مکلی قبرستان
مکلی قبرستان یا شہر خموشاں مکلی[1] ضلع ٹھٹہ کے قصبہ مکلی میں واقع ہے،[2][3] جو عالمی سطح پر اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے زبان زد خلائق ہے۔[4] یہ قبرستان، جس میں لاکھوں قبور ہیں تقریباً آٹھ کلو میٹر یا چھ میل[3] (تقریباً 10 کلو میٹر) کے رقبے پر محیط ہے۔[5] مکلی قبرستان دنیا بھر کے وسیع قبرستانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے،[6] جس میں چودہویں صدی عیسوی سے لے کر سترہویں یا اٹھارہویں[6] صدی عیسوی کے حکمران خاندان اور جنگجو مدفون ہیں۔[7] یہاں کے مقابر چار ادوار کی تہذیب و تمدن اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں، پہلا دور سمہ خاندان (1340ء – 1520ء)، دوسرا دور ارغون خاندان (1520ء – 1555ء)، تیسرا دور ترخان خاندان (1555ء – 1592ء) اور چوتھا دور مغل صوبہ داروں (1592ء – 1793ء) تک رہا۔[8][9][10] یہاں اندازاً چار[11] یا پانچ لاکھ سے زائد قبریں اور مقبرے موجود ہیں، جن میں اولیا اور شہدا بھی شامل ہیں۔[12] وسیع سلسلہ کوہ کے 33 مربع میل رقبے میں 33 بادشاہ، 17 گورنر، ایک لاکھ سے زائد[12] یا سوا لاکھ اولیا اور بہتیرے ادبا، شعرا، دانشور، اہلِ علم اور عام آدمی سپرد خاک ہیں۔[13] یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے[12][10][8] جسے سنہ 1981ء میں اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعلیم، سائنس و ثقافت نے عالمی ثقافتی ورثہ میں قرار دیا۔[7]
مکلی قبرستان کوہِ مکلی | |
---|---|
مکلی کے شہر خموشاں میں چودہویں اور اٹھارہویں صدیوں کے درمیان کی کئی یادگار قبور موجود ہیں۔ | |
تفصیلات | |
مقام | |
ملک | پاکستان |
متناقسات | 24°45′36″N 67°54′07″E / 24.760°N 67.902°E |
قسم | صوفی |
تعدادِ قبور | 500،000–1،000،000+ |
رسمی نام | مکلی، ٹھٹہ میں تاریخی یادگاریں۔ |
قسم | ثقافتی |
معیار | iii |
نامزد | 1981 (پانچواں اجلاس) |
حوالہ نمبر | 143 |
خطہ | ایشیا بحر الکاہل |
تاریخ
قدیم زمانہ میں یہاں سہسہ لنگ کے تالاب پر عظیم الشان محلات بنے ہوئے تھے، جو اب ناپید ہوچکے ہیں۔
711ء سے پہلے یہاں ایک ہندو برہمن خاندان کی حکومت تھی۔ محمد بن قاسم کی آمد سے یہاں کی حکومت عربوں کو ملی۔
1061ء میں محمود غزنوی کے وزیر عبد الرزاق نے ٹھٹہ فتح کیا اور خلیفہ بغداد کے مقرر کردہ عرب حاکموں کو یہ جگہ چھوڑنی پڑی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سومرہ خاندان ٹھٹہ پر قابض ہوا جن سے فیروز تغلق کے عہد میں سمہ خاندان کے ایک سردار جام اُنڑ بن بابینہ نے 1351ء کے قریب اقتدار حاصل کیا۔ انہوں نے کوہ مکلی پر ساموئی میں اپنا صدر مقام بنایا جو ٹھٹہ سے تین میل شمال مشرق میں تھا۔ انہیں کی عہد سے مکلی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی۔
سمہ عہد میں جام جونہ کے زمانہ میں جب حماد جمالی ابن رشید الدین نے مکلی پر ساموئی کے زیریں حصے میں عبادت کے لیے خانقاه قائم کی جو بالآخر سلوک و معرفت اور علوم ظاہری کی تعلیم کا مرکز بن گئی۔ جب جام تماچی کو سندھ کی حکومت ملی تو وہ ایک کثیر رقم بطور نذر لے کر حماد جمالی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی التماس کی۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم سے میری خانقاہ کے متصل ایک مسجد تعمیر کرا دیجیے۔ اس نے مسجد تعمیر کروائی جو مسجد مکلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور بعد میں تمام پہاڑی بھی اسی نام سے موسوم ہوئی۔
حماد جمالی نے تعمیر مسجد کے بعد سموں سے کہا کہ آئنده سے جو لوگ فوت ہوں ان کی قبریں اس مسجد کے آس پاس ہی بنوائیں، چنانچہ سلاطینِ سمہ اور دوسرے لوگ یہاں دفن ہونے لگے، ورنہ اس سے پہلے سموں کا قبرستان پیرآر (پیر پٹھ) تھا۔ مسجد کی چار دیواری جام نظام الدین دوم عرف جام نند کے مقبرے کے سامنے خستہ حالت میں موجود ہے۔ اعجاز الحق قدوسی نے مسجد مکلی کا سال تعمیر 792 - 793ھ / 1389ء - 1390ء بتایا ہے۔ حماد جمالی جب فوت ہوئے تو ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا جہاں ان کی خانقاہ تھی ان کا مقبرہ مکلی میں جام نند کے مقبرے کے قریب اور مسجد مکلی کے برابر نہایت خستہ حالت میں نظر آتا ہے ليكن تحفۃ الکرام میں درج ہے کہ حماد جمالی سے پہلے میاں لال جو لعل شہباز قلندر کے سگے یا چچیرے بھائی تھے، یہاں دفن ہو چکے تھے۔ ان کی قبر شیخ جیو کے مزار کے مشرق میں ہے۔
سمه حکمرانوں کا عہد سلطنت 751ھ - 926ھ / 1350ء - 1519ء تک رہا اور اگر اس میں فیروز شاه بن نظام الدین جام نندہ کا وہ زمانہ بھی شامل کر لیا جائے جو انہوں نے شاہ بیگ ارغون کے ماتحت گزارا تو پھر یہ عہد سلطنت شوال 928ھ / 1322ء تک رہا۔ ایک سو سستر سال کے اس عرصے میں بعض نامور اولیا اس قبرستان میں دفن ہوئے۔
فن تعمیر
مکلی قبرستان کے مقبروں میں مقدس قرآنی آیات کے نوشتہ جات موجود ہیں۔ مردوں کی قبریں پتھر کے پیچیدہ نقش و نگار سے آراستہ ہیں جن میں ہتھیاروں، خنجروں اور تلواروں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے برعکس، خواتین کی قبروں پر زیورارت کے نقوش اور چوبی بقش (بلاک پرنٹنگ) سے مُزیّن کیا گیا ہے۔
تصاویر
حوالہ جات
- ↑ مرزا کاظم رضا بیگ (17 دسمبر 2019)۔ "مائی مکلی دنیا کا عظیم تاریخی ورثہ اور گیارہواں بڑا قبرستان"۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ↑ "مکلی: تاریخی قبرستان کی تباہی"۔ وائس آف امریکا اُردو۔ 20 دسمبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ^ ا ب امین سعدیہ، فیصل ظفر (18 اپریل 2017)۔ "عالمی ثقافتی ورثے میں پاکستان کے 6 شاہکار"۔ ڈان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ↑ "مکلی کے تاریخی قبرستان کو عالمی ورثے سے نکالنے کا خطرہ ٹل گیا"۔ وائس آف امریکا اُردو۔ 8 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ↑ شاداب احمد صدیقی (16 جولائی 2019)۔ "تاریخی شہر ٹھٹھہ سترہویں صدی میں علم و ادب کا عظیم مرکز"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ^ ا ب امر گُرِڑو (21 ستمبر 2022)۔ "سیلاب سے سندھ بھر میں تباہی مگر مکلی قبرستان میں ہریالی"۔ دی انڈیپنڈنٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2024
- ^ ا ب ریاض سہیل (18 اکتوبر 2017)۔ "مکلی کا عالمی ورثہ تجاوزات اور قبضے کے نرغے میں"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2024
- ^ ا ب محمد کاشف (9 جنوری 2022)۔ "بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد، کیجھر جھیل"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2024
- ↑ شبینہ فراز (22 فروری 2021)۔ "مکلی قبرستان: جام نظام کا 'سانس لیتا' مقبرہ، 'جہاں کیل لگانا ممنوع ہے وہاں پہاڑ توڑنے کا آلہ استعمال ہوا'"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2024
- ^ ا ب "مکلی کا قبرستان"۔ مجلہ ہلال۔ آئی ایس پی آر۔ ستمبر 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2024
- ↑ مزمل فیروزی (21 جنوری 2018)۔ "ٹھٹھہ کا مکلی قبرستان اور شاہ جہانی مسجد"۔ ایکسپریس نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ^ ا ب پ آصف محمود جاہ (10 مئی 2017)۔ "مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس"۔ روزنامہ دنیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024
- ↑ "حضرت بابا عبداللہ شاہ اصحابیؒ"۔ روزنامہ نوائے وقت۔ 5 مئی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2024