بیتال پچیسی

سنسکرت الاصل پچیس کہانیاں

بیتال پچیسی (ویتال پچیسی) سنسکرت الاصل کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جسے بارہویں صدی ہجری میں بہ عہد محمد شاہ سورت کبیشور نے برج بھاشا میں منتقل کیا۔[1] اس نسخے سے مظہر علی ولا نے فورٹ ولیم کالج کے گلکرسٹ کے ایما پر 1803ء میں اردو (پہلی جلد) اور ہندی (دوسری جلد) میں ترجمہ کیا اور اس کی اشاعت گلکرسٹ کے فورٹ ولیم کالج سے جانے کے بعد ان کے جانشین جیمز مویت کی زیر نگرانی 1805ء میں عمل میں آئی۔ اس میں پچیس کہانیاں ہیں۔ سنسکرت میں یہ کہانیاں برہت کتھا، کتھا منجری اور کتھا سرت ساگر کے نام سے موجود ہیں۔ گوہر نوشاہی نے اس کتاب کی تدوین کی جو 1965ء میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کی کہانیاں دلچسپ اور سبق آموز کہاوتوں پر مبنی ہیں اور ان میں ہندوستانی اساطیر کے آثار ملتے ہیں۔ مثلاً چھٹی کہانی میں دو انسانوں کے سروں کے آپس میں تبدیل ہو جانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تھامس مان نے اسی ہندوستانی کہانی سے متاثر ہو کر ایک ناول دی ٹرانسپوزڈ ہیڈز لکھا تھا۔ انتظار حسین نے بھی اپنے افسانے نر ناری میں اسی موضوع کو پیش کیا ہے اور اس کا ماخذ بھی یہی کہانی ہے۔[2]

بیتال اور بکرم اجیت

کہانیاں

ترمیم
 
بیتال راجا بکرم سے بھاگتے ہوئے۔

بیتال پچیسی میں پچیس کہانیاں ہیں جو ایک بیتال (بھوت) راجا بکرم اجیت کو سناتا ہے۔ بیتال کی لاش ایک پیڑ پر لٹکی ہے اور بکرم اجیت اس لاش کو اُتار کر ایک جوگی کے پاس لے جانا چاہتا ہے۔ بیتال بکرم اجیت سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر راستے میں اس نے ایک لفظ بھی بولا تو وہ خود کو چُھڑا کر دوبارہ پیڑ پر چلا جائے گا۔ اس کے بعد بیتال چوبیس کہانیاں سناتا ہے جن کے دوران میں بکرم اجیت بول اٹھتا ہے اور بیتال ہر بار درخت پر جا لٹکتا ہے۔ پچیسویں کہانی کا جواب بکرم اجیت کو نہیں آتا اس لیے وہ خاموش رہتا ہے۔[2]

تفہیم و تسہیل

ترمیم

اس کی کہانیاں پڑھنے کے قابل ہیں مگر ان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کی زبان بے حد پیچیدہ اور مشکل ہے۔ اس کی قرات اور تفہیم عام قارئین کے لیے کیا اچھے خاصے زبان دانوں کے لیے بھی مشکل ہے۔ اِملا اور قواعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کو سمجھنا اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس مشکل کے حل کے لیے جامعہ پنجاب، لاہور کی ایسوسی ایٹ پروفیسر بصیرہ عنبرین نے اس کی تفہیم اور تسہیل کا کارنامہ انجام دیا اور یہ کتاب جنوری 2017ء میں دار النوادر سے چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Barker، William Burckhardt (4 جون، 1855)۔ "Twenty-five Tales of a Demon"۔ Stephen Austin – بذریعہ Google Books {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  2. ^ ا ب پ اعجاز الحق اعجاز (17 جنوری 2017)۔ "بیتال پچیسی"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-06-04

بیرونی روابط

ترمیم