مشرق وسطی میں سزائے موت
سزائے موت کو بیش تر مشرق وسطی کے ممالک میں قانونی طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔ اس خطے میں سزائے موت کے باقی رہنے کے محرکات زیادہ تر مذہبی ہیں، کیوں کہ کئی جرائم کے سلسلے میں قرآن اس کی اجازت یا اس کا حکم دیتا ہے۔
انسداد اور منسوخی
ترمیماسرائیل
ترمیمتقریبًا تمام موت کی سزائیں 1954ء کی قانون سازی کے بعد ہٹا دی گئی تھیں سوائے ان سنگین جرائم کے جو جنگ کے وقت انجام دیے گئے ہوں۔ ملک میں آخری سزائے موت جو عدلیہ کی رو سے انجام پائی تھی، وہ ایڈولف ایچمن کی تھی، جو 1962ء میں مرگ انبوہ میں اس کے کردار کی وجہ سے دی گئی تھی۔ سبھی مزید موت کی سزاؤں پر روک لگا دی گئی ہے اور یہودی مذہبی قانون ربیوں کے لیے بھی سزائے موت پر گفتگو کر مشکل بنا دیتا ہے۔ [حوالہ درکار]
ترکی
ترمیمترکی میں 2004ء میں مکمل پر سزائے موت کو سبھی جرائم کے لیے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ [حوالہ درکار]
منسوخی کی وکالت
ترمیمکوششیں
ترمیم2008ء میں لبنان میں اس وقت کے وزیر انصاف ابراہیم نجار نے ایک قانون کا مسودہ پارلیمان میں پیش کیا تھا تاکہ سزائے موت کو منسوخ کر دیا جا سکے۔[1] حالانکہ یہ قانون پارلیمان کی جانب سے منظور نہیں کیا گیا، ابراہیم نے منسوخی کی کوشش اپنی وزارتی میعاد کے دوران جاری رکھی۔[2]
فاروق قسنطينی، انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے الجزائر کے قومی مشاورتی کمیشن کے صدرنشین نے 2010ء میں کہا کہ وہ سزائے موت کی منسوخی کے لیے وکالت کریں گے۔ اس کی وجہ ملک کے اسلام پسند گروہ مشتعل ہو گئے تھے۔[3]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Najjar presents draft law to abolish death penalty"۔ The Daily Star۔ October 11, 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2017
- ↑ Josie Ensor (August 29, 2009)۔ "Justice Ministry campaigns to abolish death penalty"۔ The Daily Star۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2017
- ↑ Ademe Amine (2010-03-11)۔ "Algeria resurrects death penalty debate"۔ Maghrebia۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2017