مظہر اللہ شاہ دہلوی
مفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی تفسیر مظہر القرآن کے مصنف اور نقشبندی اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔
مظہر اللہ شاہ دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1886ء (عمر 137–138 سال) |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنفی |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیممفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی والد کا نام مولانا محمد سعید، داداکا نام مولانا مفتی محمد مسعود شاہ، تھاکنیت:ابو مسعود۔لقب:مفتیِ اعظم تھا
ولادت
ترمیم،مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اللہ کی15؍رجب المرجب 1303ھ موافق 21اپریل 1886ء بروز بدھ دہلی میں پیدائش ہوئی آپ چار سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو جد امجد مفتی محمد شاہ محمد مسعود نے کفالت فرمائی دو سال بعد وہ بھی وصال فرما گئے تو عمِ محترم مولانا عبد المجید نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اس طرح ابتدا ہی سے مفتی اعظم کی حیات طیبہ میں سیرت نبویﷺ کی جھلک نظر آنے لگی۔
تعلیم و تربیت
ترمیمحافظ قاری حبیب اللہ امام مسجد کُپّی والا سے حفظ قرآن اور تجوید پڑھی، ۔آپ نے حفظ قرآن کریم کے بعد معاصرین علما سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل فرمائی۔ آپ کا سلسلہ ٔحدیث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ملتا ہے۔ آپ نے ذاتی مطالعہ سے وہ کمال حاصل کیا کہ باید و شاید۔ آپ کو فقہ اصول فقہ،علم الفرائض،علم المواقیت میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ دیگر علوم مثلاً تجوید و قرات،تفسیر،عقائد و تصوف،منطق و فلسفہ،صرف و نحو،ادب و شاعری، خطاطی اور عملیات وغیرہ میں بھی آپ کو بڑی دستگاہ حاصل تھی۔ ہر مکتب فکر اور ہر مسلک کے علما آپ کے وسعت مطالعہ اور تبحر علمی کے دل سے معترف تھے۔سو تیلے چچا مولانا حکیم عبد المجید سے ابتدائی درس نظامی عربی وفارسی پڑھی، مولانا عبد الکریم امام مسجد تیلی داڑہ دہلی سے درسیات کی تکمیل دادا بزرگوار نے بچپن ہی میں اپنے مرشد زادہ سید شاہ صادق علی حسنی الحسینی نقشبندی سے بیعت کرادیا تھا اور شاہی مسجد فتح پوری کی امامت جو آپ کا موروثی نانہالی حق تھا اس کی امامت کا منصب آپ کے نام مقرر کرادیا،
افتاء نویسی
ترمیمتحصیل علم کے بعد درس و تدریس اور افتاء نویسی کا فریضہ تازندگی انجام دیا، نہایت شائستہ مزاج، بردبار، سیر چشم اور بے طمع بزرگ تھے ذوق سخن بھی تھا، کبھی کبھی شعر کہتے شاہ ابو الخیر مجددی دہلوی سے بھی آپ فیض یاب تھے، مشہور فقیہہ اور صوفی عالم مولانا شاہ رکن الدین الوری نقشبندی نے بھی اپنے سلاسل کی اجازتوں سے نوازا تھا۔[1]
بیعت و خلافت
ترمیمسید صادق علی شاہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے اور آپ کے جد امجد کے خلیفۂ مجاز صوفیِ با صفا شاہ محمد رکن الدین نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔ علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد مفتی اعظم نے سلسلۂ بیعت و ارشاد کا آغاز فرمایا۔ بے شمار لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے آپ کے خلفاء کی تعدادکافی ہے۔
سیرت وخصائص
ترمیمامام العلماء والفضلاء،سید الاولیاء،سندالاصفیاء،مرجع الخلائق،صاحبِ تقویٰ وفضیلت،فاضلِ اکمل،عالم متبحر،جامع علوم نقلیہ وعقلیہ،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ،مفتیِ اعظم دہلی شاہ محمد شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی پاک و ہند کے سربر آور دہ علما و صوفیا میں سے تھے۔ آپ دار السلطنت دہلی کے ممتاز عالم و فقیہ شاہ محمد مسعود کے نامور پوتے اور مولانا محمد سعید کے فرزند ارجمند تھے۔آپ کے دست حق پر بے شمار غیر مسلم مشرف با سلام ہوئے مفتی اعظم مسجد جامع فتح پوری کے شاہی امام تھے۔ خطابت و امامت کا یہ سلسلہ جد امجد شاہ محمد مسعود سے آپ تک پہنچا تھا تقریباً ستر 70 سال آپ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے آپ کی ذات گرامی سے مسجد فتح پوری کی عظمت و شوکت دوبالا ہو گئی اور علوم ظاہری و باطنی کا ایک ایسا مرکز بن گئی جو اپنی نظیر آپ تھی۔
تاریخِ وصال
ترمیمآپ کا وصال 14/شعبان المعظم 1386ھ،مطابق 28/نومبر/1966ء بروز پیر دہلی میں ہوا۔آپ کامزار اپرانوار جامع مسجد فتح پوری دہلی کے صحن کے مشرقی جانب درگاہ حضرت نوشاہ کے احاطے میں ہے۔ [2]