وجودیت ایک تحریک فلسفہ ہے جس کے مطابق تمام انسان اپنی زندگی کی انفرادیت اور داستان کے خود مختار راہنما ہیں یعنی آسان الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نظریے کے مطابق انسان کیا ہے؟ کا فلسفہ اپنی حیثیت کھو دیتا ہے کیونکہ اس نظریے کا بیان یہ ہے کہ انسان سب سے پہلی حقیقت ہے جس کا وجود غیر مبہم ہے اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کسی پیش رو نظریے کی ضرورت نہیں۔ اور اس طرح یہ کئی قدامت پسند فلسفوں مثلآ عقلیت ، تجربیت اور مابعدالطبیعیات کی مخالفت کرتا ہے۔

کیکاگارڈ کا دانمارک میں بت

وجودیت کی ابتدا انیسویں صدی میں سورن کیرکیگارڈ اور نطشے کے خیالات سے شروع ہوئی۔ 1940ء اور 1950ء کی دہائیوں میں فرانسیسی فلاسفہ ژاں پال سارتر، سيمون دي بووار اور البرٹ کاموس نے اس موضوع پر تحاریر کیں جن کی وجہ سے اس نظریے کو شہرت حاصل ہوئی۔

وجودیت کی تحریک پر تین افراد یعنی آندرے ژند، سگمنڈ فرائڈ اور سارتر کا گہرا اثر ہے۔

وجودی مفکرین اجتماعی زندگی کے مقابلے میں ”فرد“ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے فکر و فلسفے میں محض انسان کا انفرادی وجود اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک طبقات یا گروہ ”فرد“ کی حیثیت اور آزادی کے دشمن ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ طبقات اور گروہ اُسے ہرطرح کی ذمہ داری سے آزاد کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس وجودی مفکرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر فردآزاد ہے اور اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ انتخاب کی اس آزادی اور ذمہ داری ہی سے ہر فرد ذہنی اضطراب کاشکار ہوجاتا ہے اور اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس آزادی انتخاب کے باجود یہ فرد اپنے انجام کو نہیں جانتا۔ اس کا عمل زمان و مکان کے دائرے میں محدود و مقید ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض اوقات اپنے عمل کے نتیجے میں اسے تباہی اور موت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ ہمارا فیصلہ صحیح ہے یا غلط۔

سب ہی وجودی مفکرین موت کی المناکی کوبحث کا خاص موضوع بناتے ہیں۔ ہائی ڈیگر کے نزدیک موت کی مستقل آگہی سے اصل زندگی ترتیب پاتی ہے۔ موت جس آسانی سے زندگی او ر وجود کا خاتمہ کرتی ہے۔ اس سے زندگی کی لایعنیت اور کھوکھلا پن ظاہر ہو جاتا ہے۔ سارتر زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے

” ہمارا وجود بغیر کسی سبب و معقولیت اورضرورت کے تحت دنیا میں نظرآتا ہے۔ تمام زندہ افراد بغیر کسی وجہ کے دنیا میں آتے ہیں۔ مجبوریوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھاتے زندہ رہتے ہیں۔ وہ ایک دن حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔"

اس ضمن میں بعض وجودی مفکرین انسان کی تنہائی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خواہ کیسا ہی معاشرتی اور سیاسی نظام قائم ہو جائے۔ انسان کی تنہائی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ ان کے نزدیک انسان تنہا اور نامعقول واقع ہوا ہے۔ اور زندگی کی نامعقولیت کو کسی نظام سے دور نہیں کیا جا سکتا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وجودی تصورات ہماری فکری قوتوں کو مہمیز دیتے ہیں۔ انسانی وجود کے مسائل پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ انسانی ذہن اور خیال کے ارتقائیں ہماری رہنمائی کی سعی کرتے ہیں۔ تاہم یہ تمام تر تصورات وسیع تر مفہوم میں منفی تصورات ہی کہے جا سکتے ہیں۔ سارتر نے اگرچہ منطق کا سہارا لے کر غیر حقیقی تصورات کا دفاع کیا ہے۔

مجموعی طور پر وجودی تصورات انسان میں مایوسی، ناامیدی، بے دل اور منفی رجحانات پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیکن وجود کے مسائل پر غور و فکر کرنا ذہنی آزمائش کا کھیل تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے مضمرات کے لحاظ سے اسے بے ضرر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ایک زمانہ تھا۔ جب یورپ کے علمی حلقوں میں وجودیت اور وجودی تصورات کی بحث نے مستقل موضوع کا درجہ اختیار کر رکھا تھا۔ اربابِ علم میں ایک بڑی تعداد ان نظریات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وجودیت کے بارے میں عام تصور یہ تھا کہ ہر وہ تحریک جس میں فرد کی تباہی او ر بربادی کا ہولناک نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ ہر وہ ناول جس کے کردار بدی اور ذہنی اختلاط کے نمونے دکھائی دیتے ہیں اور جو ہماری شخصیت کا ارتفاع کرنے کی بجائے اسے مایوسی اور پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ وجودی ادب کا شہ پارہ ہے۔ مختصر طور پر ہم اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ وجودی ادب کی بنیادی خصوصیت زندگی کا المیاتی احساس پیدا کرنا ہے۔

معروف ادبی نظریہ دان اور نقاد احمد سہیل نے اپنے ایک مضمون میں " ساختیات اور وجودیت " کے انسلاک کی مشترکہ فکر کو دریافت کیا ہے۔ لکھتے ہیں ۔۔۔" وجودیت میں کچھ نظریات ساختیاتی ڈھانچے سے آئے ہیں۔ مختصرایہ کہا جا سکتا ہے لیوی اسٹراس جیسے ساختیات دان وجودی دعوں سے ہی سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ افراد ثقافت کو متاثر کرنے والے بنیادی ڈھانچے کی طرف اشارہ کرکے آزادی اور ایجنسی کے منسلک جذبات رکھتے ہیں جو انفرادیت کی تعریف کو کسی مخصوص نظام ، یعنی ثقافت میں موجود دوسرے افراد کے تضاد پر منحصر کرتے ہیں۔ لہذا ، یہ سمجھا گیا ہے کہ معاشرے کے اندر بنیادی ڈھانچے موجود ہیں جو ہم پر یقین رکھتے ہیں ۔ ہم کس طرح عمل کرتے ہیں اور جو 'انتخاب' ہمارے پاس دستیاب ہیں ، کو بڑی حد تک محدود کرتے ہیں اس میں آزادی کی کوئی حقیقی گنجائش نہیں ہے۔ جس میں محدودیت کا گمان بھی ہوتا ہے۔

ساختیات کے دعوے کا تعلق لسانیات اورمعنیات کے مطالعے سے ہوتا ہے ، جہاں دستخط کنندہ اور دستخط شدہ افراد کی کوئی منطق نہیں ہوتی ہے۔ جو الفاظ دیے گئے الفاظ کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کے تصور سے اس کا کوئی ربط نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا دوسرے لفظوں سے رشتہ اور انسلاک ہوتا ہے۔ اس سے آپ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جملے کے بنیادی ڈھانچے کیسے ہیں جو رہنمائی کرتے ہیں کہ ان کی تعمیر و تشکیل کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشروں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے توماہر ساختیات یہ دلیل دیتے ہیں کہ حقیقی آزادی ایک وہم ہے اور یوں آزادی کی اہمیت پر موجود وجودی دعوے جھوٹے ہیں۔ میں نے جو سمجھا تھا کہ وہ جدیدیت کے بعد کا ایک بنیاد نکتہ ہے ، جہاں سچائی کے ستاروں کو غالب گروہ کے ذریعہ بعض گروہوں پر مجبور کرنے والے بیانیہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ سچائی فرار کا بہانہ ہوجاتی ہے اور ہر چیز جو ہم جانتے ہیں وہ اس کی قوت سے نتیجہ اخذ کرتی ہے۔ میں ساخت میں توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ جدیدیت کے بعد مابعدالطبیعاتی معاملات کی بجائے نفسیاتی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے ، لیکن ہم اس موضوع پر بھی بات کرسکتے ہیں۔

شاید اب آپ فرانسیسی افکار میں انسانیت سے انسانیت مخالف کی طرف جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اگر میں صحیح ہوں ، مجھے احساس ہے کہ جب تک میں ساختیات کے بارے میں اتنا نہیں جانتا ہوں جتنا میں چاہتا مجھے جانا چاہیے۔ سوسور کے لیے ، سوچ اور آواز افراتفری اور بے ساختہ ہے ، جب تک کہ کسی نشان میں من مانی یا اعتباطی طور پر متحد نہ ہو ، جو ہمیشہ ایک نشانیات کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔نظام کے اندارجہاں اس کی وضاحت دوسرے تمام نشانوں سے کی گئی ہے۔ لہذا ، مثال کے طور پر ، لاکان {Lacan} نے یہ استدلال پیش کیا کہ ایک بکھرا ہوا شخص صرف اس وقت شناخت حاصل کرلیتا ہے جب وہ سائن انسٹال کرلیتا ہے جس کے ذریعے اس کا وجود تشکیل پایا جاتا ہے۔ اس کو انسان کی "دھوکا دہی" کے طور پر جانا جاتا ہے: فرد کے ذریعہ تھی وہ وجودی ہونے کی بجائے فرد کا معنیاتی یا اشاریاتی نظاموں سے منسلک ہوتا ہے ، لہذا تکلم کی بجائے زبان کا استعمال اپنے اندرونی جوہر کی نمائندگی کرنے والے فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، فرد کو لسانی رواجی{ کنونشنوں}کی تخلیق کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، جیسے ضمیر اول اور خود اور دوسرے کے مابین امتیاز کے طور پر جانا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ژ ان پال سارتر کی تنقیدی استدلال کی تنقید اورکلودیل لیوی اسٹراس کے ساتھ بحث کے بعد تقریبا یہ یقین ہو گیا کہ ژان پال سارتر کی موجودگی اور کلودیل سٹراس کی ساختیاتی تحریک اینٹی پیڈس{antipodes}ہے اور مؤخر الذکر کی طرف سے سابقہ نقل مکانی نے کامیابی کی نمائندگی کی۔ شعور اور آزادی کے فلسفہ پر بے ہوش ساخت کا عندیہ دیا۔ 1960 کی دہائی کے آغاز میں شائع شدہ تحقیقی۔ نظریاتی اور تنقیدی تحریروں میں ان دونوں مفکرین کی جانب سے اپنے اپنے نظاموں کے پہلوؤں کی ترکیب سازی کی کوشش کی گئی۔ 1960 میں ، سارتر نے اپنی وسیع پیمانے پر تنقید برائے جدلیاتی وجہ {Critique of Dialectical Reason} کو شائع کیا ، جو ان کے وجودی رجحان کو معاشرتی وجود اور تاریخ کے فلسفے کے دائروں تک پھیلا دیتا ہے۔ لیکن سارتر ساختیات کے بارے میں عصری بحث کے تناظر میں بھی اپنے فکری کام کو پیش کرتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقیدی تفتیش کا مقصد ایک ساختیاتی اور تاریخی بشریات کو قائم کرنا ہے۔:"۔

بیرونی روابط ترمیم