متوفی 1062ھ / 1652ء

دارا شکوہ کے عہد کا آزاد مشرب صوفی اور دارا شکوہ کا مربی میاں باری جسے دارا شکوہ نے حسنات العارفین اور مجمع البحرین میں اپنا استاد بتایا ہے۔ دارا شکوہ کئی سال ان کے پاس جاتا رہا لیکن میاں باری نے ان سے بات تک نہ کی۔ آخر دارا شکوہ کی تین سال کی خدمت کے بعد گفتگو سے نوازا اور خاموشی رازدرانہ گفتگو میں اس طرح تبدیل ہو گئی کہ دارا شکوہ ان کی خدمت میں ایشان بسیار گستاخ بودم۔
میاں باری نے مرتے دم تک دارا شکوہ سمیت کسی کو اپنا نام و نشان تک نہ بتایا۔ دارا شکوہ کہتا ہے کہ چونکہ وہ قصبہ باری کے نواح میں عزلت گزیں تھے اس لیے میں انھیں باری تعالٰی کہا کرتا تھا۔ ۔

ایک مرتبہ دارا شکوہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کس کے بندے ہیں تو انھوں نے کہا کہ میں بندۂ خود ہوں، انھوں نے مزید کہا کہ میں اپنا مرشد بھی آپ ہی ہوں، میں خود ہی اپنا مرید ہوں۔۔۔ وہ باطنی طور پر ہر وقت دارا شکوہ کے احوال سے آگاہ رہتے تھے ۔۔۔۔ وہ موسم سرما و گرما میں بھی برہنہ رہتے تھے۔ ان کا مقبرہ جو انھوں نے خود بنوایا تھا موضع سرحنہ از توابع پر گند باری ایک تالاب کے کنارے تھا جس پر دارا شکوہ نے ایک بند بھی بندھوایا تھا۔

دارا شکوہ نے خود لکھا ہے کہ وہ جب تک ان کے پاس جاتا رہا ان کی محفل میں کبھی اللہ پاک کا ذکر تو درکنار کبھی نام تک نہیں آیا۔ اس طرح انبیاء و اولیاء کے اسماء بھی کبھی ان کی زبان پر نہیں آئے تھے۔[1]

ایک مرتبہ دارا شکوہ ان سے ان کی تعلیم کے بارے میں سوال کیا تو بولے میں نے ملا و پنڈت دونوں کو مار ڈالا ہے۔[1] گویا وہ اسلامی و غیر اسلامی دونوں علوم سے بیزار تھے۔

حوالہ جات

ترمیم