لبنان

ایشیا میں ایک ملک
  

لبنان یا جمہوریہ لبنان (عربی: لُبْنَان Lubnān)، سرکاری نام لبنانی جمہوریہ (عربی: الْجُمْهُورِيَّة اللُّبْنَانِيَّة al-Jumhūriyya l-Lubnāniyya) مغربی ایشیا میں مشرقی بحیرہ روم کا ایک اہم عرب ملک ہے۔ یہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سوریہ، جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرہ روم واقع ہے۔ یہ خوبصورت ملک اپنے خوشبودار سیبوں، دیودار کے قدیم درختوں اور زیتون کے باغات کے لیے مشہور ہے۔ اس کے جھنڈے پر بھی دیودار کا درخت بنا ہوا ہے جو لبنان کا قومی نشان بھی ہے۔ لبنان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے مگر مسیحی دولت اور اقتدار پر قابض ہیں جو لبنان کی خانہ جنگی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ 1932 کے بعد مردم شماری بھی نہیں ہونے دی گئی جس کے بعد ممکنہ طور پر مسلمانوں کو اقتدار میں زیادہ حصہ مل سکتا ہے۔ 1975 کی خانہ جنگی سے پہلے لبنان کو مشرق وسطیٰ کا پیرس اور مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا۔ اس وقت لبنان کی بینکاری اور سیاحت اپنے عروج پر تھی۔

لبنان
لبنان
لبنان
پرچم
لبنان
لبنان
نشان

 

شعار
(انگریزی میں: Lebanon Passion for Living ویکی ڈیٹا پر (P1451) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترانہ:  لبنانی قومی ترانہ  ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 33°50′00″N 35°46′00″E / 33.833333°N 35.766667°E / 33.833333; 35.766667  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت بیروت  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان عربی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
اعلی ترین منصب نجیب میقاتی  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت حسان دیاب (21 جنوری 2020–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 22 نومبر 1943  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت 00 (معیاری وقت)
متناسق عالمی وقت+03:00 (روشنیروز بچتی وقت)
مشرقی یورپی وقت (معیاری وقت)
مشرقی یورپی گرما وقت (روشنیروز بچتی وقت)  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم lb.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 LB  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +961  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

تاریخ ترمیم

لبنان کا تقریباً تمام علاقہ ساحل سمندر سے بہت قریب ہے اور قبل از تاریخ سے آباد رہا ہے۔ اس کی تاریخ بجا طور پر انسانی تاریخ کہلائی جا سکتی ہے۔ انسان کے لکھنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔ پہلے پہل جہاز رانی بھی انھوں نے شروع کی۔ لبنان کے پہلے دور کے لوگ فنیقی کہلاتے ہیں اور یہی فنیقی تھے جنھوں نے حروف ایجاد کیے۔ انھیں سامی بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں بے شمار انبیا مبعوث ہوئے۔ کئی تہذیبوں نے جنم لیا۔ پچھلے کچھ سالوں میں بیروت کی تعمیر نو کے دوران میں جہاں بھی کھدائی کی جاتی تھی، کسی قدیم تہذیب کے آثار برامد ہو جاتے تھے۔ قدیم تہذیبوں کے آثار بیروت، صیدا، بعلبک، صور اور تریپولی سے ملتے ہیں۔ 3000 سال قبل فنیقی اپنے عروج پر تھے جو اعلیٰ درجے کے جہاز ران اور تاجر تھے۔ انھوں نے حروف کا استعمال شروع کیا جس کے حروف تہجی تھے۔ ان کی تجارت اسیریا اور بابل کے ساتھ تھی۔ مگر تعلقات اچھے نہ تھے اور کئی دفعہ جنگ کی نوبت بھی آتی تھی۔ اس علاقے کو فارس والوں نے کئی مرتبہ فتح کیا۔ سکندر اعظم کی فوجوں نے اسے تاراج کیا۔ پہلی صدی عیسوی میں رومن افواج ان پر چڑھ دوڑیں۔ مسلمانوں نے بھی انھیں فتح کیا۔ جدید دور میں فرانس نے اس پر قبضہ کیا مگر یہ مکمل طور پر کسی کے قابو نہیں آئے لیکن انھوں نے ان تمام تہذیبوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ اسی کیے آج لبنان ایک ایسا ملک ہے جس میں آپ مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ملک ایشیا کے آخری سرے پر یورپ کے قریب واقع ہے اس لیے اسے ہم مختلف تہذیبوں کا مرقع کہہ سکتے ہیں۔ ایک بات جو ان میں برقرار ہے وہ ان کی آزادی سے محبت اور جنگجو ہونا ہے۔

 
شہر صور (Tyre) کے کھنڈر

چونکہ یہ ایک دشوار پہاڑی علاقہ تھا اس لیے ہر دور میں اس میں حکومت وقت کے مخالفین پناہ لیتے تھے۔ کبھی مارونی مسیحی یہاں پناہ لیتے تھے تو کبھی دروز لوگ اسے اپنا گھر قرار دیتے تھے اور کبھی مسلمان شیعہ اس میں حکومت وقت سے جان بچانے کے لیے پناہ لیتے تھے۔ عثمانی سلطنت کے دور میں یورپی اقوام نے ایک معاہدہ کے تحت یہاں تبلیغ کی اجازت لے لی تھی جو ترکی خلافت نے دی تھی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ترکی خلافت کے زمانے ہی میں یہاں ایک آزاد مارونی مسیحی علاقہ قائم ہو گیا تھا۔ 1120–1697 کے دوران مان خاندان کی حکومت رہی جس نے اسے صلیبیوں سے بچائے رکھا۔ 1697–1842 کے دوران میں شہاب خاندان کی حکومت تھی۔ اس دوران میں اس علاقے کی تجارت میں بہت اضافہ ہوا۔ خاص طور پر ریشم کی تجارت یورپ سے ہوتی تھی۔ چونکہ اشیائے تجارت فرانس کی بندرگاہ مارسیلز (ماغسائی) کے راستے ہوتی تھی اس لیے آہستہ آہستہ اس علاقے میں فرانسیسی اثرورسوخ بڑھنا شروع ہو گیا۔ فرانس اور برطانیہ نے لبنان کے حکمران شہاب خاندان کے خلاف ایک طرف تو ترکی کو ابھارا اور دوسری طرف لبنان کے مارونی مسیحیوں، دروز اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے لبنان میں دولت خرچ کی حتیٰ کہ لبنان میں بغاوت اور خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ جس کا فائدہ عثمانیوں نے اٹھایا اور لبنان پر اپنا اقتدار مکمل طور پر قائم کر لیا مگر فرانس کے اثر کے ساتھ ساتھ۔ عثمانیوں نے لبنان کو مسیحی اور دروز ضلعوں میں تقسیم کر دیا۔ مگر خانہ جنگی کو ختم نہیں کیا جا سکا جس کی بنیادی وجہ فرانس کی مارونی مسیحیوں کی مسلسل امداد تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور لبنان کے پانچوں اضلاع کو جمعیت الاقوام یا لیگ آف نیشنز (جو بعد میں اقوام متحدہ بن گئی) نے فرانس کو سونپ دیا۔ فرانس نے حسب سابق مارونی مسیحیوں کو ہر معاملہ میں آگے رکھا۔ اس وقت لبنان میں مسلمان ستاون فیصد، مسیحی چالیس فیصد اور دروز تین فیصد تھے۔ اقتدار مسیحیوں کو سونپنے کے لیے فرانس نے مسیحیوں کو تو چالیس فیصد شمار کیا مگر مسلمانوں کو الگ الگ قوم (شیعہ اور سنی) کی حیثیت سے شمار کیا۔ یوں مسیحی چالیس فیصد، شیعہ مسلمان تیس فیصد اور سنی مسلمان ستائیس فیصد ٹھیرے۔ یہ اعداد و شمار 1932 کی مردم شماری کے مطابق ہیں جس کے بعد آج تک لبنان میں کوئی مردم شماری نہیں ہونے دی گئی کیونکہ اب مسلمان بڑی واضح اکثریت میں ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ چونکہ مسیحی اکثریت میں ہیں اس لیے صدر مسیحی ہوگا۔ یاد رہے کہ لبنان کے قوانین کے مطابق صدر کے پاس ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ وزیر اعظم اور سپیکر سنی اور شیعہ مسلمان ہوں گے۔ لبنان نے 1943 میں فرانس سے آزادی حاصل کی جس وقت فرانس پر جرمنی نے قبضہ کر لیا تھا۔[4]

جغرافیہ اور موسم ترمیم

 
وادی کدیشہ۔لبنان

لبنان بحیرہ روم کے کنارے واقع مشرق وسطیٰ کا ایک ملک ہے جس کا زیادہ حصہ سمندر کے کنارے کے قریب ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت صفر درجہ سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور بعض اوقات شدید برف باری ہوتی ہے اور پہاڑ اور درخت برف سے ڈھک جاتے ہیں۔ گرمیاں عام طور پر گرم اور خشک ہوتی ہیں۔ لبنان کا زیادہ علاقہ پہاڑی ہے۔ صرف وادی بقاع کا علاقہ میدانی ہے جہاں زراعت ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد کے ممالک کی نسبت لبنان میں بارش کی سالانہ اوسط زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک سرسبزوشاداب ملک ہے۔ کسی زمانے میں وہاں دیودار کے گھنے جنگل تھے جو کسی حد تک اب بھی پائے جاتے ہیں۔ لبنان میں بعض درخت پانچ ہزار سال پرانے ہیں جن کو ایک قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ لبنان کے جنوب میں اسرائیل ہے جس کے ساتھ لبنانی سرحد 79 کلومیٹر ہے اور مشرق اور شمال میں شام واقع ہے جس کے ساتھ لبنانی سرحد 375 کلومیٹر ہے۔، [5]

معیشت ترمیم

لبنان کی سرزمین زراعت کے لیے موزوں ہے مگر زراعت پر انحصار نہیں کرتی۔ افرادی قوت کا صرف 12 فی صد زراعت سے متعلق ہے جو خام ملکی پیداوار ( GDP) کا صرف 11.7 فی صد پیدا کرتے ہیں۔ صنعت بھی لبنان کے لیے کبھی مناسب نہیں رہا کیونکہ اس کے پاس خام مال کی کمی ہے اور تیل کے لیے بھی دوسرے عرب ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ صنعت کا خام ملکی پیداوار میں حصہ 21 فی صد ہے جبکی وہ 26 فی صد افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً لبنان نے اشیاء کی جگہ خدمات کی پیداوار میں بہت ترقی کی جیسے بینکاری، سیاحت، تعلیم وغیرہ۔ خام ملکی پیداوار کا 67 فی صد پیدا کر کے یہ شعبہ 65 فی صد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہ شعبہ بڑا حساس ہے اور خراب ملکی اور بین الاقوامی صورت حال سے فوراً اثر قبول کرتا ہے۔ اس لیے 1975 تک تو لبنان نے بڑی ترقی کی۔ ساٹھ کی دہائی میں لبنان کے دار الحکومت بیروت کو ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا۔ مگر 1975 کی خانہ جنگی نے اس شعبہ کو برباد کر دیا۔ خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد کچھ عرصہ میں پھر لبنان نے زبردست ترقی کی مگر حالیہ لبنان۔ اسرائیلی جنگ (2006) نے پھر لبنان کی ترقی کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انتظامی تقسیم ترمیم

محافظات اور اقضيۃ (صوبے اور اضلاع) ترمیم

 
محافظات لبنان

لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ چند گھنٹے میں آپ ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک جا سکتے ہیں مگر حقیقتاً لبنان مختلف قومیتوں اور نسلوں پر مشتمل ہے اور اکثر ان کے علاقے بھی الگ الگ ہیں۔ مثلاً جنوب کے علاقے میں نوے فی صد شیعہ رہتے ہیں، جبل لبنان میں سنی اور کچھ مسیحی ہیں اور بیروت ایک مشترکہ علاقہ ہے۔ لبنان کے چھ حصے ہیں جن کو محافظات کہا جاتا ہے۔ ہر محافظۃ (ہم اسے صوبہ کہہ سکتے ہیں) کو اقضيۃ (اضلاع) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر قضاء (ضلع) کو مختلف بلدیہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کی تفضیل کچھ اس طرح ہے۔

1. محافظۃ بيروت

بیروت کا کوئی قضاء یا
ضلع نہیں ہے بلکہ یہ خود ہی
اس محافظۃ کا اکلوتا ضلع ہے۔

2. محافظۃ جبل لبنان
  • قضاء جبيل
  • قضاء كسروان
  • قضاء المتن
  • قضاء بعبدا
  • قضاء عاليۃ
  • قضاء الشوف
3. محافظۃ الشمال
  • قضاء طرابلس
  • قضاء المنيۃ - الضنيۃ
  • قضاء زغرتا - الزاويۃ
  • قضاء البترون
  • قضاء الكورۃ
  • قضاء عكار
  • قضاء بشري
4. محافظۃ البقاع
  • قضاء بعلبك
  • قضاء الھرمل
  • قضاء زحلۃ
  • قضاء البقاع الغربي
  • قضاء راشيا
5. محافظۃ النبطيۃ
  • قضاء النبطيۃ
  • قضاء حاصبيا
  • قضاء مرجعيون
  • قضاء بنت جبيل
6. محافظۃ الجنوب
  • قضاء صيدا - الزھراني
  • قضاء صور
  • قضاء جزين

مشہور شہر ترمیم

لبنان کے مشہور شہروں میں بیروت، صور، صیدا، تریپولی اور بعلبک شامل ہیں۔ بیروت سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ تمام شہر انتہائی قدیم زمانے سے قائم ہیں۔ چونکہ لبنان ایک بڑا ملک نہیں اس لیے یہ شہر ایک دوسرے سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہیں۔

ثقافت ترمیم

لبنانی ثقافت بہت سی تہذیبوں کا مرقع ہے۔ ان میں فنیقی، اشوری، فارسی، یونانی، رومی، عرب، ترک، فرانسیسی اور خود پرانی لبنانی ثقافت شامل ہے۔ مسیحیت اور اسلام دونوں کے رسم و رواج نظر آتے ہیں۔ زبانوں میں نمایاں عربی مگر ساتھ ساتھ آرمینیائی، فرانسیسی اور انگریزی کا اثر ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ لوگ پڑے لکھے ہیں۔ لبنان کے کھانے بھی بہت مشہور ہیں۔ مسیحی آبادی میں ناچ گانے کا بھی رواج ہے جو مسلمانوں میں بھی پھیل رہا تھا مگر حزب اللہ کی تبلیغ سے اب یہ پھیلاؤ رک چکا ہے۔ لبنان کی موسیقی عرب دنیا میں بہت مقبول تھی مگر اب اس کی جگہ مصری موسیقی اور فلم لے چکی ہے۔ آرٹ کے علاوہ لبنانی شاعری اور ادب بھی اچھا مقام رکھتی ہے۔ مشہور فلسفی اور شاعر جبران خلیل جبران کا تعلق لبنان ہی سے تھا۔ اس کے علاوہ لبنان کتابوں کی طباعت میں بھی شہرت رکھتا ہے۔ عرب دنیا میں چھپنے والی بیشتر کتابیں لبنانی ناشرین چھاپتے تھے اور اب مصر بھی اس مقام میں لبنان کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔

سیاست ترمیم

لبنان میں 1932 کے بعد کوئی مردم شماری نہیں ہوئی۔ یہ مردم شماری فرانس نے شناختی کارڈ کی بنیاد پر کروائی تھی۔ بہت سے مسلمانوں اور دروز نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے تھے کیونکہ ان کے خیال میں شناختی کارڈ بنوانے کا مطلب فرانس کے قبضے کو تسلیم کرنا تھا۔ اس بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ صدر جس کے پاس اصل طاقت ہوتی ہے وہ مارونی مسیحی، نائب وزیر اعظم آرتھوڈوکس مسیحی، وزیر اعظم سنی مسلمان اور سپیکر شیعہ مسلمان ہو گا۔ اب مسلمانوں کی تعداد مسیحیوں کی نسبت بہت زیادہ ہو چکی ہے اس لیے صاحب اقتدار مسیحی مردم شماری نہیں ہونے دیتے۔ پارلیمنٹ کی سیٹیں حتیٰ کہ مختلف جامعات میں داخلے بھی اسی مردم شماری کے تحت ہوتے ہیں۔ لبنان میں شام کا اثر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا۔ شام کی فوج کافی عرصہ تک لبنان میں رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل، امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ شام اپنی فوج لبنان سے نکالے۔ جونہی شام نے اپنی فوج لبنان سے نکالی، اسرائیل نے دو فوجی رہا کروانے کا بہانہ کرکے 2006 میں لبنان پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اسرائیل اور لبنان کی تنظیم حزب اللہ ایک دوسرے کے فوجی قید کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کا لبنان یا لبنان کے جنوبی حصہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ لبنان کے شیعہ اور سنی دونوں نے اتحاد قائم رکھا اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کا شکار نہیں ہوئے۔ جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے یا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران پر ممکنہ حملہ کے بعد حزب اللہ ردِ عمل کے طور پر اسرائیل کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ یاد رہے کہ ایران اور حزب اللہ کے بڑے گہرے تعلقات ہیں اور دوسری بات یہ کہ لبنان کی اپنی فوج نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2006 کی لبنان۔اسرائیل جنگ کے بعد فی الحال حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکا۔ اور وہ خطے میں ایک بڑی اور مقبول طاقت کے طور پر مانی جاتی ہے۔

لبنان کی خانہ جنگی ترمیم

لبنان کا نظامِ حکومت انصاف پر مبنی نہیں ہے اس لیے یہ ایک قدرتی امر ہے کہ خانہ جنگی ہوگی۔ 1975 میں لبنان میں مسیحیوں اور مسلمانوں، جو نسبتاً غریب تھے، کے درمیان میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ یہ خانہ جنگی تقریباً پندرہ سال جاری رہی جس میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس دوران میں اسرائیل نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو دفعہ لبنان پر حملہ کیا اور سن 2000 تک جنوبی لبنان پر قابض رہا۔ 2000 میں حزب اللہ کے گوریلا حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو جنوبی لبنان چھوڑنا پڑا مگر وہ تاحال مزارع شبعا (شبعا فارمز) پر قابض ہے۔ لبنان کی اس خانہ جنگی نے لبنان کی ترقی کو بہت متاثر کیا مگر عالمی قوتوں نے خانہ جنگی کا معاملہ ایسے حل کروایا کہ مسلمانوں کا کوئی مطالبہ نہ مانا گیا اور وہ صورت حال ابھی بھی موجود ہے جہ کسی بھی وقت خانہ جنگی کو ہوا دے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردم شماری کروائی جائے اور اس بنیاد پر ایک نیا نظامِ حکومت تشکیل دیا جائے جس میں تمام شہریوں کو ان کے جائز حقوق حاصل ہوں۔

لبنان اور اسرائیل ترمیم

 
لبنانی علاقوں پر اسرائیلی حملے۔جولائی و اگست 2006

اسرائیل اور لبنان کے تعلقات ھمیشہ سے نازک چلے آ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے ان کے عرب فلسطینی بھائیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسرے اسرائیل کی مذہبی کتابوں اور مستقبل کے منصوبوں میں لبنان کی سرزمین کو عظیم تر اسرائیل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں لبنان پر کئی حملے کیے ہیں اور بیس سال تک جنوبی لبنان پر قبضہ بھی رکھا ہے۔ جنگ نہ ہونے کی صورت میں بی اسرائیلی جہاز اکثر لبنان پر غیر قانونی پرواز کرتے رہتے ہیں اور بمباری بھی کرتے ہیں۔ 16 ستمبر 1982 کو اسرائیلی کمانڈوز، جن کی سربراہی ایریل شیرون کر رہا تھا، نے لبنان کے مارونی مسیحی ملیشیا کے ساتھ مل کر بیروت میں واقع صبرا وشاتيلا کے فلسطینی کیمپوں پر حملہ کر کے 5000 کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ جس دوران یہ قتلِ عام جاری تھا، اسرائیلی فوج نے صبرا وشاتيلا کو گھیرے میں رکھا تاکہ کوئی بچہ یا عورت بھی بچ نہ سکے۔ کسی ملک میں آزادانہ گھس کر اس کے شہریوں یا مہمانوں کو نشانہ بنانے پر دنیا کی مغربی انسانی تنظیموں نے کوئی واویلا نہیں مچایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لبنان کی فوج نہ ہونے کہ برابر ہے۔ جولائی 2006 میں اسرائیل نے اس بہانے لبنان پر حملہ کر دیا کہ حزب اللہ نے اس کے دو فوجی قید کر لیے ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اسرائیل اور لبنان کی تنظیم حزب اللہ ایک دوسرے کے فوجی قید کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کا لبنان یا لبنان کے جنوبی حصہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ یہ جنگ اکتوبر 2006 تک جاری رہی۔

فہرست متعلقہ مضامین لبنان ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1.     "صفحہ لبنان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2024ء 
  2. باب: 11
  3. http://chartsbin.com/view/edr
  4. لبنانی معلوماتی مرکز۔ "History of Lebanon"۔ دسمبر 9, 2006.
  5. انسائکلوپیڈیا بریطانیکا۔ "Lebanon"۔ دسمبر 10, 2006.

بیرونی روابط ترمیم