میانمار کی کل آبادی کا 13 فی صد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں برمی نژاد مسلمان، جنہیں بامر مسلمان بھی کہا جاتا ہے، بھارتی نژاد اردو گو مسلمان، چینی نژاد مسلمان اور روہینگیا مسلمان جو عربی، اردو، برمی اور بنگالی پر مشتمل زبان بولتے ہیں، شامل ہیں۔ تاہم قومی سطح پر اس میں بامر نژاد مسلمان اور بھارتی نژاد اردو گو مسلمان زیادہ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

اردو گو اور بامر مسلمانوں میں تصادم کا آغاز

ترمیم

1929ء میں کُل بَرما مسلم تعلیمی کانفرنس میں اس وقت کے برمی مولوی ایسوسی ایشن کے صدر مولانا ابنو محمد بسم اللہ (انگریزی: Mawlana Ismail Ibnu Mohammed Bismillah) نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا کہ:

  • اگر اردو کو برمی جیسی مکروہ زبان سے بدلا جائے تو یہ مذہبی سرگرمیوں میں حائل ہوستی ہے۔
  • اردو بھارت میں اسلام کی زبان ہے (اس وقت برما برطانوی بھارت کا حصہ تھا)
  • سبھی اردو مدارس میں قرآن اور علوم دینیہ کی تعلیم لازم ہے، جو برمی زبان سے یکسر منقطع ہونے کا اندیشہ ہے۔

مولانا کے دلائل سے کئی اور مولوی حضرات نے اتفاق کیا۔ تاہم کانفرنس میں شریک بامر مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا اور برمی زبان ہی کو تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنانے پر زور دیا۔

موجودہ حالات

ترمیم

شدید اختلافات کے بعد میانماری نژاد مسلمانوں کی علٰحدہ شناخت کے لیے کئی انجمنیں تشکیل دی گئی ہیں۔ کچھ دینی مدارس بھی قائم ہوئے ہیں جہاں برمی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ تاہم عام طور سے برمی گو مسلمان اپنے ہم مذہب اردو مسلمانوں کے مقابلے ملک کی بدھ مت ماننے والی اکثریت سے قریب پاتی ہے۔ انھیں کچھ جگہوں پر سرکاری حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم عادات و اطوار میں ان کے اور اردو گو مسلمانوں میں بڑا فرق دیکھا گیا ہے۔ بیشتر بامر مسلمان برمی نام رکھتے ہیں اور عربی نام صرف گھریلو یا ذاتی گفتگو کے لیے ہے۔ اس کے برعکس مدارس اور گھروں میں اردو گو مسلمان آج بھی اپنی زبان اور ثقافت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ملک کی اکثریت سے جاملنے کی بجائے عالم اسلام کا حصہ بننے کی ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم