مقبرہ خالد ولید
مقبرہ خالد ولید المعروف خالق ولی:کبیر والاکے آٹھ صدی پرانے مقبرے کو خالد ولید المعروف خالق ولی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
صاحب مقبرہ
ترمیمصاحب مقبرہ خالد ولید المعروف خالق ولی بڑے بزرگ صوفی ہیں جن کا شماربرصغیر کے ابتدائی مسلمان مبلغین میں ہوتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق خالد ولید مشہور سپہ سالار سلطان محمود غزنوی کیساتھ یہاں آئے اور یہیں ان کا وصال ہوا۔ ان کے مقبرے کی تعمیر غوری عہد میں ملتان کے ایک گورنر علی بن کرماخ نے 1175ء سے 1185ء کے درمیان کروائی۔
محل وقوع
ترمیمکبیروالہ سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب یہ مقبرہ موضع کھتی چور، کبیر والا میں موجود ہے۔
محققین کا خیال
ترمیممقبرہ خالد ولید بارے مختلف محققین کی مختلف آراء ہیں جیسا کہ سید اولاد علی گیلانی اپنی کتاب [1] میں مزار کی تعمیر چودھویں صدی عیسوی، بشیر حسین ناظم [2] میں اس کی تعمیر مغل بادشاہ شاہجہاں اور شیخ اکرام الحق [3] میں اس کی تعمیرمغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر سے جوڑتے ہیں۔
فن تعمیر
ترمیمفن تعمیر کا منہ بولتا شاہکار یہ مقبرہ ملتان سے تقریباً53 کلومیٹر دور قدیم جرنیلی سڑک سے ڈیڑھ کلومیٹر مغرب کی جانب واقع مسلم فن تعمیر کا یہ انوکھا شاہکار ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریافت ہونے والی قدیمی مساجد ومزارات میں سب سے قدیم مانے جانے والے اس مقبرے کے گنبد کی اونچائی 75 سے 80 فٹ ہے جبکہ یہ زمین سے 27 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ مقبرے کی عظیم الشان عمارت دو کنال پر محیط ہے۔ اس کی فصیل نما دیوار کے چاروں کونوں پرگول ٹھوس برج بنے ہوئے ہیں جبکہ مغربی سمت کے علاوہ باقی تینوں اطراف کے درمیانی ّ حصے میں بھی برج تعمیر ہیں۔ مغربی جانب دس فٹ چوڑی فصیل کے درمیان میں ایک محراب واقع ہے جس کی گولائی میں خط کوفی سے آیت الکرسی، اسم محمد اور خلفائے راشدین کے نام گلابی اینٹوں پر کندہ کیے ہوئے ہیں۔
مقبرے کے مشرقی وشمالی اطراف میں بڑی بڑی محراب نما بغیر دروازوں والی کھڑکیاں تعمیر ہیں جبکہ مزار کا فرش اور قبر کچی ہیں۔ قابل ذکر بات ہے قبر مشرقی دروازے کے بالکل قریب ہے جبکہ قبر کی لمبائی 19 فٹ سے زائد اورچوڑائی 4 فٹ ہے۔ قبر سے مغربی دیوار کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جس گورنر نے یہ مقبرہ تعمیر کروایا تھا شاید اس نے اپنی قبر کے لیے جگہ رکھوائی تھی جو کسی وجہ سے یہاں نہ بن سکی۔ زمین سے مزار تک پہنچنے کا ایک ہی زینوں والا راستہ ہے جس کی 30 سیڑھیاں ہیں۔
تاریخی اہمیت کا حامل یہ مقبرہ ہمیشہ سے چوروں کی آنکھوں کا تارا رہا ہے۔ ویسے تو اس مقبرہ پر سے بیش قیمت تعمیراتی ٹکڑوں کی چوری انگریز دور سے ہی ہوتی آ رہی ہے تاہم اس حوالے سے محکمہ کی آنکھیں 1985 میں تب کھلیں جب ایک امریکن محقق خاتون ہنس ہوئی رچرڈ نے مقبرے کی محراب پر سے اینٹوں کی چوری کا مسئلہ میڈیا میں اٹھانا شروع کر دیا۔ غیر ملکی محقق کے واویلے پر اتھارٹیز نے ایکشن لیتے ہوئے تاریخی اینٹوں کے بھرے ہوئے چالیس باکس پکڑ لیے جنہیں بیرون ملک سمگل کیا جانا تھا۔ اس چوری میں ملوث کوئی چور نہ پکڑا جاسکا۔
تاریخی ورثہ
ترمیماس واقعے کے بعد مقبرے کو تاریخی ورثہ قرار دیتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کی تزئین وآرائش کے لیے مختلف منصوبے بھی تیار کیے جانے لگے جو بدقسمتی سے کسی انجام تک نہ پہنچ سکے۔ ۔[4]