میر چاکر خان رند، میر شاہک خان رند کے بیٹے ہیں۔ میر چاکر خان رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار و قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران میں اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوش حالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے۔ بلوچ آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر، جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوئے رند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1468ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ہوا جس سے بلوچ قبائل انتشار کا شکار ھونے لگے اور پھر تمام بلوچ قبائل کا جرگہ بلایا گیا جس میں متفقہ سرداری کا طرہ جتوئ قبیلے کو ملا اور بلوچ قبائل کے نائب امیر عظیم جنگجو(فاتح ہندوستان) اور جتوئ قبیلے کے سردار میر بجار خان میروانی نواب آف قلات مقرر ھوئے تاہم رند اور لاشار کی جنگ بندی تو ھو گئی مگر ان کی صلح نہ ہو سکی 1519ء کے آخر میں ایک بار پھر تمام بلوچ قبائل کا جرگہ بلایا گیا جس کا مقصد صلح نا کرنے والے قبیلے کے خلاف اعلان جنگ کرنا تھا تاہم میر چاکر خان نے بغیر کسی قصاص لینے کے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے لاشار قبیلے کے ساتھ دشمنی ختم کر دی اور اس بڑی اور نا ختم ہونے والی جنگ کا 1519ءمیں اختتام ہوا ۔ 1520ء میں میر چاکر خان اپنے بھانجے اور داماد میر بجار خان کے بڑے بیٹے میر نوتک خان کے ساتھ ملتان کو روانہ ہوئے اور میر بجار خان کی ملکیتی ہندوستان کی بڑی کاروباری بندرگاہ میروانہ کی سرپرستی اپنے نواسے میر لوہار خان کو دی اور اس کے اطراف کی ساری جاگیر میر نوتک خان کے حوالے کر دی اور 1523ء میں مستقل طور پر موجودہ پاکستان کے ضلع اوکاڑہ کے ایک قصبہ ستگھرہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں میر بجار خان جتوئی کی سرپرستی میں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا۔ 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھرہ میں دفن ہوئے۔ جہاں ان کی قبر آج بھی موجود ہے۔

میر چاکر رند
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1468ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1565ء (96–97 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بلوچی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں