محمود شبستری

آٹھویں صدی ہجری کے فارسی شاعر اور ادیب۔

شیخ محمود شبستری ایک عارف، ادیب اور آٹھویں صدی ہجری کے شاعر ہیں۔[4]آپ اپنے وقت کے نامور علما فضلا اور متکلمین میں شمار ہوتے تھے۔شاعری میں ان کی شہرت ’’مثنوی گلشن راز‘‘ پر ہے یہ مثنوی ان 15 یا 17 سوالات کے جوبات پر مشتمل ہے جو سید امیر الحسینی خراسانی نامی ایک عالم و صونی نے آپ سے پوچھے تھے ۔[5]
شیخ محمود شبستری کوئی پیشہ ور شاعر نہ تھے اور خود ان کی تصریح کے مطابق گلشن راز کو نظم کرنے سے پہلے کبھی شعر نہیں کہے تھے،لیکن انھی موضوعات پر وہ نثر میں رسالے اور کتابیں تصنیف کر چکے تھے۔شاید اس موقع پر سوالات بھی منظوم تھے اس لیے مجبورا ان کے بواب بھی منظوم دیے۔چنانچہ ذیل کے اشعار میں اسی طرف اشارہ کیا ہے :
بدو گفتم چہ حاجت کاین مسائل ۔۔۔۔۔نوشتم بارہا اندر رسائل
اس کے بعد پھر اپنی تصانیف کے بارے میں کہتے ہیں :
بہ نثر از چہ کتب بسیارمی ساخت ۔۔۔۔۔بہ نظم و مثنوی ہر گز نپرداخت

محمود شبستری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1287ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شبستر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1320ء (32–33 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تبریز   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان آذربائیجانی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی [2]،  ایرانی زبانیں [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف [3]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام شیخ محمود لقب سعدالدّین نجم الدین والد عبد الکریم‌بن یحیی شبستری ہے۔[6]

ولادت

ترمیم

شیخ سعد الدین محمود بن عبد الکریم شبستری،قصبۂ شبستر میں 1250ء میں پیدا ہوئے یہ ہلاکو خان کا زمانہ تھا شبستر تبریز سے آٹھ فرسنگ کے فاصلے پر ہے۔ کتاب روضات الجنان جلد 2 کے مندرجات کے مطابق، وه (متوفی بہ سال 740ھ) 52 یا 53 کی عمر میں فوت ہوئے۔[7] وه ایران کے اکابر عرفا میں سے تھے۔ ان کی وجہ شہرت مثنوی گلشن راز ہے۔[8]شیخ محمود شبستری نے اپنے آبائی قصبے میں نشو و نما پائی اور سن رشد کو پہنچے۔الجایتواور ابو سعید کے عہد میں انھیں شہرت حاصل ہوئی اور تبریز کے نامی گرامی علما اور فضلاء میں شمار کیے جانے لگے۔ان کے تفصیلی حالت زندگی معلوم نہیں ،لیکن ان کی شہرت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے صوفی علما میں شمار ہوتے تھے۔دینی اور ضکمیاتی مسائل کے حل کرنے میں بڑی دقت نظر سے کام لیتے تھے اور ان موضوعات پر ان کت تبحر کی شہرت دور و نزدیک پھیل گئی تھی اور لوگ ان مسائل میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔طالبان حق اطراف و اکناف سے ان کی کدمت میں دوڑتے آتے تھے اور علمی مسائل میں اپنی مشکلوں کو حل کرنے کی درخواست کرتے تھے۔چنانچہ شیخ نے اپنی مشہور ترین تصنیف یعنی گلشن راز خراسان کے ایک بزرگ یعنی سید امیر الحسینی ہروی جو شیخ بہاء الدین زکریاملتانی کے خلیفہ بھی تھے کے ایسے ہی سوالوں کے جواب میں لکھی ہے۔یہ سوال جیسا کہ گلشن راز کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے سن 770 میں شیخ کے پاس پہنچے تھے چنانچہ فرماتے ہیں:
بسال ہفدہ از ہفت صدسال۔۔۔۔۔زہجرت ناگہان در ماہ شوال
رسولی باہزاران لطف و احسان۔۔۔۔۔رسید از خدمت اہل خراسان
یہ تمام سوال دینی مسائل اور صوفیانہ عقائد سے متعلقہیں۔شیخ نے ان کا جواب ترتیب اور مناسبت کے ساتھ دیا ،پھر مریدوں کی خواہش پر تھوڑی مدت میں اس کو مکمل کیا اور اس میں اضافہ کیا اور اس کا نام ’’گلشن راز‘‘ رکھا۔[9]

تصنیفات

ترمیم

منظوم تصانیف

ترمیم
  • گلشن راز

شیخ محمود شبستری منظوم تصانیف میں سب سے مشہور تصنیف جو ان کی وجہ شہرت بھی بنی ہے وہ’’مثنوی گلشن راز‘‘ ہے۔جو شیخ کے عرفانی کلام پر مشتمل ہے۔گلشن راز لگ بھک کوئی ایک ہزار ابیات پر مشتمل قدیم فارسی زبان کے صوفیانہ ادب کی ایک عظیم شاہکار ہے جس میں صوفیانہ تصورات کا ایک خاص جوش و جذبہ کے ساتھ اظہار کیا گیا ہے۔فرید الدین عطار اور مولانا رومی کی طرح یہاں بھی عرفانی مطالب کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے حکایات اور تمثیلات سے استفادہ کیا گیا ہے ۔[10]

  • سعادت نامہ
  • کنزالحقائق

منثور تصانیف

ترمیم
  • حق الیقین فی معرفۃ رب العالمین

شیخ کی منثور تصانیف میں جو تصنیف سب سے زیادہ مشہور ہے وہ حق الیقین ہے۔یہ کاب دینی مسائل پر ہے۔اس کے سوا شاہد نامہ بھی ایک کتاب ان کی نصنیف ہے ۔[11]

  • مرآۃ المحققین
  • رسالہ شاہد(یا شاہد نامہ)

==

شیخ محمود شبستری کی نظر میں ایک سچااور پکا عارف کے اوصاف

ترمیم

ایک سوال کے جواب میں راہ حق کا سالک کون ہے اور سچااور پکا عارف کسے کہتے ہیں؟ شیخ صاحب فرماتے ہیں : مسافر آن بود کو بگزرد رود۔۔۔زخود صافی شود چوں آتش از دود
سلوکش سیر کشفی دان ز امکان۔۔۔سوی واجب تبرک شین و نقصان
باخلاق حمیدہ گشتہ موصوف|بعلم۔۔۔و زہد و تقوی بودہ معروف
ہمہ با اوولی از از ہمہ دور!۔۔۔بزیر قبہ ہای ستر مستور!
تبہ گردد سرا سر مغز بادام۔۔۔گرش از پوست بخراشی گھ خام
ولی چون پختہ شد بی پوست نیکوست۔۔۔اگر مغز ش براری بر کی پوست
شریعت پوست و مغز آمد حقیقت۔۔۔میان این و آن باشد طریقت
خلل در راہ عارف نقص مغز است۔۔۔چو مغزش پختہ شد بی پوست بشکست
بود از سر وحدت واقف حق۔۔۔درو پیدا نماید وجہ مطلق
دل عارف شناسای وجود است۔۔۔وجود مطلق اور را شہود است
سلوک کا راتسہ طے کرنے والا اور عارف وہ ہے جو ابتدائے سلوک ہی سے اپنے عیبوں اور برائیوں کی اصلاح کرے اور اپنی ہستی کو ہر نقص سے پاک کرے۔یہ تخلیہ کا مرتبہ ہے۔اس کے بعد وہ اپنے آپ کو اخلاق حمیدہ کے زیور سے آراستہ کرتا اور دانس زہد اور پرہیز گاری کا حامل بنتا ہے۔یہ تحلیہ کا مرتبہ ہے۔ان مراحل سے گذر کروہ شریعت کے ظاہری احکام پر کاربند ہوتا ہے عبادت اور خدمت میں سختیاں اٹھاتا ہے جس طرح آگ دھویں سے الگ ہوجاتی اسی طرح وہ خود پرستی سے الگ ہوجات اپہے خوبی اور نیکی کے لیے کوشش شروع ہوتی ہے۔اب اس کا نفس ذرا ذرا روشن ہونے لگتا ہے وہ مقام علم سے گذر کر مقام عرفان یعنی کشف و شہود میں قدم رکھتا ہے اس طریقہ پر بتدیج سلوک کی منزلیں طے کرتا ترقی کرتا جاتا ہے ،یہاں تک کہ مبداء شریعت سے سلوک کے ذریعہ طریقت میں پہنچاتا ہے اور آخر کار اصل و حقیقت سے قریب ہوجاتا ہے اس وقت جہاں کی وحدت اس کی نظر میں جلوہ گر ہوجاتی ہے۔یہ تجلیہ کا مرتبہ ہے۔اس مقام پر پہنچ کر اس کی دانش منتھی ہوتی ہے بینش پر اور دانائی مبدل ہوجاتی ہے شناسائی سے اور چیز اسے صاف سمجھ میں یہ آتی تھی ،اب تمام و کمال نظر آتی ہے اب وہ سچا عارف ہوجاتا ہے اوراس حک تک پہنچ جاتا ہے جہاں نفس اور عالم ،من و تو عالم و معلوم اور عارف و معروف کا فرق اس کی نظر باقی نہیں رہتا اور وہ خود آئینہ حق بن جاتا ہے یعنی اس کی جسمانی ،زمینی اور شہوانی خودی زایل ہوجاتی ہے اور اس کی روحانی خودی جو ھقیقت عالم ہے اس میں جلوہ گر ہوجاتی ہے۔اسی لیے وہ اناالحق کا نعرہ لگاسکتاہے ،کیونکہ اس کے وجود میں صرف حق ہی حق رہ گیا ہے۔[12]

وفات

ترمیم

محمود شبستری کی وفات 720ھ بمطابق 1320ء ہے۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب https://data.bnf.fr/fr/12247442/mah_mud_ebn-e__abd_al-karim_sa_d_al-din_s_abestari/
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12247442b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0318895 — اخذ شدہ بتاریخ: 23 جون 2024
  4. مفاتیح‌الاعجاز فی شرح گلشن راز، تألیف شمس‌الدّین محمّد لاهیجی (912 هجری قمری)، با مقدّمه، تصحیح وتعلیقات محمّد رضا برزگر خالقی، و عفّت کرباسی، انتشارات روزبه، تهران، بهار 1378
  5. فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ،از ڈاکٹر محمد ریاض،لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز،ص78
  6. تاریخ ادبیات ایران،از ڈاکٹر رضا زادہ شفق،مترجم:سید مبارزالدین رفعت،دہلی:ندوۃ المصنفین،ص349
  7. حافظ حسین کربلائی (ابن الکربلائی)، روضات الجنان، تصحیح جعفر سلطان القرائی، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، تهران 1349 شمسی
  8. گلشن راز، شیخ محمود شبستری، به کوشش و مقدمه و حواشی و تعلیقات دکتر جواد نوربخش، چاپ دوم، انتشارات یلدا قلم، تهران 1382 شابک: 5-36-5745-964
  9. تاریخ ادبیات ایران،ص230
  10. صفحهٔ پنج، مفاتیح‌الاعجاز فی شرح گلشن راز
  11. تاریخ ابدیات ایران،ص351
  12. تاریخ ادبیات ایرانِ353
  13. A literary history of Persia : Browne, Edward Vol iii P146