اوکاڑہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک مشہور شہر ہے جو ضلع اوکاڑہ کا صدر مقام ہے یہ لاہور کے جنوب مغرب میں دریائے راوی سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک زرعی علاقہ ہے جو کپاس کی صنعت میں مشہور ہے۔ یہاں سے سیلہ چاول، آلو اور مکئی نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اوکاڑہ سے نزدیک ترین بڑا شہر ساہیوال ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اوکاڑہ کا شمار پاکستان کے بڑے اضلاع میں ہوتا ہے۔ اوکاڑہ میں ڈیری فارمز کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہاں کا پنیر ملک بھر میں مشہور ہے۔ اوکاڑہ کا پوسٹل کوڈ 56300 ہے۔

اوکاڑہ
 

انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ تحصیل اوکاڑہ   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 30°48′36″N 73°27′35″E / 30.81°N 73.459722222222°E / 30.81; 73.459722222222   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ
بلندی
آبادی
کل آبادی
قابل ذکر
جیو رمز 1168718  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

وجہ تسمیہ ترمیم

شہر کا نام اوکاں نامی درخت سے منسوب ہے۔ جب انگریزی حکومت نے ریلوے لائین بچھانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے ایک ریلوے اسٹیشن یہاں بننے کا فیصلہ کیا یہاں ایک بندہ دودھ خشک کرکے بیچا کرتا تھا اس نے ایک چھوٹی سی دکان اکاں درخت 🌲 کے نیچے بنائی ہوئی تھی اس اوکاں درخت کی وجہ سے یہ اوکاں والی دکان مشہور ہو گئی بعد میں اسی اوکاں درخت سے لفظ اوکاڑہ بن گیا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں اوکاں کا جنگل ہوا کرتا تھا جس میں مسافر ٹھہرا کرتے تھے۔ اوکاڑہ کو اوکاں والا اور اوکاں اڈا بھی کہا جاتا تھا۔ اوکاڑہ ایک ہندی لفظ "اوکاڑہ" سے نکلا ہے جس کا مطلب جنگجو اور غیرت مند ہے

تاریخ ترمیم

1849ء میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا۔ 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔

دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913ء میں پہلے لوئر باری دوآب اور اس کے بعد پاکپتن اور دیپالپور کی نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔

1918ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑے شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔

1913ء میں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔[2]

1936ء میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے اور اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شہر میں آکر آباد ہو گئی۔

1942ء میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی اور فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی اسکول (بوائز اینڈ گرلز)، ٹیلی فون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات بھی دستیاب ہوگئیں۔

اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھا جو تقسیم ہند کے بعد بھارت چلے گئے جن کی جگہ بھارت سے آئے مہاجر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کی گئی۔ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی قائم کی گئی۔

1982ء میں جب اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھا۔ 1988ء میں بابا فرید شوگر مل کے لگ جانے سے ضلع اوکاڑہ کو مزید معاشی تقویت ملی۔ یہ شوگر اب بھی پاکستان کی بڑی شوگر ملوں میں سے ایک ہے

جغرافیائی لحاظ سے اوکاڑہ کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ سے جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے ستلج جبکہ مغرب میں دریائے راوی اور دریائے بیاس (جو اب مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے) بہتے ہیں۔ یوں تو دریائے ستلج میں سال کا بیشتر حصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے مگر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے سبب اکثر طغیانی آجاتی ہے۔

ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں تحصیل اوکاڑہ، تحصیل دیپالپور اور تحصیل رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ 4377 مربع کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی تقریباً 22،00،000 تھی جو اس وقت اندازہً 32،00،000 تک جاپہنچی ہے۔ یہاں کی تین تحصیلوں میں 5 ایم این اے اور 10 ایم پی اے موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حالیہ حلقہ بندی کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور 7 مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔

تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں 12 ڈگری کالج، 5 ہائر سکینڈری اسکول، 142 سکینڈری اسکول، 151 مڈل اسکول، 1257 پرائمری اسکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔

اس علاقہ میں بسنے والی مشہور ذاتوں میں سید،بلوچ، شیخ، آرائیں، بودلہ، راﺅ، بھٹی، جٹ، کمیانہ،سیال، گجر، کمبوہ، وٹو، جوئیہ، ڈوگر اور کھرل شامل ہیں۔

اہم شخصیات میں مولانا محمد لکھوی کے بیٹے معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے۔ انھیں ستارۂ امتیازسے نوازا گیا۔ اوکاڑہ کے راﺅ سکندر اقبال 2002؍ سے 2007ء تک وزیر دفاع رہے ہیں۔ میاں منظور وٹو سابق وزیر اعلی پنجاب، میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں۔ اب ان کے بیٹے میاں یاور زمان صوبائی وزیر برائے آبپاشی ہیں۔ اس کے علاوہ اوکاڑہ کے سید صمصام بخاری وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، رانا اکرام ربانی اور اشرف خان سوہنا بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

مشہور صحافی آفتاب اقبال، جنید احمد، ادیب ظفر اقبال، مشہور ناولسٹ اور شاعر علی اکبر ناطق شاعر اقبال صلاح الدین اور پنجابی شاعر بابو راج علی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ محمد حنیف، جنھوں نے اوکاڑہ پر ایک مشہور کتاب "A CASE OF EXPLODING MANGOES" لکھی، بھی اسی ضلع سے ہیں۔ یہاں پائے جانے والے درختوں میں کیکر، اوکاں، بیری اور ونڈ پائے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔ یہاں کاشت کردہ فصلوں میں گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا سرفہرست ہیں۔

ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انھوں نے مغل بادشاہ کا ساتھ دیا۔ 1656ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا میر چاکر رند نے ستگھرہ میں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا جو حکومتی عدم توجہ کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔

احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کے لیے آمادہ بھی کیا۔ اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا۔

اس کے علاقوں میں راوی دریا سرفرست ہے اس میں چودی جیڈی تحصیلدار اور بہت سے گاؤں موجود ہیں بہت خوبصورت سرسبذ زمین ہے

زبان ترمیم

ضلع اوکاڑہ کے زیادہ تر لوگوں کی زبان پنجابی ہے۔ پنجابی کے ساتھ ساتھ ہریانوی زبان بھی مستعمل ہے جسے رانگڑی بھی کہتے ہیں۔

انتظامیہ ترمیم

اوکاڑہ شہر بطور صدر مقام ضلع اوکاڑہ 10 یونین کونسلوں میں منقسم ہے۔

صنعت و تجارت ترمیم

سیلہ چاول، آلو اور مکئی کی خرید و فروخت کے لیے اوکاڑہ عالمی منڈیوں میں ایک مقام رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے زرعی آلات پورے ملک میں مشہور ہیں۔

زراعت ترمیم

مکئی اور آلو کی پیداوار میں اوکاڑہ کو پاکستان کے دے گر تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے۔[3] اس کے علاؤہ اوکاڑہ میں گنا بھی بڑی مقدار میں کاشت کیا جاتا ہے اور گنے کی کٹائی کا سیزن شروع ہوتے ہی شوگر ملوں کے باہر گنے سے لدھی ٹرالیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اوکاڑہ میں سبزیاں اور پھل بھی کاشت کیے جاتے ہیں پھلوں کی کاشت کے حوالے سے اوکاڑہ کا مچلز کا باغ بہت مشہور ہے سینکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلے اس باغ میں کئی قسم کے پھل کاشت کیے جاتے ہیں مثلا آم مالٹا آڑو کیلا وغیرہ۔

شخصیات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1.    "صفحہ اوکاڑہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2024ء 
  2. تقسیم ہند کا ماضی 22
  3. Punjab Agriculture Department

  اوکاڑہ سفری راہنما منجانب ویکی سفر

  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔