائی کے واسطے کبھی کبھار وانا کی طرف نکل آتے تھے۔ حیات افغانی کے مطابق کٹہ واز میں آج بھی ایک موضع کا نام خرابا مروتان موجود ہے۔ روایات کے مطابق کٹہ واز میں سپین لوہانی (مروتوں) کا اپنے پڑوسی قبیلہ سلیمان خیل غلجیوں کے ساتھ ایک عورت کے معاملے پر تنازع ہو گیا۔ جس پر سلیمان خیلوں کو ان کے بھائی بند اقوام اندڑ و ترکی کی اعانت حاصل تھی جبکہ دوسری طرف سپین لوہانیوں کو اپنے بھائی بند تور لوہانی قبائل کی مدد حاصل تھی. لیکن بالآخر لوہانیوں کو غلجیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں تمام لوہانیوں کو اس علاقے سے بیدخل ہونا پڑا. لوہانی قبائل درہ گومل کے راستہ دامان و ٹانک میں آن پہنچے. جہاں پر پڑنگی لودی قابض تھے۔ لوہانی لودیوں نے پڑنگیوں کو شکست دیکر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا. پڑنگی لودھیوں کی اکثریت ہندوستان کی طرف کوچ کر گئی جہاں پر ان کی حکومت تھی. بعد میں بہت سے لوہانی بھی بہلول لودھی کی دعوت پر ہندوستان چلے گئے۔ ہندوستان کی تاریخ میں لوہانیوں نے بہت نام کمایا ہے بالخصوص لودھیوں کے زمانے میں یہ بہت اعلیٰ مراتب پر تعینات رہے. جس میں ابراہیم خان لوہانی (حاکم اوٹاہ) نے بہلول لودی کے زمانے شہرت پائی اس کے بعد سکندر لودھی کے زمانے میں ایک نوہانی خان خاں کے عہدہ پر بھی فائز ہوا جو ایک مقتدر درباری کا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک دریا خان لوہانی بھی تھا جو سرہند کا گورنر رہا.. جس کا مقبرہ دہلی میں موجود ہے۔ سکندر لودی کے زمانے میں مبارک خان نوہانی نے بھی کافی شہرت حاصل کی جس کو بہار کا گورنر بنایا گیا جہاں پر ابراہیم لودھی کے زمانے میں اس کے بیٹے بہادر خان نوہانی نے بغاوت کرکے اپنی خود مختاری کا دعویٰ کیا. نوہانیوں کی یہ ریاست ہمایوں بادشاہ کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی. جس کی تفصیلات کافی طویل ہیں۔ اسی نوہانی ریاست کے خاتمے کے بعد شیر شاہ سوری ابھر کر سامنے آیا. اس کے بعد شیر شاہ سوری کے عہد میں بھی نوہانی موجود رہے لیکن چونکہ نوہانیوں کی ریاست کے خاتمے کا ایک محرک شیر شاہ سوری بھی تھا تبھی دونوں اطراف میں اس طرح تعلقات استوار نہ ہو سکے.. جب مغلوں کی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو اسلام شاہ سوری کے ایک کمانڈر تاج خان کرانی نے بنگال میں کرانی سلطنت کی بنیاد رکھی. جو اکبر بادشاہ کے زمانے میں اپنے انجام کو پہنچی اس کرانی سلطنت کے زوال کے دنوں میں ایک قتلو لوہانی نامور ہوا جو جنگ میں مارا گیا۔ جس کے بارے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ نوابین ٹانک کٹی خیل خاندان کا بانی وہی تھا۔ چونکہ یہ ایک قیاس ہے کہ تبھی میں اس سے متفق نہیں ہوں.. مغلوں کے زمانے میں بھی لوہانیوں نے عسکری خدمات ہندوستان میں دیتے رہے. لیکن کوئی قابل ذکر شخصیت میری نظروں سے نہیں گذری. لوہانی ہندوستان میں زیادہ تر بہار، مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے علاقوں میں آج بھی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے علاقہ ہوشیار پور و جالندھر میں بھی لوہانی آباد تھے جو ہجرت کرکے شکر گڑھ کے علاقے میں زیادہ تر آباد ہوئے ہیں.. ہندوستان کے صوبہ گجرات میں لوہانیوں کی ریاست انتہائی چھوٹی سی ریاست پالن پور بھی تھی جو شاہان گجرات و مغلوں کے زمانے سے لے کر انگریزوں کے زمانے تک رہی بعد میں ہندوستان میں ضم ہو گئی۔ بدقسمتی سے نوہانیوں پر کوئی الگ سے کتاب تحریر نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ہمیں ان کے حالات اور تاریخ پڑھنے کے لیے متفرق کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بہرحال ایک شاندار تاریخ رکھنے والا لوہانی قبیلہ اب ماضی کے دھندلکوں میں دب گیا ہے.[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تحریر و تحقیق؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج Www.niazitribe.org