تہران
تہران ایران کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ نہ صرف صوبۂ تہران کا صدر مقام ہے بلکہ شہرستان تہران اور اس کے مرکزی ضلع کا بھی انتظامی مرکز ہے۔ سنہ 2025ء کے تخمینے کے مطابق، شہر کی آبادی تقریباً 98 لاکھ اور ام البلادی آبادی 1 کروڑ 68 لاکھ ہے، جس کے ساتھ تہران ایران اور مغربی ایشیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، مشرق وسطیٰ میں قاہرہ کے بعد دوسرا بڑا ام البلاد اور دنیا کا چوبیسواں سب سے زیادہ آبادی والا ام البلاد ہے۔ کلاں شہر تہران میں متعدد بلدیات شامل ہیں، جن میں کرج، اسلام شہر، شہریار، قدس، ملارد، گلستان، پاکدشت، قرچک، نسیم شہر، پرند، پردیس، اندیشہ اور فردیس شامل ہیں۔
تہران تهران | |
---|---|
ام البلاد | |
![]() تہران، دار الحکومت جمہوریہ ایران | |
ملک | ![]() |
صوبہ | تہران |
شہرستان | شہرستان تہران شہرستان رے شہرستان شمیرانات |
حکومت | |
• ناظم | علی رضا زاکانی |
رقبہ | |
• ام البلاد | 686 کلومیٹر2 (265 میل مربع) |
• میٹرو | 18,814 کلومیٹر2 (7,264 میل مربع) |
بلندی | 1,200 میل (3,900 area_cod +2,198 فٹ) |
آبادی (2006) | |
• کثافت | 10,327.6/کلومیٹر2 (26,748.3/میل مربع) |
• شہری | 7,088,287 |
• میٹرو | 13,413,348 |
• ایران میں درجہ بلحاظ آبادی | پہلا |
Population Data from 2006 Census and Tehran Municipality.[1][2] Metro area figure refers to صوبہ تہران. | |
منطقۂ وقت | IRST (UTC+3:30) |
• گرما (گرمائی وقت) | IRDT (UTC+4:30) |
ویب سائٹ | www.tehran.ir |
قدیم زمانے میں موجودہ تہران کا کچھ حصہ راگس (رے) کے زیرِ اثر تھا، جو ماد سلطنت کا ایک اہم شہر تھا، لیکن قرون وسطیٰ کی عرب، ترک اور منگول یلغاروں میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ جدید رَے کو اب کلاں شہر تہران کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔
تہران کو سب سے پہلے آغا محمد خان قاجار نے سنہ 1786ء میں ایران کا دار الحکومت مقرر کیا، کیونکہ یہ ایران کے قفقاز میں موجود سرحدی علاقوں کے قریب تھا، جو بعد میں روس ایران جنگوں کے نتیجے میں ایران سے علاحدہ ہو گئے اور اس کے ذریعے وہ سابق شاہی حاکم خاندانوں کے حامی دھڑوں سے بچنا چاہتے تھے۔ تاریخ میں ایران کا دار الحکومت کئی بار بدلا گیا اور تہران ایران کا بتیسواں دار الحکومت بنا۔ سنہ 1920ء کی دہائی میں بڑے پیمانے پر تعمیری منصوبوں کا آغاز ہوا اور بیسویں صدی کے بعد تہران ایران بھر سے ہجرت کا مرکز بن گیا۔
تہران کئی تاریخی مقامات کا حامل ہے، جن میں قاجار سلطنت کا گلستان محل (جو عالمی ثقافتی ورثہ ہے) نیز پہلوی دور کے سعد آباد، نیاوران اور مرمر محل شامل ہیں۔ تہران کے دیگر نمایاں نشانات میں مینار آزادی شامل ہے جو سنہ 1971ء میں ہخامنشی سلطنت کی 2500ویں جشن کے موقع پر تعمیر ہوا اور مینار میلاد جو سنہ 2007ء میں مکمل ہوا اور دنیا کا چھٹا بلند ترین آزاد ایستادہ برج ہے، نیز پُلِ طبیعت جو سنہ 2014ء میں مکمل ہوا، بھی قابلِ ذکر ہیں۔
تہران کو بین الاقوامی سطح پر امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے اور اندرونِ ملک مہر آباد ہوائی اڈے کے ذریعے خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں مرکزی ریلوے اسٹیشن، تہران میٹرو، تیز رفتار بس نظام، ٹرالی بسیں اور شاہراہوں کا وسیع جال موجود ہے۔
ماحولیاتی آلودگی اور زلزلوں کے خدشے کے باعث دار الحکومت کو کسی اور مقام پر منتقل کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں، تاہم اب تک انھیں منظوری نہیں ملی۔ مرسر کی جانب سے 2016ء میں دنیا کے 230 شہروں میں کیے گئے ایک سروے میں تہران کو زندگی کے معیار کے لحاظ سے 203واں درجہ دیا گیا۔ گلوبل ڈیسٹینیشن سِٹیز انڈیکس (2016ء) کے مطابق تہران دنیا کے تیزی سے ترقی پزیر دس سیاحتی شہروں میں شامل تھا۔ سنہ 2016ء میں تہران میونسپل کونسل نے 6 اکتوبر کو ”یومِ تہران“ قرار دیا، تاکہ سنہ 1907ء میں تہران کو باضابطہ طور پر دارا لحکومت قرار دیے جانے کی تاریخ کو منایا جا سکے۔
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر تہران سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |