ناگ بنسی برصغیر میں آباد بہت سی اقوام کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹاک یا تکشک کی نسل سے ہیں۔ شاشتری میں تکشک ناگ کو کہتے ہیں اور یہ اقوام ٹاک اور ٹک بھی کہلاتی ہیں۔ بقول جیمز ٹاد ان اقوام نے چھ سو سال قبل مسیح برصغیر پر حملہ کیا تھا۔ اگرچہ تکشک راجپوت نہیں ہیں بلکے گجر ہیں۔ مگر راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہونے کی کڑی بھی ملتی ہے۔ہیں اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا نسلی تعلق چندر بنسیوں اور جٹوں سے بھی ہے۔ (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد دوم، 66۔ 117) ابو الغازی لکھتا ہے۔ کہ مغل و تاتار کے مورث اعلیٰ کا نام پشنہ تھا اور اس کے بیٹے کا نام اوغوز تھا۔ اوغوز کے چھ فرزند تھے۔ بڑے بیٹے کا نام کین یعنی سورج تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام آیو یعنی چاند تھا۔ تاتاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیو یعنی چاند کی نسل سے ہیں۔ آیو کا بیٹا جلدس تھا۔ ایلخان جو آیو کی چھٹی پشت پر تھا اس کے دوبیٹے تھے، ایک خان دوسران ناگس۔ ناگس اولاد نے تاتار کو آباد کیا۔ ناگس غالباً تکش یا سانپ کی نسل ہے۔ ابو الغازی نے انھیں ٹانک فرزند ترک یا ترچینی کہتا ہے۔ جس کو پرانوں میں ترشک کہا گیا ہے اسی کے نام سے وسط ایشیا میں ٹوکرستان یا ترکستان موسوم ہوا ہے اور قوم تاجک اب بھی وہاں آباد ہیں۔ یہ بھی اولاد تکشک میں سے ہیں اور خوارزم شاہی عہد میں تکش کہلاتے تھے اور قبول اسلام کے بعد میں بھی وہ تکش کہلائے۔ (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول، 117) شمالی ہند پر حکومت کرنے والے ایک خاندان کا نام سیو ناگ تھا۔ اس طرح ناگاؤں کا ذکر پرانوں میں بھی ملتا ہے۔ وہ ورسیہ پر حکمران تھے اور بعد میں جنوب کی طرف چلے گئے۔ غالباً کشنوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نے انھیں مجبور کر دیا اور انھوں نے وسط ہند پر پرماتی کے مقام پر اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور کشنوں کے زوال کے بعد انھوں نے اپنی طاقت بڑھائی اور ان کا ذکر پرانوں میں نئے ناگاؤں کے نام سے آیا ہے۔ گپتا خاندان کے خلاف وسط ہند کے راجاؤں نے جو وفاق بنایا تھا اس کی قیادت پرماتی کے ناگاؤں نے کی تھی۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 65۔ 157۔ 161) یونانیوں لکھا ہے کہ جب سکندر نے برصغیر پر حملہ کیا تو اس نے سرزمین کو ٹاک سے معمور پایا۔ یونانوں نے انھیں پیری ٹیکا یعنی ٹاک درج کیا ہے۔ ٹیکسلہ کے راجا امبھی نے سکندر کی اطاعت کرلی تھی۔ آرین نے اس کا نام اومنس بتایا ہے۔ یاد رہے یونانی میں اوفس کے معنی سانپ کے ہیں۔ یہ ٹیکسائلز سکندر کے مدد گار ہو گئے تھے۔ ان کا دالریاست تاک اور سلا کا مرکب ہے۔ سلا کے معنی پہاڑ کے ہیں۔ پس اس کے معنی تاک قوم کے ہیں۔ اس طرح اس علاقہ میں ایک شہر اٹک ہے، یہ بھی ٹک سے بنا ہے۔ اس علاقہ میں ایک شہر ٹانک ہے۔ یہ دالریاست رہا ہے۔ (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول، 117) اس علاقے میں بھی ٹاک نام کا ایک شہر ہے۔ بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلہ کو ٹکا نامی قبیلہ نے آباد کیا تھا۔ (گو اس کی قدامت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے) جو وسط ایشیا سے آیا تھا۔ چنانچہ اس قبیلہ کے نام سے اس شہر کا نام ٹکلاشیلا پڑا۔ جو رفتہ رفتہ ٹیکسلہ ہو گیا۔ اس قیاس کی تصدیق اس دور کے مورخ پلوٹاک نے اپنی تحریروں میں اسے ٹیکسائلو کا شہر بتایا ہے۔ (مولانا اسمعیل ذبیح، اسلام آباد۔ 666)

تغلق خاندان کے دور میں ظفر خان نے بغاوت کرکے گجرات کے تخت پر بیٹھ گیا۔ یہ بھی ٹاک نسل سے تعلق رکھتا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد یہ اپنے التوالک لکھتے تھے۔ راجپوتوں کا ایک قبیلہ ناگر نام کا ہے جو اب تجارت پیشہ کا ہے۔ (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول، 119۔ 120۔ 135) ان ناگروں میں جو اب مسلمان ہو گئے ہیں وہ اپنی نسبت پٹھانوں کے قبیلے ناغر سے کرنے لگے ہیں، جبکہ ناغر پشتو تلفظ ہے۔

برصغیر میں اب بھی ناگ کی پوجا ہوتی ہے اور یہ ناگ دیوتا کہلاتا ہے اور اس کا چہرہ عموماً انسان کا ہوتا ہے۔ اس کی خاص پرستش پر ناگ پنجمی تہوار بنایا جاتا ہے اور یہ پانچویں ساون کو آتا ہے۔ برصغیر کے بہت سے شہر ایسے ہیں جن کے ناموں میں کلمہ ناگ شامل ہے۔ مثلاً ناگور، ناگپور، ناگا لینڈ وغیرہ۔ (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول، 627۔ 628) (معین انصاری)