مارٹن بوبر
مارٹن بوبر (عبرانی: מרטין בובר؛ (جرمنی: Martin Buber)؛ (یدیش: מארטין בובער)؛ 8 فروری 1878ء – 13 جون 1965ء) ایک آسٹریائی نژاد اسرائیلی یہودی فلسفی تھے۔ وہ اپنے فلسفۂ گفتگو (philosophy of dialogue) نظریۂ وجودیت کی ایک شکل جو میں–تو (I–Thou) اور میں–یہ (I–It) کے تعلق کے درمیان میں فرق پر مرکوز ہے، کے لیے مشہور ہیں۔ [11] مارٹن بوبر ویانا میں پیدا ہوئے۔ مارٹن بوبر کا تعلق ایک یہودیت پر کاربند خاندان سے تھا، مگر ان کی دلچسپی فلسفہ کے سیکولر مطالعہ میں تھی اسی لیے انھوں نے یہودی رسوم ترک کر دیے۔ سنہ 1902ء میں وہ ہفتہ وار اخبار ڈائی ویلٹ (جو صیہونی تحریک کا مرکزی عضو تھا) کے مدیر بنے، اگرچہ انھوں نے بعد میں صیہونیت کے تنظیمی کام سے ہٹ گئے۔ سنہ 1923ء میں مارٹن بوبر نے وجود پر اپنی مشہور انشا Ich und Du (بعد ازاں انگریزی میں I and Thou کے نام سے ترجمہ ہوا) لکھی اور سنہ 1925ء میں انھوں نے عبرانی بائبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔
انھیں نوبل انعام برائے ادب کے لیے دس دفعہ نامزد اور نوبل امن انعام کے لیے سات دفعہ نامزد کیا گیا۔[12]
سوانح حیات
ترمیممارٹن (عبرانی نام: מָרְדֳּכַי، مردکائی) بوبر ویانا کے ایک راسخ العقیدہ یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مارٹن بوبر کا نسب سیدھا سولہویں صدی کے ربی میئر کاٹزینیلینبوگن المعروف مہارام پدوا سے جا ملتا ہے، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ آل داؤد سے ہیں۔ کارل مارکس بھی ان کے قابل ذکر رشتہ دار ہیں۔[13] جب وہ تین برس کے تھے تو ان کے والدین کا طلاق ہو گیا اور لیوؤ میں ان کے دادا جان نے ان کی پرورش کی۔[13] ان کے دادا سلیمان بوبر مدراش اور ربیائی ادب کے ایک عالم تھے۔ گھر پر مارٹن بوبر یدِش اور جرمن زبانیں بولتے تھے۔ سنہ 1892ء کو مارٹن بوبر لمبرگ موجودہ لیویو، یوکرین میں اپنے والد کے گھر میں واپس آ گئے۔
سنہ 1898ء میں انھوں نے صیہونی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 1899ء میں جب وہ زیورخ میں پڑھتے تھے تو ان کی ملاقات پولا ونکلر سے ہوئی جو ایک ”بویریائی کسان خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست کاتھولک مصنفہ“[14] تھی۔ بعد ازاں پولا ونکلر کی شادی مارٹن سے ہو گئی اور پولا نے بعد میں یہودیت قبول کر لی۔[15]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118516477 — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جولائی 2024
- ↑ https://cs.isabart.org/person/26330 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn19990009521 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb118944280 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/5808739
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn19990009521 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ↑ https://www.kb.nl/themas/boekkunst-en-geillustreerde-boeken/de-blauwe-schuit-en-hn-werkman-1941-1944/de-blauwe-schuit-chassidische-legenden-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 مئی 2020
- ↑ https://cms.education.gov.il/EducationCMS/Units/PrasIsrael/Tashyag/Tashkab_Tashyag_Rikuz.htm?DictionaryKey=Tashyah — اخذ شدہ بتاریخ: 21 جون 2021
- ↑ https://www.friedenspreis-des-deutschen-buchhandels.de/alle-preistraeger-seit-1950/1950-1959/martin-buber
- ↑ ناشر: نوبل فاونڈیشن — نوبل انعام شخصیت نامزدگی آئی ڈی: https://www.nobelprize.org/nomination/archive/show_people.php?id=1421
- ↑ "Buber"، Island of freedom۔
- ↑ "Nomination Database"۔ www.nobelprize.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2017
- ^ ا ب Neil Rosenstein (1990)، The Unbroken Chain: Biographical Sketches and Genealogy of Illustrious Jewish Families from the 15th–20th Century، 1, 2 (revised ایڈیشن)، New York: CIS، ISBN 0-9610578-4-X۔
- ↑ The Pity of It All: A History of Jews in Germany 1743–1933. P. 238. (2002) آئی ایس بی این 0-8050-5964-4
- ↑ "The Existential Primer"۔ Tameri۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2011