سردار ملی خان کشمیر کی ریاست پونچھ کے موجودہ علاقے ضلع سدھنوتی تحصیل بلوچ گاؤں دھمن کے رہنے والے تھے۔

معلومات شخصیات ترمیم

| تاریخ پیدائش 1797 ریاست پونچھ موجودہ آزاد کشمیر سدھنوتی | خاندان سدوزئی( عرف) سدھن پٹھان | تاریخ وفات شہادت 22 جولائی 1832 | وجہ وفات سکھوں سے دوسری لڑئی

تعارف پس منظر ترمیم

آپ نے 1819 میں زبردست خان کی قیادت میں افغانوں کا ساتھ دیتے ہوئے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف جنگ لڑی جس میں افغانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا چنانچہ افغان سپہ سلار سردار عطا محمد خان کشمیر سے بھاگتے ہوئے قلعہ اٹک بھی رنجیت سنگھ کے سپہ سالار کے ہاتھ ایک لاکھ کے غوص فروخت کر گے عطا محمد خان کی اس عاقبت نااندیشی نے درانی سلطنت کا اور کشمیر کے سدوزئیوں کا آپس میں رابطہ ہمشہ کے لیے منقطع کر دیا چنانچہ ملی خان نے مرد مجاہد کی طرح دیگر پونچھ کے سدوزئیوں کے ساتھ مل کر مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج کا مقابلہ کیا آپ 5 دسمبر 1819 کو سکھوں کی پہاڑی توپ کے ایک گولے میں پنگی کے مقام پر زخمی ہوئے۔

اعلان اطاعت ترمیم

سکھوں کی سیکڑوں توپوں نے سدوزئیوں کو تمام میدانی علاقوں سے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا چند ایک پہاڑی علاقے چھوڑ کر سکھوں نے پونچھ سمیت پوری ریاست کشمیر پر بل آخر سیکڑوں جانیں گنوانے کے بعد قبضہ کر لیا جس کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ کے ایک فوجی جرنیل میاں دھیان سنگھ نے ریاست پونچھ کے تمام پہاڑی علاقہ جات میں سدوزئیوں کی نوابی برقرار رکھنے کی سدوزئیوں کو یقین دہانی کرائی جس کے بعد ملی خان سمیت 12سدوزئی سرداروں نے سکھوں کی اطاعت کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا چنانچہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے بھی عام معافی اعلان کر دیا اور تمام علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے ان 12 سدوزئی سرداروں نے جہنوں نے مہاراجا رنجیت سنگھ کی اطاعت قبول کی ان 12 سدوزئی گروپوں میں سب سے بڑے گروہ کا سردار شمس خان تھا جسے مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس کی آل اولاد سمیت بطور یرغمال اپنی لاہور خالصہ دربار میں ملازمت رکھ لیا تاکہ شمس خان کا قبیلہ پھر سے بغاوت کا مرتکب نہ ہو پائے۔

بغاوت ترمیم

سدوزئی فطرتی طور آزادنہ زندگی گزارنے کے عادی تھے سدوزئیوں کے ایک نواب جسی خان نے 1360 میں افغانستان سے وار ہو کر کشمیر کی ریاست پونچھ کے ایک مختصر حصے پر اپنی نوابی حکومت قائم کی تھی جو 1360سے لے کر مغلوں افغانوں کے قبضہ کشمیر کے وقت بھی خود مختار باوقار حیثیت سے قائم رہی جسے سکھوں نے 1819 میں صلیب کر دیا چنانچہ سدوزئیوں نے غلامی کو دل سے قبول نہ کیا وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں لگے رہتے تھے جو بل آخر 1832 کو مل گیا جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی وادی سوات کے یوسفزئیوں سے جنگ چھڑ گئی اور اسی دوران شاہ اسمعیل شہید اور سید احمد بریلوی بھی مہاراجا رنجیت سنگھ کی سلطنت پر پہ در پہ حملہ آور ہو رہے تھے ایسے حالات دیکھتے ہوئے شمس خان نے بھی دربار لاہور سے بغاوت اختیار کرکے ملی خان سے آن ملے ملی خان نے اپنے دیگر دس سدوزئی سرداروں سے مل کر آٹھ سو سکھ فوجیوں کو قتل کر کے باقی چھ ہزار سکھ فوج کو جموں اور منگلا پنجاب کی طرف دکھیل کر پونچھ پر قبضہ کر لیا

اعلان حکومت ترمیم

شمس خان نے 10 فروری 1832 کو راولاکوٹ دہمنی کے مقام پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا اور اپنی فوج کا جنرل سپہ سالار ملی خان کو مقرر کیا اور ان کے چچازاد بھائی سبز علی خان کو دیوان اعلی (وزیر اعظم) مقرر کیا۔۔۔۔۔۔

سردار شمس خان سدھن کا دار الحکومت منگ میں تھا۔وہاں ہی اس کے حکم پر ڈوگرہ فوجیوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا کیوں کہ فوجیں علاقے میں دہشت گردی میں مصروف تھی۔جس پر رانجیت سنگھ نے فوج کشی کی اجازت دی ۔۔ دھمنی کے سردار شمس خان بھی بڑے سدھن سردار تھے مگر 1832 کی کمانڈر سردار یہ نہیں تھے

شہادت ترمیم

ایسے حالات دیکھتے ہوئے مہاراجا رنجیت سنگھ نے تمام صوبہ سرحد کے سرحدی علاقہ جات سے جنگ بندی کر کے بیس ہزار کا لشکر جرار جنرل گلاب سنگھ کو دے کر دوبارہ پونچھ پر چڑھائی کرنے کے لیے بھیجا گلاب پنڈی کہوٹہ دو ماہ تک خیمہ زن رہا اور مقامی سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہا بالآخر وہ کسی نہ کسی حد تک اس چال میں کامیاب بھی ہو گیا چنانچہ گلاب سنگھ 10 اپریل 1837 کو پونچھ پر حملہ وار ہوا پونچھ کے پہاڑی علاقہ جات میں چار ماہ دست بہ دست مارکہ خون ریزی شب و روز جاری رہا جو بل آخر 22 جولائی 1837 قلعہ منگ کا آخری مارکہ ملی خان کی شہادت کا پیش خم ثابت ہوا 22 جولائی ملی خان شہید ہوئے اور بعد آپ کی جست خاکی سے کھال نکال کر اس میں گندم کا بھوسا بھر کر منگ کے ایک جنگلی زیتون کے درخت کے ساتھ لٹکائی گئی