مجاز القرآن کے اسلوب و خصائص

مقدمہ:-

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس کتاب ہے جس کی خدمت باعثِ خیر وبرکت اور ذریعۂ بخشش ونجات ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک علما ومشائخ کے علاوہ مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اصحاب بصیرت نے حصول برکت کی خاطر اس کی کسی نہ کسی صورت خدمت کی کوشش کی ہے۔اہل علم نے اگر اس کے الفاظ ومعانی ،مفاہیم ومطالب ،تفسیر وتاویل ،قراءات ولہجات اور علوم قرآن کی صورت میں کام کیا ہے تو دانشوروں نے اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ،کاتبوں نے مختلف خطوط میں اس کی کتابت کی ،ادیبوں اور شاعروں نے اس کے محامد ومحاسن کواپنے الفاظ میں بیان کر کے اس کی خدمت کی اور واعظوں اور خطیبوں نے اپنے وعظوں اور خطبات سے اس کی تعریف اس شان سے بیان کی کہ ہر مسلمان کا دل ا س کی تلاوت ومطالعہ کی جانب مائل ہواا ور امت مسلمہ ہی نہیں غیر مسلم بھی اس کی جانب راغب ہوکر اس سے منسلک ہو گئے ۔ بعض اہل علم وقلم نے اس کے موضوعات ومضامین پر قلم اٹھایا ااور بعض نے اس کی انڈیکسنگ اور اشاریہ بندی کی جانب توجہ کی ۔ تو زیر تبصرہ کتاب ''مجازالقرآن '' علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ (علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ 110ھ  کو بصرہ میں پیدا ہوئے۔آپ نے مختلف موضوعات پر تقریباً 200 کتابیں تالیف کیں۔آپ کو دیگر علوم اور ادب کے علاوہ ’’معانی القرآن‘‘ کے ساتھ خاص شغف تھا۔ چنانچہ اس ضمن میں دو کتابیں ان کی مشہور ہیں۔’’تفسیر غریب القرآن‘‘ اور کتاب’’مجاز القرآن‘‘دونوں کتابیں مصر سے شائع ہوئی ہیں، مؤخر الذکر پر اصمعی کی تعلیقات بھی ہیں اس کے علاوہ  الامثال فی غریب الحدیث ،ایام العرب ،وغیرہ بھی بہت مشہور ہیں۔[1]  آپ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں،زیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ بصرہ میں 210 ھ میں فوت ہوئے۔[2] )کی تصنیف ہے جو انھو ں نے دوسری صدی ہجری میں لکھی ہے، اس میں انھوں نے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر ایسے انداز میں کی ہے،کہ آپ سے پہلے اس انداز میں کسی اور نے اس طرح اس میدان میں کام نہیں کیاتھا۔اور بعد میں آنے والوں نے بھی آپ کی کتاب سے استفادہ کیا ہے اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ذکر کردہ لغوی معلومات کا وافر حصہ علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ کی  کتاب"مجاز القرآن" سے نقل کیا ہے۔ اسی لیے جیسے امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے لیے کہا جاتا ہے کہ فقہ میں تمام فقہا ان کا عیال ہیں اسی طرح لغوی تفسیر میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ المفسرون و اللغویون عیال علی أبی عبید معمر بن المثنى فی باب الشاھد اللغوی الشعری یعنی مفسریں اور لغوی حضرات استشہاد شعری لغوی میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنی کے عیال ہیں۔[3] علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے مفردات اور لغات قرآن پر توجہ دی تا کہ قرآن کے الفاظ مغردہ کے معانی کا فہم و ادراک حاصل کیا جاسکے۔ اس میں ابو عبیدہ نے مختلف فصول مطالب کی ترتیب کے ساتھ منظم کر کے اس پر بحث کی  ہے۔

مجاز القران کو اس منہج اور اسلوب میں لکھنے کی وجہ:

1)   مجاز القران کو اس منہج اور اسلوب میں لکھنے کی  وجہ یہ تھی چونکہ حضو ر ﷺ کے دور مبارک میں چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین برائے راست قرآن کے مسائل اور اسلوب کے بارے میں آپ ﷺ سے استفادہ کرتے تھے ،لیکن جیسے جیسے خیر القرون کے زمانے سے دوری پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے قرآن مجید کی مختلف آیات کی توضیح و تشریح کی مختلف انداز سے تفسیر کرنے کی ضرورت در پیش آئی ،تو ہر زمانے اور دور کے دور اندیش اور قرآن کی تفسیر و اسالیب کے ماہرین نے اس ضرورت کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی تو علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے بھی اپنے زمانے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی تفسیر لکھی جو اس زمانے کی ضرورت تھی اس تفسیر کا نام مجاز القرآن رکھا۔

2)   .ابراہیم بن اسماعیل کا تب،فضل بن ربیع کی محفل میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ کی موجودگی میں 188 ہجری میں آیت ” طَلعُہٰا کانّہُ رُؤسُ الشیاطین“ کا معنی غلط بیان کرتے ہیں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ بصرہ واپسی پر کتاب مجاز القرآن تحریر کرتے ہیں اور الفاظ کے استعمال اور لغات کے معانی بیان کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کو ابراہیم بن اسماعیل کاتب کی ” امثال “ کے لیے راہنمائی قرار دیتے ہیں۔[4]

ابو عبیدہ کی’’مجاز القرآن‘‘سے مراد:

  بعض لوگ ” مجاز“ کی لغت سے یہ مفہوم لیتے ہیں کہ علامہ ابو عبیدہ رحمہ اللہ کی کتاب علم بلاغت کے موضوع پر ہے حالانکہ متن کتاب اور مصنف کے انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابو عبیدہ  رحمہ اللہ نے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ کی  نظر الفاظ کی تفسیر پر تھی نہ کہ بلاغت وغیرہ کے مسائل بیان کرنے پر ، اسی وجہ سے علامہ ابن خیر اشبیلی فرماتے ہیں کہ مفرادات القرآن اور اس کے معانی بیان کرنے کے اعتبار سے پہلی کتاب وہ علامہ ابو عبیدہ کی کتاب ہے جس کو کتاب المجاز کہتے ہیں۔[5]

علامہ زبیدی نے بھی اسی کی تائید کی ہے چنا نچہ فرماتے ہیں کہ

« سألت أبا حاتم عن غريب القرآن لأبي عبيدة الذي يقال له المجاز »[6]

 نیز علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ اور دوسرے مفسرین حضرات ’’غریب القرآن ،معانی القرآن اور مجاز القرآن‘‘ کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے مفردات اور لغات قرآن کے اعتبار سے مختلف حضرات مفسرین نے مختلف ناموں سے تفاسیر لکھی ہیں، جس میں قرآن پاک کے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ذیل میں چند کو ذکر کیا جاتا ہے:-

1 ـ معاني القرآن ... لأبي جعفر الرؤاسي

2 ـ معاني القرآن ... لعلي بن حمزة الكسائي

3 ـ معاني القرآن ... ليونس بن حبيب النحوي

4 ـ معاني القرآن ... ليحيى بن زياد الفراء

5 ـ معاني القرآن ... لمحمد بن يزيد المبرد

6 ـ معاني القرآن ... لأبي فيد مؤرج السدوسي

7 ـ معاني القرآن ... لثعلب ، أحمد بن يحيى

8 ـ معاني القرآن ... للأخفش ، سعيد بن مسعدة

9 ـ معاني القرآن ... للمفضل بن سلمة الكوفي

10 ـ معاني القرآن ... لأبن كيسان

11 ـ معاني القرآن ... لابن الأنباري

12 ـ معاني القرآن ... لأبي إسحاق الزجاج

13 ـ معاني القرآن ... لخلف النحوي

14 ـ معاني القرآن ... لأبي معاذ بن خلف النحوي

15 ـ معاني القرآن ... لعلي بن عيسى الجراح

16 ـ معاني القرآن ... لأبي عيينة بن المنهال

17 ـ غريب القرآن ... لابن قتيبة ، عبد الله بن مسلم

18 ـ غريب القرآن ... لأبي فيد مؤرج السدوسي

19 ـ غريب القرآن ... لمحمد بن سلام الجمحي

20 ـ غريب القرآن ... لأبي عبد الرحمن اليزيدي

21 ـ غريب القرآن ... لأبي زيد البلخي

22 ـ غريب القرآن ... لأبي جعفر بن رستم الطبري

23 ـ غريب القرآن ... لأبي عبيد ، القاسم بن سلام

24 ـ غريب القرآن ... لمحمد بن عزيز السجستاني

25 ـ غريب القرآن ... لأبي الحسن العروضي

26 ـ غريب القرآن ... لمحمد بن دينار الأحول[7]،[8]

علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کا نام ’’مجاز القرآن ‘‘رکھا۔ یہ نام رکھنے میں آپ تمام مفسرین پر سبقت لے گے،اس نام سے ایسی تفسیر آپ سے پہلے کسی نے نہیں لکھی تھی۔ اور اس سے مراد قرآن مجید کے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنا ہے۔ چنانچہ علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے آیات کی تفسیر  بیان کرتے ہوئے اس طرح کے مختلف کلمات استعمال کیے ہیں۔ جیسے مجاز ہ کذا ،تفسیرہ کذا،معناہ کذا،غریبہ کذا ،تقدیرہ کذا،  تأویلہ کذا  وغیرہ اور ان سب کا ایک ہی معنی مراد لیا ہے۔چنانچہ مجاز القرآن کے مقدمہ کا متن عیناًنقل کیا جاتا ہے تاکہ کتاب کے اندازِ تحریر،منہج اور اسلوب سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل ہو جائے ۔

متن مجاز القرآن:-

” القرآن اسم کتاب اللہ خاصتہ، ولایسمی، بہ شے من سائر الکتاب غیر ہ وانمّا سِعیّ قرآناً لا نہ یجمع السور فیضمھا، و تفسیر ذلک فی آیة من القران قاِلَ اللہُ جل ثناؤہ ! اِنَّ عَلَیناَ جمہ وَ قرآنہ مجازہ ! تالیف بعضہ الی بعض،ثم قال فَإذٰ اقَر اُناٰہُ فاَتَّبِع قُرآنَہ مجازہ فاذ الفنامنہ شیئاً، فضمناہ الیک فخزبہ،        واعل بہ و ضمہ الیک وفی آیة اخریٰ فاذاقرآت القرآن            مجازہ       ! اذاتلوت بعضہ فی اثر بعضِ ، حتّیٰ یحتمع و ینضم بعضہ الی بعض، ومضاہ یصیوالی معنی التالیف والجمع ۔[9]

ترجمہ: -

قرآن، کتاب اللہ کا خاص نام ہے اور وہ کسی دوسری کتاب پر اطلاق نہیں ہوتا ہے اور اس کتابِ الہی کا قرآن کے نام کے ساتھ موسوم ہونا اس وجہ سے ہے کہ قرآن سورتوں کو باہم جمع کرتا ہے اور انھیں ایک دوسرے میں ضّم کرتا ہے اس مطلب کی تفسیر اور وضاحت ایک آیت میں بیان کی گئی ہے سورہ قیامت کی آیت نمبر 17میں خداوند تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ” قرآن کا جمع کرنا اور منضم کرنا ہمارا وظیفہ ہے “

پھر ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتے ہیں:

” پس جب ہم نے ان کو باہم جوڑا اور ایک دوسرے سے مربوط کر دیا تو اس وقت اسے لے لو اور اس پر عمل کرو اور اُسے اپنے اختیار میں لے لو‘‘ ۔

اسی طرح سورہ نحل کی آیت 98 میں ارشاد رب العزّت ہے :

” جب قرآن کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے پیچھے پڑھو اس طرح کہ ایک حصّے کو دوسرے حصے کے ساتھ منّظم کرو“

بنابریں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی ایک لغت کا معنی قرآن کی دیگر لغات سے بیان کرتے ہیں اور اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے آیات یا احادیث یا کلام عرب کو استشہاد  کے طور پر پیش کرتے ہیں،وہ استشہاد بیان کرتے وقت اور استشہادکے لیے پیش کیے گئے معنی کے اظہار کے وقت کہتے  ہیں کہ  ”مجازہ کذا“جبکہ لفظ مجاز کے علاوہ ’’ای‘‘یعنی مفہوم یہ ہے اور ’’معناہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ پس کلمہ مجاز ،مصطلح مجاز کے معنی کے طور پر نہیں ہے  جو حقیقت کے مقابل میں ہے ، بلکہ اس لفظ کے استعمال سے اس کی مراد متعلقہ معانی ، مفاہیم اورلغت کے معنی کا بیان کرنا ہے۔یہاں کتاب سے اس کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔

مثال 1:-  

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ أمّ الكتاب (1)مجاز تفسير ما فى سورة «الحمد» وهى «أم الكتاب» لأنه يبدأ بكتابتها فى المصاحف قبل سائر القرآن۔[10]

مثال 2:-

«الرّحمن» مجازه ذو الرحمة، و «الرّحيم» مجازه الراحم،[11]

مثال 3:-

«غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» (7) مجازها: غير المغضوب عليهم والضالين،[12]

علاوہ ازیں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے کوشش کی ہے کہ شعرا عرب کے اشعار کا حوالہ اورمستعمل لغات سے استشہاد کر کے قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کیے ہیں۔

    اسی طرح ’’مجازالقران ‘‘لکھنے کی وجہ پر غور و فکر کرنے پر بھی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک بلاغت کی کتاب نہیں ہے اور اسے ایسا سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔

’’مجاز القرآن‘‘ کے مناہج و اسالیب:

علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے مختلف فصول مطالب کی ترتیب کے ساتھ منظم کر کے اس پر بحث کی  ہے۔ اس تحقیقی منہج  اور اسلوب کو دیکھا جائے تو اس میں پانچ فصول اور اس کے ماتحت مختلف ابواب کے اعتبار سے بحث کی ہے ۔ چنانچہ کتاب ’’مجاز القرآن‘‘کے آغاز میں قرآن مجید ،سورت اور آیت کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اس کے بعد اختصار کے ساتھ قرآن مجید کے بلاغی پہلوؤں کا تذکرہ کر کے بسم اللہ سے قرآن مجید کے الفاظ کے معانی بیان کرنے کا آغاز کیا ہے جس کا اختتام سورۃ الناس کے بیان پر ہوتا ہے۔[13]

وہ پانچ فصول اور ذیلی ابواب یہ ہیں:-

پہلی فصل :-مجاز القرآن تحقیقی منہج و اسلوب کے آئینے میں

1۔قرآن کا معنی ابتدائی دور میں

2۔ قرآن کا معنی عام لوگوں تک پہنچنے کے اعتبار سے

3۔ قرآن کا لغوی معنی اپنے اصل کے حساب سے

4، قرآن کا لغوی معنی محدثین کے ہاں

دوسری فصل:- لغوی اور وضعی معنی کے حوالے سے

1۔ مجاز کی حقیقت لغوی اور اصطلاح کے اعتبار سے

2۔ قرآن میں  مجازی معنی کا واقع ہونا

3۔مجاز قرآنی کی تقسیم

4۔مجاز قرآنی عقلی اور لغوی اعتبا ر سے

تیسری فصل:-  مجازقرآنی اور اس کی فنی خصوصیات کے بارے میں

1۔ مجاز القرآن کی فنی خصوصیات

2۔ مجاز القرآن میں اسلوبی خصوصیات

3۔مجاز القرآن میں واقعی خصوصیات

4۔مجاز القرآن میں  عقلی خصوصیات

چوتھی فصل :-قرآن میں مجاز عقلی کے بیان میں

1۔قرآن مجید اور عرب کے ہاں مجاز عقلی کی پہچان

2۔ قرآن مجید میں مجاز عقلی ثبوت اور سند کے اعتبار سے

3۔قرآن میں مجاز عقلی کا قرینہ

4۔قرآن میں مجاز عقلی کادائرہ کار

پانچویں فصل:- قرآن میں مجاز لغوی  کے بیان میں

1۔مجاز لغوی استعارہ اور مجاز مرسل کے درمیان

2۔قرآن مجید میں مجاز مرسل کا استعمال

3۔قرآن مجید میں  مجاز مرسل کے استعمال کا دائرہ کار[14]

مذکورہ فصول میں جواسالیب بیان کیے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مفرادات القرآن کی معرفت ان بنیادی چیزوں میں سے ہے جو قرآن کی تفسیر اور کلام الہی کے فہم میں انتہائی معاون و مددگار ہے۔قرآنی کلمات کے مطالب کے ادراک،اس کے احکام کے استنباط ،قرآنی آیات میں تدبر اور قرآنی قصص میں پائی جانے والی حکمت و مصلحت کی معرفت کے لیے مفردات القرآن کی معرفت ناگزیر ہے گویا مفرادات القرآن کو جاننا اور معرفت رکھنا کلام الہی کو جاننے کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ  تفسیر کے دیگر علوم کے علاوہ علم لغت کے بہت بڑے ماہر تھے اسی وجہ سے بعد میں آنے والوں نے آپ کی کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ سے ہی استفادہ کیا ہے۔مذکورہ فصول میں جو اسالیب بیان کیے ہیں ان کو بنظر غائر دیکھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ  حتی الامکان آیت کا معنی اور تفسیر بیان کرتے ہوئے کوئی آیت یا محدیثین کا قول لانے کی کوشش کرتے  ہیں۔مثلاً

1.    سورہ فاتحہ کی آیت غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهم وَلاَ الضَّالِّين۔[15] کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں لا حروف زائدہ ہے جو کلام کو تام کرنے کے لیے لایا گیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:-( مجازها: غير المغضوب عليهم والضالين، لا من حروف الزوائد لتتميم الكلام، والمعنى إلقاؤها ) چنانچہ اس کی تفسیر میں ایک دوسری آیت پیش کرتے ہیں۔[16]

   وفي القرآن آية أخرى:ما مَنَعَك أَلاّ تَسْجُدَ ( مجازها: ما منعك أن تسجد.)[17]

2.    اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیت يُخَادِعُون الله [18]الخ کی تفسیر يَخدعون سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- في معنى يَخدعون، ومعناها: يُظهرون غيرما في أنفسهم اس پر دوسری آیت پیش کرتے ہیں:-وفي القرآن آية أخرى:قَاتَلهم اللهُ، معناها: قتلهم الله[19]

یا پھر علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ  مفرادات القرآن کی لغوی تفسیر بیان کرتے ہوئے کلام عرب کو استشہاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔چونکہ لغت قرآن کا ماخذ جاہلی عربی شاعری ہے اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت کی عربی شاعری کو دیوان یعنی انسائیکلو پیڈیا اور قیمتی اثاثہ قرار دیا جاتا ہے۔جس میں قرآن حکیم کے الفاظ اور ان کے معنی و مفہوم کی وضاحت موجود ہے۔جاہلی عربی شاعری سے نہ صرف قرآن حکیم کے نادر، غریب اور مشکل الفاظ کی تحقیق میں مدد ملتی ہے۔بلکہ اس کے ذریعے قرآن حکیم کی ادبی،معنوی اور نحوی مشکلات کی بھی توضیح ہو جاتی ہے۔اور قرآن حکیم کے استعارات ،کنایات اور ارشادات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے ادبی محاسن اجاگر ہوتے ہیں،مختلف اسالیب کلام کا علم ہوتا ہے۔ اور جس تاریخی پس منظر میں قرآن حکیم کا نزول ہوا اس کی توضیح ہوتی ہے۔ عربی جاہلی شاعری سے اہل عرب کی مذہبی رسومات ومعتقدات،سیاسی ،معاشرتی اور تمدنی زندگی کے احوال اور اخلاقی حالت اور کیفیت کا نقشہ کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی  مد نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید کی جن آیات کا مصداق و مفہوم واضح اور آسان ہو اور ان کے مفہوم میں کسی قسم کا ابہام اجمال اور اشتباہ نہ ہواور نہ ان کی فہم کے لیے دیگر متعلقہ علوم کی ضرورت ہو تو ایسی آیات کے مطالب کا ماخذ لغت عرب ہوگی۔ جن آیات قرآنی میں کسی قسم کا ابہام اجمال اور اشتباہ ہو یا ان کے فہم میں مشکلات ہوں اور ان کی توضیح کے لیے تاریخی پس منظرکا علم ضروری ہو یا ایسی آیات جن سے احکام و مسائل اور اسرار و معارف کا استنباط مقصود ہو تو ایسے مواقع پر لغت عرب کی حیثیت ثانوی ہو گی۔ قرآن حکیم، احادیث نبوی صلى الله عليه وسلم اور آثار صحا بہ وتابعین کو اولین ترجیح حاصل ہوگی کیونکہ شاذونادر قسم کے معانی پر قرآنی الفاظ کو محمول کرنا اور دور دراز کے معانی مراد لینا صحیح طرز تفسیرنہیں ہے۔یہی بات زرکشی لکھتے ہیں کہ اُن کا مقصد تفسیر میں لغت کو بالکلیہ نظر انداز کرنا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ کسی آیت کے ظاہر اور متبادر معنی کو چھوڑ کر ایسے معانی بیان کرناممنوع ہے جو قلیل الاستعمال اور دور ازکار لغوی تحقیقات پرمبنی ہوں۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم عرب کے عام محاورات کے مطابق نازل ہوا ہے۔ لہذا جس جگہ قرآن وسنت یا آثار صحا بہ میں کسی لفظ کی تفسیر موجود نہ ہو وہاں آیت کی وہ تفسیر کی جائے گی جواہل عرب کے عمومی محاورات میں متبادر طور پر سمجھی جاتی ہو ایسے مواقع پر اشعا ر عرب سے استدلال کرکے کوئى ایسے قلیل الاستعمال معنی بیان کرنا بالکل غلط ہے جو لغت کی کتابوں میں تو لکھے ہوئے ہیں لیکن عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے۔کیونکہ بسا اوقات لغت میں کوئى لفظ ایک معنی کے لیے وضع ہوتا ہے اور کبھی مختلف معانی کے لیے۔ کسی جگہ لفظ کا حقیقی معنی مراد ہوتا ہے کسی جگہ مجازی۔ کہیں اس کا لغوی مفہوم مرادلیاجاتا ہے اور کہیں اصطلاحی۔ نزو ل قرآن کے وقت متعدد الفاظ ایسے بھی تھے جن کے معانی تبدیل ہو چکے تھے ۔ زمانہء جاہلیت میں بعض الفاظ کے معانی عام تھے جبکہ اسلام کی آمد کے بعد وہ الفاظ کسی ایک مفہوم کے لیے خاص ہو گئے مثلاً صلوۃ،زکوۃ، حج، بیع اورمزارعہ وغیرہ۔ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو اسلام سے قبل زمانہء جاہلیت میں مستعمل نہیں تھے اور عرب بھی ان سے آشنا نہ تھے مثلاً منافق اور فاسق وغیرہ۔

استشہاد کے کثیر مجالات ہیں۔ مثلاً

1)    استشہاد فی مجال اللغۃ

2)    استشہاد فی مجال البلاغۃ

3)    استشہاد فی مجال القراء ات

4)    استشہاد فی مجال النحو

5)    استشہاد فی مجال الغریب

6)    استشہاد فی مجال الأدب

7)    استشہاد فی مجال الدین

8)    استشہاد فی مجال التاریخ والقصص

ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ   کی یہ تفسیر چونکہ ایک لغوی تفسیر ہے اس لیے ان کثیر مجالات میں سے مجال اللغۃ اور مجال البلاغہ میں ہی اکثر استشہاد پیش کرتے ہیں چنانچہ ذیل میں ان  استشہاد کے مجالات کو چند مثالوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تا کہ اسلوب واضح ہو جائے۔

استشہاد فی مجال اللغۃ:-

ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ   آیات کا لغوی معنی بیان کرتے ہیں پھر ان مفردا ت قرآنیہ کی تفسیر وتوضیح  کرتے ہوئے عربی شاعری سے استشہاد کرتے ہیں .

1.  ’’اھدنا الصراط  المستقیم‘‘[20]

’’بتلادیجیے ہم کو راستہ سیدھا‘‘

الصراط :سیدھے اور آسان راستے کو ’’ صراط ‘‘ کہتے ہیں یعنی وہ سیدھا اورآسان راستہ جس میں کجی اور ٹیڑھ نہ ہو . ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ ’’ صراط ‘‘ کا معنی راستہ اور واضح منہاج کے ہے۔راجز کا درج ذیل قول بھی اسی معنی میں ہے۔ابو عبیدہ اس قول سے استدلال کرتے ہیں۔  ’’فصد عن نھج الصراط القاصد‘‘ [21]یعنی وہ سیدھے راستے پر چلنے سے روک دیا گیا۔اس معنی میں جریر[22]کے درج ذیل شعر سے ابو عبیدہ استشہاد کرتے ہیں۔

’’امیر المؤمنین علی صِراطٍ اذا اعواج الموارد مستقیم وافر‘‘[23]

’’امیر المومنین سیدھے راستے پر ہے اگرچہ موارد میں کجی ہو‘‘

یعنی موارد بمعنی طُرق ہے اوراس کاواحد موردۃ ہے۔ابو عبیدہ أبی ذؤیب ھذلی کے درج ذیل شعر سے استدلال کرتے ہیں۔

’’وطئناأعضھم بالخیل حتی ترکنا ہم اذل من الصراط‘‘

’’یعنی ہم صبح صبح گھوڑوں پر ان کی سرزمین پر پہنچے یہاں تک کہ ہم نے انھیں زمین سے بھی پست ترکردیا‘‘

اس قرآنی آیت میں تیں مختلف شعرا کے اشعار سے استدلال کیاگیاہے۔ ابو عبیدہ نے ابوذؤیب ہذلی اورجریر کے ایک ایک شعرسے اورراجز کے ایک قول سے لفظ الصراط کی توضیح کی ہے۔[24]

2.  ’’وکلامنھا رغدا حیث شئتما    ‘‘[25]

’’پھر کھاؤ دونوں اس میں سے با فراغت جس جگہ سے چاہو‘‘

رغدا : اس کا معنی ہے با فراغت، خوب، اچھی طرح، جی بھر کے۔ یہ مصدر ہے بمعنی بہت نعمت ہونے کے۔ رغبت سے۔ابو عبیدہ" رغدا ‘‘ کے معنی کی تحدید کے لیے اعشی کے درج ذیل شعر سے استدلال کرتے ہیں۔

       زیداْ بمصرٍ یوم یسقی أھلھا                             رغدًاتفجرہ النبیط خلالھا[26]

اس شعر میںرغدا بمعنی بافراغت کے ہیں یعنیواسعا کے معنی میں ہے۔ '[27]'

3.     ’’     لِکل جعلنا منکم شرعۃً وَّ ِمنھَا جاً    ‘‘[28]

"تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت او رخاص طریقت تجویز کی تھی"

منھاج :کھلا راستہ ، واضح اور روشن راستہ۔ ابو عبیدہ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد سبیلاً واضحاًبیّناً  یعنی واضح اور کھلا راستہ،[29] ابو عبیدہ راجزکے درج ذیل شعر سے استشہاد کرتے ہیں۔

                           من یک فی شکٍّ فھذا فلج           ماءًرواءًطریق نھج[30]

راجزکے اس شعر میں نھج سے مراد واضح سبیل اور طریق ہے اور یہی مفہوم قرآنی آیت کا بھی ہے۔ ’’منھاج‘‘کی توضیح کے لیے لغوی استشہاد سے واضح ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ابو عبیدہ نے اس کی تعبیر وتوضیح کے لیے عربی شاعری سے استدلال واستشہاد کیا ہے اس لیے بجاطور پر یہ کہا جا سکتا ہے ۔ ابو عبیدہ کی تتبع میں طبری اور ثعلبی نے بھی اُسی شعر سے استدلال واستشہاد کیاہے لیکن ابو عبیدہ کو لغوی استشہاد کے حوالہ سے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔[31]

4.     ’’            فسینغضون الیک رؤسھم ‘‘[32]

’’اس پر آپ کے آگے سر ہلاہلاکرکہیں گے‘‘

ینغضون: تعجب یا استہزا کے طور پر حرکت کرنا۔نغض اور نغوضمصدر ہیں جس کے معنی اوپر نیچے یا نیچے اوپر حرکت دیناہے۔ابو عبیدہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ ’ مجازہ: فسیرفعون ویحرکون استہزاءً منہم ویقال: قد نغضت سِن فلا ن إذا تحرک وارتفعت من أصلہا‘‘[33]الغرض ابو عبیدہ کے ہاں لغوی مفہوم تعجب یا استہزاء کے طور پر اوپر نیچے یا نیچے اوپر حرکت کرنا ہے۔ اس آیت کی تفسیروتوضیح میں ابو عبیدہ نے تین اشعار سے استدلال کیا ہے ان تین میں دواشعار راجز اور ایک ذوالرمۃ کا پیش کرتے ہیں:

                                                 ونغضت من ھرم اسنانھا(راجز)[34]

                                               لمارأتنی أنغضت لیّ الرأسا(راجز)[35]

قال ذوالرمۃ : ظغائن لم یسکن أکناف قریۃٍ                                  بسیف ٍ و لم تنغض بھن القناطر[36]-[37]

استشہاد فی مجال البلاغۃ:-

      جیسا کہ ہم نے شروع میں وجہ تصنیف میں بیان کیا کہ ابراہیم بن اسماعیل کاتب، فضل بن ربیع کی محفل میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ کی موجودگی میں 188 ہجری میں  آیت ” طَلعُہٰا کَاَنَّہُ رؤسُ الشِیاطینِ “ کا معنی غلط بیان کرتے ہیں جس بنا پر علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ بصرہ واپسی پر کتاب مجاز القرآن تحریر کرتے ہیں۔تو یہ معنی جو ابراہیم بن اسماعیل نے بیان کیا تھا اس کا تعلق بھی بلاغت سے ہی تھا جو متعلق بالتشبہ تھا۔تو ابو عبیدہ بعض اوقات آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بلاغت سے متعلق مسئلے کی بھی وضاحت کر دیتے ہیں اور اس پر پھر استشہاد پیش کرتے ہیں۔مثلاً

 قولہ تعالى: والنهار مبصراً           ]يونس [، [38]

سورہ یونس کی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے دو مجاز ہیں ایک یہ اہل عرب اپنے کلام میں بعض اشیاء کو فاعلی حالت میں بیان کرتے ہیں اور مراد اس سے مفعول لیتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:-

            أحدهما: إن العرب وضعوا أشياء من كلامهم في موضع الفاعل، والمعنی أنہ مفعول،

لأنہ ظرف يفعل فيہ غیر ه لأنہ لا يبصر ولكنہ يبصر فيہ الذي ينظر

اس پر سورۃ الحاقہ کی آیت لاتے ہیں۔

وفي القرآن: في عيشةراضية)]الحاقة [ [39]

اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:-

وإنما يرضى بها الذي يعيش فيها

اس معنی میں جریرکے درج ذیل شعر سے ابو عبیدہ استشہاد کرتے ہیں۔

قال جرير:        لقد لمتنا يا أم غيلان في السرى                   ونمت وما ليل المطي بنائم [40]

جس میں لیل کیلے نائم کا لفظ لایا ہے اور مراد مفعولی معنی  ہے۔

اس پرقول پیش کرتے ہیں۔ قال رؤبة:فنام ليلي وتٕجلى همي"[41]--[42]

یہ بطور نمونہ چند مثالیں تھیں جن میں مفرادات قرآنیہ کی تشریحات کے لیے شعرائے عرب کے کلام سے شواہد پیش کیے گئے ہیں ۔

اس کے علاوہ مختلف فنون مثلاً قرأت ،صرف ونحو،ضمائرکے مرجع کی تصریح،میراث ، ادب،غرائب اور تاریخ و قصص وغیرہ میں بھی علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے جو مناسب وضاحت معلوم ہوئی، وہ بیان کر دیتے ہیں یا پھر کلام عرب سے یا جاہلی عربی شاعری سے استشہاد پیش کرتے ہیں۔ مثلاً

1.مختلف قراأت کی وضاحت’’فقرأ بعضهم‘‘  اور’’ وقرأها آخرون‘‘ سے بیان کر دیتے ہیں۔مثالیں:-

·       قوله: (إنْ جَاءَكُم فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْماً بِجَهَالَةٍ)[43] ، وقرأها آخرون: (فَتَثَّبتُوا) وقرأ بعضهم [44]

·       قوله: (أَإذَا صَلَلْنَا فِي اْلأَرْضِ)[45] ، وقرأها آخرون (أإذَا ضَلَلْنَا في الأرض)، صللنا: أنتنا من صلَّ اللحمُ يصل؛[46]

·       وقرأ بعضهم: (وادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّة)[47] ، وقرأها آخرون: (بَعْدَ أَمْهٍ) أي نسيان.[48]

·      وقرأ بعضهم (في لَوْحٍ مَحْفُوظٌ)[49] وقرأ آخرون (في لُوْحٍ محفوظٍ) أي الهواء.[50]

2.اسی طرح مختلف جگہ صرفی و نحوی وضاحت بیان کر دیتے ہیں۔مثالیں:-

·      وتَركَهُم فِي ظُلُماتٍ لا يُبْصِرُون(البقرہ )[51] ( ثم انقطع النصب، وجاء الاستئناف: )[52]

·       فَسَجَدُوا إلاَّ ابْلِيسَ(البقرہ)[53]( نصب ابليس على استثناء قليل من كثير، ولم يُصْرف إبليس لأنه أعجمي.[54]

·       فِي ذَلِكُمْ بَلاٌ مِنْ رَبكُمْ عَظِيم(البقرہ)[55]( أي ما ابتليتم من شدة، وفي موضع آخر: البلاء الابتلا، يقال: الثناء بعد البلاء، أي الاختبار، من بلوتُه، ويقال: له عندي بلاء عظيم أي نِعمة ويد، وهذا مِن: ابتليته خيراً. .[56]

·        ولا تَعْثَوْا(البقرہ)[57](: أي لا تُفسدوا، من عثِيتَ تَعثَى عُثُوّاً، وعَثَا يَعثوا عُثُواً وهو أشدّ الفساد.[58]

3.اسی طرح مختلف جگہ ضمائر کا مرجع بیان کرتے ہوئے وضاحت بیان کر دیتے ہیں۔مثال:-

وَعَلَّم آدَمَ الأسْماءَ كُلَّها ( أسماء الخَلقِ، )ثُمَّ عَرَضَهم عَلىَ المَلاَئِكَةِ(البقرہ)[59] ( أي عرض الخلق.[60]

4.اسی طرح میراث کا کوئی مسئلہ ہو تو اس کی وضاحت بیان کر دیتے ہیں۔مثال:-

كَلاَلَةً(النساء) : كل من لم يرثه أب أو ابن أو أخ فهو عند العرب كلالة.

)يُورَثُ كلالةً(: مصدرٌ مِنَ تَكلَّلَهُ النسبُ، أي تعطّف النسب عليه، ومن قال: )يُورثُ كلالة( فهم الرجال الورثة، أي يعطف النسب عليه.[61]

5.اسی طرح مختلف جگہ جہاں واحد بول کر مراد جمع ہو یا جمع بول کر واحد مراد ہویا اسی طرح تثنیہ مراد ہو  اس کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں۔مثالیں:-

·      وَالمَلاَئكَةُ بَعدَ ذِلكَ ظَهِيرٌ(التحريم )[62]

في موضع: ظُهَراءُ.[63]

·      الذينَ قَالَ لَهُم النَّاسُ إن النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَكمُ(آل عمران )[64]

والناس جميع، وكان الذي قال رجلا واحداً. [65]

·      إنّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاءُ بقَدَر(القمر )[66]

والخالق الله وحده لا شريك له.[67]

·      فَإن كَانَ لَهُ إخْوَةٌ( نساء)[68]

فالإخوة جميع ووقع معناه على أخوين۔[69]

·      إنَّما المُؤْمِنُونَ إخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بينَ أَخَوَيْكمُ( حجرات)[70]

·      وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا(المائدہ)[71]

في موضع يديهما.[72]

’’مجاز القرآن‘‘ بنیادی طور پر لغوی تفسیر ہے:-

تمام فنونِ علم میں سب سے بہترین واشرف علم علمِ تفسیر ہے۔ جو کلام اللہ کے معانی کی وضاحت کرتا ہے۔ اہل علم نے اس کے لیے بھی اصول وضع فرمائے ہیں جیسا کہ انھوں نے اصولِ حدیث یا اصول فقہ وغیرہ کے لیے اصول وضع فرمائے ہیں۔چنانچہ انہی اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے مفسرین نے مختلف انداز اور اعتبارات سے تفاسیر لکھی ہیں۔کسی نے فقہی مسائل کو مدنظر رکھا، کسی نے غریب الفاظ کی توضیح وتشریح کو مدنظر رکھا،کسی نے لغوی الفاظ کی کو مدنظر رکھا وغیرہ توزیر بحث کتاب’’مجاز القرآن‘‘بھی بنیاری طور پر ایک لغوی تفسیر ہے چونکہ علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ لغوی ہیں اس لیے انھوں نے مجاز القرآن میں بہت زیادہ لغوی شواہد پیش کیے ہیں اسی وجہ سے لغوی شواہد کے اعتبار سے مجاز القرآن نمائندہ تفسیر ہے بلکہ علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے لغوی تفسیر کو نیا رنگ دیا ہے۔اور بعد میں آنے والوں نے جیسے طبری اور ثعلبی وغیرہ مفسرین حضرات نے اکثر و بیشتر وہی شواہد شعریہ پیش کیے ہیں جو علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے مجاز القرآن میں لائے ہیں۔مثلاً

«من یفعل ذٰلک يَلْقَ أَثاماً» [73]

’’اورجو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا‘‘

اثام:اثم کی جمع ہے بمعنی گناہ۔مجازاً عذاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ابو عبیدہ مجاز القرآن میں اس کے معنی لکھتے ہیں:ای عقوبۃ اوراس پر استشہاد پیش کرتے ہیں۔وقال بلعاء بن قيس الكناني:'[74]'

جزى الله ابن عروة حيث أمسى ... عقوقا والعقوق له أثام[75]

أي عقابا[76]

طبری اور ثعلبی نے بھی  اثام کا یہی معنی بیان کیا ہے اور ابو عبیدہ کی تتبع میں بلعاء بن قیس الکنانی کے اسی شعر کو استشہاد کے طور پر پیش کیا ہے۔

استشہاد بالشعر اور مفاہیم قرآنیہ:-

استشہاد بالشعر کے ذریعے مفاہیم قرآنیہ کے تعین میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ سیاق کلام ،نظائر ،حدیث نبوی ﷺ ،صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور تابعین کے اقوال و تشریحات کو پیش نظر رکھتے ہیں،جو بہت ضروری ہے۔صرف کلام عرب اور شخصی فہم کے نتیجے میں مفاہیم قرآنیہ کا تعین درست نہیں ہے۔کیونکہ قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معانی بھی تواتر و تسلسل کے ساتھ محفوظ ہیں۔

کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ کی جامعیت و اعجاز:-

کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ اپنے موضوع پر جامع ترین کتاب ہے۔قرآن مجید کے مفردات کی لغوی وضاحت اورتفسیر کے ساتھ ساتھ بقدر ضرورت صرفی ونحوی ،بلاغی مباحث کے علاوہ قرأت ،ادب،تاریخ و قصص،اسباب نزول،ناسخ ومنسوخ وغیرہ کی بھی وضاحت بیان کی ہے۔کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مذکورہ تمام انواع کو بیان کرنے کے باوجود کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ میں علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ نے انتہائی مہارت کے ساتھ ان تمام انواع کی مباحث کے بیان میں اعجاز کی خوبی کو برقرار رکھا۔

کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ کی حسن ترتیب:-

علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ اپنی دیگر کتب کی طرح کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ میں بھی حسن ترتیب کی خاصیت کو ملحوظ رکھتے ہیں چنانچہ کتاب ’’مجاز القرآن‘‘کے آغاز میں قرآن مجید ،سورت اور آیت کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اس کے بعد اختصار کے ساتھ قرآن مجید کے بلاغی پہلوؤں کا تذکرہ کر کے بسم اللہ سے قرآن مجید کے الفاظ کے معانی بیان کرنے کا آغاز کیا ہے جس کا اختتام سورۃ الناس کے بیان سے ہوتا ہے نیز شروع میں تسمیہ کے بعد سورتوں کے نام کو اور ان کے تحت آنے والی آیات  میں مخصوص مفرادات القرآن کا انتخاب کر کے ان کی لغوی تفسیر اور وضاحت کو ترتیب سے بیان کیا ہے۔مثلا  سورہ بقرہ کی تفسیر بیان کرتے ہیں  تو اس کے تحت مخصوص ومنتخب مفردات و آیات کے معانی اور ان کی تفسیر کوحسن ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔

بِسمِ اللهِ الرَّحَمنِ الرَّحِيمِ     ۔

سورة البقرة (آلم )1( سُكّنت الألف واللام والميم، لأنه هجاء، ولا يدخل في حروف الهجاء إعراب، قال أبو النَّجْم العِجليّ:أقبلتُ من عند زِياد كالِخِرفْ                أَجُرُّ رِجليَّ بخٍطّ مخٌتِلفْ

كأنمّا تُكَتِّبان لام ألفْ فجزمه لأنه هجاء، ومعنى )آلم(: افتتاح، مُبتدأ كلامٍ، شِعار للسورة.(ذَلِك الكِتابُ )2( معناه: هذا القرآن؛ وقد تخاطِب العرب الشاهدَ فتُظهر له مخاطبةَ الغائب.

قال خُفاف بن نَدْبة السُلَمىّ، وهي أُمه، كانت سوداء، حبشية. وكان من غِربان العرب في الجاهلية:

فإن تك خَيلي قد أُصيب صَميمها                                       فَعمداً على عين تيممّتُ مالِكا

أقول له والرُّمح يأطرُ مَتْنَه                                                                           تأمَّلْ خُفافاً إنّني أنا ذلكا

يعني مالك بن حَمَّاد الشَمْخِيّ، وَصميمُ خيلهِ: معاويةُ أخو خَنْساء، قتله دُريَد وهاشم ابنا حَرمْله المُرِيَّان.

(لا رَيْبَ فيهِ )2( لا شكّ فيه، وأنشدني أبو عمرو الهذليّ لساعِدة بن جُؤيَّة الهذليّ:

فقالوا تركْنا الحَيَّ قد حَصروا به                                              فلا رَيْب أن قد كان ثَمَّ لَحيِم

أي قتيل، يقال: فلان قد لُحمِ، أي قُتل، وحصروا به: أي أطافوا به، لا رَيْبَ: لا شكَّ.(هُدىً لِلُمَّتقِين ) أي بياناً للمتقين۔[77]

بلاغی پہلوؤں کی نشان دہی:-

علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہ بہت سی جگہ اختصار کے ساتھ قرآن مجید کے مختلف بلاغی پہلوؤں کی نشان دہی کرتے دیتے ہیں۔مثلاً

1.  الكناية:  بہت سی جگہ نشان دہی کر دیتے ہیں کہ یہ کنایہ ہے۔مثلاً

·       مثل قوله في الآية: (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ۔[78] كناية وتشبيه،

·       في قوله: (أَوْ عَلَىْ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الغَائِط[79]

كناية عن إظهار لفظ قضاء الحاجة من البطن،

·       كذلك قوله تبارك وتعالى: (أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّساءَ[80]

كناية عن الغشيان، وكذلك -سوءاتهما- كناية عن فروجهما،

2.    التشبيه: اسی طرح تشبیہ کی بھی نشان دہی کر دیتے ہیں۔مثلاً

فی قوله تعالی الآية: (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ۔[81] كناية وتشبيه،

3.   التقديم والتأخير: اسی طرح تقدیم وتاخیر کی بھی نشان دہی کر دیتے ہیں۔مثلاً

·        قوله تعالى: (فَإِذا أَنْزَلْنَا عَلَيْها المَاءَ اهتزَّتْ وَرَبتْ[82]

ای أراد ربت واهتزت،

·        و قوله تعالى: ( لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا[83]،ای لم يرها ولم يكد.‏

4.   التمثيل: اسی طرح بعض اوقات تشبیہ تمثیل کی بھی صراحت کر دیتے ہیں۔مثلاً

قال في تفسير قوله تعالى:‏

على شَفَا جُرُفٍ هَارٍ،مجاز هائر. ومجاز الآية: (أَفَمَنْ أَسِّسَ عَلَى تَقْوى من اللهِ وَرِضْوانٍ خَيرٌ مَنْ أُسَّسَ بُنْيَانَهُ على شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ[التوبة][84].

مجاز تمثيل لأن ما بناه على التقوى أثبت أساساً من البناء الذي بنوه على الكفر والنفاق، وهو على شفا جرف وهو ما يجرف من سيول الأودية، فلا يثبت البناء عليه[85]

5.   الاستعارة: اسی طرح بعض اوقات استعارہ کی بھی صراحت کر دیتے ہیں۔جبکہ مجاز بول کر استعارہ مراد لیتے ہیں۔مثلاً

مثل قوله في تفسير قوله تعالى:‏

وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ [الأنفال][86] مجازه يفرغ عليهم الصبر وينزله عليهم فيثبتون لعدوهم.

وجہ شبہۃ کی وجہ سے تعبیر معانی میں انتقال:-

ترمیم

اسی طرح علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہکتاب ’’مجاز القرآن‘‘ میں بہت سی جگہ کسی لفظ کے معنی بیان کرتے ہوئے وجہ شبہۃ کی وجہ سے تعبیر معنی کو ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔یعنی ایک مشہور و معروف وجہ شبہہ کو چھوڑ کر ایک غیر معروف اور غیر ما لوف وجہ شبہہ مراد لیتے ہیں۔ مثلاً

كما في قوله تعالى: (إنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ في أَصْلِ الجَحِيمِ، طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُؤُوسُ الشَّيَاطِين) [الصافات][87]. وعلى أساس أن هذا الانتقال من تعبير قريب إلى تعبير بعيد غير معهود لغير العربي الأصيل. يرى أبو عبيدة أن في أسلوب القرآن مجازاً، وانتقالاً على طريقة العرب في الانتقال، أو الرخصة في التعبير.‏

مدلول کی وجہ سے تعبیر معنی میں انتقال:-

ترمیم

اسی طرح علامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنى رحمہ اللہکتاب ’’مجاز القرآن‘‘ میں بہت سی جگہ کسی لفظ کے معنی بیان کرتے ہوئے مدلول کی وجہ سے تعبیر معنی کو ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔یعنی

1.مصدر کو صفت پر محمول کرتے ہیں ۔ ،مثلاً

·      مثل قوله تعالى: (وَلَكِنَّ البِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ( [البقرة][88]،

يقول: فالعرب تجعل المصادر صفات، فمجاز البر هنا

مجاز الصفة لمن آمن بالله.

·      مثل قوله تعالى :ولكِن البِرّ مَن آمَنَ بِاللهِ( )2189( خروج المعنى البارُّ.)

·      مثل قوله تعالى :أَنَّ السَّمَواتِ واْلأَرضَ كانتَا رَتْقاً( )2130(، والرتق مصدر وهو في موضع مرتوقتين،)

·      مثل قوله تعالى :أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ( )1919( أي رسالة ربك.)

2.فاعل کو مفعول پر محمول کرتے ہیں یا اس کا عکس، مثلاً

·       مثل قوله تعالى: ( ما إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ( [القصص][89]

والعصبة هي التي تنوء بالمفاتح.

·        قوله تعالى: ( كَمَثَلِ الَّذي يَنعِقُ بِمَا لا يَسْمَعُ( [البقرة] [90]

والمعنى على الشاة المنعوق بها، وحوَّل على الراعي الذي ينعق بالشاة.


[1] (الا دنہ وی ،طبقات المفسرین،المدینۃ المنورۃ،مکتبۃ العلوم و الحکم 1997ء،ص 518-519 )

[2] (الا دنہ وی ،طبقات المفسرین،المدینۃ المنورۃ،مکتبۃ العلوم و الحکم 1997ء،ص 31)

[3] « مجاز القرآن » في خصائصه الفنية وبلاغته العربية

[4] مقدمہ مجاز القرآن ص 16 مکتبہ شاملہ،ابن خلكان 2/ 155، تاريخ بغداد 13/ 254، الإرشاد 19/ 158.

[5] ابن خير ، الفهرست : 134.

[6] الزبيدي ، طبقات النحويين : 125.

[7] ظ : ابن النديم ، الفهرست : 51 ـ 52.

[8]  ظ : المصدر نفسه : 52.

[9] مجاز القرآن الجز الاول ص1-2 مکتبہ شاملہ.

[10] مجاز القرآن الجز الاول ص20 مکتبہ شاملہ.

[11] مجاز القرآن الجز الاول ص21 مکتبہ شاملہ.

[12] مجاز القرآن الجز الاول ص25 مکتبہ شاملہ.

[13] مقدمہ مجاز القرآن الجز الاول مکتبہ شاملہ.

[14] « مجاز القرآن » في خصائصه الفنية وبلاغته العربية6-7

[15] سورۃ الفاتحہ 1/7

[16] مجاز القرآن الجز الاول ص25 مکتبہ شاملہ.

[17] مجاز القرآن الجز الاول ص26 مکتبہ شاملہ.

[18] سورۃالبقرۃ2/9

[19] مجاز القرآن الجز الاول ص31 مکتبہ شاملہ.

[20]سورۃ الفاتحہ 1/5

[21] الشطر فى الطبري 1/ 56 والقرطبي 1/ 128.

[22] (اموی دور کے مشہور شاعر ہیں )

[23] (اس قصیدہ میں ہشام بن عبد الملک کی مدح کی گئی ہے)

[24] مجاز القرآن الجز الاول ص24-25 مکتبہ شاملہ.

[25] سورۃالبقرۃ2/35

[26] ديوانه 24 من قصيدة يمدح الأعشى بها قيس بن معدى كرب الكندي

[27] مجاز القرآن الجز الاول ص38مکتبہ شاملہ.

[28] سورۃالمائدۃ5/48

[29] «لكل ... بينا» : رواه ابن حجر عن أبى عبيدة فى فتح الباري 8/ 203.

[30] فى السجاوندى (كوپريلى) 1/ 144 ا.

[31] مجاز القرآن الجز الاول ص168مکتبہ شاملہ.

[32] سورۃالاسراء17/51

[33] «فسيرفعون ... أصلها» : نقله الطبري (15/ 65)

                                      ببعض نقص وزيادة ورواه ابن حجر (8/ 294) عن أبى عبيدة.

[34] فى الطبري 15/ 65 والقرطبي 10/ 275.

[35] فى الطبري 15/ 65 والقرطبي 10/ 275.

[36] ديوانه 244.

[37] مجاز القرآن الجز الاول ص382-383مکتبہ شاملہ.

[38] سورۃیونس10/67

[39] سورۃ الانبیاء (61/ 21)

[40] ديوانه (نشر الصاوى) 544- والكتاب 1/ 69

والطبري 11/ 89 والشنتمرى 1/ 80 والخزانة 1/ 223.

[41] ديوانه 142.

[42] مجاز القرآن الجز الاول ص279مکتبہ شاملہ.

[43] سورۃ الحجرات(49/6)

[44] مجاز القرآن(مقدمۃ) الجز الاول ص6مکتبہ شاملہ.

[45] سورۃ السجدۃ(32/10)

[46] مجاز القرآن(مقدمۃ) الجز الاول ص6مکتبہ شاملہ.

[47] سورۃیوسف(12/45)

[48] مقدمۃ مجاز القرآن لأبی عبیدہ ص6مکتبہ شاملہ.

[49] سورۃالبروج(85/22)

[50] مقدمۃ مجاز القرآن لأبی عبیدہ ص6مکتبہ شاملہ.

[51] سورۃالبقرۃ2/17

[52] مجاز القرآن الجز الاول ص12مکتبہ شاملہ.

[53] سورۃالبقرۃ2/34

[54] مجاز القرآن الجز الاول ص13مکتبہ شاملہ

[55] سورۃالبقرۃ2/49

[56] مجاز القرآن الجز الاول ص14مکتبہ شاملہ

[57] سورۃالبقرۃ2/60

[58] مجاز القرآن الجز الاول ص14مکتبہ شاملہ

[59] سورۃالبقرۃ2/31

[60] مجاز القرآن الجز الاول ص13مکتبہ شاملہ

[61] مجاز القرآن الجز الاول ص38مکتبہ شاملہ

[62] سورۃ التحریم66/4

[63] مجاز القرآن الجز الاول ص133مکتبہ شاملہ

[64] سورۃ آل عمران3/173

[65] مجاز القرآن الجز الاول ص35مکتبہ شاملہ

[66] سورۃالقمر54/49

[67] مجاز القرآن الجز الاول ص3مکتبہ شاملہ

[68] سورۃ النساء4/11

[69] مجاز القرآن الجز الاول ص37مکتبہ شاملہ

[70] سورۃ الحجرات49/10

[71] سورۃ المائدۃ5/38

[72] مجاز القرآن الجز الاول ص51مکتبہ شاملہ

[73] سورۃ الفرقان(25/ 68)

[74] بلعاء بن قیس بن ربیعۃ بن عبد اللہ بن یعمر کنانہ بن خزیمۃ سے ہیں۔

[75] «بلعاء» : هو بلعاء بن قيس الكناني.. وكان رأس بنى كنانة فى أكثر حروبهم ومغازيهم وكان كثير الغارات على العرب وهو شاعر محسن وقد قال فى كل فن أشعارا جيادا وانظر ترجمته فى المؤتلف ص 106 وله أخبار فى حروب الفجار وانظر الأغانى 19/ 77 وفاته فى هذه الحرب ص 80- والبيت فى الكامل للمبرد ص 446 والطبري 19/ 24 واللسان (اثم) والقرطبي 13/ 76.

[76] مجاز القرآن الجز ء الثانی ص81مکتبہ شاملہ.

[77] مجاز القرآن الجز الاول ص10-11مکتبہ شاملہ.

[78] سورۃ البقرۃ                  2/223

[79] سورۃ النساء4/43

[80] سورۃ النساء4/43

[81] سورۃ البقرۃ                  2/223

[82] فصلت: 41/38

[83] سورۃ النور: 24/40

[84] سورۃ التوبة: 9/109

[85] مجاز القرآن الجز الاول ص71مکتبہ شاملہ.

[86]سورۃ الأنفال: 8/11

[87] سورۃ الصافات: 37/64-65

[88] سورۃ البقرة: 2/177

[89] سورۃ القصص: 28/76

[90] سورۃ البقرة: 2/171