کبیر والا (انگریزی: Kabirwala) پاکستان کا ایک آباد مقام جو پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔[1]
1998ء کے مطابق شہر کی آبادی پونے سات لاکھ تھی ،2010ء میں 8 لاکھ شمار کی گئی، پاکستان کا 118 واں بڑا شہر ہے، خانیوال سے شمال کی طرف 10 کلومیٹر جبکہ ملتان سے 40 کلومیٹر دور ہے، خانیوال ضلع سے پہلے یہ ضلع ملتان کا حصہ تھا ،1937 سے پہلے یہ خانیوال ضلع کا صدر مقام بھی رہا،1603 مربع میل رقبہ ہے، 1891 میں آبادی 113412، جبکہ 1901 میں 130507 نفوس پر مشتمل تھی، دریائے راوی تحصیل کے شمال میں بہتا ہے اور اس کے شمال مغرب میں دریائے چناب ملتا ہے ،یہ گندھارا تہذیب کا مرکز تھا، محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے یہ راجا داہر کے زیر تسلط رہا، 1005 ع سے یہ زرعی منڈی رہی ہے، یہاں کمبوہ بھٹی، سید، بلوچ، وینس، وڑائچ، جوئیہ، راجپوت،مرزا، ساہو، ملک، بھٹہ، سیال، سکھیرا، تھہیم، جٹ، ارائیں وغیرہ ذاتیں آباد ہیں،کبیر والا سے مغرب کی طرف 24 کلومیٹر دور خالد ولید کا مزار ہے،،عبد الغفار چشتی کی خانقاہ، دار العلوم عید گاہ،بھی ہے تحصیل سے قدرتی گیس کے ذخائر بھی ملے ہیں،،فلور ٹیکسٹائل ملز، فروٹ فارمز،پولٹری فارمز،کاٹن فیکٹری،آئیل اور پیپر ملز بھی ہیں،،نیسلے ملک کارخانہ بھی تحصیل میں ہے، 36 یونین کونسلیں ہیں[2]
کبیروالا ضلع خانیوال کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔یہ شہر خانیوال سے شمال کی طرف جاتے ہوئے ملتان جھنگ روڈ پر واقع ہے۔کل رقبہ تین لاکھ 85 ہزار 855 ایکڑ ہے۔1947ء میں پنجابی بولنے والے بہت سے خاندان ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے اور اب پنجابی لب و لہجہ بھی یہاں کی مقامی زبان میں رچ بس گیا ہے۔
ساڑھے پانچ سو سال پہلے اوچ شریف میں سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیت سید احمد کبیر بخاری نے اس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا تو اس خطے کا نام کبیروالا پڑ گیا۔ کبیروالا کی تاریخ گندھارا تہذیب سے جا ملتی ہے جو اڑھائی ہزار سال پرانی ہے اس وقت کبیروالا ملتان کا حصہ تھا۔1937ء میں برطانوی دورِ حکومت میں سرائے سدھو میں موجود تحصیل ہیڈ کوارٹر کو کبیروالا منتقل کر دیا گیا۔شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور سردارپور کے موضع للیرہ کے مقام پر دریائے راوی اور دریائے چناب کا سنگم واقع ہے ہیڈ سدھنائی سے نکلنے والی سدھنائی کینال کبیروالا کے شمالی اور مغربی حصے کو سیراب کرتی ہے۔
گردوارہ مخدوم پہوڑاں جو اب پرائمری اسکول میں تبدیل ہو چکا پے۔
1396ء میں امیر تیمور کا پوتا پنجاب پر حملہ آور ہوا تو وہ وہاں سے ہوتا ہوا کشتیوں کے ذریعے دریا عبور کر کے تلمبہ پہنچا جہاں اس نے ہندو فوج کا مقابلہ کیا پھر جب وہ ملتان کی طرف بڑھا تو کبیروالا میں اس نے قیام کیا اور یہ شہر اس کے پڑاؤ میں آیا۔1817ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے نواب آف ملتان نواب مظفر خان پر فتح حاصل کرنے کے لیے دیوان بھوانی داس کی کمانڈ میں فوجی دستہ روانہ کیا جب وہ دریائے چناب عبور کر کے ملتان پہنچا تو اس نے دیوان مظفر خان سے جنگ کی بجائے خفیہ معاہدہ کر لیا جس پر مہاراجا رنجیت سنگھ نے نئی حکمت عملی تیار کی اور بڑی تعداد میں سکھ فوج نے کبیروالا میں پڑاؤ میں ڈال لیا اور مہاراجا کو تمام ڈاک اسی مقام سے روانہ کی جاتی تھی۔1818ء میں نواب مظفر خان رنجیت سنگھ کی فوج کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کئی بیٹے بھی مارے گئے۔
دار العلوم عید گاہ کبیروالا ایک عظیم دینی درسگاہ ہے جہاں سے ھر سال پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے سینکڑوں طلبہ دینی علوم سے فیض یاب ھوتے ہیں..
کبیروالا اور اس کے گرد و نواح میں مسلمان صوفیائے کرام کی تبلیغِ اسلام سے یہ پورا علاقہ مسلم آبادی کا مرکز بن گیا یہاں بابا سید احمد کبیر بخاری ؒ کے علاوہ حضرت خالد ولید ؒ آف موضع خطی چور، حضرت بابا عبد الحکیمؒ سمیت مختلف روحانی ہستیوں کے مزارات روحانی مراکز ہیں۔اس علاقے میں حضرت سلطان باہوؒ کا کافی اثر رہا ہے وہ اکثر و بیشتر دریا عبور کر کے سردارپور کبیروالا سرائے سدھو آتے جاتے تھے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیتے تھے
سردارپور کا 141 سال پرانا اسکول
تقسیمِ ہند سے قبل کبیروالا کے علاقے سرائے سدھو، رام چونترہ، لکشمن چونترہ اور سردارپور ہندوؤں کا مرکز رہے ہیں۔دریائے راوی اور چناب کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ان کے نہ صرف شمشان گھاٹ تھے بلکہ اشنان کی جگہیں مقرر تھیں سرائے سدھو میں واقع ہندوؤں کا مندر تھا جو بابری مسجد گرائے جانے کے رد عمل میں توڑ دیا گیا تھا اور اب اس جگہ لڑکیوں کا پرائمری اسکول ہے۔کبیروالا سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ مخدوم پور میں سکھوں کا پاٹ شاہی گوردوارہ بھی مشہور مقام ہے۔کبیروالا تاریخی و ثقافتی حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Kabirwala"
- ↑ کامران اعظم سوہدروی