مظہر علی ولا
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
ولا کی تاریخ پیدائش اور وفات کے بارے میں معلوم نہیں البتہ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ 1814ء تک زندہ رہے۔ اس کے بعد ان کے حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ مظہر علی ولا کا اصل نام مرزا لطف علی تھا لیکن عام طور پر مظہر علی خان کے نام سے مشہور ہیں۔ مظہر علی ولا کا تعلق بھی دہلی سے تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہاں تربیت پائی۔ مظہر علی ولانثر نگار اور شاعر تھے فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہے اس سے وابستہ ہو گئے۔ اُن کو اردو، سنسکرت اور فارسی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ قیام فورٹ ولیم کالج کے دوران انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔
”مادھونل کام کندلا“ عشق و محبت کا قصہ ہے جس میں مادونل نامی ایک برہمن اور ایک رقاصہ کندلا کی داستان محبت بیان کی گئی۔ اس قصے کا اصل سنسکرت ہے برج بھاشا میں اس قصے کو موتی رام کوئی نے لکھا ہے۔ ولاِ نے گلکرسٹ کی فرمائش پر اسے قصے کوبرج بھاشا سے اردو میں ترجمہ کیا۔
”ترجمہ کریما“ ولا کی دوسری کتاب ہے۔ جو شیخ سعدی کے مشہور پند نامہ کا منظوم ترجمہ ہے۔
ہفت گلشن بھی ترجمہ ہے۔ والا نے گلکرسٹ کی فرمائش پر واسطی بلگرامی کی فارسی کتاب کو اردو میں ترجمہ کیا اس کتاب میں آداب معاشرت کے مختلف پہلوئوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر بات کی وضاحت کے ليے موزوں حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
”بیتال پچیسی “ولا کی مشہور کتاب ہے اس کتاب کے ترجمے میں ”للو لال“ بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ یہ پچیس کہانیاں ہیں جو برج بھاشا سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ کتاب میں فارسی کے الفاظ بہت کم ہیں۔ زبان ہندی آمیز ہے۔ اور سنسکرت کے الفاظ بکثرت ہیں جس کی وجہ سے عبارت سلیس و عا م فہم بھی نہیں ”اتالیق ہندی“ کی تالیف میں ولا کے علاوہ کالج کے کچھ دوسرے اہل قلم بھی شریک تھے۔ یہ کتاب اخلاقی اسباق اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔