مسرور انور (پیدائش: 6 جنوری 1944ء ۔ وفات :1996 1اپریل ) پا کستان کے ایک نامو ر شاعر تھے۔ انھوں نے فلموں کے لیے کئی نغمات لکھے۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد - اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں - جگ جگ جیے میرا پیارا وطن - وطن کی مٹی گواہ رہنا ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے جیسے شہرہ آفاق ملی نغمے تحریر کیے ۔

مسرور انور
پیدائش6 جنوری 1944ء
شملہ برطانوی ہندوستان
وفات1یکم 1996ء
لاہور، پاکستان
آخری آرام گاہمیانی صاحب قبرستان، لاہور
پیشہشاعر نغمہ نگار، اسکرپٹ رائٹر
زباناردو،پنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصناففلمی نغمہ نگاری، مکالمہ نگاری
اہم اعزازاتنگار ایوارڈ

حالاتِ زندگی

ترمیم

مسرورانور کا اصل نام انور علی تھا۔6جنوری 1944 کو جنت نظیر وادی کشمیر کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں ہی شاعری کا آغاز کیا ۔ مسرور انور ایسے شاعر ہیں جنہیں زندگی میں کہیں بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انھوں نے 1962 میں فلم بنجارن سے فنی سفر شروع کیا ، ان کی پہلی فلم نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ ان کے لکھے ہوئے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ مسرور انور نے بے شمارفلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے بھی تحریر کیے۔اس دور میں مسرور انور ایک شاعر شاعر کی صورت میں سامنے آئے جنھوں نے بنجارن فلم کی کامیابی کے بعد شہرت کی بلندیوں کی جانب جو سفر شروع ہوا اس میں کبھی زوال نہیں دیکھا

پرویز ملک کی ٹیم میں شمولیت

ترمیم

ہدایتکار پرویز ملک جب امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آئے تو انھوں نے اپنے دوست وحید مراد سے پاکستان میں سینما کی نئی لائن پر بات شروع کی۔ دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ سماجی اور رومانی موضوعات پر فلمیں بنائی جائیں۔ جن کی موسیقی اعلیٰ درجے کی ہو۔ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے ایک نیا پروڈکشن ہاؤس بنایا۔ مسرور انور اس پروڈکشن ہاؤس سے وابستہ ہو گئے۔ پھر موسیقار سہیل رعنا بھی اس ٹیم کے رکن بن گئے۔ مسرور انور کی سہیل رعنا سے دوستی ہو گئی۔ جس کی وجہ ذہنی ہم آہنگی تھی۔

عروج کا ددور

ترمیم

فلم آرٹس کی پہلی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کااسکرپٹ اور نغمات مسرور انور نے لکھے اور موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی۔ یہ فلم سندھ کے ماحول پر بنائی گئی اور اس نے زبردست کامیاب حاصل کی۔ اس کے بعد اس پروڈکشن ہائوس کی دوسری فلم ’’ارمان‘‘ نے بھی عدیم النظیر کامیابی حاصل کی۔ یہ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ ’’ارمان‘‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا گانا ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ لازوال مقبولیت سے ہمکنار ہوا۔ اس کے بعد ایک کلب سانگ’’ کو کو کورینا‘‘بھی بے انتہا مقبول ہوا اوراس کی مقبولیت آج 2025 میں بھی برقرار ہے۔ اس کلب سانگ کے بول تھے۔ ’’کو کوکورینا‘‘بہت مقبول ہوا جسے وحید مراد پر فلمایا گیا اور احمد رشدی نے گایا اور سہیل رعنا کی موسیقی نے امر کر دیا ۔ فلم ’’احسان‘‘ کے گیت بھی بڑے متاثر کن تھے۔

سکرپٹ اور مکالمے

ترمیم

مسرور انور نے بہت سی فلموں کے لیے اسکرپٹ اور مکالمے تحریر کیے۔ ’’ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، عشق حبیب، پھول میرے گلشن کا، جب جب پھول کھلے، محبت زندگی ہے، صاعقہ، قربانی، تلاش اور ہم دونوں‘‘ کے لیے لکھے اسکرپٹ اور مکالوں نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔اس کے علاوہ بھی انھیں کئی بار نگار ایوارڈ دیا گیا۔ مسرور انور نے جن سپرہٹ فلموں کے سپرہٹ گیت لکھے ان میں ’’بنجارن، ایسا بھی ہوتا ہے،بدنام، ہیرا اور پتھر، جب سے دیکھا ہے تمھیں، لاکھوں میں ایک، نصیب اپنا اپنا، انجمن، دامن اور چنگاری، آگ، صاعقہ، پہچان، آئینہ اور صورت، پھول میرے گلشن کا اور جب جب پھول کھلے‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے 1986ء میں ایک فلم بھی پروڈیوس کی جس کا نام تھا ’’شادی میرے شوہر کی‘‘۔

فلمی گیت

ترمیم

مسرور انور نے فلموں کے لیے وہ لازوال نغمے تحریر کیے جس کی مثال نہیں ملتی اور ان کی پسندیدگی کو بھی زوال نہیں آیا۔

مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو (دوراہا)

بیتے دنوں کی یادوں کو (آگ)

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم (ارمان)

کو کو کورینا، کو کو کورینا (ارمان)

اک ستم اورمیری جاں (صاعقہ)

یوںزندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی (صاعقہ)

اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے (احسان)

مجھے تم سے محبت ہے (ہیرا اور پتھر)

دنیا والو تمھاری دنیا میں (سوغات)

دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں (انجمن)

ملی نغمے

ترمیم

مسرور انور کا دل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا۔ ان کے دوست احباب بھی اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ سر سے لے کر پاؤں تک محب وطن تھے یہ اسی جذبے کا اعجاز تھا کہ انھوں نے عدیم النظیر ملی نغمے تحریر کیے۔ ان ملی نغمات نے مسرور انور کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں

جگ جگ جیے میرا پیارا وطن

وطن کی مٹی گواہ رہنا

’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ کوشہناز بیگم نے گایا تھا اور یہ ملی نغمہ پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔ اس حوالے سے مسرور انور کو بھی پاکستان کی ثقافتی پہچان کہاگیا۔

مسرور انور غزل بھی کہتے تھے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ

سب کے سامنے نام آئے گا تمھارا یہ کہانی پھر سہی

1992ء میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت کر وطن واپس لوٹی تو مسرور انور نے فوری طور پر ایک ترانہ تحریر کیا۔ جس کے بول تھے: اپنے کھلاڑیوں کو ہم کرتے ہیں سلام دل کی سبھی دعائیں عمران خاں کے نام اس ترانے کو معروف گلوکار اے نیئرنے لاہور ایئرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم تک گایا جس سے عوام بے حد مسرور ہوئے۔ واقعی مسرور انور نے ہر کسی کو مسرور کیا۔

وفات

ترمیم

یکم اپریل 1996ء کو مسرور انور باون برس کی عمر میں اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہو گئے۔

ایوارڈ اور اعزازات

ترمیم

1968ء میں انھیں فلم ’’صاعقہ‘‘ کے شاندار مکالمے لکھنے پر نگار ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

دیکھیے

ترمیم

مسرور انور، انگریزیآرکائیو شدہ (غیرموجود تاریخ) بذریعہ cineplot.com (نقص:نامعلوم آرکائیو یو آر ایل)