سابق وطن بریلی (یوپی) بھارت۔ان کے والد اشفاق احمد خان نے دہلی میں آٹو ورکشاپ قائم کیا۔ بہت کامیاب رہے۔ پاکستان کی تحریک چلی۔ دہلی میں سب سے پہلے قرول باغ ہی میں فسادات شروع ہوئے مجبوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آنا پڑا۔ سکھر میں قیام پزیر ہوئے۔ ماڈرن ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ پرنسپل عبد الصمد خان نے اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے تقرر کر دیا۔اسلامیہ کالج سکھر سے انٹرکامرس اور بی کام کیا۔ یہ پوسٹ گریجویٹ کالج تھا اور سندھ یونی ورسٹی سے ڈگری ملتی تھی۔ انھوں نے یہاں سے ایم اے (انگریزی ادب) کیا ایم۔اے معاشیات پرائیوٹ طور سے کیا۔ یہیں پرپرنسپل محمداحمد صاحب کی مہربانی سے انگریزی میں لیکچرار شپ ملی۔ یہاں کی یادیں ان کے لیے سرمایہ ہیں۔ 1972ء میں کالج قومیالیا گیا۔ تھوڑے عرصے بعد روہڑی، رانی پور اور مورو تبادلہ ہوا۔وہ کہتے ہیں کہ مورو کے پرنسپل علی بخش شاہ صاحب بہت ملنسار، نفیس اور مہذب انسان تھے اور روہڑی (عطا حسین شاہ موسوی کالج) کے پرنسپل غلام رسول سومرواور علی بخش شاہ بہت یاد آتے ہیں۔دونوں بڑے پیارے محبت کرنے والے انسان تھے۔

پھرپریمیر کالج (شام) ناظم آباد کراچی تبادلہ ہو گیا۔ 17 سال بعد پریمیر (صبح) میں تبادلہ ہوا اور 1998ء میں سینٹ پیٹرکس کالج (شام) میں بھیج دیا گیا جہاں سے وہ 2004ء میں واپس پریمیر کالج آگئے اور وہاں سے 13 ستمبر2004ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔

ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ سکھر سے کراچی تک چلتا رہا۔ فکشن گروپ جیسی ادبی تنظیم سے وابستہ رہے جہاں علی حیدرملک، شہزاد منظر، محمدرضاکاظمی، شاہین بدر، صبااکرام، احمدزین الدین اور اے۔خیام جیسے ساتھی ملے۔ وہاں اپنے افسانے پڑھے۔ ناول پر تنقیدی مضامین سنائے، بڑی ادبی تربیت ہوئی۔ فکشن گروپ میں پورے پاکستان اور بیرون پاکستان سے آنے والے اہم ادیبوں اور نقادوں سے ملاقات رہی۔ فکشن گروپ ان کی زندگی میں موسم بہار تھا۔ فکشن اور فکشن کی تنقید کے لیے فکشن گروپ کی چالیس سالہ خدمات بے مثال ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جمیل الدین عالی صاحب کی خواہش پر انجمن ترقی اردو پاکستان کے ماہنامہ قومی زبان کے مدیر بنے۔ آج کل صاحب فراش ہیں اور قومی زبان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔آپ نے خاصے افسانے لکھے، البتہ کتاب نہیں آئی۔

ڈاکٹرممتاز احمدخاں کی ناول سے متعلق اہم کتب اور اردو یونی ورسٹی کی تاریخ پر مبنی مرتبہ کتاب ناول کی تاریخ اور اردو یونی ورسٹی کے ارتقائی مراحل کی بازگشت کے حوالے سے اہم کتب ہیں۔

ناول کی تنقید اور تحقیق کے ضمن میں بڑی بحثیں ہو چکی ہیں۔ کسی بھی ناول یا قصے میں کردار ایسی علامت ہوتا ہے جو ناول کو زندہ رکھنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔کیوںکہ انسان انسان میں دلچسپی رکھتا ہے اس لیے سماجی جانور کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر ممتاز احمدخان نے صرف ناول کی تنقید کا بار سنبھالا ہوا ہے۔ وہ گذشتہ بیس سال سے اردو ناول کی عملی تنقید سے وابستہ رہے ہیں تاکہ اس بڑی صنفِ ادب کو تسلسل میں دیکھ کر اس کے اسالیب، رجحانات، تیکنیکوں، متنوع ماجروں اور نقطۂ ہائے نظریہ محاسن ومعائب کا جائزہ لیا جاسکے۔ انھوں نے اردو ناولوں کے علاوہ ناول کے مسائل پر بھی لکھا ہے۔جس کی ضرورت بھی تھی اس کی مثالیں یہ ہیں: ناول کی حشرسامانیاں، ناول کی تنقید و تحقیق کی صورت حال، جدید اردو ناول میں موضوعاتی تنوع، فنتسیائی (Novels of Fantasy) کے امکانات (بحوالہ اردو ناول کے چند اہم زاویئے)، ناول کی تفہیم وتعبیر کی دشواریاں، ناول کی عظمت اور ضرورت، پاکستانی ناول کا آئندہ ناول اپنی تعریفوں (Definitions) کے آئینے میں، اردو ناول۔ اختلافات و تحقیقی مغالطے وغیرہ۔

جو نقاد ناول پر لکھ رہے ہیں اور اس کی عملی تنقید کو ثروت مند بنا رہے ہیں ان میں ایک ڈاکٹر ممتاز احمدخان بھی ہیں۔

تصانیف

ترمیم

ڈاکٹرممتاز کی ناول کی تنقید سے متعلق اہم کتب درج ذیل ہیں۔

  • اردو ناول کے بدلتے تناظر (ویلکم بک پورٹ، کراچی/مغربی پاکستان اردو اکادمی، لاہور)
  • پی ایچ ڈی مقالہ ’’آزادی کے بعد اردو ناول، ہیئت، اسالیب اور رجحانات(1947ء تا 1987ء) انجمن ترقی اردو کراچی سے اور اس کا دوسرا ایڈیشن کئی اضافوں کے ساتھ وہیں سے 2008ء میں شائع ہوا
  • اردو ناول کے چند اہم زاویئے(انجمن ترقی اردو پاکستان)
  • اردوناول کے ہمہ گیر سروکار (فکشن ہاؤس)
  • اردو ناول (کرداروں کا حیرت کدہ) (فضلی سنز، کراچی)