وحید مراد

پاکستانی فلمی اداکار

وحید مراد (اردو: وحید مراد) ( 2 اکتوبر، 1938ء - 23 نومبر، 1983ء ) ایک نامور پاکستانی فلم اداکار، پروڈیوسر اوراسکرپٹ رایٹر تھے۔ وحیدمراد جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ مشہور اور بااثر اداکاروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ وحید مراد کراچی میں پیدا ہؤے تھے۔ وہ فلم تقسیم کار نثار مراد کے اکلوتے بیٹے تھے۔ وحید مراد نے کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، Marie Colaco School کراچی سے میٹرک کیا، ایس ایم آرٹس سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔

وحید مراد
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 اکتوبر 1938ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ،  برطانوی پنجاب،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 نومبر 1983ء (45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (2 اکتوبر 1938–13 اگست 1947)
پاکستان (14 اگست 1947–23 نومبر 1983)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عادل مراد  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کراچی
کراچی گرائمر اسکول
سندھ مسلم گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ اداکار،  فلم ساز،  منظر نویس،  فلم ہدایت کار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نومبر 2010ء میں، انتقال کے 27 سال بعد، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ستارہ امتیاز ادب، فنون لطیفہ، کھیل، طب کے شعبوں میں ممتاز میرٹ کے لیے نوازا ۔

فلم کیریئر ترمیم

 
ہیرا اور پتھر (1964) میں وحید مراد اور زیبا

پروڈیوسر کے طور پر وحید مراد اپنے والد کے قائم شدہ فلم آرٹس کے تحت فلم انسان بدلتا ہے سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پروڈیوسر کے طور ان کی دوسری فلم جب سے دیکھا ہے تمھیں میں انھوں نے ہیروئین کے طور پر زیبا کو درپن کے ساتھ لیا- درپن نے زیادہ تر سٹوڈیو میں دیر سے آنا شروع کر دیا۔ زیبا نے ان کی اگلی فلم میں ہیرو کے طور پر خود وحید کی تجویز پیش کی۔ وحید خود اپنی فلموں میں بہ طور ہیرو کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مگر جب یہی تجویز اپنے پرانے اچھے دوست پرویز ملک سے آئی تو انھوں نے زیبا کے شریک اسٹار ہونے کی شرط رکھی، زیبا نے شرط قبول کر لی۔ نتیجے کے طور پر انھوں نے سب سے پہلی فلم 1962ء کی اولاد میں ایک سپورٹؤ کردار میں اداکاری کی۔ فلم میں ان کے دوست ایس ایم یوسف کی طرف سے ہدایت کاری کی گئی تھی۔ اولاد ناقدین کی طرف سے بہت زیادہ پسند کی گئی اور سال کی سب سے بہترین فلم کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا۔ ہیرا اور پتھر ہیرو کے طور پر ان کی پہلی فلم تھی اور ان کی بڑی کامیابی سمجھی گئی۔ انھیں اسی فلم کے لیے بہترین اداکار کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا۔[1]

1966ء میں، انھوں نے پرویز ملک کی ہدایات میں اپنی پروڈکشن ارمان میں کام کیا۔ ارمان نے اس وقت کے تمام باکس آفس کے ریکارڈز توڑ دیے اور تھیٹر میں 75 ہفتے مکمل کیے اور انھیں پاکستانی فلموں کا پہلا سپر اسٹار بنایا۔ فلم ایک رومانوی اور مدھر محبت کی کہانی ہے۔ خاص طور پر احمد رشدی کے گائے ہوئے کوکو کورینا، اکیلے نہ جانا، بے تاب ہو ادھر تم اور زندگی اپنی تھی ابتک جیسے گانے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ انھوں نے فلم ارمان کے لیے دو نگار ایوارڈز حاصل کیے، ایک بہترین پروڈیوسر اور دوسرا بہترین اداکار کے طور پر۔ اسی سال کے دوران، وہ زیبا کے ساتھ ایک سپرہٹ فلم جاگ اٹھا انسان میں اداکاری کی۔ یہ حقیقت ہے کہ وحید نے کئی دیگر اداکاراؤں کی طرح زیبا کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرکے اس کی ملک گیر شہرت میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔

1967ء میں، انھوں نے دیور بھابی، دوراہا، انسانیت اور ماں باپ جیسی لازوال فلموں میں معروف اداکاری کی۔ سینما گھروں میں 50 ہفتے مکمل کرنے والی فلم دیور بھابی ان کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ دیور بھابی کی کہانی، پاک بھارت کی فرسودہ سماجی خیالات و روایات پر مبنی ہے۔ انسانیت میں وحید نے ایک سرشار ڈاکٹر کا کردار ادا کیا ہے جو ان کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

1964ء سے 1968ء تک، وحید مراد اور پرویز ملک نے ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراھا اور جہاں تم وہاں ہم جیسے کامیاب فلم بنائیں۔ وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور، سہیل رانا، احمد رشدی اور زیبا کی کامیاب ملاپ نے ایک بڑی تعداد میں بہترین فلمیں بنائیں۔ وحید مراد فلم آرٹس کی چھتری کے تحت پرویز ملک، مسرور انور اور سہیل رانا آئے۔ لیکن 1960ء کی دہائی کے آخر میں، وحید مراد اور دیگر ’فلم آرٹس‘ کی ٹیم ارکان کے درمیان میں غلط فہمیوں میں اضافہ ہو گیا۔ پرویز ملک وحید کی فلموں کی کامیابی کا سارا کریڈٹ خود لینے اور دوسروں کو بہت کم پزیرائی دینے پر ناخوش تھے۔ تو یوں فلمی دنیا کے اس معروف گروپ کو توڑ دیا گیا اور پرویز ملک نے نئے اداکاروں کے ساتھ ان کے اپنے منصوبوں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ دو فلموں یعنی اسے دیکھا اسے چاہا اور دشمن، جو 1974ء میں 6 سال کی ایک طویل وقفے کے بعد بنائی گئیں جو ’فلم آرٹس‘ کے زیرِ پروڈکشن بھی نہیں تھیں، سمیت سات فلمیں وحید اور ملک کی کامیاب جوڑی نے بنائی۔

 
وحید مراد اور شبنم فلم عندلیب، 1969

1969ء میں، وحید نے فلم اشارہ بنائی، جسے اس نے بیکوقت پروڈیوس و ہدایت کاری و تحریر و اداکاری کی، مکر فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ 1969 میں فرید احمد کی ہدایت کردہ فلم عندلیب جاری کی گئی۔ جس میں دیگر شریک ستاروں میں شبنم، عالیہ، ظالش اور مصطفیٰ قریشی شامل ہیں۔ عندلیب سال کی سب سے بڑی فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔ فلم بینوں نے ان کی اداکاری بے حد پسند کی، بالخصوص احمد رشدی کا گایا ہوا گانا کچھ لوگ روٹھ کر بھی، جس میں وحید اپنی سرخ سپورٹس کار میں شبنم کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں چھیڑچھاڑ کر رہے ہیں، بے حد مقبول ہوا۔ وحید مراد نے فلم کے لیے بہترین اداکار کے زمرے میں نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ گلوکار احمد رشدی کا وحید مراد کی کامیابی میں اہم کردار تھا اور رشدی کی آواز خاص اسی کے لیے بنائی گئی تھی۔

1970ء سے 1979ء تک 1970ء کی نصیب اپنا اپنا اور انجمن جیسی سپرہٹ، 1971ء کی نیند ہماری خواب تمھارے اور مستانہ ماہی (وحید کی پہلی پنجابی فلم)، 1972ء کی بہارو پھول برساو، عشق میرا ناں (پنجابی فلم)، 1974ء کی شمع، 1975ء کی جب جب پھول، 1976ءکی شبانہ، 1978ء کی سہیلی، پرکھ اور خدا اور محبت اور 1979ء کی آواز اور بہن بھائی جیسی فلمیں سپرہٹ رہیں۔ مستانہ ماہی وحید کی پہلی پنجابی فلم تھی جو انھوں نے خود بنائی جبکہ افتخار خان نے ہدایت کاری کی تھی۔ مستانہ ماہی خالصتا ایک رومانٹک اور موسیقی سے بھرپور فلم تھی۔ وحید نے مستانہ ماہی میں بہترین اداکار کے لیے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔

ابتدائی 1970 کی دہائی کے دوران، چند اداکاراؤں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکارکر دیا۔ زیبا کو محمد علی کے ساتھ شادی کے بعد، وحید مراد کے ساتھ بطور نایکا کام کرنے کی پابندی لگ گئی تھی۔ جلد ہی شبنم کو اس کے نوبیاہتا شوہر روبن گھوش وحید کے ساتھ کام نہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں تک کہ نشو کو بھی اس کے ساتھ کام کرنے کی اجازت بھی نہیں رہی تھی۔ یہ وحید کی کیریئر کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ ایک خاص لابی کی اجارہ داری کی وجہ سے پائے کے پروڈیوسر و دائیرکٹرز نے وحید کو مرکزی کردار کی بجائے بطور معاون اداکار کے طور پر پیشکش کرنا شروع کر دیا۔ مزید یہ کہ ندیم کی 1970ء کی دہائی فلمیں وحید کو ایک سخت مقابلہ دے رہی تھی۔ لہٰذا وحید مرکزی کرداروں کے لیے دوسرے درجے کے ہدایت کاروں کی فلموں تک محدود رہ گئے، جس میں وہ ایک دقیانوسی رومانٹک ہیرو کا کردار کرتے ہوئے نظر آتے۔ ناگ منی (1972)، مستانی محبوبہ (1974)، لیلی مجنون (1974)، عزت (1975)، دلربا (1975)، راستے کا پتھر (1976)، محبوب میرا مستانا (1976) اور ناگ اور ناگن (1976) جیسی فلموں نے انھیں ناکامیوں کی گہرائیوں تک پہنچادیا۔ 1970 کی دہائی کے اخیر اور ابتدائی 1980 کی دہائی میں وحید پرستش (1977)، آدمی (1978)، خدا اور محبت (1978)، آواز (1978)، بہن بھائی (1979)، وعدے کی زنجیر (1979)، راجا کی آئی گی بارات (1979)، ضمیر (1980)، بدنام (1980)، گن مین (1981)، کرن اور کلی (1981)، گھیراو (1981) آہٹ (1982) اور مانگ میری بھردو (1983) جیسی فلموں میں ندیم یا محمد علی کے ساتھ بطور معاون اداکار کے طور پر محدود رہ گئے۔ ہیرو (1985) اور زلزلہ (1987) ان کی موت کے بعد ریلیز کی گئیں۔ ان کی غیر رلیز شدہ یا نامکمل فلمیں مقدر، آنکھوں کے تارے، آس پاس اور انداز تھیں۔ ہیرو ان کے قریبی دوست اقبال یوسف کی طرف سے ہدایت کردہ وحید کی زندگی کی آخری فلم تھی۔ فلم 1985 میں وحید کی موت کے تقریباً دو سال کے بعد جاری کی گئی تھی۔ ایک اور وحید کی تاخیری فلم زلزلہ بھی جو اقبال یوسف کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی، جسے 1987 ء میں ان کی موت کے 4 سال کے بعد ریلیز کی گئی تھی۔ زلزلہ تاہم باکس آفس پر کچھ نہ کرسکی مگر ہیرو ان کی کامیاب فلموں میں سے ایک تھی اور اس نے کراچی کے سینماوں میں 25 ہفتے مکمل کیے۔

وحید مراد نے اپنے 25 سالہ کیریئر میں زیبا، شمیم آرا، رانی، نغمہ، آلیہ، سنگیتا، کویتا، آسیہ، شبنم، دیبا، بابرہ شریف، رخسانہ، بہار اور نیلو جیسی اداکاراؤں کے ساتھ فلموں میں جوڑی بنائی۔ انھوں نے کل 124 فلموں میں کام کیا جن میں 38 بلیک اینڈ وھائیٹ اور 86 رنگین فلموں ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے 6 فلموں میں بطور مہمان اداکار کام کیا، جن میں ان کے کیریئر کی پہلی فلم ساتھی، جو 1959 میں ریلیز ہوئی تھی، بھی شامل ہے۔ انھوں نے 115 اردو فلموں، 8 پنجابی فلموں اور 1 پشتو فلم میں کام کیا اور بطور بہترین پروڈیوسر اور بطور بہترین اداکار کے طور پر 32 فلم ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے علاوہ انھیں 2010 میں صدارتی ایوارڈ ’ستارۂ امتیاز‘ سے بھی نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کی بیوہ سلمہ مراد نے حاصل کیا۔[2]

ذاتی زندگی ترمیم

وحید مراد کراچی میں 2 اکتوبر، 1938ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ مشہور پاکستانی فلم ڈسٹری نثار مراد اور ان کی اہلیہ شیریں مراد کی واحد اولاد تھے۔ بچپن میں اپنے والد کے پاس باقاعدگی کے ساتھ آنے والے نامور اداکاراوں سے متعارف ہونے سے وحید مراد میں اداکاری کرنے کے لیے حوصلہ ملا۔ بچپن میں وہ گردن پر گٹار لٹکانے اور اپنے دوستوں میں ایک اچھے ڈانسر کے طور پر مشہور تھے۔ انھوں اسکول کی کئی ڈراموں میں حصہ لیا جس نے انھیں بچپن میں مزید شہرت دی۔ ان کے بہترین دوست پرویز ملک اور اقبال یوسف نے بھی وہی پیشہ اپنایا جو وحید نے اپنایا تھا اور پھر ساری زندگی وہ اس سے منسلک رہے۔ وحید نے Marie Colaco School کراچی سے 1954ء میں میٹرک پاس کیا۔ فلمی کیرئیر میں آنے کے لیے بے تاب وحید کو والدین نے پہلے اسے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کہا۔ وحید نے ایس ایم آرٹس کالج کراچی میں میں گریجوایشن کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز مکمل کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے ماسٹرز کیے ہوئے ہیرو تھے۔ اتنے مضبوط تعلیمی پس منظر اور فلمی گھرانے نے وحید مراد کو دیگر فلم سازوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور ظاقتور اداکار کے طور پر لا کھڑا کر دیا۔

وحید مراد اور پرویز ملک بچپن کے دوست تھے۔ گریجوئشن کے بعد دونوں نے اپنے والدین سے بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کی خواہش ظاہر کی۔ مگر وحید اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے، انھیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہ مل سکی، البتہ پرویز ملک فلم پروڈکشن میں ماسٹرز کرنے کیلیفورنیا، ریاست ہائے متحدہ امریکا چلے گئے۔ ادھر وحید نے بھی کراچی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کے لیے داخلہ لے لیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے ماسٹرز ڈگری رکھنے والے اداکار تھے۔ چار سال بعد جب پرویز ملک وطن لوٹے تو ملک کے واحد ہدایت کار بن گئے جنھوں نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے فلم پروڈکشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

وحید مراد کے والدین کراچی کے میمن صنعتکار ابراھیم میکر کی بیٹی سلمی' کو پسند کرتے تھے چنانچہ والدین کی مرضی سے وحید مراد کی شادی جمعرات 17 ستمبر، 1964ء کو منعقد ہوئی۔ شادی کی تقریب طارق روڈ کراچی میں نثار مراد کے گھر میں منقعد کی گئی جس میں گلوکاری کے لیے کوششیں کرنے والے نذیر بیگ ( بعد کے فلمسٹار ندیم نے گانے گائے.. ۔ وہ گھر پر ’بی بی‘ کے نام سے اپنی بیوی سے پکارا کرتے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں (عالیہ اور سعدیہ) اور ایک بیٹے عادل تھے۔ سعدیہ بچپن میں انتقال کرگئی تھی۔

جدوجہد کے دن ترمیم

1970ء کی دہائی کے اخیر میں وحید ندیم یا محمد علی کے ساتھ بطور معاون اداکار کے طور پر یا ' بی کلاس' فلم ڈائریکٹرز کی طرف سے پیش کی جا نے والی فلموں بطور اداکار کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ زیبا، شبنم اور نشو جیسی معروف نایکاوں کے شوہروں کی طرف سے وحید کے ساتھ لیڈ کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وحید مراد اس طرح کی ایک بدترین برتاو کو برداشت نہ کر پا رہے تھے، لیکن خاموش رہے اور اپنے دوستوں سے مدد طلب نہیں کی۔ ستر کی دہائی میں مضبوط بن جانے والے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پرویز ملک نے ایک مقامی اخبار میں لکھا: "اس دوران میں ایک بار بھی وحید میری فلموں میں کام کی تلاش میں میرے پاس نہیں آئے۔" وحید اداس ہوتا جا رہا تھا۔ ان کے قریبی دوست نے انکشاف کیا کہ وہ شراب، تمباکو نوشی اور نیند کی گولیوں کے عادی ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی گھریلو زندگی کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی بیوی سلمی ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لیے چھوڑ گئی۔ بری عادتوں اور کشیدگی کی ایک مجموعہ نے 1981ء میں وحید کی پیٹ میں ulceration کا وجہ نی۔ ان کو خون کی کمی سے نقصان اٹھانا پڑا اور ان کی زندگی کو بچانے کے لیے ulcer ہٹانے کے لیے آپریشن سے گذرنا پڑا۔ اس کے بہت سے پرستار اپنے پسندیدہ ہیرو کی زندگی بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینے ہسپتال آئے۔ وہ ٹھیک ہوا، اگرچہ، وزن کی ایک قابل ذکر رقم کھو دی۔ اس مشکل وقت میں حقیقی دوست ثابت ہوا اقبال اختر اور اقبال یوسف، جنھوں نے اپنی فلموں میں وحید مراد کو لیا۔ دل نے پھر یاد کیا اور گھیراو میں وحید کی حالت قابل رحم نظر آتی ہے۔ یہ چیز اس کے پرستاروں نے بھی محسوس کی۔

 
وحید مراد اپنی آخری فلم ہیرو (1985) میں بابرہ شریف کے ساتھ

1983ء میں انور مقصود، ایک مشہور ٹی وی مصنف اور اینکر اور وحید کے ایک قریبی دوست، نے ٹی وی کے اپنے مزاحیہ شو سلور جوبلی مین وحید کو مدعو کیا۔ صرف 90 پونڈ میں، وحید نے کسی پنسل کی طرح پتلے نطر آتے ہوئے ایک بہادر انسان کے طور پر سامنے پیش ہونے کی کوشش کی۔ تاہم مبصرین دیکھ سکتے ہیں کہ وحید اپنے ماضی کی طرح عوام پر ایک سحر قائم کرنے میں ناکام رہے۔ صرف عالمگیر کے گانے تمھیں کیسے بتادوں کے دوران میں وحید اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ ماضی میں کھوئے ہوئے نظر آئے۔

بابرہ شریف، اس وقت کی سب سے اوپر کی اداکارہ، ہیرو کے ایک منظر کی فلم بندی کے دوران میں وحید اس کی طرف تیزی سے چلنے ہوئے آئے کہ ان کا توازن کھو گیا، ان کو ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے اپنی سانس کو بحال کرنے میں کئی منٹ لگے۔

جولائی 1983ء میں وحید بہت تیزی سے گاڑی چلا رہا تھے، جو ان کے پسندیدہ شوق تھا کہ ان کی گاڑی ایک بڑے درخت سے ٹکراگئی۔ وحید بہت مشکل سے بچے لیکن ان کے چہرے پر ایک بڑا نشان چھوڑ گیا تھا۔ حادثے کے کچھ دنوں کے بعد، وحید نے ایک کردار کے لیے اپنے دوست پرویز ملک سے پوچھا۔ ملک چانتے تھے کہ وحید اس حالت میں اداکاری کے لیے تیار نہیں۔ یہ جان کر اس نے کہا کہ"ویدو تم صحیح ہوجاو اور میں تم کو اپنی اگلی فلم میں لیڈ لو گا۔" اپنے تیز دماغ سے وحید نے جواب دیا "تم مجھے رول دو اور میں صحیح ہوجاوں گا۔" اس وقت وہ اپنے داغ کا علاج کرانے کراچی جا رہے تھے تاکہ وہ اپنی فلم ہیرو کے چند آخری سینز ریکارڈ کراسکیں۔[3] ہوائی اڈے پر ان کی ملاقات فلم میگزین ’نگار‘ کے چیف ایڈیٹر الیاس رشیدی سے ہوئی۔ رشیدی اپنے میگزین میں لکھتے ہیں:

"اسی موقع پر ایک مشہور فلم پروڈیوسر بھی انتظار کر رہے تھا اور اس نے وحید کو جاوید شیخ کے والد کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔۔ پروڈیوسر کا وحید کو چکما دینا بہت مشکل تھا۔"

پرواز کے دوران میں وحید بہت کڑوا تھا۔ اس نے الیاس کو بتایا کہ وہ بدر منیر جو ان کا گاڑی ڈرائیور تھا کے ساتھ ایک پشتو فلم میں کام کرنے تک رہ گیا ہے۔

آخری دن اور موت ترمیم

وحید کے بیٹے عادل مراد نے اپنے نانی کے ساتھ کراچی میں تھا۔ چہرے کی سرجری سے ایک دن پہلے، وحید نے اس کی سالگرہ منائی۔ انھوں نے عادل کے لیے تحفہ خریدا اور ایک خوش سال کی تمنا کی۔ وہ انیتا ایوب کی ماں ممتاز ایوب کے گھر میں رات گزارنے کرنے کے لیے دیر سے واپس آئے۔ صبح جب وحید دیر تک نہیں جاگا، دروازہ توڑ کر کھولا گیا تو وحید مردہ فرش پر پڑا پایا گیا۔ اس کے پان میں 'کچھ' پایا گیا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ دل کا دورہ تھا یا کوئی خود کش۔ وحید گلبرگ قبرستان، علی زیب روڈ، لاہور میں اپنے والد کی قبر کے قریب دفن کیے گئے۔

چند ماہ ان کی موت سے پہلے، وحید مراد کے ساتھ ساتھ دیگر اداکاروں اور گلوکاروں نے احمد رشدی کو خراج تحسین پیش ادا کرنے کے لیے ایک شو منقعد کیا تھا، چھ مہینے بعد یہی لوگ وحید کی موت پر ایک شو منقعد کر رہے تھے۔

ورثہ ترمیم

وحید کا عروج و زوال ایلوس پریسلے کی طرح ہے۔ بقول فلمی ناقدین کے دونوں اپنی ابتدائی زندگی میں کامیابیوں کی انتہا کو چھو لیا، مگر پھر جب گرے تو بری طرح گرے اور یک دم اچانک اموات ہوئیں۔ بلاشبہ وحید مراد ابتدائی کامیابیوں میں ملک کے سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیت ہونے کا لطف اٹھایا اور پھر ایلوس کی طرح زوال کا شگار ہوئے اور پھر اچانک اس کوچہ فانی سے چلے گئے۔ ان کی فلموں کو آج بھی بار بار فلم فیسٹیول، سینما گھروں اور ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔

’وحید پیدائشی ہیرو تھا۔‘ الیاس رشیدی

’ان کی اتنی فلمیں دیکھنے کے بعد میں یہ مانتا ہوں کہ وہ ایک عظیم اداکار تھا اور میں ان کی بے مثال اداکاری کو پسند کرتا ہوں۔‘ راجیش کھنہ

’"وحید مراد ایک فرد نہیں تھا بلکہ وہ ایک دور تھا جسے ابتدائی 1980 کے دہائی میں فلمی صنعت پر قبضہ کر نے والے لوگوں نے ایک کونے میں لگا دیا تھا۔۔۔ وہ ایک عظیم اداکار تھے جس نے رومانٹک ہیرو کی بہترین تصویر پیش کی۔ ان میں موسیقی کی اچھی حِس تھی اور گانوں کی عکس بندی میں وہ منفرد تھے۔" غلام محی الدین

لہری، ایک پاکستانی فلم کامیڈین، نے کہا کہ:

"وہ ایک عظیم ساتھی، ایک ناقابل فراموش دوست اور پیسے اور قسمت کے دھنی شائستہ آدمی تھا۔"

حال ہی میں ہالی ووڈ فلم Agent Cody Banks 2: Destination London میں اداکارہ Leilah Isaac اسحاق کے کردار Sabeen نے وحید مراد کو یاد کیا۔ Frankie Muniz ایجنٹ کوڑی بینکس کا کردار ادا ک رہا ہے اپنے ساتھیوں کو بتا رہا ہے کہ وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے، جس پر نائیجیریا کا لڑکا (مذاقتا) کہتا ہے کہ وہ Spiderman ہے، جبکہ دوسری لڑکی کہتی ہے کہ وہ Lara Croft ہے۔ جیسا کہ ہر ساتھی اپنی پسندید کرداروں سے اپنے آپ کو تشبیہ دینے لگا۔ Sabeen نے کہا: ’اور وہ وحید مراد ہے!‘، جس پر لوگ نے پوچھا: ’کیا؟‘ تو وہ بولی:’ایک مشہور انڈین اداکار!‘

"وحید مراد ایک شاندار اداکار اور شاید Lollywood کے سب سے بہترین اداکار تھے۔ فلموں میں ان کی ناکامی ٹیلنٹ کی کمی کی وجہ سے نہیں۔ اصل میں، وہ پاکستان میں سب سے زیادہ سجیلا اور اصل اداکار تھا۔ انھوں اپنے ٹیلنٹ سے معمولیاسکرپٹ کو چمکا کر فلمی صنعت کے امیج کو بہتر کیا، مگر بدلے اس نے ان کو بری قسمت سے نوازا۔ ان کی اپنی مضبوط شخصیت اور دلربا اداکاری نے انھیں برباد کر دیا۔ تاہم وہ اب بھی شائقین کے لاکھوں کے دلوں میں رہتا ہے۔ اس کی بیٹی آلیہ کہتیں ہیں: "اگر ابو جانتے کہ انھیں اتنا پسند کیا جاتا تو وہ نہیں مرتے۔"

وحید مراد کے حاصل کردہ ایوارڈز ترمیم

وحید مراد کے حاصل کردہ ایوارڈز

وحید مراد کی فلمیں ترمیم

وحید مراد کی فلمیں

وحید مراد پر فلمائے گئے گانے ترمیم

وحید مراد پر فلمائے گئے گانے

حوالہ جات ترمیم

  1. "وحید مراد"۔ 29 جولا‎ئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2012 
  2. وحید مراد
  3. "وحید مراد سے منسلک 101 حقائق"۔ 26 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2014 

بیرونی روابط ترمیم