من و سلویٰ ایک قسم کی خوراک تھا، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ہوا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق بنی اسرائیل جب صحرائے سینا میں بھٹک رہے تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسمان سے من و سلویٰ اتارا تھا۔ لیکن بعد میں جب بنی اسرائیل نے نخرے دکھانے شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے من و سلویٰ واپس چھین لیا۔

  • المن اسم ہے۔ شبنمی گوند جو وادی یتہ میں بھٹکنے والے اسرائیلوں کے کھانے کے لیے اللہ تعالیٰ روزانہ درختوں پر جما دیتا تھا۔
  • السلوی۔ ایک پرندہ ہے جس کو بٹیر کہتے ہیں۔[1]
  • مَنّ، شبنمی شریں گوند کی طرح ایک چیز تھی، جو درختوں کے پتوں پر بکثرت جم جاتی جس کو یہ لوگ جمع کرلیتے،
  • دوسری چیز بٹیر تھی، جو کثرت سے آتیں جنکو یہ لوگ پکڑ لیتے اور خوشگوار غذا کے طور پر استعمال کرتے۔[2]
من و سلویٰ
متبادل ناممننا
قسمطعام
علاقہ یا ریاستصحرائے سینا

جو "من" ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھالیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولوں کی طرح "من" ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھر بار کے لیے اتنی مقدار میں جمع کرلیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لیے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمھارا یہ شہد اس "من" کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی "من" شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انھیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کردی جاتی تو اور چیز ہوجاتی تھی۔ لیکن یہاں "من" سے مراد یہی "من" مشہور نہیں صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔ ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو "من" میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے "سلویٰ" ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کردیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انھیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گذر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لیے جمع کرلیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہوجاتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں۔ جہاں انھوں نے اپنے پیغمبر سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہوگا تب ان پر "من و سلوی" اتارا گیا [3]

قرآن مجید کے علاوہ من و سلویٰ کا ذکر عہد نامہ قدیم میں بھی آیا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ51 ،علی محمد، سورہ البقرہ،57،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  2. تفسیر جلالین ،جلال الدین السیوطی،سورہ البقرہ،57
  3. تفسیر ابن کثیر ،ابو الفداءابن کثیر،سورۃ البقرہ،آیت57