محبوب خزاں
نامور شاعر
پیدائش
ترمیممحبوب خزاں کا اصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ وہ ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے ضلع بلیہ کے ایک موضع چندا دائر کے ایک معزز گھرانے میں یکم جولائی 1930ء کو پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیم12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے اور ان کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ انھوں نے 1948ء میں الہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا اور پاکستان آگئے، یہاں انھوں نے سول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کیا۔
ملازمت
ترمیمپہلی تقرری 1957ء کو لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی پھر اسی سال ڈھاکہ بھیج دیے گئے جہاں ڈپٹی اے جی پی آر کے عہدے پر فائز رہے، بعد ازاں 1960ء میں کراچی لوٹے اور پھر تہران کے سفارتی مشن میں متعین کیے گئے۔
تہران میں قیام کے دوران معروف شاعر ن م راشد سے ان کی خاصی قربت رہی۔ بعد میں وہ 1960ء میں کراچی میں اے جی پی آر رہے اور یہیں سے 30 جون 1990ء کو ریٹائر ہوئے۔ وہ کئی برس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات رہے
2000ء میں اسلام آباد منتقل ہو گئے، پھر کراچی آگئے،
تصانیف
ترمیمان کا پہلا شعر مجموعہ ’اکیلی بستیاں‘ قمر جمیل کے ’خواب نما‘ اور محب عارفی کے ’چھلنی کی پیاس‘ کے ساتھ شائع ہوا۔ غالباً یہ مجموعہ 1963ء میں کراچی سے شائع ہوا تھا۔
نمونہ کلام
ترمیموہ انتہائی کم گو شاعر اور مطالعے سے بے حد شغف رکھنے والے لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
ان کے کئی اشعار اور غزلیں بہت مقبول ہوئیں۔
- "ایک محبت کافی ہے
- باقی عمر اضافی ہے"
- کہتا ہے چپکے سے یہ کون
- ’جینا وعدہ خلافی ہے‘
- بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
- یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
- میں تمھیں کیسے بتاؤں کیا کہو
- کم کہو، اچھا کہو، اپنا کہو
- اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو محبوب
- خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
- میں کہیں اور کس طرح جاؤں
- تو کسی اور کے علاوہ نہیں
- چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
- شاید اسی لیے ہے گلہ کم بہت ہی کم