لوہاری دروازہ
لوہاری دروازہ لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، اس دروازے کا اصل نام لاہوری دروازہ ہے، جبکہ غلط العام لہاری یا لوہاری دروازہ کہلاتا ہے، [1] جو اصلی حالت میں محفوظ ہے۔
لوہاری دروازہ شہر قدیم کی فصیل میں بجانب جنوب واقع ہے۔ اس کے دائیں طرف شاہ عالمی دروازہ جبکہ بائیں طرف موری دروازہ ہے اور اس کے بالمقابل انارکلی بازار شروع ہوجاتا ہے۔ اس دروازہ کا نام لاہور شہر کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک لاہور کی قدیمی بستی اچھرہ کے پاس واقع تھی جبکہ کچھ لوگ قبرستان میانی صاحب کے نواح کو قدیم لاہور کی بستی بتاتے ہیں، بہرحال اکثر مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ محمود غزنوی نے جے پال کو شکست دے کر جس لاہور پر قبضہ کیا تھا، وہ لوہاری دروازے کے اندر واقع تھا لہذا قرین قیاس ہے کہ لوہاری دروازہ ہی شہر میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ تھا۔
برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک بھی اس دروازے کے قریب ہی محو خاک ہے۔ ملک ایاز جب پنجاب کے انتظام کے لیے معمور ہوا تو اس نے شہر کو دوبارہ آباد کرنا چاہا۔ بقول ایچ آر گولڈنگ ملک ایاز نے ایک رات میں شہر پناہ تعمیر کی۔ رنجیت سنگھ نے جب 1799ء میں لاہور پر لشکر کشی تو مہر محکم دین نے لوہاری دروازہ ہی کھول دیا تھا، جس سے رنجیت سنگھ کی فوج شہر میں داخل ہو گئی اور رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔
برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا، مگر ان کو اصل صورت سے برعکس بنایا گیا۔ تاہم لوہاری دروازہ اس اثر سے محفوظ رہا اور اس دروازے کو اس کی اصل حالت کے مماثل تعمیر کیا گیا۔
لوہاری دروازے کے اندر داخل ہوں تو لوہاری بازار شروع ہو جاتا ہے۔ لوہاری منڈی لاہور کی قدیم منڈی ہے۔ لوہاری دروازے میں داخل ہوتے ساتھ ہی الٹے ہاتھ پر جامع مسجد آمنہ و مدرسہ شیر ربانی ہے۔ جامع مسجد آمنہ کے پہلو میں صوفی مولوی محمد نواب علی المعروف صوفی صاحب کی قبر ہے۔ لوہاری دروازے میں موجود کمروں میں حکومت نے سارنگی اسکول کھولا ہے، جہاں بلا معاوضہ یہ ساز بجانا سکھایا جاتا ہے۔ لاہور کے دیگر دروازوں کی نسبت لوہاری دروازہ رہائشی اعتبار سے تقریباً سب سے گنجان آباد علاقہ ہے اور شہر کے اس حصے میں ابھی بھی اندرون شہر کی ثقافت قائم ہے۔
لوہاری میں لوگ آج بھی رات گئے تک گلیوں کوچوں میں تھڑا محفلیں کرتے ہیں۔ جہاں مذہب سے لے کر سیاست تک تمام امور پر بحث مباحثے اور طنز و مزاح کی فضا قائم رہتی ہیں۔ لوہاری دروازے کی چھت سے مسلم مسجد کے مینار اور لاہور کے مصروف بازاروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اندرون لوہاری دروازے میں پرانے لاہور کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں نے جب قدیم حویلیوں میں رہائش پزیر لوگوں سے جھجکتے ہوئے ان کے گھر دیکھنے کی خواہش کی تو انکا برتاؤ توقع کے برعکس تھا۔ لوگوں نے ناصرف مجھے اپنے گھر دکھائے بلکے ان کی مہمان نوازی اور فراخ دلی حیران کن تھی۔ کھانے پینے کے حوالے سے بھی یہ علاقہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ لاہور کے معروف حاجی نہاری بھی یہیں ہے۔ لوہاری منڈی میں نہاری کے علاوہ پائے، چنے، بار بی کیو ،اور مٹھائیوں کی بھی بے شمار دکانیں ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے لاہور کا اصل تعارف لوہاری جاکر ہوا۔ احباب سے گزارش ہے کہ لاہور میں بادشاہی مسجد ،مینار پاکستان اور شاہی قلعہ ہی تاریخی و تفریخی مقامات نہیں ہیں کبھی اندرون لاہور کی گلیوں کی خاک چھانیں آپ یقین کریں آپ کو لاہور مختلف معلوم ہوگا۔ لاہور و لاہوریوں کے متعلق آپ کے نظریات تبدیل ہو جائیں گے۔
دیگر شہروں میں لاہوری دروازے
ترمیممختلف شہروں میں لاہور کے رخ فصیل کے دروازوں کو لاہوری گیٹ یا لاہوری دروازہ کا نام دیا جاتا تھ، "لاہوری گیٹ" کے نام سے 2007ء میں ایک درانی بھی ریلیز ہوا تھا، ان شہروں میں لاہوری گیٹ موجود ہیں،
روابط
ترمیم- اندرون شہر کے تیرہ دروازےآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ arijali-lahore.8m.net (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ نقوش لاہور نمبر، صفحہ 657، محمد طفیل، نقوش پریس لاہور