معجم الاوسط طبرانی
معجم اوسط اما م طبرانی نے معجم کے نام سے تین کتابیں لکھیں (معجم کبیر، معجم اوسطمعجم صغیر) یہ ان کی مشہور و معروف تصانیف ہیں جو علم حدیث کی بلند پایہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں، محدثین کی اصطلاح میں معجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں شیوخ کی ترتیب پر حدیثیں درج کی گئی ہوں۔ اس کتاب کو بھی امام طبرانی نے اپنے شیوخ و اساتذہ کی روایات کو ان کے ناموں کے ساتھ حروف معجم پر مرتب کیا ہے جن کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے اس کی تر تیب و تالیف میں امام صاحب نے بڑی کاوش اور محنت کی آپ کو یہ کتاب بہت عزیز تھی اس کتاب سے امام صاحب کی حدیث میں فضیلت و کمال اور حدیث سے کثرت واقفیت کا پتہ چلتا ہے یہ کتاب تیس ہزار مرویات اور 6ضخیم جلدوں میں ہے اس میں ایسی مرویات کا اہتمام کیا گیا جو غرائب و افراد ہیں۔[1][2]
معجم الاوسط طبرانی | |
---|---|
(عربی میں: المعجم الأوسط) | |
مصنف | سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی |
اصل زبان | عربی |
موضوع | حدیث |
درستی - ترمیم ![]() |
کتاب کا تعارف اور منہج
ترمیم’’المعجم الأوسط‘‘ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی کی نہایت اہم حدیثی تصنیف ہے۔ اس کی علمی قدر و قیمت دو جہات سے ہے: ایک تو خود مصنف کی عظیم علمی حیثیت اور دوسرے کتاب کا موضوع۔ امام طبرانی بلند پایہ حافظِ حدیث اور ناقدِ روایت تھے۔ ’’المعجم الأوسط‘‘ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے نادر اور غریب احادیث، فوائد اور ان کی اسنادی خصوصیات کو جمع کیا۔ یہ کتاب حدیث کے علل کے مصادر میں شمار کی جاتی ہے۔ [3]
حافظ ذہبی نے اس کتاب کو ان الفاظ میں سراہا:
> "المعجم الأوسط چھ بڑے جلدوں میں ہے، شیوخ کے معجم پر مرتب ہے۔ ہر شیخ سے ان کی غریب اور عجیب روایات لائے ہیں، یہ دارقطنی کی ’کتاب الأفراد‘ کی نظیر ہے۔ امام طبرانی اسے اپنی روح کہا کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے اس پر بہت محنت کی اور اس میں ہر قیمتی، نادر اور منکر روایت کو شامل کیا۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’النكت‘‘ میں کہا:
> "احادیثِ افراد کی تلاش کے لیے ابو بکر البزار کا مسند اور طبرانی کا المعجم الأوسط بنیادی مصادر ہیں۔"
یہ کتاب امام طبرانی کے ’’المعجم الصغیر‘‘ کی طرح انہی غریب احادیث کو پیش کرتی ہے، لیکن اس میں ہر شیخ سے جتنی مرویات انھوں نے سنی ہوں، ان سب کو درج کیا ہے۔ شیخ کے ناموں کو حروفِ تہجی کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔ کسی شیخ سے اگر ایک ہی سند سے متعدد احادیث روایت کی گئی ہوں، تو پہلی جگہ مکمل سند لکھنے کے بعد بقیہ مقامات پر ’’وبه‘‘ یا ’’وبه إلى فلان‘‘ جیسے الفاظ سے اختصار کیا گیا ہے۔ ہر حدیث کے بعد امام طبرانی یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں انفراد کہاں ہے، مثلاً ’’تفرد به فلان عن فلان‘‘ یا ’’لم يروه إلا فلان‘‘۔
یہ کتاب 9489 سند کے ساتھ احادیث پر مشتمل ہے، جن میں مرفوع، موقوف اور مقطوع روایات سب شامل ہیں۔ امام طبرانی نے ان روایات کی صحت یا ضعف پر تفصیلی بحث نہیں کی کیونکہ مقصد صرف ’’غرائب‘‘ اور ’’فوائد‘‘ کا جمع کرنا تھا اور وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔[4][5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ذہبی تذکرۃ الحفاظ۔ شاہ عبد اللہ العزیز محدث دہلوی بستان المحدثین
- ↑ الرسالہ المستطرفہ، مؤلف: ابو عبد اللہ جعفر الكتانی، ناشر: دار البشائر الإسلامیہ
- ↑ أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني۔ طارق عوض الله عبد الحميد (مدیر)۔ المعجم الأوسط (بزبان عربی)۔ القاهرة: دار الحرمين
- ↑ شمس الدين الذهبي۔ سير أعلام النبلاء (بزبان عربی)۔ بيروت: مؤسسة الرسالة۔ ج 16۔ ص 122
- ↑ أحمد بن علي العسقلاني ابن حجر۔ النكت على ابن الصلاح (بزبان عربی)۔ بيروت: دار الفكر۔ ج 2۔ ص 710
دیگر مصادر
ترمیم- الجمعية العلمية السعودية للسنة وعلومها: منهج الإمام أبي القاسم الطبراني في معاجمه الثلاثة: الكبير والأوسط والصغيرآرکائیو شدہ (غیرموجود تاریخ) بذریعہ sunnah.org.sa (نقص:نامعلوم آرکائیو یو آر ایل).
- مقدمة تحقيق المعجم الأوسط/ طبعة دار الحرمين: (1/23)
- تذكرة الحفاظ للذهبي (3/912)
- النكت على ابن الصلاح للحافظ ابن حجر: (2/708)
- بستان المحدثين للدهلوي ص (82).
- بحث للشيخ دخيل بن صالح اللحيدان، بعنوان: «طرق التخريج بحسب الراوي الأعلى» طبع في مجلة الجامعة الإسلامية العدد (117).