مبارک حویلی
لاہور کے مشہور موچی دروازہ میں داخل ہوں تو آگے جاکر مشہور چوک نواب صاحب آتا ہے جو نواب علی رضا قزلباش سے منسوب ہے۔ یہاں سے سامنے کی جانب دو راستے ہیں دائیں جانب اکبری دروازہ ہے جبکہ بائیں جانب چند قدم آگے جائیں سبز دروازے کی عظیم الشان حویلی نظر آتی ہے جسے مبارک حویلی کہا جاتا ہے ۔
لاہور میں مغل حکومت کے آخری دور میں محمد شاہ بادشاہ کے عہد (1719ء تا 1748ء) میں میر برادران نے اس حویلی کی بنیاد رکھی جن کے نام میر بہادر، میر نادر اور میر بہار علی تھے ۔
مغل حکو مت کی خاتمے کے بعد مبارک حویلی رنجیت سنگھ کی تحویل میں آگئی اور اس کی مرمت اور تعمیر کروائی گئی۔ جب شاہ شجاع الملک کابل سے بے دخل ہو کر آیا تو اسے مہاراجا کے حکم سے مبارک حویلی میں ٹھہرایا گیا بعد ازاں اسے یہاں قید کر لیا گیا۔اور اسی حویلی میں مہا راجا نے دنیا کا بیش قیمت ہیرا کوہ نور چھینا۔
بڑی حویلی نواب علی رضا قزلباش بہ اقرار سردار مذکور کے بیع ہو گئی نواب علی رضا قزلباش نے اپنی زند گی میں اس حو یلی میں بہت سے تبدیلیاں کیں ایک علاحدہ حویلی کا درجہ تھا۔ جس میں باورچی خانہ کا سامان رکھا جاتا تھا۔ جہاں یکم تا دس محرم تک غرباء و فقرا کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اس حویلی میں پکایا جاتا تھا۔ یہ حویلی کا حصہ الگ ہو کر اب نثار حویلی کہلاتا ہے۔
سردار کہر سنگھ نے یہ حویلی نواب علی رضا خان قزلباش کے ہاتھ فروحت کردی۔ نواب صاحب اور ان کے خاندان نے برطانوی حکومت کی ہمیشہ مدد کی، جس کی خاطر خواہ تفصیل گریفن کی کتاب میں درج ہے۔ برطانوی افواج جب کابل میں گرفتار ہوئیں تو نواب صاحب نے دروان قید ان کو غذا و دیگر ضروریات فراہم کیں اور تاوان دے کر رہا کرایا۔ اسی طرح ہزارہ میں جب انگریز افواج قید ہوئیں تو نواب صاحب نے رشوت ادا کرکے رہائی دلائی۔ 1857 میں بھی انگریزوں سے وفاداری نباہی بلکہ نواب صاحب کو ’’تاجِ برطانیہ کی وفادار ترین رعیت‘‘ کہا گیا۔ ایمپریس روڈ کے دونوں اطراف جو زمین ہے وہ نواب صاحب کو انگریزوں سے تحفے میں ملی۔ اس کے علاوہ رائے ونڈ میں زمین اور اودھ کے 147 گاؤں بھی دیے گے۔
حویلی کے موجودہ متولی منصور علی قزلباش کا کہنا ہے ’’نواب صاحب نے اس حویلی کی تعمیر نو 1863 میں کروائی۔‘‘ کہنیا لال بیان کرتے ہیں ’’…یہ قدیم عمارت ہے اگرچہ اب نقشہ اس کا بدل کر سب نئی عمارت بن چکی ہے مگر جنوبی حصہ اس کا اب بھی پرانی عمارت کا باقی… نو اب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگانی میں اس عمارت میں بہت سا تغیر و تبدل کیا۔ شرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا اور بڑے بڑے دالان و صحن و عمارات جدید بنوائیں اور ماہ محرم میں عزاداری کی مجلسیں اس میں مقرر کیں۔ جب نواب جنت نصیب ہوا تو نواب نوازش نے باپ کے وقت کی عمارتوں کو گرا کر اعلٰی درجے کی عمارتیں بنوائیں۔‘‘
قزلباش خاندان نے کربلا گامے شاہ میں ہونے والی مجالس کی بھی سرپرستی کی۔ آئن ٹالبوٹ اور ڈاکٹر طاہر کامران کی تصنیف کردہ کتاب میں درج ہے کہ نواب رضا علی خان نے 1850 میں لاہور میں ذو الجناح کے جلوس کی ابتدا کی، جو اب بھی اسی حویلی سے برآمد ہوتا ہے