میمون بن مہران الرقی ان کی کنیت ابو ایوب ہے۔ کبار علما اور ائمہ میں شمار ہوتا ہے۔ بنو نصر بن معاویہ سے ایک عورت نے انھیں کوفہ میں آزاد کرایا تھا، پھر وہیں پلے بڑھے پھر بعد میں الرقہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے، انھیں عمر بن عبدالعزیز نے انھیں وہاں کا گورنر بنا دیا۔ جب 107ھ (725ء-726ء) میں قبرص پر حملہ ہوا تو معاویہ بن ہشام بن عبد الملک کے ساتھ فوج کے قائدین میں سے تھے۔ ان کی وفات 116ھ یا 117 ھ میں ہوئی۔[1][2]

میمون بن مہران
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

میمون نام،ابوایوب کنیت،اوروالد کا نام مہران تھا،مہران بنی نصربن معاویہ کے مکاتب غلام تھے۔

پیدائش

ترمیم

40 میں پیدا ہوئے،کوفہ کی ایک ازدی عورت کے غلام تھے اس لیے ان کی ابتدائی زندگی غلامی میں بسر ہوئی تھی،آخر میں اس نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔

جزیرہ کا قیام

ترمیم

آزادی کے بعد عرصہ تک کوفہ ہی میں رہے،لیکن 80 میں جب عبدا لرحمن بن اشعث کے ہنگامہ کی وجہ سے کوفہ میں شورش بپا ہوئی تو میمون کوفہ چھوڑکر جزیرہ چلے گئے اوریہیں بودوباش اختیار کرلی۔

بیت المال کی نگرانی کا منصب

ترمیم

محمد بن مروان کی ولایتِ خراسان کے زمانہ میں بیت المال کی نگرانی کا منصب سپرد ہوا۔

عہدۂ خراج

ترمیم

بیت المال کی نگرانی کے سلسلہ میں انھیں مالیات کا کافی تجربہ ہو گیا تھا،اس لیے عمر بن عبد العزیزؓ نے ان کو جزیرہ کے خراج کا عامل بنادیا اور ان کے لڑکے عمر کو دفتر کا محافظ مقرر کیا،میمون طبعاً حکومت کے عہدوں اورخصوصاً مالیات کی ذمہ داریوں کو پسند نہ کرتے تھے؛ لیکن اس وقت انکار نہ کرسکے،مگر چند ہی دنوں کے بعد برداشتہ خاطر ہوکر استعفاء پیش کر دیا،عمر بن عبد العزیزؓ نے قبول نہ کیا اورکہا اس عہد ے میں سوائے اس کے اورکیا ہے کہ جائز طریقہ سے روپیہ وصول کیا جائے اور جائز مصرف میں صرف کیا جائے،اس میں استعفیٰ کی کیا وجہ ہے، عمربن عبد العزیز کے لکھنے پر استعفیٰ واپس لے لیا اوران کی زندگی بھر اس عہدے پر رہے۔

عمر بن عبد العزیز کے بعد یزید بن ملک کے زمانہ میں بھی چند دنوں تک یہ خدمت انجام دیتے رہے،لیکن یہ کام طبعاً پسند نہ تھا، عمر بن عبد العزیزؓ کے اصرار سے اس بنا پر گوارا کر لیا تھا کہ ا ن کے زمانہ کی ملکی خدمت میں خدمت اسلام تھی، لیکن عمر بن عبد العزیز کے بعد جب خلافت کے تمام شعبے پھر دنیاوی حکومت کے رنگ پر آگئے تو میمون بددل ہوکر مستعفی ہو گئے اور گذشتہ زمانہ پر بہت متاسف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ گوارا تھا کہ میں اندھا ہو گیا ہوتا،لیکن عمر بن عبد العزیز وغیرہ کا دیا ہوا عہد قبول نہ کیا ہوتا۔ [3]

فضل وکمال

ترمیم

فضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز تابعین اورجزیرہ کے بڑے علما میں تھے ،حافظ ذہبی انھیں امام قدوہ اورعالم جزیرہ لکھتے ہیں [4]ان کے دور کے علما میں ان کا علمی مرتبہ مسلم تھا،ابوالملیح کہتے تھے کہ میں نے میمون سے افضل کسی کو نہیں پایا [5]سمعان بن موسیٰ کا بیان ہے کہ اس عہد کے چار اشخاص بڑے عالم مانے جاتے تھے،ان میں ایک میمون بن مہران تھے۔ [6]

حدیث

ترمیم

حدیث کے حافظ تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: صحابہ میں انھوں نے ابوہریرہؓ،ابن عباسؓ،ابن عمرؓ،ابن زبیرؓ،سعید بن جبیرؓ،عائشہ صدیقہؓ اورام الدرداء سے اور تابعین میں نافع مولی بن عمر،مقسم مولی ابن عباس ،یزید بن عاصم اور سعید بن جبیر وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ [7]

تلامذہ

ترمیم

حمید الطویل،ایوب،جعفر بن برقان،جعفر بن ابی وحشیہ،حبیب بن شہید،علی بن حکم البنانی،حکم بن عتیبہ،ابوفردہ،یزیدبن سنان،حجاج بن تمیم،سالم بن ابی المہاجر اورابو الملیح وغیرہ ان کے خوشہ چینیوں میں تھے۔ [8]

فقہ میں وہ تمام علمائے جزیرہ میں ممتاز تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ فقہ وفتاویٰ میں تمام اہل جزیرہ پر فائق تھے [9]ان کے تفقہ کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے صاحب نظر نے عہد خراج کے زمانہ میں جزیرہ کے قضاء کی خدمت بھی ان کے سپرد کی تھی۔ [10]

فضائل اخلاق

ترمیم

اس علم کے ساتھ فضائل اخلاق سے بھی آراستہ تھے۔

منہیات سے اجتناب

ترمیم

نواہی سے بچنے میں زیادہ اہتمام تھا،ان کے لڑکے کا بیان ہے کہ والد (اعتدال سے)زیادہ روزہ نماز نہیں کرتے تھے،لیکن خدا کی معصیت میں مبتلا ہونا بہت ناپسند کرتے تھے۔ [11]

عبادت

ترمیم

اگرچہ معمولاً وہ فرائض وسنن کے علاوہ زیادہ عبادت نہ کرتے تھے،لیکن کبھی کبھی ہزار ہزار رکعتیں روزانہ پڑھتے تھے، ایک مرتبہ سترہ دن میں سترہ ہزار رکعتیں پڑھیں۔ [12]

انکساروتواضع

ترمیم

اتنے خاکسار اورمتواضع تھے کہ کسی بڑائی اورامتیاز کا انتساب اپنی جانب پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے ان سے کہا،ابوایوب جب تک خدا آپ کو زندہ رکھے گا اس وقت تک لوگ بھلائی میں رہیں گے، انھوں نے جواب دیا، ایسی باتوں کا تذکرہ نہ کرولوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ اپنے سے ڈرتے رہیں گے۔ [13]

حضرت علیؓ پر حضرت عثمان کی فضیلت کا ایک دل نشین استدلال

ترمیم

پہلے وہ حضرت عثمانؓ کے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی فضیلت کے قائل تھے،لیکن حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کے ایک استدلال پر حضرت عثمانؓ کی فضیلت کے قائل ہو گئے تھے، ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز نے ان سے پوچھا تم دو آدمیوں میں سے کسی کو زیادہ پسند کرتے ہو، اس شخص کو جس نے صرف مال میں عجلت کی یا اس شخص کو جس نے خونریزی میں عجلت کی،اس دلیل کے بعد انھوں نے اپنے سابق خیال سے رجوع کر لیا،حضرت عثمان پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ان کے زمانہ میں بیت المال میں بے جا تصرفات ہوئے اورحضرت علیؓ کے دور سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ [14]

وفات

ترمیم

117ھ میں وفات پائی۔ [15]

حوالہ جات

ترمیم
  1. د۔ عبد السلام الترمانيني، " أحداث التاريخ الإسلامي بترتيب السنين: الجزء الأول من سنة 1 هـ إلى سنة 250 هـ"، المجلد الثاني (من سنة 132 هـ إلى سنة 250 هـ) دار طلاس ، دمشق۔
  2. عبد الوهاب الشعراني - الطبقات الكبرى - ج 1 ص 40
  3. (یہ تمام حالات ابن سعد،ج 7،ق 2،ص177،178 سے ماخوذ ہیں)
  4. (تذکرۃ الحفاظ:1/86)
  5. (ایضاً)
  6. (تہذیب التہذیب:1/391)
  7. (ابن سعد،ج7،ق2،ص177)
  8. (تہذیب التہذیب:10/39)
  9. (ابن سعد،ج7،ق2،ص178)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/86)
  11. (تہذیب التہذیب:10/391)
  12. (تذکرۃ الحفاظ،ج اول،ص87)
  13. (ایضاً)
  14. (تہذیب التہذیب:1/391)
  15. (ایضاً)