سورہ بقرہ
سورۃ البقرہ قرآن کی دوسری اور سب سے طویل سورۃ ہے۔ اس کی 286 آیات ہیں اور قرآن کے پہلے پارے میں سورہ الفاتحہ کو چھوڑ کر باقی تمام آیات، دوسرا پارہ مکمل طور پر اور تیسرے پارے کا بڑا حصہ اسی سورۃ پر مشتمل ہے۔ قرآن کی مشہور آیت الکرسی بھی اسی سورۃ کا حصہ ہے اور تیسرے پارے میں آتی ہے۔ اس سورت میں بہت سے اسلامی قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بقرہ کے لفظی معنی "گائے" ہیں۔
بقرہ | |
دور نزول | مدنی |
---|---|
نام کے معنی | گائے |
زمانۂ نزول | مدنی زندگی کا ابتدائی دور (بیشتر حصہ) |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 2 |
عددِ پارہ | 1، 2، 3 |
تعداد آیات | 286 |
سجود | کوئی نہیں |
گذشتہ | الفاتحہ |
آئندہ | آل عمران |
نام اور وجہ تسمیہ
اس سورت کا نام "بقرہ" اس لیے ہے کہ اس سورت میں آیت نمبر سڑسٹھ (67) تا تہتر(73) میں گائے کے واقعے کا ذکر ملتا ہے۔ قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جا سکتے۔ عربی زبان اگرچہ لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے مگر بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی۔ انسان جو زبانیں بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیے جامع عنوان بن سکتے ہوں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالٰیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کی بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں۔ اس سورت کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ "وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے"۔
زمانۂ نزول
سورہ بقرہ مدنی سورۃ ہے۔ تمام سورہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی سوائے ایک آیت کے جو 281 ویں آیت ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ المکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کا بیشتر حصہ ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہے۔
شان نزول
مزید دیکھیے: البقرہ آیت 281
اس سورت کو سمجھنے کے لیے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:
- ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی خطاب بیشتر مشرکین عرب سے تھا جن کے لیے اسلام کی اواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینے سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے، اس ضابطۂ شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا اور اصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دے رہے تھے لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور ہٹادیا تھا۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی جن کے لیے تورات میں کوئی سند موجود نہ تھی۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے تورات میں کوئی ثبوت نہ تھا۔ خود تورات کو انھوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انھوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے علما اور مشائخ، ان کے سردارانِ قوم اور ان کے عوام، سب کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو اتنی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انھیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں، استخواں گیری و مغز افگنی، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام "مسلم" تک بھول گئے تھے، محض "یہودی" بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انھوں نے محض نسل اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالٰیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں چنانچہ سورۂ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصوصیات کے مقابلے میں حقیق دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی امت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے، رسمی دینداری کے مقابلے میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے، دینِ حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیت کن چیزوں کی ہے۔
- مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی مکے میں تو معاملہ صرف اصول دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود تھا مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کرچکے تھے، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالٰیٰ نے تمدن، معاشرت، معیشت، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اصول ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظامِ زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے۔ اس سورت کے آخری 23 رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں جن میں اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسب ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں
- ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل میں سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے ہور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختۂ مشق بنتے تھے مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہوکر ایک جتھا بن گئے اور انھوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کرلی تو صورت حال یہ ہو گئی ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کردینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اولاً وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسرِ باطل ہونا اس لیے ثابت کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہ نہ رہے۔ ثالثاً بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنیاد پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں چاروں طرف سے گھر گئے تھے ان میں وہ ہراساں نہ ہوں، بلکہ پورے صبر و ثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعاً وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلح مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامساً ان میں اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا تھا، فہمائش سے قبول نہ کریں، تو انھیں جاہلیت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹادینے میں بھی تامل نہ ہو۔ اللہ تعالٰیٰ نے اس سورت میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں۔
- دعوت اسلامی کے اس مرحلے میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا اور یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکہ کے آخری زمانے میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس ک لیے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کر لیں جو اس مسلک حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسم کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعت مسلمین میں داخل ہوجاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفینِ سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیت کے متردد تھے۔ انھیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا مگر چونکہ ان کے قبیلے اور خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لیے یہ بھی مسلمان ہو گئے۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امرِ حق کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیت کے طریقے اور اوہام اور رسومات چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض و ذمہ داریوں کا بار اٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔
سورہ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہور کی محض ابتدا تھی اس لیے اللہ تعالٰیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجیں گئیں۔
سورہ بقرہ میں آیات اور تعدادِ رکوع
سورہ بقرہ میں آیات کی تعداد 286 ہے جبکہ 40 رکوع ہیں۔ سورہ بقرہ کے ابتدائی 16 رکوع پہلے پارہ میں، 16 رکوع دوسرے پارہ میں اور 8 رکوع تیسرے پارہ کے ابتدائی حصے میں موجود ہیں۔ سورہ بقرہ میں کلمات کی تعداد 6121 اور حروف کی تعداد 25500 ہے۔ اس سورہ میں کوئی سجدہ نہیں ہے۔
معلومات
سورہ بقرہ میں کل 286 آیات ہیں۔ اگر اس سے آخری ہندسے کو ہٹائیں تو 28 بچے گا اور یہ مدنی سورتوں کی تعداد ہے اور اگر پہلے ہندسے کو ہٹائیں تو 86 بچے گا جو مکی سورتوں کی تعداد ہے اور اگر ان دونوں یعنی 28 اور 86 کو جمع کریں تو 114 آئے گا جو کل قرآن کی سورتوں کی تعداد ہے۔