موچی دروازہ پاکستان کے شہر لاہور کا اہم دروازہ ہے۔ شہر قدیم کا موچی دروازہ جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کے دائیں جانب اکبری دروازہ اور بائیں جانب شاہ عالمی دروازہ ہے۔ اس دروازے کی تعمیر بھی اکبر کے دور میں ہوئی۔

موچی گیٹ
Entry to the gate
موچی دروازہ is located in پنجاب، پاکستان
موچی دروازہ
موچی دروازہ is located in پاکستان
موچی دروازہ
متناسقات31°34′38″N 74°19′17″E / 31.5772°N 74.3215°E / 31.5772; 74.3215
مقاملاہور، پنجاب، پاکستان، پاکستان
قسمCity gate

وجہ تسمیہ

ترمیم

موچی دروازے کا قدیم نام موتی دروازہ تھا۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکبری عہد میں موتی رام جمعدار جو اکبر کا ملازم تھا، تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر مامور رہا۔ موتی رام بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھا۔ اپنے حسن اخلاق کے باعث وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھا۔ اس کی زندگی میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا تو اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی اور اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے میں داخل نہ ہونے دیا۔ اسی کے نام کی نسبت سے یہ دروازہ موتی دروازہ کے نام سے مشہور ہو گیا

تاریخ

ترمیم

۔ کنہیا لال موچی دروازے کے بارے میں ٴتاریخ لاہورٴ میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴیہ دورازہ موتی رام جمعدار ملازم اکبری کے نام سے موسوم ہے جو تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر تعینات رہا تھا۔ مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لیے موتی بن گیا۔ سکھی عہد میں موتی کے نام سے بدل کر موچی مشہور ہوا۔ اب بھی موچی دروازہ مشہور ہے۔ اس دروازے کے مشرقی دالان میں ایک قبر چھوٹی سی زمانہ سلف کی پختہ بنی ہوئی موجود ہے۔ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہاں کسی شہید کا سر مدفون ہےٴٴ

بعض مورخین کی رائے ہے کہ اس دروازے کو سکھ عہد میں مورچی دروازے کا نام دیا گیا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اس اندرون موچی دروازے میں ٴمورچیوںٴ کا قیام بتائی جاتی ہے۔ اوائل مغل عہد میں یہاں مغل فوج کے پیادے قیام پزیر تھے اور اسی نسبت سے اس علاقے کے مختلف محلوں اور گلیوں کی تقسیم کی گئی جن میں محلہ تیرا گراں، محلہ کماںگراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔ کی آج اتنی صدیاں گذر جانے کے بعد بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دروازہ سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے اس لیے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کے عظیم الشان جلسے اور سیاسی احتجاج کی بڑی بڑی تحریک یہیں سے جنم لیتی رہی ہیں۔ موچی باغ تحریک پاکستان سے لے کر موجودہ سیاسی منظر نامے تک کا اہم حصہ رہا ہے۔

اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک ہند کے جن نامور سیاست دانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا ان میں علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبد الغفار خان، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو،نواز شریف، شہباز شریف، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ اور پروفیسر حافظ محمد سعید سمیت تمام اہم سیاست دان شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی تک کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر لگایا جاتا تھا۔ آج موچی باغ کے گرد کار پارکنگ اور میدان میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور دھوبیوں کے ناجائز قبصے سے اس کا حسن مانند پڑ رہا ہے اور سیاسی جلسے بھی شاز و نادر ہی منعقد ہوتے ہیں۔

انگریز دور حکومت میں جب فصیل شہر کی بلندی کم کرکے چند فٹ کی دیوار بنا دی گئی تو اس دروازے کے دونوں برجوں کو گرا کر اس کی اینٹیں فروخت کر دی گئیں۔ قرین قیاس تھا کہ انگریزی عہد میں اس دروازے کی بھی تعمیر نو ہوگی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ موچی دروازے کی از سر نو تعمیر نہیں ہو سکی اس لیے آج موچی دروازے کی عمارت کے آثار موجود نہیں ہیں، نہ اس دروازے کی عمارت کے بارے میں پرانی کتابوں میں حوالہ جات ملتے ہیں۔ لہذا اس کے فن تعمیر اور جمالیات کے بارے میں مورخ کسی قسم کی رائے کے اظہار سے قاصر ہیں۔ قیاس ہے کہ اس دروازے کی عمارت بھی لاہور کے بقیہ قدیم دروازوں کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتا ہوگا۔ آج موچی دروازہ کے بائیں ہاتھ پر تھانہ موچی گیٹ کی نو تعمیر کثیر منزلہ عمارت موجود ہے اور بائیں جانب تھانہ رنگ محل کی عمارت ہے۔ دروازے کے بالکل ساتھ پیر مرادیہ کی قبر اور سبیل ہے۔ قبر پر دو قدیمی گھنے درختوں کا سایہ کیا ہوا ہے۔ تھانے کی عمارت سے چند قدم آگے بائیں جانب قدیم لال حویلی کی عمارت ہے۔

موچی دروازے کا علاقہ پتنگ سازی ، خشک میوہ جات، مٹھائیوں اور آتشباری کے سامان کا مرکز رہا ہے۔ بسنت پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب اس علاقے میں پتنگ سازی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ آتشبازی کے سامان کی چند ایک دوکانیں باقی ہیں۔ البتہ موچی دروازے کا بازار اب بھی بہت بارونق ہے۔ مٹھائیوں اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ علاقہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ بہترین فالودہ، لسی، باداموں والی برقی، مچھلی اور سیخ کبابوں اس علاقے میں دستیاب ہیں۔ موچی دروازے کی وجہ شہرت مسجد محمد صالح کمبوہ بھی ہے۔ جونہی موچی دروازے کے اندر داخل ہوں تو چند قدم چلنے کے بعد بالکل سامنے تین گنبدوں والی یہ مسجد آنے والوں کو توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ یہ مسجد سڑک سے ایک منزل بلندی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس قدیم مسجد کا شمار اپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کے باعث مغلیہ دور کی اہم عمارات میں کیا جاتا ہے۔ اکثر آیات قرانی اور احادیث و عبارات فارسی اس کی دیواروں پر نقش ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر منشی محمد صالح کمبوہ دیوان صوبہ پنجاب نے کروائی تھی۔ مسجد کی تعمیر 1659ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس مسجد کی کرسی اونچی ہے اور نیچے دوکانیں ہیں۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بازار کی زمین اونچی ہو گئی ہے اور دوکانوں نے نصف سے زائد زمین میں دھنس کر تہ خانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دروازہ بھی چھوٹا سا رہ گیا ہے اور مسجد کی کرسی کی بلندی چار کی برابر رہ گئی ہے۔ اس مسجد کے مشرق میں منشی محمد صالح کمبوہ نے اپنی حویلی بھی بنوائی تھی۔ منشی محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہان دور کی تاریخ عمل صالح تحریر کی تھی۔ مسجد محمد صالح کمبوہ کے ساتھ ہی اونچی مسجد بلال ہے جہاں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ و حفظ کی مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ کا نام جامعہ کریمیہ چشتیہ ہے۔ مسجد کمبوہ سے بائیں مڑ جائیں تو کوچہ لوہاراں آجاتا ہے جس آگے ملحقہ بازار صدا کاراں ہے اور اس کے بعد کوچہ تیر گراں آجاتا ہے تو شاہ عالمی بازار سے جا ملتا ہے۔

مسجد صالح کمبوہ سے دائیں جانب چلے جائیں تو کوچہ تکیہ سادھواں کے بعد کوچہ چابک سواراں آجاتا ہے جہاں 1671ء میں مسجد چینیاں والی تعمیر ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی حویلی میاں خان متصل ہے۔ اس مسجد کا شمار بھی اندرون شہر کی قدیم مساجد میں ہوتا تھا۔ کنہیا لال قدیم مسجد چینیاں کے بارے میں اپنی تصنیف تاریخ لاہور میں لکھا ہے کہ ٴٴمسجد کا شرقی دروازہ نہایت عالی شان بنا ہوا تھا۔ بہ وقت زوالِ سلطنت ِ چغتائی جب گھر گھر ہو گیا تو مسجد کے دروازے کی سلیں گوجر سنگھ نے اکھڑوا لیں۔ پتھر کی دہلیز، جو سنگ مر مر کی تھی، سوبھا سنگھ نے نکلوا لی، دروازہ مسجد منہدم ہو گیا۔ پہلے دروازے کی اینٹیں۔ پھر زمین کسی طامع امام مسجد نے فروخت کر دی اور مسجد سے داخل ہونے کے لیے شمالی دیوار توڑ کر چھوٹا سا دروازہ نکال لیا تھا۔ٴٴ مسجد کی شکستہ حالی کے سبب اس کی ازسر نو تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کے بانی شاہ جہاں بادشاہ کے فوجداری صوبہ لاہور نواب سرفراز خان المعروف افراز خان تھے۔ کچھ عرصہ قبل مسجد چینیاں والی کو دوبارہ گرا کر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ سکھوں کے عہد میں عربی خط کا استاد خلیفہ بگو نامہ موچی دروازے کے اندر محلہ کماں گراں میں رہتا تھا۔ مسجد صالح محمد کمبوہ سے اگر دائیں جانب مڑ جائے ں تو امام بارگارہ سید اکبر علی شاہ آتا ہے اس کے ساتھ ہی آگے مشہور لال کھوہ کی عمارت کی بہت قدیمی عمارت ہے جس کی تعمیر نو 1977ء میں مستری جاوید چنیوٹی نے ضیا الدین بٹ کی مالی معاونت سے کی۔ لال کھو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک کنواں ہوتا تھا جسے سکھ مذہب کے پیروکار مقصد سمجھتے تھے۔ لال کھو کی عمارت کے ساتھ بیری کا درخت ہے اور دیے جلانے کی مخصوص جگہ ہے جسے بیراں والی سرکار کہتے ہیں۔ لال کھوہ کی عمارت کے بالکل سامنے رفیق سویٹس کی دکان ہے۔ حال ہی میں فضل سوئیٹس والوں کی دو منزلہ دکان کی تعمیر کی ہے۔ مزید آگے جائیں چوک نواب پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چوک نواب قزلباش کے نام سے منسوب ہے۔ قبل ازیں یہاں ایک شمشان گھاٹ تھا جسے ختم کر دیا گیا۔ اندرون موچی دروازہ مغلیہ عہد اور بعدکے ادوار میں بھی نوابوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں عظیم الشان اور کشادہ حویلیوں کی تعمیر کی گئی۔ جو آج بھی اس دور کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ کنہیا لال ہندی نے شہر قدیم کے اندر حوایلیوں کی کل تعداد چونسٹھ بتائی ہے جن میں سے سوائے چند ایک باقی سب کے محض نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ ان حویلیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اولین وہ حویلیاں جو عہد مغلیاں کی یاد تھیں اور سکھوں کے قبضہ میں آئیں اور دوسرے حصے میں ان حوایلیوں کا تذکرہ ہوگا جو عہد سکھی میں ہی تعمیر ہوئیں اور ان کے معماروں نے حسب توفیق ظاہرہ خدوخال میں سکھ عہد کا تشخص اجاگر کرنے کی کمزور سے سعی کی۔ موچی دروازہ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں عہد مغلیہ دور کی کئی یادگار حویلیاں آج بھی موجود ہیں۔ نواب سعد اللہ خان مغل بادشاہ شاہ جہان وزیر تھا۔ اس نے اپنی رہائش کے لیے اندرون موچی دروازہ میں حویلی میاں خان تعمیر کی جس کے تین درجے تھے ایک حویلی زنانہ، دوسری مردانہ جس کو رنگ محل بھی کہتے ہیں اور تیسرا قلعی خانہ تھا۔ کنہا لال حویلی میاں خان کے بارے میں بیان کرتے ہیں ٴٴجب یہاں سکھا شاہی زمانہ آیا اور اس حویلی کے وارث نکل گئے تو لوگوں نے اسے گرانا شروع کر دیا جس کے ہاتھ میں کوئی عمارت آگئی، گرا کر لے گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی عملداری میں وارث اس حوالی کے آمود ہوئے اور انھوں نے لاکھوں روپے کی عمارت کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا۔ٴٴ آج اس حویلی نے ایک محلے کی شکل اختیار کر لی ہے اور جہاں بیسیوں خاندان آباد ہیں۔ اندرون موچی دروازے میں نواب سعد اللہ خان کی دوسری حویلی ٴٴپتھراں والی حویلی ٴٴ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس حویلی میں کالا پتھر لگا ہوا تھا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس حویلی کو بارود کا کارخانہ قائم کر دیا۔ ایک روز کسی سبب آگ بھڑک اٹھی اور کئی ہزار من بارود نے پورے علاقے کو تباہ کر دیا۔ حویلی کی دیواریں کئی کئی کوس دور مکانوں کی چھتوں پر جا گریں۔ اس سانحے میں تقریباً دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آج اس حویلی کی عمارت کی جگہ گورنمنٹ اسکول قائم ہے۔

تاریخی اہمیت

ترمیم

اندرون موچی دروازے میں قائم مبارک حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوایلی کی بنیاد میربہادر علی، نادر علی اور بہار علی نے محمد شاہ بادشاہ کے دور میں رکھی تھی۔ جب حویلی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور وہ اس حویلی میں آکر آباد ہوئے تو اسی مای بہادر علی کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ اس تقریب نیک سے یہ حویلی مبارک حویلی کہلائی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے وقت جب شاہ شجاع الملک کابل سے بے دخل ہو کر آیا تو اسی حویلی میں قید کیا گیا اور اسی حویلی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع کو قید کر کے جواہر ٴکوہ نورٴ اس سے چھین لیا۔ یہ حویلی سکھوں کے قبضہ میں رہی اور بعد ازاں نواب علی رضا خان قزلباش کے ملکیت میں آگئی۔ کنہیا لال اس حویلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نواب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگی میں اس عمارت میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ مشرق کی جانب بڑا دروازہ نکلا اور بڑے بڑے دالان، صحن اور عمارات بنوائی۔ نواب علی رضا خان قزلباش کے انتقال کے بعد ان کے جانشین نواب نوازش علی خان نے اس حویلی کی تعمیر و مرمت پر خصوصی توجہ دی۔ اس دور سے اس حویلی میں مجالس محرم منعقد کروانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مبارک حویلی سے متصل حویلی نثار حیسن ہے۔ جہاں دس محرم کو لاہور میں تعزیہ، علم اور ذولجناح کا جلوس برآمد ہوتا ہے۔ قدیم دور سے ہی اندرون موچی دروازہ شعیان علیۿ کا مرکز ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں دو سو کے قریب امام بارگاہیں ہیں۔ ان حویلیوں کے علاوہ حویلی تجمل شاہ اور اندھی حویلی کے نام سے مشہور حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔

شہر لاہور میں قدیم ادوار میں ولی اللہ اور برگذیدہ ہستیوں کے شہر کے دروازوں کے قریب اور اندرون شہر میں قیام کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔ اس کے علاوہ تکیوں کا رواج بھی قائم تھا۔ جہاں لوگ فارغ اوقات میں وقت گزارتے تھے۔ اندرون موچی دروازے اور شاہ عالمی دروازے کے دمیان پیر ڈھل کا مزار ہے اسی نسبت سے یہ علاوہ ڈھل محلہ کہلاتا ہے۔ اندرون موچی دروازے میں تکیہ سادھواں بھی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ تکیہ محلہ پیر گیلانیاں اور کوچہ چابک سواراں کے درمیان چینیاں والی مسجد کے قریب واقع ہے۔ اب یہاں تکیہ کے کوئی نشانات نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں کمشیری سادھو برادری کا تکیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ لوگ تجارت کرتے یا لوگوں کا علاج معالجہ کیا کرتے تھے اور ان کے گھوڑے اسی تکیے میں باندھے جاتے تھے۔ نور محمد سادھو 1226ء میں یہاں ایک مسجد تعمیر کردی اور اسی مسجد میں لاہور کے ایک بزرگ پیر غفار شاہ کا مزار بنایا گیا۔ بعد میں ان کے جانشین پیر اشرف شاہ نے ان کا جسد خاکی یہاں سے میانی کے قبرستان میں منتقل کر دیا۔ محلہ ساھواں میں مزار گنج شہیداں بھی واقع ہے اس مزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر اگرچہ ایک قبر ہے مگر اس کے نیچے ہزاروں شہید دفن ہیں۔

ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز

ترمیم

موچی دروازے کے باہر چیمبرلین روڈ کے واقع تکیہ تاجے شاہ کا شمار لاہور کے قدیم ترین تکیوں میں ہوتا ہے۔ یہ کبھی بارونق تکیہ ہوا کرتا تھا۔ بٹیروں کی بازی کے علاوہ اکھاڑے میں پہلوانوں کی کشتی اس تکیے کا خاصا تھا۔ تکیہ تاجے شاہ کے قریب ہی چیمبرلین روڈ پر تکیہ مراثیاں واقع ہے۔ پرانے وقتوں میں یہاں موسیقاروں اور گلوکاروں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ بھارت اور پاکستان کے بے شمار معروف فن کار یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ یہاں استاد فتح علی خان، علی بخش خان، غلام علی خان، قادر بخش، پیارے خں جیسے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ محرم الحرام میں بھی یہاں خصوصی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ پٹیالہ گھرانے کے عاشق علی خاں نے آخری عمر میں اپنے فن کا مظاہرہ یہیں کیا اور یہیں دفن ہوئے۔

موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوش حالی کی گواہی دیتے ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم