محاذ جنگ میں خواتین (انگریزی: Women in combat) سے مراد خواتین کا راست جنگی یا دشمن ملک اور فوج سے مقابلہ آرائی کا موقف اختیار کرنا۔ تاریخی طور پر خواتین فوج میں معاون و مدد گار، نیز طبی سہولتوں کی فراہمی کی ضرورتوں پر زیادہ توجہ دیتی آئی ہیں۔ تاہم جدید جنسی برابری کے دور میں خواتین ہر محاذ پر مردوں کے شانہ بہ شانہ ہونے کی خواہش مند رہی ہیں۔ اس وجہ سے کئی ملکوں میں راست مقابلے کے مقام پر بھی عورتوں کو رکھا جا رہا ہے۔ 2013ء میں دفاعی عہدیداروں کے بیان کے مطابق خواتین کی محاذ جنگ کی اہم پوزیشنز پر تعیناتی سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی سفارش پر کیا گیا۔ یہ پابندی 1994ء میں عائد کی گئی تھی جس کے بعد گذشتہ دس سالوں میں دو لاکھ خواتین فوجیوں کی یہ خبر آئی کہ وہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے 800 زخمی اور 130 ہلاک ہوئیں ۔ لیکن امریکی فوج میں اصلٰحہ، بارود، زمینی فوج اور دیگر جنگجو نوعیت کے زمروں میں خواتین کی باقاعدہ تعیناتی پر پابندی تھی، جسے 2013ء میں ہٹا دیا گیا۔[1]

دیگر ملکوں کا موقف ترمیم

بھارت ترمیم

حکومت ہند نے 2020ء میں یہ موقف اختیار کیا کہ 'خواتین میدان جنگ میں (مردوں جیسا) کردار ادا کرنے جیسی صلاحیت نہیں رکھتیں۔‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد فوجیوں کی ابھی تک خواتین کو کمانڈر کے روپ میں تسلیم کرنے کی تربیت ہی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو 'زچگی، ماں بننے اور بچوں کی نگہداشت جیسی ذمہ داریاں درپیش رہتی ہیں۔' تاہم عدالت عظمیٰ نے حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ وہ خواتین پر جنگی کردار ادا کرنے سے متعلق عائد سرکاری پابندی پر از سر نو غور کرے اور مردوں کے شانہ بشانہ انھیں بھی اس قسم کا رول دے۔[2]

ایران ترمیم

ایران کا موقف یہ ہے کہ ان کے ملک میں خمینی کے لائے گئے انقلابی امت پر مسلط کردہ ناپسندیدہ جنگ کی وجہ سے مجاہد وجانثار خواتین کے لیے ایک تاریخی موقع فراہم ہوا کہ اپنے ایمانی وجود وانسانی اقدار کے گوہرکو خوبصورت اور واضح ترین شکل میں پیش کریں اور خمینی کے لیے ایک ایسا موقع فراہم ہوا کہ آپ معاشرہ کے اساسی امور اوراپنی تقدیر میں خواتین کی شرکت کے لیے ایک اور وجہ کو بیان فرمائیں ، اسی بنا پر خمینی کے ارشادات کے بنیادی موضوعات میں مسلط کردہ جنگ، دفاع مقدس کی ضرورت، خواتین کے حضور کی وجوہات اور ان کی جہادی جدوجہد جیسے موضوعات کاتذکرہ پایا جاتا ہے، فوجی تربیت سے لے کر محاذ جنگ کی ضروریات پوری کرنے نیز تربیت اولاد ،اپنے شوہروں اور دیگر رشتہ داروں کو میدان جنگ میں جا نے کی رغبت لشکر اور فوج میں شامل ہونا یہاں تک کہ خود خواتین کا دفاعی جنگ میں شرکت کرنا جو مرد وعورت دونوں کی ذمہ داری ہے ، یہ سب چیزیں دینی نظریہ کے اعتبار سے روشن اور ناقابل انکار استدلال رکھتے ہیں [3]۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم