مسجد پٹولیاں
مسجد پٹولیاں لوہاری دروازے کے اندر لوہاری منڈی میں موجود ہے۔
تاریخ
ترمیماس مسجد کا درست سن تعمیر معلوم نہیں، 1882ء میں شائع شدہ کنہیا لال کی کتاب میں اتنا لکھا ہے کہ " یہ مسجد پہلے بھی کئی سو برس سے بنی ہوئی ہے 1282ھ میں میاں عمرو دین اوورسیر محکمہ ہارک ماسٹری نے بہت سا روپیہ صرف کر کے اپنے دادا کے نام پر اس کی تجدید کی۔ " اس معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد کافی قدیم ہے اور 1865ء میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔
عمارت
ترمیمنقوش "لاہور نمبر" میں درج ہے کہ اس "مسجد کے درمیانی دروازہ پر سنگ مرمر کی ایک سل نصب ہے جس پر اشعار لکھے ہوئے ہیں" مگر اب ایسی کوئی سل تو مسجد میں نظر نہیں آتی البتہ مسجد کے داخلی دروازے پر ایک تختی موجود ہے جس پر 1903ء لکھا ہوا ہے۔ مسجد تو اب جدید طرز پر دوبارہ تعمیر کی گئی ہے پرانی عمارت تو اب موجود نہیں ہے۔ اس مسجد کی مغربی جانب مہاراجا کھڑک سنگھ کی حویلی تھی۔ کھڑک سنگھ کی حویلی کے ایک طرف کونے میں مسجد تھی کھڑک سنگھ نے اپنی حویلی کی عمارت میں خم ڈال لیا مگر مسجد کو نہ گرایا جب تک زندہ رہا امام مسجد کے لیے دس روپے ماہوار مقرر کیے رکھا۔ 1846ء میں انگریزی فوج کو یہاں ٹھہرایا گیا۔ بعد ازاں انگریز سرکار نے اس حویلی کو گرا کر اینٹیں اور پتھر فروخت کر ڈالا۔ مسجد کے قریب تاریخی کوچہ محلے داراں ہے جس میں ایک قدیم عمارت کے آثار موجود ہیں اہل محلہ کو اس عمارت کے متعلق کچھ علم نہیں ہے البتہ لوگ معروف لوگوں کے گھروں کی نشان دہی کرتے ہیں جو یہاں کسی زمانے میں رہائش پزیر تھے۔ حاجی امیر الدین المعروف عینکوں والے، غلام غوث، حکمیموں کی حویلی اور حاجی عبدلاسلام صاحب کا گھر کوچہ محلے داراں میں تھا۔ کوچہ محلے داراں میں بھی ایک مسجد موجود ہے۔ کوچہ محلے داراں پہلے کوچہ بیلی رام سے جا کر ملتا تھا مگر اب کافی عرصے سے یہ راستہ بند ہے۔ کوچہ محلے داراں کے رہائشی کافی خوش اخلاق ہیں۔ اہل محلہ کے برتاو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کہ لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور یہاں کے لوگ اب بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔